بندہ بھی ہے خدا بھی ہے کوئی
مجھ میں مجھ سے سوا بھی ہے کوئی
غیر سے آشنا بھی ہے کوئی
بےوفا باوفا بھی ہے کوئی
سوچ سے ماورا بھی ہے کوئی
لادوا کی دوا بھی ہے کوئی
حسن کی انتہا ملے تو کہوں
عشق کی انتہا بھی ہے کوئی
حذر اے دل حذر گمانوں سے
آنے والا رہا بھی ہے کوئی
بےطلب کی جو بندگی کی ہے
خیر اس کی جزا بھی ہے کوئی
ہم نے کاغذ سفید رہنے دیا
عرض بےمدعا بھی ہے کوئی
آپ راحیلؔ صاحب آپ نہیں
آپ میں آپ کا بھی ہے کوئی