قواعد تذکیر و تانیث پر شرؔر کے تبصرہ سے مقتبس
“جانشین حضرت امؔیر مینائی حافظ جلیل حسن جلیلؔ نے اس قیمتی کتاب کے ذریعہ سے زبان اردو میں تذکیر و تانیث کا ایک فتاویٰ مدون کر دیا ہے جو اردو کی ایک عظیم الشان خدمت ہے کہ مدت ہائے دراز تک زندہ و یادگار رہے گی۔ اردو میں سب سے بڑا جھگڑا یہی تذکیر و تانیث کا ہے جس کے لیے باوجود متعدد کوششوں کے کسی قسم کے قواعد نہیں منضبط ہو سکے۔
اردو میں یہ دشواری ہے کہ ہندوستان کے ہر شہر اور ہر قریہ تک میں تذکیر و تانیث کے اعتبار سے اختلاف پڑا ہوا ہے۔ بے شک دہلی اور لکھنؤ کی زبان معیار قرار پا گئی ہے مگر کوئی ایسی مستند کتاب موجود نہیں جس کے ورق الٹ کے معلوم کیا جا سکے کہ اہل زبان کے نزدیک کون لفظ مذکر ہے اور کون مونث۔ اس پر طُرّہ یہ ہے کہ خود دہلی اور لکھنؤ والوں میں تذکیر و تانیث کے متعلق صدہا اختلافات ہیں اور اختلافوں سے زیادہ باہمی غلط فہمیاں ہیں۔ میرے خیال میں یہ کتاب ان تمام خرابیوں کو دور کر دے گی۔”
قواعدِ تذکیر و تانیث
قاعدہ نمبر ۱
حروف تہجی کی تذکیر و تانیث میں بعض مولفین نے کچھ کا کچھ لکھ دیا ہے۔ اس کتاب میں حضرت امیر مینائی رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلے پر عمل کیا گیا ہے۔ وہ اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں کہ جن حرفوں کا تلفظِ اردو بے تے کے وزن پر ہے وہ مونث ہیں اور باقی مذکر ؛اِلّا ط اور ظ مستثنی ہیں۔ یعنی ب پ ت ٹ ث چ ح خ ر ڑ ز ژ ط ظ ف ہ ی مونث ہیں اور ا ج د ڈ ذ س ش ص ض ع غ ق ک گ ل م ن و مذکر ہیں، ط اور ظ کو مستثنی فرمایا۔ یہ بہ اعتبار تلفظِ اردو کے ہے۔ ورنہ عربی تلفظ میں با تا اور طا ظا کا ایک وزن ہے۔
قاعدہ نمبر ۲
عربی لفظ جو مونث مستعمل ہے، اگر بقاعدۂ عربی جمع ہو تو اس کو جمع مذکر بولتے ہیں۔ مثلاً (کیفیت) کیفیات سنے گئے۔ (دلیل) دلائل قائم کیے۔ (شے) اشیا خریدے گئے۔ صرف ذیل کے الفاظ مستثنی ہیں یعنی واحد مونث مستعمل ہیں: تحقیقات، مخلوقات، مدارات، کرامات، خیرات، ظلمات، لَوذات، تسلیمات، اراضی، فتوح۔(١) تمام ثقاتِ دہلی و لکھنؤ کا اسی پر عمل درآمد ہےاور یہی زبان ہے۔
چونکہ اس قاعدے سے بعض صاحبوں نے اختلاف کیا ہے، لہذا اسناد بھی لکھ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
جناب جلال لکھنوی اپنے رسالہ مفید الشعرا کے صفحہ ۲۰ میں لکھتے ہیں کہ :
“حکایات، روایات، آفات، برکات، حرکات، صفات، جِہات، علامات، عادات، منافات، جنّات وغیرہ جن کے آخر میں الف، تے جمع کی ہے سب مذکر بولے جاتے ہیں۔ ”
حضرت امیر مینائی ؒ نے برہان کی جمع براہین کو مذکر لکھا ہے:
جب سنے ایسے براہین یہ ہوا وہم کا حال
خم کیا سر کو لیے دوڑ کے دانش کے قدم
فصیح الملک داغ دہلوی نے صفت کی جمع صفات اور شفقت کی جمع اشفاق کو مذکر کہا ہے:
زاہد نے اڑائے تو صفاتِ ملکوتی
حضرت کا فرشتوں سے ابھی پر نہیں ملتا
سلطانِ دکن نے کیے اشفاق بہت
اشخاص نے مجھ سے کیے اخلاق بہت
دلی کو اگر جاؤں تو مل کر جاؤں
میں آپ سے ملنے کا ہوں مشتاق بہت
مرزا غالب دہلوی نے قُوّت کی جمع قُویٰ کو مذکر کہا ہے:
مضمحل ہو گئے قُویٰ غالبؔ
وہ عناصر میں اعتدال کہاں
استاد ذوق نے کتاب کی جمع کتب کو مذکر کہا ہے:
فائدہ کیا کہ جو دیکھے کتبِ ہر مذہب
فائدہ کیا جو ہوئی آگہی ہر مِلّت
مومن دہلوی نے صفت کی جمع صفات کو مذکر کہا ہے:(١)
سن کے ایسے صفات نا معقول
نہ کرے گا کوئی جہاں میں قبول
مگر باوجود اس کے فی زماننا اخباروں اور رسالوں اور دیگر تحریروں میں مونث کی جمع مونث ہی لکھنے کا رواج ہو گیا ہے۔ اگرچہ ایسا لکھنے والے بھی حالات سنے اور مصائب جھیلے اور قویٰ ضعیف ہوگئے بولتے ہیں، جس سے قلم اور زبان میں فرق معلوم ہوتا ہے۔ تاہم جب کہ اس چیز کی کثرت ہوگئی ہے اور اچھے اچھوں کی تحریروں میں یہی صورت نظر آنے لگی تو اب اس کو غلط بھی نہ سمجھنا چاہیے۔
قاعدہ نمبر ۳
ایک عورت واحد متکلم کا صیغہ واحد مونث استعمال کرتی ہے مگر جمع متکلم کا صیغہ جمع مذکر استعمال کرنا لازم ہے اور یہی زبان ہے۔ یعنی واحد کی حالت میں مَیں آتی ہوں، مَیں جاتی ہوں وغیرہ اور جمع کی حالت میں ہم آتے ہیں،ہم جاتے ہیں بولتی ہیں۔ چنانچہ حضرت امیر مینائؒی فرماتے ہیں:
شکر آتا ہے زبانوں پہ گلِے جاتے ہیں
حسرتیں دل سے یہ کہتی ہیں کہ لے جاتے ہیں
قاعدہ نمبر ۴
اسم کے مطابق فعل کا مذکر یا مونث لانا معمول ہے جیسے کتاب دیکھی، خط لکھا۔ لیکن جب مفعول کے ساتھ علامتِ مفعول آجاتی ہے تو فعل مذکر ہی آتا ہے جیسے کتاب کو دیکھا، خط کو لکھا:
امیر:
بے پروبال ہوں طاقت نہیں اڑنے کی صبا
اک ذرا شاخ نشیمن کو جھکا رہنے دے
داغ:
پھرا ہوا جو کسی کی نظر کو دیکھتے ہیں
لگا کے تیر ہم اپنے جگر کو دیکھتے ہیں
قاعدہ نمبر ۵
تانیث کی حالت میں علاوہ فعل کے مصدر کو بھی تغیر ہو جاتا ہے۔ مثلاً بات کرنی نہیں آتی۔ ارباب دہلی اسی کے پابند ہیں اور اہل لکھنؤ بات کرنی نہیں آتی، بات کرنا نہیں آتی، بات کرنا نہیں آتا سب طرح بولتے ہیں۔
قاعدہ نمبر ۶
محاورے میں جہاں مصدر پورا نہیں آتا، وہاں اسم کی مطابقت لازم ہوتی ہے۔ جیسے بات کر نہیں آتی، قتل کر نہیں آتا۔ اس پر دہلی لکھنؤ کا اتفاق ہے۔
قاعدہ نمبر ۷
جن الفاظ کے آخر میں الف ہے وہ اکثر مذکر ہوتے ہیں۔ جیسے دریا، صحرا، بھالا، تارا وغیرہ۔ اس میں جو مستثنی الفاظ ہیں یعنی مونث مستعمل ہیں وہ حسب ذیل ہیں:
دعا، سزا، حِنا، قضا، ادا، بلا، حیا، جزا، رضا، نوا، صدا، ہوا، صبا، ندا، ردا، لقا، بکا، جفا، صفا، وفا، بِنا، غِنا، سخا، عطا، خطا، سرا، بقا، عبا، قبا، اِبا، وبا، عزا، فضا، رجا، ثنا، سَنا، دعا، دغا، غذا، غَزا، شفا، خلا ملا، خلا، ملا، جِلا، دوا، بہا، دلا، ریا، جا، اکتفا، مرحبا، التجا، ابتلا، ابتدا، انتہا، اقتدا، امتلا، آسیا، اشتہا، اعتنا، استغنا، کیمیا، ریمیا، رعایا، دنیا، عقبی، کربلا، پروا، شہنا، قرنا، ہیجا، یغما، سیما، واویلا، مُدارا، موتیٰ، تمنا، انشا، ایذا، صلّ علیٰ، صہبا، تولّا، چوں و چرا، برایا، چِتا، جَٹا، سنکھیا، پُڑیا، گڑیا، پھڑبا، چھالیا، کتھا، گھٹا، پوجا، چڑیا، سبھا، ڈبیا، انگیا، سیتلا، جانگھیا، مینا، شاما، سیوا، کالکا، اجودھیا، گیا، گنگا، جمنا، کِرپا، گھاگرا،نربدا، کرشنا، پُروا، پچھوا، کُلہیا، انبیا، بتیا، بھاکا، ماتا، ہتھیا، موتیا، مالا۔
قاعدہ نمبر ۸
جن الفاظ کے آخر میں یائے معروف ہوتی ہے وہ مونث ہوتے ہیں۔ جیسے کرسی، ٹوپی، خوشی، ہنسی وغیرہ۔ اس میں مستثنی الفاظ یہ ہیں جو مذکر بولے جاتے ہیں، جی، گھی، دہی، پانی، ہاتھی۔
قاعدہ نمبر ۹
جن الفاظ کے آخر میں ت مصدر عربی کی آئے وہ مونث ہے۔ جیسے قدرت، شوکت، دولت، حشمت وغیرہ۔ اس میں لفظ شربت اور خلعت مستثنی ہیں یعنی مذکر۔
قاعدہ نمبر ۱۰
اردو کا حاصل مصدر جس کے آخر میں تائے ہندی آئے وہ مونث ہوتا ہے جیسے رکاوٹ، دکھاوٹ، لگاوٹ، سجاوٹ وغیرہ۔
قاعدہ نمبر ۱۱
فارسی کا حاصل مصدر جس کے آخر میں ش ہو مونث استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے خلش، تپش، سازش، سوزش وغیرہ۔
قاعدہ نمبر ۱۲
جو الفاظ تفعیل کے وزن پر آتے ہیں وہ مونث ہیں۔ جیسے تقدیر، تفسیر، تعظیم، تکریم وغیرہ۔ اس میں شہتیر، گلگیر، نخچیر، تعویذ، قط گیر، خورشید، خنزیر، کشمیر، انجیر مستثنی ہیں یعنی مذکر ہیں۔
قاعدہ نمبر ۱٣
جو الفاظ تَفعُّل کے وزن پر آتے ہیں وہ مذکر مستعمل ہوتے ہیں جیسے تکبر، تجسس، تفحص، تعلق وغیرہ۔ اس میں توجہ، تہجد، توقع، تہتک مستثنی ہیں یعنی مونث ہیں۔
قاعدہ نمبر ۱۴
جو الفاظ تفاعُل کے وزن پر آتے ہیں وہ بھی مذکر بولے جاتے ہیں۔ مثلاً تغافل،تناقض، تجاہل،تدارک وغیرہ۔ اس میں تگاپو، ترازو، تواضع مستثنی ہیں یعنی مونث ہیں۔
قاعدہ نمبر ۱۵
جن الفاظ کے آخر میں ہائے مختفی ہو وہ مذکر ہیں۔ مثلاً جلوہ، پردہ، سلسلہ، شیشہ وغیرہ۔
قاعدہ نمبر ۱۶
مہینوں کے نام مذکر مستعمل ہیں خواہ عربی ہوں یا فارسی، ہندی ہوں یا انگریزی۔مگر جنوری، فروری، مئی، جولائی مونث ہیں۔
قاعدہ نمبر ۱۷
دنوں کے نام خواہ عربی ہوں خواہ اردو مذکر مستعمل ہیں، اِلّا جمعرات مونث ہے۔
قاعدہ نمبر ۱۸
شہروں کے نام کسی زبان میں ہوں مذکر ہیں۔ لیکن جن کے آخر میں یائے معروف ہو اُن کو مونث بولتے ہیں جیسے دہلی، بمبئی وغیرہ۔ اجودّھیا اور گیا مستثنی ہیں یعنی آخر میں یائے معروف نہیں ہے اور مونث بولے جاتے ہیں۔
قاعدہ نمبر ۱۹
جن الفاظ کے آخر میں بند آتا ہے وہ مذکر ہیں۔ جیسے گلوبند، کمربند، علی بند، بازوبندوغیرہ۔
قاعدہ نمبر ۲۰
جن الفاظ کے آخر میں گاہ ہو وہ مونث ہیں۔ جیسے جلوہ گاہ، قتل گاہ، تماشاگاہ، عیدگاہ۔ مگر بندرگاہ مذکر ہے۔
قاعدہ نمبر ۲۱
ہر قسم کی آواز مونث ہے۔ جیسے کوکو، قُلقُل، چٹ چٹ، دھڑادھڑ، چھماچھم وغیرہ۔
قاعدہ نمبر ۲۲
دوفعل یا دو حاصل مصدر مل کر آتے ہیں تو وہ مونث مستعمل ہوتے ہیں۔ جیسے آمد و رفت، گفت و شنید، نشست و برخواست، جست و خیز، خرید و فروخت، اٹھ بیٹھ، مارپیٹ، لکھا پڑھی وغیرہ۔ اس میں حسب ذیل الفاظ مستثنی ہیں یعنی مذکر ہیں:
بند و بست، سوز و گداز، خور و نوش، ساز باز، خواب و خور، بست و کُشاد، لین دین۔
قاعدہ نمبر ۲۳
دو اسم ایک مذکر اور ایک مونث مل کر آئیں تو اکثر مذکر ہی کا لحاظ کیا جاتا ہے جیسے شراب و کباب، تیغ و خنجر، چشم و چراغ، نان و نمک، جود و احسان، رنگ و بو، چشم و ابرو، یاس و غم، چال چلن وغیرہ۔ مگر چند الفاظ مستثنی ہیں یعنی مونث بولے جاتے ہیں۔ آب و ہوا، آب و غذا، آب وگل، قلم دوات، بول چال، ردّ و بدل۔
قاعدہ نمبر ۲۴
فارسی مضاف و مضاف الیہ میں مضاف کے لحاظ سے تذکیر و تانیث کا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے برقِ طور، شمع حرم مونث ہیں اور رنگِ محفل، حسن سماعت وغیرہ مذکر ہیں۔ لیکن سوانح عمری، تخم ریحان مستثنی ہیں۔ یعنی باوجود مضاف مذکر ہونے کے مونث مستعمل ہیں۔
قاعدہ نمبر ۲۵
لفظ برگ مذکر ہے مگر مذکر کا مضاف ہو تو مذکر اور مونث کا مضاف ہو تو مونث مستعمل ہوتا ہے۔ جیسے برگِ درخت، برگِ گل وغیرہ مذکر ہیں اور برگِ حنا، برگِ گاوزبان وغیرہ مونث ہیں۔
قاعدہ نمبر ۲۶
کف جھاگ(١)کے معنیٰ میں مذکر ہے مگر کفِ دست، کفِ پا مونث مستعمل ہیں۔
قاعدہ نمبر ۲۷
مُشت مونث ہے مگر اسم مذکر کے ساتھ مذکر اور اسم مونث کے ساتھ مونث مستعمل ہے۔ جیسے مشت پر، مشتِ استخوان وغیرہ مذکر ہیں اور مشتِ خاک مونث ہے۔
قاعدہ نمبر ۲۸
کتابوں کے نام عموماً مونث ہیں جیسے گلستاں، بوستاں، ابولفضل، پنجنامہ، مینابازار، تمدن عرب وغیرہ۔ اگر ان اسما کو جن کے آخر میں نامہ یا شروع میں فسانہ ہو مذکر کہیں تو مضائقہ نہیں جیسے سکندرنامہ۔ فسانہ لندن وغیرہ۔ مگر قرآن اور اس کے مترادفات یعنی مصحف، فرقان، کلام اللہ، کلام مجید مذکر ہی بولے جاتے ہیں۔
قاعدہ نمبر ۲۹
قرآن شریف کی سب سورتیں مونث بولی جاتی ہیں۔ اگرچہ لفظ سورہ مذکر ہے مگر نام کے ساتھ مونث ہی مستعمل ہے جیسے سورہ یسین پڑھی، سورہ فاتحہ لکھی وغیرہ۔
قاعدہ نمبر ۳۰
دو یا زیادہ اسما کی خبر (جن میں کوئی مذکر ہو کوئی مونث) اگر ایک فعل سے نکالی جائے تو جو اسم فعل سے قریب ہو اسی کا لحاظ کیا جائےگا جیسے شراب ملی نہ کباب، قلم پایا نہ دوات۔
شعر:
بے طرح لوٹے گئے ہم جلوہ گاہِ یار میں
دل نظر نے ہوش غمزے نے ادا نے جان لی
اسی طرح کئی اسما کے لیے جو تذکیر و تانیث میں مختلف ہوں ایک اضافت آئے تو اُسی اسم کی رعایت کی جائے گی جو اضافت کے قریب ہو۔ جیسے اس شعر میں ہے:
ہو سکے کیا وصف اس کا جو سراپا حسن ہو
ناز آفت قد ہے فتنہ قہر صورت یار کی
قاعدہ نمبر ۳۱
جو عربی لفظ مذکر مستعمل ہےاس کی جمع بقاعدہ ٔعربی الف تے سے ہو تو مذکر ہی استعمال ہوگا جیسے (درجہ) درجات، (اشارہ) اشارات، (مجاہدہ) مجاہدات، (مقام) مقامات، (انعام) انعامات وغیرہ۔ مگر اوقات، کائنات، سَکرات مستثنی ہیں یعنی واحد مونث مستعمل ہیں۔
قاعدہ نمبر ۳۲
جس عربی لفظ پر تذکیر و تانیث کا اطلاق نہ ہوتا ہو وہ بقاعدۂ عربی الف تے سے جمع ہونے پر جمع مذکر مستعمل ہوتا ہے۔ جیسے (ممنوع) ممنوعات، (مصنوع) مصنوعات، (مہمل) مہملات، (مکروہ) مکروہات وغیرہ۔ موجودات مستثنی ہیں یعنی واحد مونث مستعمل ہیں۔
قاعدہ نمبر ۳۳
کئی اسم مونث ہوں اور ایک مذکر تو صیغہ جمع مذکر کا لایا جائے گا۔ مثلاً شعر:
آہ و زاری و نالہ و فریاد
سب محبت میں بے اثر نکلے
الفاظ مختلف فیہ
اردو میں جو الفاظ مذکر و مونث دونوں طرح بولے جاتے ہیں اور جن کی صراحت کتاب میں کردی گئی ہے وہ حسب ذیل ہیں:
آنول نال، فغاں، التفات، التماس، املا، امن، ایجاد، برگ، بار، بسنت، بلبل، پھول، ناک، جاہ، جھونک، خلا، خراش، درود، دسترس، دشنام، زنار، رسم، رفل، ساعد، سانس، سبحہ، سیل، طرز، طعن، طوطی، غور، فاتحہ، فکر، قامت، قدغن، قلم تراش، کٹار، کف، کلک، گزند، گھڑیال، گیند، لفظ، مالا، محک، مزرع، موتیا، میلاد، نال، ناموس، نباہ، نردبان، نشونما، نیشکر، آغوش۔