نظریہ بہت خطرناک شے ہے۔ انسان دنیا کی ہر چیز اور ہر بات کو ایک خاص رنگ کی عینک سے دیکھنے کا عادی ہو جاتا ہے۔ یہ عادت اسے زندگی کے باقی رنگوں سے گویا اندھا کر دیتی ہے۔ کسی نقطۂ نظر کو سختی سے اپنا لینے کا فطری نتیجہ ہے کہ جہاں اس کا اطلاق نہ ہو، وہاں بھی اسی کو ٹھونسنے کی کوشش کی جائے۔ اس رویے سے عام طور پر حماقت اور خبط ظاہر ہوتا ہے اور خطرناک ترین صورتوں میں ظلم و تعدی کے دروازے بھی کھل جاتے ہیں۔ مثلاً جو لوگ کٹر مذہبی ہیں انھیں ہر جگہ بے دینی نظر آنے لگتی ہے اور جو سخت بے دین ہیں انھیں جا بجا مذہب کا جبر دکھائی دیتا ہے۔ اردو کی ایک مثل ہے کہ ساون کے اندھے کو ہرا ہی ہرا سوجھتا ہے۔ یعنی اگر کسی شخص کی بینائی ساون کے مہینے میں چلی جائے تو اس کے تصور میں وہی ساون کا سبزہ جم جاتا ہے۔ اب موسم لاکھ بدلا کریں، اسے ہر بات میں ہریالی ہی سوجھے گی۔
بچپن میں کہیں ایک لطیفہ سنا تھا۔ وہ اس خلل کی بہترین مثال ہے جو نظریاتی فیصلوں سے سوچ میں پیدا ہو جاتا ہے۔
ایک بہرے نے کسی شناسا کو آتے دیکھا تو سوچ لیا کہ یہ پہلے سلام کرے گا۔ پھر بیوی بچوں کا حال پوچھے گا۔ پھر ملازمت کے بارے میں دریافت کرے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔
شناسا نے آ کر کہا، سنا ہے تم بہرے ہو گئے ہو۔
بہرا: وعلیکم السلام۔
شناسا: اللہ اکبر!
بہرا: تم کیسے ہو؟
شناسا: پریشان ہو گیا ہوں۔
بہرا: الحمدللہ۔
شناسا: اوہ میرے خدا!
بہرا: جی!
شناسا: کیا بکے جا رہے ہو؟
بہرا: شکر ہے اس کا۔
شناسا: ڈاکٹر کے پاس نہیں گئے؟
بہرا: اس کو پھوڑا نکل آیا ہے۔
شناسا: ڈاکٹر کو؟
بہرا: بس دعا کرو۔
شناسا: دعا ہی ہے۔
بہرا: ہر طرف یہی حالات ہیں۔