غالب کی شاعری نے جہاں عامۃ الناس کے دلوں کو لبھایا ہے وہاں ادب پرور طبقے کو بھی دمادم نت نئے پیچوں میں الجھائے رکھا ہے۔ خدا کے سادہ دل بندے تو مرزا کے اشعار پڑھ کر اور شارحین کے بتائے ہوئے مفاہیم پر بھروسا کر کے سر دھن لیتے ہیں، مگر بیچارے شارحین خود سر پٹکتے پھرتے ہیں۔
گنجینۂِ معنیٰ کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے
شارحین و مفسرینِ غالبؔ نے موصوف کے اس ارشاد پر کماحقہ عمل کیا ہے اور عرصہءِ دراز سے ہر ہر لفظ کو ایک طلسمِ ہوش ربا ثابت کر دکھانے پر تلے ہوئے ہیں۔ پنچابی کے ایک ناگفتہ بہ محاورے کے مطابق چوکنی چھنال زیادہ زک اٹھاتی ہے۔ اسی قاعدے پر شارحین بھی بہت جگہوں پر چوکے ہیں، مگر زک انھوں نے کم اور کلامِ غالب نے زیادہ اٹھائی ہے!
مرزا کی ایک نہایت مشہور غزل کے ایک شعر پر چند شارحین کی معنیٰ آفرینیاں میری نظر سے گزری ہیں۔ شعر یوں ہے:
ترے سروِ قامت سے اک قدِ آدم
قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں
جو کچھ نکتہ سرائیاں مفسرین کر چکے ہیں اس کے بعد بچارے معنیٰ کی نشاۃِ ثانیہ کے امکان تو کم ہی ہیں، مگر غالب کی عظمت ہمیں مجبور کرتی ہے کہ کم از کم حجت تمام کر دی جائے۔
تو صاحبو، بات صرف اس قدر ہے کہ محبوب کی قامت تو جو تھی سو تھی، ستم بالائے ستم یہ ہو گیا کہ قیامت کا فتنہ بھی اس میں شامل ہو گیا۔ مگر غالب نے اس معاملے کو جمع کے قاعدے سے بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا اور تفریق کے عمل سے مدعا بیان کرنے کو ترجیح دی ہے۔ بس یہیں سے سارا بکھیڑا شروع ہوتا ہے۔
فرماتے غالب یہ ہیں کہ میں محبوب کے قامت سے قیامت کے فتنے کو اس قدر کم دیکھتا ہوں جتنی ایک آدم زاد کی قامت ہوتی ہے۔ یعنی قیامت کے فتنے میں ایک انسان یعنی محبوب کی اپنی قامت کا اضافہ ہو جائے تو وہ فتنہ وجود میں آتا ہے جو غالب کے ساتھ ساتھ شارحین کی بھی ترکی تمام کر دیتا ہے۔ قیامت کے فتنے کو اس حسنِ جاناں کے فتنے سے کمتر ثابت کرنے کا نہایت دلکش اور انوکھا انداز ہے کہ حسن کا فتنہ اس باعث زیادہ مہلک ہے کہ اس میں ایک قدِ آدم قیامت کے فتنے سے بھی زائد ہے۔
غالب اگر مشکل نہ ہوتے تو شاید اس قدر مقبول بھی نہ ہوتے۔ گو کہ صرف مشکل پسندی کسی طور بھی عظمت کی دلیل نہیں، مگر عظمت کا یقین ہو تو اس کے لیے مشکلات کے عقدے کھولنے میں بھی کوئی باک نہیں ہوتا۔ لوگ جانتے ہیں کہ غالب کو سمجھنا دشوار ہو سکتا ہے، مگر یہ دشواریاں اٹھا کر جو نزاکتیں اور لطافتیں حاصل ہوتی ہیں وہ بھی تو کم وجد آفریں نہیں۔ غالب کا ایک شعر ہے جسے میں کسی زمانے میں ان کے فن اور ذات کا نمائندہ شعر کہا کرتا تھا:
بیاورید گر اینجا بود زباندانے
غریبِ شہر سخن ہائ گفتنی دارد(اگر یہاں بات سمجھنے والا کوئی ہے تو اسے لاؤ۔ شہر کے اجنبی کے پاس کہنے والی بہت باتیں ہیں!)
یہ باتیں غالبؔ کے لیے کہنے والی ہوں گی۔ ہمارے لیے تو سر دھننے والی ہیں۔ اگر مفسرینِ غالب سر دھنکنا شروع نہ کر دیں تو!