چشمِ حیراں میں کوئی خواب رُکا ہوتا ہے
اور دہلیز پہ مہتاب رُکا ہوتا ہے
کھینچتی ہے متواتر مجھے منزل اور ادھر
دل سرِ منبر و محراب رُکا ہوتا ہے
دشت ہوتی ہوئی آنکھوں کا فُسوں اپنی جگہ
ایسی آنکھوں میں تو سیلاب رُکا ہوتا ہے
یہ پڑاؤ بھی میری زیست کی مجبوری ہے
راہ میں حلقۂِ احباب رُکا ہوتا ہے
موج میں آ کے گزر جاتی ہیں موجیں، لیکن
کوئی گوہر تہِ تالاب رُکا ہوتا ہے