ہم دیکھتے رہتے ہیں دل سیر نہیں ہوتا
ہوتا ہے مگر شاید تا دیر نہیں ہوتا
ہم سانس تو لیتے ہیں پر سانس نہیں آتی
دل زور لگاتا ہے غم زیر نہیں ہوتا
سنوری ہوئی زلفوں میں وہ بھی نکل آتا ہے
اس شوخ کی باتوں میں جو پھیر نہیں ہوتا
تہذیب کے زخموں کی کچھ تاب جو لاتا ہو
کہتے ہیں بیاباں میں وہ شیر نہیں ہوتا
راحیلؔ جو ہوتا ہے اک پیار بھرے دل میں
لاہور نہیں ہوتا اجمیر نہیں ہوتا