آج میں ایک فلم دیکھ رہا تھا۔ ایک غریب نوجوان۔ ایک نسبتاً امیر گھرانے کی لڑکی۔ دونوں ایک دوسرے کی محبت میں سرشار۔ لڑکی کا باپ حسبِ عادت سیخ پا۔ سب کچھ وہی تھا۔ روایتی فنکار۔ روایتی ماحول۔ روایتی کشمکش۔ روایتی جملہ بازیاں۔ مگر ایک بات نے مجھے چونکا دیا۔
لڑکی کا باپ مستقبل کے دولہا میاں کی بابت کچھ اس قسم کے خیالات کا اظہار کر رہا تھا کہ اس کے پاس پھوٹی کوڑی تک تو ہے نہیں۔ برسات میں وہ ایک دن چھوڑ کے نوکری پر جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس صرف ایک جانگیا ہے جسے سوکھنے میں رومان انگیز گھٹاؤں کے طفیل ایک دن لگ جاتا ہے۔ وہ اتنی نازوں پلی بٹیا کو کیسے خوش رکھے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔
یہ مکالمہ ناٹک کی تاریخ کا شاید روایتی ترین مکالمہ ہے۔ اور یہی چیز میری حیرت کا باعث ہے۔ انسان کتنا کم سیکھتا ہے۔ صدیوں بلکہ ہزاریوں کے معاشرتی تجربات آج تک ہمیں یہ نہیں سکھا سکے کہ مسرت، اطمینان اور سکون دولت مند داماد کی جاگیر نہیں ہیں۔ ہماری بہنوں بیٹیوں کے لیے پرسکون زندگیوں کی ضمانت پیسا نہیں دے سکتا۔ شاندار بنگلے شاندار انسانوں سے زیادہ قابلِ قدر نہیں۔ اے سی دل ٹھنڈا نہیں کر سکتا۔ کار سوچوں کے فاصلے کم نہیں کر سکتی۔ روپیہ وفا نہیں خرید سکتا۔ اور شاید تعلیم بھی آپ کو دانا نہیں بنا سکتی۔ آخری بات کا واضح ترین ثبوت تو اکیسویں صدی کے وہی پڑھے لکھے والدین ہیں جو اولاد کے لیے جذباتی سکون کی بجائے معاشی تحفظ تلاش کرتے پھرتے ہیں۔
صاحبو، جہاں تک میں سمجھا ہوں انسان کی پرمسرت زندگی کا صرف ایک راز ہے۔ محبت!
محبت ہو تو دولت سکون دیتی ہے۔ تعلیم دانائی سکھاتی ہے۔ اولاد نورِ چشم بنتی ہے۔ جائیداد صدقۂِ جاریہ میں بدل جاتی ہے۔ غربت رنج نہیں پہنچاتی۔ بے اولادی روگ نہیں بنتی۔ دشمن کمزور ہو جاتے ہیں۔ حماقتیں معصوم لگتی ہیں۔ زندگی گوارا ہوجاتی ہے۔ اور یہ نہ ہو تو سب الٹ جاتا ہے۔ جیون اجیرن ہو جاتا ہے۔ شاید اسی لیے میڈم نور جہاں اتنا لہک لہک کے گایا کرتی تھیں:
محبت زندگی ہے —– اور تم میری محبت ہو!
محبت ہی زندگی ہے۔ زندگی گو محبت کے بغیر بھی ہوسکتی ہے مگر اس کی مثال دریائے راوی کی سی ہے جو بچارا دریا کہلانے کے باوجود سارا سال پانی کی راہ دیکھتا رہتا ہے۔ جس حوصلے سے لوگ اسے دریا پکارتے ہیں اسی دل سے تشنۂِ محبت زندگی کو زندگی بھی کہ لیتے ہیں۔
مگر یہ پرانی باتیں ہیں۔ نیا انسان انھیں کہاں پچا سکتا ہے؟ نیا انسان تو آج تک "جیسا کرو گے ویسا بھرو گے” کا دقیانوسی مقولہ ہضم نہیں کر سکا۔ اسے یقین نہیں آتا کہ کائنات میں کوئی قوت اتنی فارغ بھی ہو سکتی ہے کہ صبح و شام بیٹھی اس کے اقوال و افعال یہاں تک کہ سوچوں تک کے گوشوارے بھرتی رہے۔ اس کو جزائیں اور سزائیں دیتی رہے۔ اگر یوں ہو تو فلاں کمینہ اتنا خوش کیسے ہو۔ فلاں حافظ صاحب دھکے کیوں کھاتے پھریں۔ مگر اصل بات یہ نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے صاحبو، کہ خود انسان کے پاس اس کی جھوٹی مصروفیت نے اتنا وقت نہیں چھوڑا کہ وہ بدھا ،ابراہیم علیہ السلام، سقراط اور محمد صلعم کی طرح زندگی کے کچھ لمحے تفکر و تدبر کے لیے وقف کرے اور کسی برگد، کسی حرا کو اپنا آپ سونپ کر کامل توجہ سے اصولِ کائنات کا مشاہدہ کرے۔ مگر یہ لازم بھی نہیں ہے۔ ان جلیل القدر شخصیات کے احسانات کے باوصف بھید تو رہ نہیں گئے۔ راہیں تو دکھا دی گئی ہیں۔ ہمیں تو صرف اس قدر تدبر درکار ہے جو فقط ہماری آنکھیں کھول دے۔ ہم ٹھوکریں نہ کھاتے پھریں۔ ہمارے قدموں کو ہمارے دل و دماغ کی آشیر باد حاصل ہو۔ ہمارے ساتھ کچھ برا ہو تو ہم دانت پیستے نہ رہ جائیں کہ ہم اس کے مستحق نہ تھے۔ بھلا ہو تو اندازہ کر سکیں کہ یہ کس کی دعا اور کس کی عطا ہے۔
نبیِ اکرم صلعم سے ایک حدیث مروی ہے:
من عرف نفسہ فقد عرف ربہ
جس نے خود کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔
سقراط نے کہا:
اپنے آپ کو پہچان۔
بات یہی ہے۔ مشہور جرمن فلسفی شوپنہاؤر نے کہا تھا کہ حق آپ کو صرف تب ملتا ہے جب آپ اس کی تلاش فقط اپنی ذات کی خاطر کریں۔ ہم دوسروں سے مسابقت میں، حسد میں، ان سے متاثر ہو کر، ان کی خوشامد میں، ان کی خاطر زندگی کے اصول ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر سچ ہمارے اندر ہے۔ ہمارے لیے۔ ہم سے باہر نہیں۔ کہیں بھی نہیں۔ کسی کے لیے بھی نہیں۔ داناؤں نے یہی کہا کہ اپنے اندر جھانکو۔ ہم دوسروں کو تاڑتے رہتے ہیں۔ داناؤں کو پتا تھا اور پتا ہے کہ دوسروں سے آپ سَچا اور سُچا علم حاصل نہیں کر سکتے۔ بیٹا ماں کی زندگی پر قیاس نہیں کر سکتا۔ بہن بھائی کی زندگی کو کامل طور پر نہیں جان سکتی۔ بیوی شوہر کے نہاں خانۂِ دل کی محرم نہیں ہو سکتی۔ ہم اس بھری کائنات میں تنہا سوچتے ہیں، تنہا محسوس کرتے ہیں اور اپنے افکار، احساسات اور اعمال کے تنہا ذمہ دار ہیں۔ کوئی دوسرا، وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو، ہمیں ہم سے بڑھ کر نہیں جان سکتا۔ ہم کسی کو، وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو، خود اس سے بڑھ کر نہیں جان سکتے۔ پھر ہم ان کی نیکی بدی اور ان کے حاصل و لاحاصل پر غور کیوں کریں؟ اپنے اندر جھانک کر فرسٹ ہینڈ علم حاصل نہ کریں؟ اپنے افکار و اعمال کو نہ جانچیں کہ ہم نے کیا کیا اور ہمارے ساتھ کیا ہوا؟
پرانی باتیں بہت ہیں۔ انسان تکبر کرتا ہے۔ خود کو جانتا نہیں۔ بھول جاتا ہے کہ یہ کیا ہے اور کیا نہیں۔ خدا اس پر رحم کرتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ مجھ سا گُنی میرے ہم جنسوں میں کوئی نہیں۔ میں سب سے بڑھ گیا۔ کون ہے جو مجھے میرے مقام سے گرا سکے۔ صاحبو، انسان فرعون بن جاتا ہے۔ مجھے آپ کو یقین دلانے کی ضرورت نہیں۔ آپ بھی اسی دنیا میں جیتے ہیں۔ آپ نے بھی دیکھا ہو گا کہ کسی کے پاس طاقت ہے، اختیار ہے، دولت کی بنیاد پر، حسن کی بنیاد پر، صلاحیت کی بنیاد پر۔ اور وہ آپ کو جھٹک جھٹک کے پھینکتا ہے۔ آپ پیار سے بات کرتے ہیں۔ وہ چیں بجبیں ہوتا ہے۔ آپ فریاد کرتے ہیں۔ وہ جبر کرتا ہے۔ آپ گڑگڑاتے ہیں۔ وہ منہ پھیر لیتا ہے۔ آپ اسے خدا یاد دلاتے ہیں۔ وہ آپ کو آپ کا اپنا آپ یاد دلاتا ہے۔ آپ نے ایسے لوگ ضرور دیکھے ہوں گے۔ بلکہ شاید آپ خود انھی میں سے ایک ہوں۔
کچھ علم والے کہتے ہیں کہ انسان کا لفظ نسیان سے متعلق ہے۔ انسان بہت بھولتا ہے۔ مگر خدا یاد رکھتا ہے۔ پھر وہ وقت آتا ہے جب فرعون کی قلمرو میں موسیٰ آن پہنچتا ہے۔ دولت، حسن، علم، صلاحیت، قدرت کافور ہونے لگتے ہیں۔ ظالم دیکھتا ہے کہ اس کے ہاتھ سے اس کا اثاثہ چھینا جا رہا ہے۔ بھوکے شیر کی طرح دیوانہ ہو جاتا ہے۔ دھاڑتا ہے، دوڑتا ہے، پنجے جھاڑتا ہے۔ مگر خدا شیروں کا بھی خدا ہے۔ وقت آ چکنے پر کون ہے جو اس کے پنجے سے کسی کو چھڑا سکے؟ کون ہے جو اس کے حضور سفارش کر سکے؟ کون ہے جو اسے مجبور کر سکے؟ کون ہے جو اس سے لڑ سکے؟ ظالم کتے کی موت مرتا ہے۔ مظلوم سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ خوشیاں مناتے ہیں۔ وقت گزرتا ہے۔ پھر ایک فرعون نکل آتا ہے۔ پھر ایک موسیٰ آ جاتا ہے۔ قدرت سبق سکھاتی رہتی ہے۔ انسان سبق سیکھتا رہتا ہے۔ بھولتا رہتا ہے۔
آپ نے کبھی غور کیا کہ مذاہبِ عالم نے انسانوں کو جو مساوات کی تعلیم دی ہے اس کا بھید کیا ہے؟ شاید آپ مصروف رہتے ہوں۔ مگر میں بہت فارغ ہوں۔ آپ نے سنا ہو گا کہ ایک آدمی نے اخبار میں ملازم کی ضرورت کا اشتہار دیا۔ ایک شخص چلا آیا۔ پوچھا کیا کام ہے۔ صاحب نے کہا کہ سوچنا۔ ضرورت مند جی میں نہایت خوش ہوا کہ کیا سقراطِ زماں سے پالا پڑا ہے۔ سوچنے کے پیسے ملیں گے۔ پوچھا کتنے پیسے ملیں گے۔ بولے پچاس ہزار۔ امیدوار کو یقین نہیں آیا۔ اس نے گھر کی حالتِ زار پر نظریں دوڑاتے ہوئے پوچھا کہ آپ کی اپنی تنخواہ کتنی ہے۔ صاحب نے فرمایا پندرہ ہزار۔ امیدوار آگ بگولا ہو گیا۔ تو پھر مجھے پچاس ہزار کیسے دو گے؟ اس پر صاحب نے اسے آگاہ کیا کہ یہی سوچنا ہے۔ وہ امیدوار تو یقیناً صلواتیں سنا کر رخصت ہو گیا ہو گا اور شاید اخباری اشتہارات وغیرہ سے اس کا ایمان بھی بالکل اٹھ گیا ہو لیکن میں اس کی جگہ ہوتا تو یہ نوکری کر لیتا!
تفنن بر طرف، بات ہو رہی تھی مساواتِ آدم کی۔ یہ بھی کلاسیک پرانی باتوں میں سے ایک ہے۔ ہمیں یقین نہیں آتا کہ ہمارے گھر سے کچرا اٹھانے والا جمعدار اور ہم کیسے برابر ہو سکتے ہیں؟ ایک پڑھا لکھا بزنس مین اور ایک ان پڑھ دیہاتی کس ستم ظریف کو کہاں سے ایک جیسے نظر آتے ہیں؟ ایک پاک طینت، عبادت گزار، متشرع عالمِ دین اور ایک اچھال چھکا، بدکردار عورت میں کیا قدرِ مشترک ہو سکتی ہے؟ بحث پر اتر آئیں تو اقوامِ متحدہ کو لاجواب کر دیں۔ لیکن اہلِ نظر کی نظر سے دیکھیں تو گردن میں سر ڈال کر بیٹھ جائیں۔ شرمندہ ہو جائیں۔ کہتے ہیں کہ تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔ ظالموں کو نظر بھی آفتیں آتی ہیں۔ اسی پر بس نہیں، ہم سادہ لوحوں کو بھی بتا بتا کر مفت میں مکلف کرتے رہتے ہیں۔ ایک اور لطیفہ یاد آ گیا۔ ایک دیہاتی نے پادری سے پوچھا: فادر، اگر ایک شخص کو پتا ہی نہ ہو کہ وہ گناہ کر رہا ہے تو کیا خداوند اسے سزا دے گا؟ عیسائیت نہایت نرم مذہب ہے۔ فادر نے شفقت سے جواب دیا: ہرگز نہیں، میرے بیٹے! دیہاتی نے معصومیت سے پوچھا: تو پھر آپ نے مجھے کیوں بتا دیا؟
صاحبو، اہل نظر دیکھ لیتے ہیں کہ بات انسانوں کے رنگ، پیشے، عقیدے حتیٰ کہ پرہیزگاری اور گناہگاری کی بھی نہیں۔ بات دل کی ہے۔ انسانوں کی مساوات دراصل انسانوں کے دل اور جذبات کی یکسانی کی بنیاد پر ہے۔ ہمارے دل ایک سے ہیں۔ ہمارے جذبات ایک سے ہیں۔ ہماری محبتیں، نفرتیں، خوف، دکھ سکھ سب ایک سے ہیں۔ خواہ ہم کوئی ہوں، کہیں سے ہوں، کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ تذلیل پر دکھ جمعدار کو بھی اتنا ہی ہوتا ہے جتنا بنگلے کے دولت مند مالک کو بھی۔ نفرت بزنس مین کا بھی دل توڑ دیتی ہے اور ان پڑھ دیہاتی کا بھی۔ پیار نیکوں کو بھی سکون دیتا ہے، بدکاروں کو بھی۔ بات دل کی ہے دوستو۔ اربوں رنگوں، روپوں، ڈگریوں، نسلوں، عقیدوں، طبقوں وغیرہ میں بٹا ہوا انسان اندر سے ایک ہی ہے۔ ایک ہی بہروپیا دل ہے جو کالی چمڑی کے پیچھے بھی دھڑکتا ہے اور گورے سینے کے اندر بھی۔ غریب کی کٹیا میں بھی زندگی کو رواں رکھتا ہے اور امیر کے دیوان خانے میں بھی۔ فقیہِ شہر کا خون بھی اسی کی جاگیر ہے اور رندِ خرابات کا بھی۔
پرانی باتیں کتنی دلکش ہوتی ہیں!