نیزہ ہے تیر ہے کہ گولی ہے
کہ ستمگر نے آنکھ کھولی ہے
وہ جو مہمان تھا گھڑی بھر کا
زندگی اس کے ساتھ ہو لی ہے
ریزہ ریزہ نہ ہو تو کیا سمجھو
ریختہ اہلِ دل کی بولی ہے
اب یہ آنسو ترے حوالے ہیں
ہم نے جائے نماز دھو لی ہے
بوجھ ہے آس ہے امیدیں ہیں
زندگی کس دلھن کی ڈولی ہے
تم جنوں کو جنوں سمجھ بیٹھے
تیز ہے عشق عقل بھولی ہے
عشق کا پردہ بھی کوئی کمبخت
کسی شعلہ بدن کی چولی ہے
چپ نہیں بیٹھے اہلِ دل راحیلؔ
ہر نظر میں زباں پرو لی ہے