﷽
ابتدائیہ
ہزاروں شکر اس خدا کے کہ جس نے اپنی تمام خلقت میں انسان کو فضیلت عطا فرمائی اور عقل کے تاجِ مرصع سے دین و دنیا میں اس کے سر کو زیب و زینت بخشی اور طبیعت کے چالاک گھوڑے پر سوار کر کے دانائی کی لگام ہاتھ میں دی اور علم کی تلوار مُلکِ دل کے نظم و نسق کے واسطے سپرد کی کہ شیطان دشمن کے ہاتھ سے ہوش و حواس کی زیست پامال نہ ہو۔ اور درود بے شمار اس کے نبی احمدؐ مختار اور اس کے آل اطہار پر۔
اے دانا! آگاہ ہو۔ اس کتاب کو ہند میں ‘‘ہتوپدیس” یعنی نصیحت مفیدہ کہتے ہیں اور اس میں چار باب مندرج ہیں۔ ایک میں ذکر دوستی کا، دوسرے میں دوستوں کی جدائی کا، تیسرے میں لڑائی کی ایسی باتوں کا جو اپنی فتح ہو اور مخالف کی شکست، چوتھے میں کیفیت ملاپ کی خواہ لڑائی کے آگے ہو یا پیچھے۔
غرض ایسے عجیب و غریب قصوں میں قصے لپٹے ہوئے ہیں جن کے دیکھنے اور سننے سے آدمی دنیا کے کاروبار میں بہت ہوشیار، نہایت چالاک ہو جاوے؛ علاوہ اس کے بھلی بری حرکتیں ہر ایک کی نظر آویں۔ چنانچہ یہ کتاب سرکار دولت مدار میں ملک الملوک شاہ نصیر الدین کی (جس کی تخت گاہ صوبہ بہار تھی) پہنچی۔
جب انھوں نے سنا، اس میں قصے از بس کہ دلچسپ ہیں اور نصیحتیں نہایت مرغوب اور باتیں بہت خوب اور حکایتیں اکثر مفید، اپنے ملازموں سے ایک کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ اس کو ترجمہ سلیس فارسی میں کرو تو میں اپنے مطالعے میں رکھوں اور اس کے مضمون سے مستفید ہوؤں۔ تب ان میں سے ایک شخص حکم بجا لایا اور نام اس کا ‘‘مفرح القلوب” رکھا۔ بالفعل اس عاصی میر بہادر علی حسینی نے سنہ اٹھارہ سو دو عیسوی میں مطابق سنہ بارہ سو سترہ ہجری کے فرمانے سے صاحب خداوند نعمت جان گلکرسٹ صاحب بہادر دام اقبالہ کے زبان فارسی سے ترجمہ سلیس رواجی ریختے میں (جسے خاص و عام بولتے ہیں) کیا اور نام اس کا ‘‘اخلاق ہندی” رکھا۔ جو کوئی اس پر عمل کرے گا تو دل و دماغ اس کا عقل کی بو سے ہر دم تازہ ہوگا اور اکثر دانائی کی باتوں سے واقف ہو کر ہمیشہ خوش و خرم رہے گا۔
احوال کتاب کا اور ابتدائی قصہ
اب یہاں سے قصے کی بنیاد یوں ہے کہ ہند میں گنگا کنارے ایک شہر، نام اس کا مانک پور اور راجا وہاں کا چندر سین تھا اور جتنے ذات بھائی اس کے برابر کے تھے، سب اس کے حکم میں رہا کرتے۔ ایک دن راجا اپنی سلطنت کے تخت پر بیٹھا تھا اور بیٹے اُس کے بے ادبوں کی طرح سامھنے کھڑے تھے۔ ایک شخص یہ بد وضعی ان کی دیکھ کر کہنے لگا: جس کو علم نہیں وہ اندھا ہے، اگرچہ آنکھوں سے دیکھتا ہے؛ لیکن علم وہ چیز ہے کہ جس کی قوت سے مشکلیں حل ہوتی ہیں اور غنی وہ ہے جس کو علم کی دولت ہو کیوں کہ نہ اسے کوئی چور لیوے، نہ اس پر کوئی دعوی کر سکے اور نہ یہ کسی پر معلوم ہو کہ وہ رہتی ہے کہاں، بلکہ جتنی خرچ کیجیے اتنی بڑھے، کسی طرح سے کم نہ ہو۔
اور علم جواہر بے بہا اور مردوں کی زیب و زینت اور سفر حضر کا رفیق ہے۔ جس میں یہ ہو، وہ بزرگوں اور بادشاہوں کی مجلس میں بیٹھنے پاوے۔ اور سب ہنروں میں سے دو خوب ہیں: ایک علم، دوسرا فن سپہ گری۔ لیکن دونوں میں سے علم کو اچھا کہا ہے، کس واسطے جو علم لڑکا پڑھے تو سب کوئی دعا دیں، اگر بوڑھا پڑھے تو دل و جان سے سنیں، جب اس کے معنوں کو وہ سمجھاوے تو اسے دل میں جگہ دیں؛ برخلاف اس کے اگر بوڑھا تلوار چلاوے تو لوگ اس پر ٹھٹھے ماریں اور یہ کہیں دیکھو بڑھاپے میں عقل ماری گئی، دیوانہ ہو گیا۔ پس علم سیکھنے میں ہرگز کاہلی نہ کرو اور یہ خاطر میں مت لاؤ کہ اس زندگی کے واسطے اتنی محنت کیا ضرور ہے؟ سنو! اگر علم حاصل کرو گے تو خدا کی بندگی اور دین دنیا کی دولت بہ خوبی ہاتھ آوے گی اور یہ بھی خیال غفلت سے دل میں کبھی نہ لاؤ کہ ابھی ہم جوان ہیں، خدا کی بندگی کو بہتیرے دن پڑے ہیں، خاطر جمع سے کریں گے، بالفعل کام دنیا کے کریں۔ بلکہ یہ جانو کہ موت سر کی چوٹی پکڑ کے ہمیشہ خدا کے حکم کی منتظر رہتی ہے۔ جب حکم ہوا ترت گلا گھونٹ لے جاتی ہے، ایک دم فرصت نہیں دیتی۔ اے یارو! اپنے لڑکوں کو لڑکائی میں علم سکھاؤ تو ان کے دل میں وہ نقش کالحجر ہووے۔ جیسا کچے برتن پر نقش کیجیے تو وہ بعد پکنے کے کبھی دور نہیں ہوتا ہے۔
جب راجا نے یہ سب حقیقت سنی تو غم گین ہو کر سر نیچے کر لیا۔ پھر کہنے لگا: “افسوس! میرے لڑکوں میں چار چیزیں جمع ہوئی ہیں: جوانی، مال، غرور، بے ہنری۔ جو ایک چیز ان چاروں میں سے کسی میں ہو تو اسے خانہ خراب تین تیرہ کرتی ہے اور جس لڑکے کو علم نہ ہو یا علم پر عمل نہ کرے تو اس سے بیل بھلا کہ جو بوجھ اٹھاتا ہے اور بہت اس سے کام نکلتا ہے۔ یہ یاد رکھو، جب کسی مجلس میں یہ ذکر نکلے کہ اس ملک میں نیک کون اور بد کون ہے؟ اس میں جس کا نام نیکی سے لیا جاوے، وہی فرزند خلف کہلاوے اور جس شخص کا نام بدی سے لیویں تو اس کے ماں باپ بانجھ لاولد کہلاویں۔ اور کہہ گئے ہیں کہ جس پر خدا مہربان ہو اسے چھ چیزیں میسر ہوتی ہیں: پہلی ان میں سے روز بہ روز علم کی زیادتی، دوسری تندرستی، تیسری عورت نیک بخت، وفادار، شیریں زبان، چوتھی سخاوت اور خدا ترسی، پانچویں بڑی عمر اور نیک بختی، چھٹی یہ کہ ہنر جو ناداری میں کام آوے”۔
پھر اس مجلس میں سے دوسرا شخص بولا: ‘‘اے راجا! چار چیزیں لڑکا ماں کے پیٹ سے لے کر نہیں نکلتا: پہلی بڑی عمر یا چھوٹی، دوسری نیک بختی یا بد بختی، تیسری دولت یا فقیری، چوتھی ہنر یا بے ہنری۔ خدا نے تمھارے بیٹوں کو علم نصیب کیا ہے، ہنر مند ہوں گے۔ جو اندیشہ کہ خونِ دل کو تمھارے پانی کرتا ہے، ایسی دارو کیوں نہیں کھاتے جو اسے وہ دور کرے اور تمھیں ہمیشہ آرام رہے؟”
راجا نے پوچھا: ‘‘وہ کون سی دوائی ہے؟” کہا: ‘‘وہ قول خدا کا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ میں جو چاہتا ہوں، سو کرتا ہوں اور جس چیز کو کیا چاہتا ہوں، وہیں ہوتی ہے”۔ راجا بولا: ‘‘سن یار! یہ سچ ہے جو تو نے کہا لیکن باری تعالی نے آدمی کو ہاتھ، پاؤں، ہوش، گوش، عقل، شعور سب کچھ دیا۔ لازم ہے کہ تحصیل علم کے ساتھ بندگی میں خدا کی تغافل نہ کرے، کیوں کہ آدمیوں کے کام کا درست کرنے والا وہی ہے۔ جو کوئی علم کے واسطے محنت کرتا ہے خدا اس کی مشقت کو ضائع نہیں ہونے دیتا، جیسا کہ مٹی کمہار کے یہاں خود بہ خود برتن نہیں بنتی جب لگ کہ وہ اس میں پانی دے کر نہ سانے۔ اور چاک پر رکھ کے اپنے ہاتھ سے نہ بناوے، بھلا تب لگ باسن کیوں کر بنے؟” یہ دیکھ کر پھر راجا نے کہا: ‘‘اے بھائیو! تم میں کوئی ایسا دانا عقل مند ہے جو میرے لڑکوں کو علم و ہنر سکھاوے اور کُراہ چھڑا کر سیدھی راہ پر لگاوے کیوں کہ یہ مثل مشہور ہے جو درخت صندل کے پیڑ کے پاس رہے تو وہ بھی خاصیت چندن کی پکڑتا ہے۔
پیڑ صندل کا جو ہوتا ہے کسی جاگہ کھڑا
تو بہت اشجار کو ہوتا ہے اس سے فائدا
ویسے ہی اگر نادان، دانا کی صحبت میں رہے تو وہ بھی عقل مند ہوتا ہے”۔
ایک برہمن بشن سرما نام (جو اسی مجلس میں بیٹھا تھا) کہنے لگا: ‘‘اے مہاراج! میں تمھارے لڑکوں کو جہالت کے بھنور سے نکال کر علم کی کشتی میں سوار کر سکتا ہوں کیوں کہ اگر کوئی پنچھی کے پیچھے محنت کرے تو وہ بولنے لگتا ہے۔ یے تو راجا کے بیٹے ہیں۔ جو خدا چاہے تو تمھارے فرزندوں کو چھ مہینے کے عرصے میں قابل کروں گا۔” اس بات سے راجا بہت خوش ہوا اور یہ بات کہی: ‘‘اگر کیڑے پھولوں میں رہیں تو پھولوں کے سبب بزرگوں کے سروں پر چڑھتے ہیں؛ ایسے ہی جو میرے بیٹے تمھاری خدمت میں رہیں گے، حشو کم عقلی کا (جو ان کے سینے میں جمع ہوا ہے) سو دور ہو کر علم کے جواہر سے پُر ہوگا”۔ جب اس طرح برہمن کی تعریف کی اور اپنے لڑکوں کو اسے سپرد کیا، برہمن نے راجا کے ہر ایک بیٹے کا ہاتھ پکڑ اپنے گھر میں لا بٹھایا اور نصیحت کرنے لگا: ‘‘سنو اے راجا کے بیٹو! عقل مندوں کا وقت پڑھنے لکھنے اور علم کے سیکھنے میں گذرتا ہے، موجب خوشی ان کی یہی ہے۔ اور نادانوں کے دن رات بے ہودہ گوئی اور غفلت کی نیند یا پاس پڑوس کے ساتھ قضیے جھگڑے میں کٹتے ہیں، اسی میں وے خوش ہیں۔ لیکن میں تمھاری خوشی اور فائدے کے واسطے کئی ایک باتیں بہ طور تمثیل کے کوے اور کچھوے، ہرن اور چوہے کی (جو وے چاروں آپس میں یار جانی تھے) کیوں کہ ان کے سننے سے آدمی کی عقل بڑھے اور فہم زیادہ ہو”۔ تب لڑکے بولے: ‘‘کہو مہاراج! ہم سب دل و جان سے سنیں گے”۔
پہلا باب
پہلی حکایت مِتر لابھ کی یعنی فائدہ جو یاروں سے یاروں کو حاصل ہو
بشن سرما پنڈت کہنے لگا کہ اب دوستوں کے ملاپ کی باتیں کہتا ہوں۔ جو لوگ بے مقدور، دانا، مفلس اور دوست ہیں، سو وے اپنا کام ان چار جانوروں کی طرح کرتے ہیں۔ راجا کے بیٹوں نے پوچھا: ‘‘وہ کیوں کر ہے؟ اُس کا بیان جدا جدا کرو”۔
لگ پتنگ کوے اور چڑی مار کی داستان
پھر پنڈت بولا کہ گوداوری ندی کے کنارے بڑا سا ایک سینبھل کا درخت تھا۔ اُس گرد نواح کے تمام پرندے رات کو اُس پر بسیرا لیا کرتے۔ ایک روز منہ اندھیرے لگ پتنگ کوے کی آنکھ کھلی۔ دیکھتا کیا ہے کہ ایک چڑی مار کاندھے پر جال دھرے ملک الموت کی صورت بنائے چلا آتا ہے۔ یہ اپنے دل میں اندیشہ کرنے لگا کہ آج بڑی فجر کے وقت صورت منحوس نظر آئی ہے، دیکھا چاہیے کیا ہو۔ یہی کہہ کر اس شکاری کے پیچھے لگ لیا۔ آخرش کچھ ایک آگے بڑھ کر تھوڑے چاول جھولی سے نکال کر ایک جگہ پر درخت کے نیچے چِھٹکائے اور اپنے کاندھے کا جال اُس پر بچھا کر آپ ایک گوشے میں چھپ رہا۔ اس عرصے میں چتر گریو نام کبوتروں کا بادشاہ اپنی فوج کے ساتھ ہوا پر سے اس میدان میں آ پہنچا اور اُن میں سے بعضے کبوتروں کی نظر بکھرے ہوئے دانوں پر پڑی تو ہر ایک کو اُن دانوں کے چگنے کی خواہش ہوئی۔ چتر گریو اُن نادانوں کی خام طمعی کو دیکھ کر کہنے لگا: ‘‘اے یارو! بھلا ٹک غور تو کرو، اس جنگل میں دانے کہاں سے آئے؟ اگر یہاں آدمی ہوں تو کہہ سکیے کہ اُن کے کھانے کھلانے سے دانے زمین میں گرے ہوں گے، سو تو نہیں۔ اور یہ چاول جو اس درخت کے نیچے پڑے نظر آتے ہیں، سو اس میں کچھ فریب ہے۔ اگر تم دانہ کھانے کے لیے نیچے اُترو گے تو تمھارا احوال اُس مسافر کا سا ہوگا جو سونے کی پایل کے لیے چہلے میں پھنس کر بوڑھے شیر کا لقمہ ہوا”۔ کبوتروں نے پوچھا: ‘‘وہ قصہ کیوں کر ہے؟” چتر گریو نے کہا۔
حکایت بوڑھے باگھ اور مسافر کی
ایک دن میں دکھن کی طرف کسی جنگل میں چرائی کو گیا تھا۔ وہاں دیکھا کہ ایک بوڑھا باگھ منہ کعبے کی طرف کیے مؤدب ہو کر تالاب کے کنارے بیٹھا ہے۔ جو کوئی راہی مسافر اُس طرف کو ہو کر نکلتا، وہ کہتا کہ میرے پاس سونے کی پایل ہے، اُس کو میں خدا کی راہ پر دیا چاہتا ہوں۔ جو کوئی لے، میں اُسے دوں۔ لیکن مارے ڈر کے اس کے نزدیک کوئی نہ آتا۔
قضا کار ایک روز کسی مسافر اجل گرفتہ کو یہ ہوس ہوئی کہ اُس زیور کو شیر سے لیا چاہیے۔ دل میں خیال کیا ایسا مال مفت پھر کہاں ہاتھ آوے گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ میرے بخت نے یاوری کی اور طالعوں نے مدد۔ یہ سمجھ کر چاہا کہ باگھ کے پاس جاوے، پھر جان کی دہشت سے اندیشہ کرنے لگا کہ یکایک دشمن کی میٹھی بات پر بھروسا نہ کیا چاہیے۔ اگرچہ اُس کے نزدیک پایل ہے پر اُسے کیوں کر لوں۔ چنانچہ زہر کے ساتھ ہر چند شہد ملا ہو، تاہم اُس میں خطرہ جان کا ہے اور جس برائی میں بھلائی شامل ہو وہ بھی خوب نہیں۔ پھر من میں سوچا جہاں گنج تہاں مار، جہاں پھول تہاں خار۔ اور زر کے محتاج کو ہر جگہ خوف ہے۔ اب جو میں ڈر کر رہ جاؤں تو دولت میرے ہاتھ نہ آوے گی۔ آدمی اُس کے واسطے کیسی کیسی محنتیں کرتے ہیں اور کیا کیا اذیتیں اٹھاتے ہیں، تب وہ ہاتھ آتی ہے۔
آخر یہ سب سوچ بچار کر بولا: ‘‘اے شیر! وہ چیز جو للہ دیا چاہتا ہے سو کہاں ہے؟ دکھا”۔ تب اُس نے وہ پایل ہاتھ پسار کے دکھلائی۔ بٹوہی بولا: ‘‘تو باگھ میں مانُس، میرا مانْس تیرا ادھار، مجھے تیرا بھروسا نہیں، میں تیرے پاس کیوں کر آؤں؟” شیر بولا: ‘‘تو نہیں جانتا ہے کہ میں نے مانس کھانا چھوڑ دیا ہے۔ اگر گوشت کی مجھے خواہش ہو تو میں جنگل سے ہرن مار کر کیوں نہ کھاؤں اور تجھے پکڑ کر کیوں نہ کھا جاؤں؟ لیکن میں نے زہد اختیار کیا۔ اب یہ پایل میرے کس کام آوے گی۔ تجھے فقیر دیکھ کر دیتا ہوں تاکہ مجھے ثواب ہو۔ تم ہرگز خوف اپنے دل میں مت لاؤ، نِسَنگ چلے آؤ۔ جیسی میں اپنی جان جانتا ہوں ویسی ہی دوسرے کی”۔ راہی نے کہا: ‘‘اتنے آدمی اس راہ سے آئے گئے، ان کو کیوں نہ دی؟” کہا: ‘‘غنی کو دینا کیا فائدہ؟ جو زحمتی ہو اُسی کو دارو دیتے ہیں، بھلے چنگے کو دوا کھلانی لا حاصل، بھوکھے کو کھلانا موجب ثواب کا ہے”۔
اس گفتگو پر مسافر نے فریب کھایا اور کہا: ‘‘اے نیک خصال! وہ پایل مجھے دے”۔ شیر نے کہا: ‘‘پہلے تم اس تالاب میں نہا کر میرے پاس آؤ تو میں تمھیں دوں”۔ تب وہ غریب زیور کی خوشی سے جلد چشمے میں آیا۔ آتے ہی دونوں پاؤں چہلے میں پھنس گئے۔ شیر نے دیکھا اب تو یہ دلدل میں پھنس چکا، اُٹھ کر آہستہ آہستہ پکڑنے کے واسطے چلا۔ اُس نے پوچھا: ‘‘شیر! تم کہاں آتے ہو؟” شیر نے کہا: ‘‘تجھے دلدل سے نکالنے کو”۔ یہ کہتے ہی گردن جا پکڑ لی۔ بے چارے بٹوہی نے پکڑتے وقت اپنی عقل پر ہزاروں ملامتیں کیں اور کہنے لگا کہ اگر کوئی کڑوے کدو کی جڑ میں پانی کی جگہ شربت دیوے تو بھی پھل اس کا کڑوا ہی ہووے ؎
جو جا کو پڑیو سبھاؤ جاینا جیو سوں
نیم نہ میٹھو ہوے سیج گڑ گھیو سوں
اگرچہ اُس نے کتنی ایک باتیں میٹھی میٹھی مجھ غریب کے دل للچانے کے واسطے کیں لیکن جو کچھ اُس کی ذات میں تھا سو نمودار ہوا۔ اگر وہ نیک ہوتا تو بدی ہرگز ظاہر نہ ہوتی اور ایسا کام کبھی نہ ہوتا۔ چنانچہ گاے سوکھی گھاس کھاتی ہے اور دودھ میٹھا دیتی ہے لیکن دودھ اس کا بہ سبب گھاس کھانے کے میٹھا نہیں بلکہ وہ اس کی ذات سے میٹھا ہے۔ اتنا کہہ کر وہ تو مر گیا۔
چتر گریو کبوتروں کے بادشاہ نے کہا: ‘‘اے بھائیو! اگر دانہ کھانے کو درخت کے نیچے اُترو گے، جیسا کہ اُس مسافر لالچی نے اندیشہ نہ کیا، پایل کے لالچ میں اپنی جان مفت برباد دی، ویسا ہی تم بھی ان دانوں کی طمع سے گرفتار ہو کے قدر عافیت معلوم کرو گے۔ اے یارو! میں نے کبھی اس درخت کے تلے دانہ پڑا نہیں دیکھا۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ تھوڑے کھانے سے اور پڑھے بیٹے سے، اور سیانی عورت سے جو اپنے خصم کے کہنے میں ہو اور اُس آقا سے جس کو اپنی خدمت کی قوت سے اپنا کیا ہو اور سوچی ہوئی بات سے، اور جو کام عاقلوں کی صلاح سے ہوا ہو، ان چھ چیزوں سے کبھی زبونی پیدا نہ ہوگی۔ اگر اپنی بھلائی چاہتے ہو تو ان دانوں سے ہاتھ اُٹھاؤ۔
جو کبوتر اُن میں نادان تھا، اس نے کہا: ‘‘اے بھائیو! اگر ایسی بات چیت سے ہم ڈریں گے تو دانہ کہیں کھانے نہ پاویں گے۔ جہاں کہیں چرائی کو جائیں گے اگر ایسا ہی دغدغہ دل میں لاویں گے تو گویا اپنی روزی کا دروازہ اپنے ہی ہاتھوں سے بند کریں گے۔ میں تو ان دانوں کو ہرگز نہ چھوڑوں گا”۔ خیر جب سب کبوتر اس کے کہنے سے درخت کے نیچے آئے، چتر گریو بڑا عاقل تھا، اس کے نزدیک کوئی مشکل نہ رہتی اور ہر ایک کو نصیحت کیا کرتا۔ جب سب یار نیچے جا چکے، تب یہ کہا: ‘‘اب تنہا رہنا میرا بے لطف ہے۔ مرگ انبوہ جشنے دارد۔ ساتھ ان کے جو ہو سو ہو”۔ آخر وہ بھی اُتر کر جلد شریک ہوا۔ چڑی مار نے دیکھا، اب تو سب آ چکے، جھٹ سے جال کھینچ لیا، تمام کبوتر جال میں پھنس گئے۔ تب وے اُس نادان کو لعنت و ملامت کرنے لگے کہ ہم اس بے وقوف کے کہنے سے نیچے آئے تو دام میں پھنسے۔
کبوتر نادان اُن کے طعن و تشنیع سے ایسا شرمندہ ہوا جو اُس کو منہ دکھانے کی جگہ نہ رہی۔ کہا: ‘‘بزرگوں کا قول سچ ہے، اگر دس آدمی کو ایک مشکل پیش آوے تو ایک آدمی کو نہ چاہیے کہ مخالف بن کر اس میں سبقت کرے، جو بھلا ہو تو سب کہیں کہ ہم بھی اس میں مددگار تھے۔ خدا نخواستہ اگر کچھ اور صورت ہو تو ہر ایک اُسی پر گناہ ثابت کرے”۔ چتر گریو نے کہا: ‘‘اس وقت ملامت کرنی کیا فائدہ؟
ملامت روا ہے سلامت کی جا
جو وہ جا چکی ہے ملامت خطا
اے بھائیو! گناہ اور خطا کسو کی نہیں، جو کچھ خواہش الٰہی ہے وہی ہوتی ہے ؎
قضا کے ہاتھ ہیں پانچ انگلیاں وو
اگر چاہے کرے بے جاں کسی کو
رکہے آنکھوں پہ دو اور کان پر دو
اور اک رکھ لب پہ وہ بولے کہ چپ ہو
یارو! اگر دن برا آتا ہے تو نیک کام بھی بد ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ماں باپ سے زیادہ مہربان اپنے بیٹے بیٹی کے حق میں کوئی نہیں لیکن بعضے وقت ایسا ہوتا ہے کہ وہی ماں باپ اپنے فرزندوں کے دشمن ہوتے ہیں۔ مثل ہے ‘‘گوالا جب گائے کا دودھ دوہتا ہے، تب بچھڑے کے گلے کو گائے کے پاؤں سے باندھتا ہے۔ اُس وقت وہی پاؤں بچھڑوں کی بیڑی ہوتا ہے اور وہ گوالا اپنا مطلب حاصل کر لیتا ہے”۔ سنو دوستو! اب شور مت کرو، کچھ ایسا اندیشہ کرو کہ موجب ہر ایک کی مخلصی کا ہو۔ یار وہی جو برے وقت میں کام آوے۔ فراغت میں ہر کوئی کہتا ہے کہ میں تمھارا دوست ہوں۔ اگر کسی کو کچھ ضرور کام در پیش ہو اور اُس کے سبب مغموم ہووے تو اُس کو لوگ مرد نہیں کہتے بلکہ نامرد مشہور کرتے ہیں۔ مرد وہ ہے کہ جو حادثہ اُس پر پڑے تو دل اپنا مضبوط رکھے اور سوچ بچار اس بات کا کرے کہ اُس سے اپنا کام سر انجام ہووے۔ قول بزرگوں کا ہے ؎
اضطرابی ہے عبث، کلک قضا نے تیرے
لکھ دیا ہے جو نصیبوں میں وہی ہووے گا
اب ایسی فکر کیا چاہیے کہ ہر ایک اس بند سے نجات پاوے کیوں کہ عقل مندوں نے کہا ہے کہ چھ چیزیں آدمیوں کو چاہئیں: پہلی اُن میں سے یہ ہے کہ اگر کسی بلاے ناگہانی میں گرفتار ہو جاوے تو اُس سے ہرگز نہ گھبراوے۔ دوسری یہ، جو کوئی کسی کے یہاں بڑا آدمی آوے تو اس کی تواضع کرے۔ تیسری یہ، جو بات مجلس میں کہے سو بر محل کہے۔ چوتھی یہ کہ لڑائی میں دل چلاوے۔ پانچویں یہ کہ اپنے تئیں خلق کی زبان سے بچاوے اور نیک کہلاوے۔ چھٹی یہ ہے کہ علم کی تحصیل میں دل لگاوے۔
اور چھ چیزیں مرد کو نہ چاہئیں: پہلے بہت سونا، دوسرے عبادت میں کاہلی کرنی، تیسرے ہر ایک کام میں ڈرتے رہنا، چوتھے غصہ کرنا، پانچویں برا کہنا پڑوسیوں کو، چھٹے غیبت کرنی لوگوں کی اور ہنسنا اُن پر۔ اب اے بھائیو! میرے اتفاق سے کام کرو اور میری بات کو سنو تو تمھاری مخلصی ہووے”۔
کبوتروں نے کہا: ‘‘اے بادشاہ! جو پہلے تمھارا کہا ہم سنتے، ایسے فضیحت اور رسوا نہ ہوتے۔ اب جو کچھ فرماؤ سو بجا لاویں”۔ بادشاہ نے کہا: ‘‘یارو! جو دس شخص پر ایک مشکل آ پڑے، اُن میں سے ایک کو نہ چاہیے کہ مختار ہو کر اپنے تئیں نمود کرے، کیوں کہ اگر وہ کام خوب ہو تو سب کہیں کہ اُس میں ہم شریک تھے، جو بد ہو تو سب کہیں کہ فلانے نے یہ کام کیا ہے۔ اب جو کچھ ہوا سو ہوا لیکن بالفعل سب کبوتر ایک دل ہو کر ایک بارگی جال سمیت اڑو۔ چنانچہ ایک گھاس کے تنکے سے جو ایک پرند کو باندھیں تو زور سے اس طائر کے وہ تنکا ٹوٹ جاوے۔ اگر ویسے ہی بہت سے تنکے ایک جگہ کرکے رسا بانٹیں تو اس سے ہاتھی بندھا رہے، ہر چند ہاتھی زور کرے پر ہرگز نہ توڑ سکے”۔
غرض جو اس نے کہا، سو انھوں نے کیا یعنی سب زور سے جال لے اُڑے اور چڑی مار نے کئی کوس تک پیچھا اُن کا کیا۔ جب وے نظر سے غائب ہوئے، تب وہ نا اُمید ہو کر پھر گیا۔ کبوتروں نے کہا: ‘‘اے بادشاہ! شکاری نے ہمارے گوشت کھانے سے ہاتھ دھوئے، اب کیا کیا چاہیے؟” چتر گریو بولا: ‘‘یارو! دنیا میں ماں باپ درد کے شریک ہیں کیوں کہ وے اپنے دل سے دوست ہیں اور لوگ کسو سبب سے ہوتے ہیں۔ لیکن اس وقت وے کہاں ملیں؟ پر ایک میرا دوست ہرنک نام چوہا گندک ندی کے کنارے بچتر بن میں رہتا ہے، جو وہاں پہنچیں گے تو وہ تمھارے جال کے ڈورے کاٹے گا”۔ یہ سن کر سب کبوتر اُس چوہے کے بل پاس جا پہنچے اور وہ دور اندیشی سے اپنے رہنے کی جگہ میں سو بل بنا کر رہتا تھا۔ کبوتروں کو دیکھ کر چھپ رہا۔ پھر اپنے دوست کو پہچان کر کہنے لگا: ‘‘آہ ہو! میں بڑا نیک بخت ہوں جو میرے گھر پر میرا یار چتر گریو آیا”۔ پھر دیکھا کہ سب کبوتر ایک جال میں پھنسے پڑے ہیں۔ ایک لحظہ چپ رہ کر کہنے لگا: ‘‘یار! یہ کیا حال ہے؟” چتر گریو بولا: ‘‘میں کیا کہوں؟ ہمارے گناہوں کا یہ نتیجہ ہے۔ تم دانا ہو کر یہ کیا پوچھتے ہو؟” چوہا کہنے لگا: ‘‘جس شخص کو جہاں کسی سبب سے جو کچھ ہوا چاہے سو ہوتا ہے؛ چنانچہ دکھ سکھ، خوشی نا خوشی، ہر ایک کو اپنے اپنے گناہ اور نیکی کے موافق ملتی ہے”۔ یہ کہہ کر چوہا چتر گریو کی طرف کا پھندا کاٹنے کو دوڑا۔ وہ بولا: ‘‘ایسا نہ چاہیے، پہلے میرے رفیقوں کی گرہ کاٹو تس پیچھے میری”۔ چوہا بولا: ‘‘دانتوں میں قوت کم ہے، کیوں کر سب کے پھندے کاٹ کر تمھارا پھندا کاٹوں گا”۔ پھر چتر گریو نے کہا: ‘‘پہلے اُنھیں کا جال کاٹو”۔ ہرنک بولا: ‘‘اپنے تئیں ہلاکت میں رکھ کر دوستوں کو بچانا خوب نہیں۔ بزرگوں نے کہا ہے مال کو اور دوستوں کو واسطے دفع بلیات کے رکھتے ہیں، یعنی جان کو دولت اور لواحقوں سے بچاتے ہیں۔ اپنی جان کی محافظت ہر ایک شے پر مقدم جاننا چاہیے کیوں کہ اس کے سبب دین و دنیا کا کام انجام پاتا ہے”۔ چتر گریو بولا: ‘‘اے دوست! تو جو کہتا ہے سو دنیا کا یہی دستور ہے لیکن میں اپنے لواحقوں کا دکھ دیکھ نہیں سکتا۔ آگے بھی لوگ کہہ گئے ہیں کہ دانا غیر کے واسطے جان اور دولت دیتا ہے۔ پس غیر کے لیے اپنی دولت اور زندگی سے ہاتھ اٹھانا مناسب ہے اور یے سب ذات اور زور میں میرے برابر ہیں۔ پس میری بزرگی سے فائدہ ان کو کیا ہوگا؟ بغیر اُجرت کے میری رفاقت میں رہتے ہیں؛ اس میں اگر میری جان جاوے اور ان کی مخلصی ہووے تو مجھے قبول ہے، کیوں کہ اس جسم فانی کا کچھ اعتبار نہیں۔ جو اس سے دنیا میں بھلائی رہے تو بہتر ہے، کس واسطے کہ وہ تو ایک دم میں فنا پذیر ہے اور یہ ہزاروں برس رہتی ہے”۔
یہ بات ہرنک سن کر بہت خوش ہوا اور کہا: ‘‘صد آفریں تم کو کہ اپنے رفیقوں پر تمھارا یہاں تک دل ہے”۔ خیر ہرنک چوہے نے ہر ایک کبوتر کے پاؤں کے پھندے کاٹ کر تعظیم و تکریم سب کی کی۔ پھر چتر گریو کی طرف متوجہ ہو کر کہا: ‘‘سن یار! جال میں گرفتار ہونے کا افسوس نہ کرنا کیوں کہ ہرج مرج سب پر یوں ہیں ہوتا چلا آتا ہے”۔ بولا: ‘‘اگر ہم دانا ہوتے تو جال میں چڑی مار کے نہ پھنستے”۔ ہرنک کہنے لگا: ‘‘دیکھو کرگس نزدیک آسمان کے اُڑتا ہے اور تکا گوشت کا جو دیکھے تو اُسی وقت نیچے آتا ہے۔ اگر کسو نے وہاں جال بچھایا ہو تو کیا جانے؟ کیوں کہ خدا کے کام میں عقل ضعیف کا کیا مقدور جو دخل کر سکے۔ روز بد کی تاثیر ایسی ہے جو چاند سورج چاہیں کہ اپنے تئیں گہن سے بچاویں تو بچا نہیں سکتے”۔ ہرنک نے دو چار باتیں نصیحت اور دلاسے کی کر کے مہمانی کھلا پلا اُسے وداع کیا اور دونوں یار آپس میں بغل گیر ہو کر آنکھیں بھر لائے اور چوہے نے مخدوم شیخ سعدی کا یہ شعر پڑھا ؎
چشم و دل سعدی کے تیرے ساتھ ہیں
جانیو تو مت کہ تنہا ہوں چلا
چتر گریو بادشاہ کبوتروں کا لشکر سمیت اپنے ملک کی طرف چلا اور ہرنک اپنے بل میں گھسا۔
پھر وہی لگ پتنگ کوا کہ جس کا مذکور پہلے ہوا اور اُس چڑی مار کا منہ، منہ اندھیرے دیکھ کر ساتھ لگ لیا تھا۔ اُس نے تمام احوال (جو کبوتروں پر گذرا تھا) دیکھا تو حیران ہو کر کہا: ‘‘سبحان اللہ! دیکھو تو محبت اور دوستی میں کتنا بڑا فائدہ ہے کہ کس برے وقت میں یار کام آیا ؎
بیل کیچڑ میں پھنسے کو چاہیے ہاتھی قوی
یار درماندے کی کرتا ہے مدد یارِ دلی
وہ کوا چوہے کے بل کے پاس آیا اور نرم نرم آواز سے کہنے لگا: ‘‘اے ہرنک! میں نے اتنا سفر کیا ہے لیکن تم سا یار وفادار دنیا میں کہیں نہیں دیکھا۔ میری ایک عرض ہے جو قبول کرو تو کہوں؟” جب چوہے نے آواز کوے کی سنی تو سوراخ سے بولا: ‘‘تو کون ہے اور کہاں سے آتا ہے؟” کہا: ‘‘میں لگ پتنگ نام کوا ہوں۔ اب یہ چاہتا ہوں کہ تم سے دوستی کروں”۔ چوہا بولا: ‘‘میں چوہا تُو کوا، میں تیری خوراک، تو میرا کھانے والا۔ پس ہماری تمھاری دوستی کیوں کر بن پڑے؟ جاؤ کسی کوے یا اور کسی پنچھی سے دوستی کرو۔ اگر میں تم سے دوستی کروں تو وہ مثل ہو جیسا کہ گیدڑ اور ہرن میں بہ سبب یاری کے ہوئی”۔ کوے نے پوچھا کہ اُن کا قصہ کیوں کر ہے؟ چوہے نے کہا۔
حکایت سبدھ کوے اور ہرن اور چھدر بُدھ گیدڑ کی
میں نے سنا ہے کہ پورب کی طرف گنگا کے کنارے چنپاوتی نام ایک نگری ہے۔ اس کے نزدیک ایک جنگل ہے۔ اُس میں ایک کوا اور ہرن دو یار جانی رہا کرتے تھے۔ ہرن خوب تازہ توانا تھا۔ ایک گیدڑ اُس کے مٹاپے کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور دل میں اپنے ٹھہرایا کہ پہلے اس ہرن سے روباہ بازی کیا چاہیے، تس کے پیچھے اس کے گوشت سے اپنی ڈاڑھ کو گرم کیجیے۔ یہ نیت کر کے ہولے ہولے ہرن کے پاس آیا اور کہا: ‘‘السلام علیکم اے ہرن! خیر و عافیت؟”، ہرن بولا: ‘‘تو کون ہے؟” کہا: ‘‘میں گیدڑ ہوں، نام میرا چھدر بدھ ہے، اس جنگل میں بغیر دوست کے جیوں مردہ پڑا رہتا ہوں۔ اب تم سے جو ملاقات ہوئی ہے تو اپنے تئیں میں نے جیتوں کی دفعہ میں شمار کیا اور جانا کہ اب میرے قالب میں جان آئی”۔
اسی گفتگو میں تھے کہ سورج کے قاز نے دریاے نیل سے اُڑ کر کنارے میں جا غوطہ مارا اور پیچھے سے باز کالی رات کا نمودار ہوا۔ ہرن جہاں رات کو رہتا تھا وہاں گیا۔ گیدڑ بھی اُس کے پیچھے لگا ہوا اُس کے ڈیرے لگ چلا گیا۔ وہاں ایک درخت چنپا کا تھا اور ایک سبدھ نام کوا ہرن کا قدیم دوست تھا۔ دیکھتے ہی بولا: ‘‘اے یار! یہ دوسرا کون ہے جو تم اپنے ساتھ کر لائے ہو؟” کہا: ‘‘یہ گیدڑ ہے اور نیک ذات معلوم ہوتا ہے اور مجھ سے دوستی کیا چاہتا ہے”۔ کوے نے کہا کہ جس سے کہ آشنائی نہ ہو اُس کی بات کو یک بیک نہ سنا چاہیے اور اپنی جگہ میں رہنے نہ دیجیے۔ مگر تُو نے بات اُس کرگس اور بلی کی نہیں سنی؟ اُس نے پوچھا: ‘‘وہ کیوں کر ہے؟” کوے نے کہا۔
نقل ایک گدھ اور بلی کی
میں نے یوں سنا ہے کہ بھاگ رتھی ندی کے کنارے ایک پہاڑ ہے، اُسے گرد کوٹ کہتے ہیں اور اُس پر ایک بڑا درخت سینبل کا تھا۔ اس کے کھولڑ میں ایک بوڑھا ضعیف گدھ برسوں سے رہا کرتا تھا۔ اس کے پر و بال میں اتنی طاقت نہ تھی جو کہیں اِدھر اُدھر کھانے پینے کے واسطے جایا کرے۔ لیکن اکثر پرندے جو اس درخت پر رہا کرتے تھے، ہر ایک جانور کھانے کی چیز اس کے لیے اپنی چونچ میں لایا کرتا۔ اسی صورت سے کرگس اپنی گزران ہمیشہ کیا کرتا۔
ایک دن ایک بلی اُس تاک پر وہاں آئی کہ اُن جانوروں کے بچے کھایا چاہیے۔ بچوں نے اسے دیکھ کر شور ڈالا۔ گدھ کو بڑھاپے کے سبب آنکھوں سے نہ سوجھتا تھا۔ بچوں کا غوغا سن کر اُس جوف سے سر نکالا اور کہا کہ تُو کون ہے جو یہاں چلا آتا ہے؟ بلی نے جو کرگس کو دیکھا تو ڈری کہ یہ جانور بڑا ہیبت ناک ہے۔ اپنے دل میں کہا کہ اب میں ماری گئی کیوں کہ جگہ بھاگنے کی نہ رہی۔ پس یہی بہتر ہے کہ اُس کے نزدیک جا کر کچھ بات بنائیے کہ دل اس کا فریفتہ ہو۔ آہستہ آہستہ کرگس کے پاس آ کر سلام کیا۔ اُس نے پوچھا: ”تو کون ہے؟” اُس نے غریبی سے کہا: ‘‘میں غریب بلی ہوں”۔ کہا: ‘‘اگر تو بلی ہے تو یہاں سے جلد بھاگ، نہیں تو میں ہوں بھوکھا، تیرا لہو پی جاؤں گا”۔ اُن نے کہا: ‘‘میں ایک بات تم سے کہتی ہوں۔ جو مارنے کے قابل ہوں تو مجھے مار ڈالیو اور نہیں تو چھوڑ دیجیو”۔ وہ بولا: ‘‘جو تیرے دل میں ہو سو ظاہر کر”۔ بولی کہ سنو صاحب! آدمی بد ذات اور نیک ذات قول و فعل سے پہچانا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ بات درست ہے جو سب کہتے ہیں کہ بلی جانور کی مارنے والی اور مانسادھاری ہے۔ اگر یہ بات دل میں لا کر مجھے مار ڈالو تو تمھاری بزرگی معلوم ہوئی؛ پر شاید تم نے میرے زہد کا احوال کسو سے نہیں سنا کہ میں بغیر اشنان کچھ کام نہیں کرتی ہوں اور گوشت کھانا بالکل جانوروں کا چھوڑ دیا ہے کہ اپنی اور دوسرے کی جان برابر جانتی ہوں، خدا کی بندگی میں رہتی ہوں۔ اب یہ عاجزہ تمھاری خدمت میں آئی ہے۔ جب یہاں سے اکثر جانور دانہ چگنے کے واسطے گنگا کے کنارے جاتے تھے، اُن کی زبانی آپ کے اوصاف سن کر دل اس عاصی کا نہایت راغب ہوا کہ ایسے بزرگ کے قدم دیکھا چاہیے، کہ جتنے گناہ اپنے میں ہوں سو دور ہو جاویں۔ اس نیت سے آپ کے قدم آ دیکھے ہیں اور تم میرے مارنے کا قصد رکھتے ہو۔ ایسا کسو نے نہیں کیا جیسا تم کیا چاہتے ہو۔ اگر کوئی کلہاڑی ہاتھ میں لے کر درخت کاٹنے کے واسطے آتا ہے اور وہ اُس کی چھاؤں میں بیٹھتا ہے، درخت اپنی بڑائی سے چھاؤں اُس کے سر سے دور نہیں کرتا۔ میں تیری ملاقات کے واسطے اتنی راہ طے کر کے آئی ہوں اور تو چاہتا ہے کہ مجھے مار ڈالے؟ اگر مہمان کسی کے گھر جاتا ہے، جو صاحبِ خانہ مہمانی نہیں کرتا تو تیری طرح کڑوی بات بھی نہیں کہتا۔ اگر بہت مدارات نہیں کرتا بھلا تھوڑا ٹھنڈا پانی پلاتا ہے اور میٹھی بات تو کہتا ہے۔ جہاں کہیں صاحب درد ہے، اگر اُس کے پاس کوئی ہنر مند یا بے ہنر جاتا ہے تو دونوں پر برابر نظر رکھتا ہے۔ جیسا کہ آفتاب اپنی شعاع سے کسی کو محروم نہیں رکھتا۔ یہ نہیں کرتا کہ بڑے آدمی کے گھر پر اجالا کرے اور چھوٹے آدمی کے گھر پر اندھیرا۔
جب دل کرگس کا اس کی باتوں سے نرم ہوا، تب کہا: ‘‘اس درخت پر جانوروں کے بچے ہیں، واسطے احتیاط کے اتنی تجھے باتیں کہیں، اپنے دل میں کچھ نہ لانا”۔ بلی دونوں ہاتھ اپنے کان پر رکھ کے کہنے لگی: ‘‘استغفر اللہ! یہ بات تو نے کہی، اگر کوئی اور کہتا تو میں اس پر زہر کھاتی کیونکہ میں نے بہت علم کی کتابیں پڑھی ہیں اور خدا کی راہ خوب معلوم کی ہے اور عالموں، فاضلوں اور دین داروں سے سنا ہے کہ کسی کا دل آزردہ کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ جو کوئی جانور کو مار کر اس کا گوشت کھاوے، جب لگ وہ اس کی زبان پر ہے تب ہی تک مزہ پاوے۔ جب حلق کے نیچے اترا تو کچھ نہیں۔ اور یہ نہیں جانتا کہ وہ غریب اپنی جان سے جاتا ہے اور جان اس کی کس مشکل سے نکلتی ہے۔ بھلا اس میں کیا لطف ہے؟ یہ نہیں جانتا کہ کل کو حساب دینا ہوگا اور اس کے جواب سے کیونکر عہدہ برا ہوگا؟ حیوان کو اذیت دینے کی اور چیونٹی کی جان مارنے کی سزا اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ پس چاہیے کہ اپنی جان سے چیونٹی کی جان کو بہتر جانے کیونکہ مرنا برحق ہے۔ جب لگ ہو سکے بدی نہ کرے”۔
بلی کی پر فریب باتوں نے دل گدھ کا ملائم اور نرم کیا۔ خیر بعد اس جواب و سوال کے وہ بلی وہاں رہنے لگی۔ دو ایک دن رہ کر یہ مکار ہولے ہولے جا کر دو تین بچوں کو پکڑ لائی۔ کرگس بچوں کی آواز سن کر بولا: ‘‘ان بچوں کو تو کیوں لائی؟” کہا: ‘‘میرے بھی دو تین ایک لڑکے ہیں۔ بہت دن ہوئے میں نے انھیں نہیں دیکھا۔ میرا دل ان میں لگ رہا ہے۔ اکثر ان کو یاد کر کر کے روتی ہوں۔ اس واسطے انھیں لائی ہوں کہ جو ان کی جگہ ان کو دیکھ کر مرا دل پیچھے پڑے”۔ گدھ نے جانا کہ بلی سچ کہتی ہے اور بلی نے ان بچوں کو لا کر کھا لیا۔ پھر اسی طرح سے ایک ایک دو دو لاتی تھی اور کھاتی تھی، یہاں تک کہ سب کو تمام کیا اور اپنی راہ لی۔
جب سب پرندے اس درخت کے رہنے والے اپنے اپنے گھونسلے میں آئے تو بچوں کو تلاش کرنے لگے کہ ہمارے بچوں کو کون لے گیا؟ جب بہت سی جستجو کی تو بچوں کی کچھ ہڈیاں درخت کے نیچے اور کچھ گدھ کے کھنڈھلے میں پائیں، تب تو سب کو یہی یقین ہوا کہ بچوں کو اسی گدھ نے کھا لیا یے۔ اپنی کوکھ کی آگ سے ہر ایک جانور بے تاب ہو کر اس گدھ کو مارنے لگا، یہاں تک چونچیں ماریں کہ اس بے چارے کو مار ہی ڈالا۔
یہ کہہ کر کوے نے کہا: ‘‘اے ہرن! غیر آشنا کو اپنے گھر میں راہ دینے سے یہ فائدہ ہوتا ہے”۔ گیدڑ یہ بات سن کر غصے ہوا اور بولا: ‘‘اے کوے! ترا سبدھ نام ہے پر تجھ میں کچھ عقل نہیں ہے کیونکہ کوئی شخص دوستی ماں کے پیٹ سے نہیں لے نکلتا۔ پہلے جب تجھ سے اور اس ہرن سے ملاقات ہوئی تھی، نہ تو اسے پہچانتا تھا نہ وہ تجھے۔ جب تم دونوں ایک جگہ رہنے لگے تو روز بہ روز دوستی زیادہ ہوئی۔ جو اچھے لوگ ہیں وے سب کو دوست جانتے ہیں۔ یہ کام منافقوں کا ہے جو کسی کو دوست اور کسی کو دشمن جانے۔ ہم ایک ہی گھر کے غلام ہیں، جیسا کہ ہرن میرا دوست ہے ویسا ہی تو بھی بلکہ اس سے بہتر”۔ پھر ہرن بولا: ‘‘اے سبدھ! فی الحقیقت ہم سب آپس میں بھائی ہیں، جیسا کہ کلام مجید میں بھی آیا ہے۔ اس کا حاصل یہی ہے کہ ‘‘سب مومن آپس میں بھائی ہیں”۔ اگر یہ گیدڑ چاہتا ہے کہ ہماری صحبت میں رہے تو اس میں ہمارا کیا نقصان ہے؟ جتنے یار آشنا کسی کے زیادہ ہوں تو گویا اس کی دولت زیادہ ہوئی”۔ یہ سن کر کوے نے یہ مصرع پڑھا ؏
یار جانی کی خوشی گر اس میں ہے تو خوب ہے
اسی گفتگو میں رات کٹ گئی، چاند چھپ گیا اور سورج نکل آیا۔ تینوں یار کوا، گیدڑ، ہرن اپنی اپنی چرائی کی جگہ جاتے۔ ہر روز اسی طرح ایک طرف سے چر چگ آتے اور ایک جگہ میں آ کر سو رہتے۔ یوں اوقات بسری کیا کرتے۔ ایک روز شغال بد باطن (جو ہرن کے گوشت پر دانت لگا رہا تھا) ایک جَو کا کھیت تر و تازہ (کہ جس میں کسان نے ہرن پکڑنے کے واسطے کَل لگائی تھی) دیکھ کر دوڑا آیا۔ ہرن کو ایک طرف لے کے کہا: ‘‘سن یار! تو سوکھی گھاس کھاتا ہے، مجھ سے دیکھا نہیں جاتا، مجھے کمال قلق رہتا ہے۔ آج ایک جو کا ہرا کھیت تمھارے لائق دیکھ آیا ہوں اور خاطر جمع سے بے کھٹکے چرو تو دل میرا ٹھنڈا ہو اور آنکھیں روشن”۔
فجر ہوتے ہی دونوں چلے۔ جب کھیت کے نزدیک پہنچے، گیدڑ بولا: ‘‘جاؤ، جی بھر کے کھاؤ”۔ ہرن ہیے کا اندھا، کھیت کی ہریاول کو دیکھ بے تامل دوڑا اور بے اندیشے کھانے لگا، اسی وقت پھندے میں پھنس گیا۔ گیدڑ بد ذات دل کی خوشی سے لگا ناچنے اور اپنے ہاتھ پاؤں کو لگا دے دے مارنے۔ آہو نے جانا کہ میرے گرفتار ہونے کے سبب اپنی جان کھوتا ہے۔ یہ نہ جانا کہ ‘‘صوفی دستر خوان کو دیکھ کر کودتا ہے”۔ ہرن بولا: ‘‘اے یار! میرے واسطے کیوں اپنے تئیں ہلاک کرتا ہے؟ کیا تمھیں معلوم نہیں جو تمھارے دانت فضل الہی سے تلوار کی دھار سے بھی تیز ہیں؟ اس پھندے کی رسی کو کیوں نہیں کاٹ ڈالتے ہو؟” گیدڑ بولا: ‘‘اے میری آنکھوں کے تارے! میں بسر و چشم حاضر ہوں لیکن آج میں نے روزہ رکھا ہے اور یہ دام چمڑے کا، جو دانت لگاؤں تو روزہ مکروہ ہوگا۔ شب درمیان ہے، کل صبح کو جو کچھ اپنی نجابت ذاتی کے موافق ہوگا، سو آپ کی خدمت سے قصور نہ کروں گا۔ ”
رات تو یوں گذری۔ جب فجر ہوئی، اُس سبدھ کوے نے اپنے یار قدیم ہرن کو نہ دیکھا۔ دل میں اندیشہ کیا کہ آج رات میرا یار مکان پر نہیں آیا، مجھے یے آثار بھلائی کے نہیں نظر آتے۔ دیکھیں تو کیا صورت ہے؟ یہ کہہ کر ہر طرف ڈھونڈنے لگا۔ دیکھتا کیا ہے کہ ایک جگہ دام میں ہرن گرفتار ہے۔ اپنا سر زمین سے دے مارا اور آہ مار کر کہنے لگا کہ میں نے تمھیں نہیں کہا تھا کہ یہ گیدڑ بدبخت شریر ہے۔ جو کوئی اپنے یار کا کہا نہ کرے، یہی خرابی کا دن اس کے آگے آتا ہے۔ اب وہ تیرا یار گیدڑ کہاں ہے؟ کہا: ‘‘میرے گوشت کا بھوکھا یہاں کہیں بیٹھا ہوگا”۔ بولا: ‘‘خیر جو کچھ ہونی تھی سو ہوئی، اب تیں اپنے تئیں مردہ بنا کر دم سادھ جا۔ جب میں بولوں، تب تو اٹھ بھاگیو”۔ ہرن نے وہی کیا جو کوے نے کہا۔ اتنے میں کھیت والا جب اس کے پاس آیا اور دیکھا کہ ایک موا ہوا ہرنا موٹا سا دام میں پھنسا ہے، بہت افسوس کیا۔ جو میں اسے زندہ پاتا تو کیا خوب ہوتا۔ ہولے ہولے اس کے گلے کا بند کاٹ کر اسے تفاوت کر دیا اور آپ جال اٹھانے کی فکر میں لگا۔ اس نے چھٹکارا پایا۔ اس میں کوا بولا تو یہ اٹھ کر بھاگا۔
اس نے دیکھا کہ ہرنا چلا گیا۔ ایک ختکا اس کے ہاتھ میں تھا، بھاگتے کے پیچھے پھینکا۔ گیدڑ جو وہاں اس کے لہو کا پیاسا دبکا ہوا بیٹھا تھا، اس کے سر میں جا لگا؛ لگتے ہی یہ تو کھیت میں رہا، وہ سلامت نکل گیا۔ بزرگوں نے کہا ہے: ‘‘جو کوئی کسی کے واسطے کوا کھودتا ہے تو وہی گرتا ہے” ؎
جس نے اوروں کے لیے کھودا کوا
ہے یقیں اس میں وہی جا کے گرا
غرض آہو اور کوا ایک جگہ ہو کر بہت خوش ہوئے۔ کوا ہرن سے کہنے لگا کہ دشمن کی چال اور مچھر کی ایک جانو۔ اکثر پہلے تو پاؤں پر آ بیٹھتا ہے، پھر پیٹھ پر، تس پیچھے کان کے پاس آ کر بولتا ہے۔ اگر کھلا بدن پاوے یا کپڑے میں کہیں سوراخ نظر آوے تو وہیں گھس کر لہو پینے کے لیے کاٹتا ہے۔ ایسا ہی دشمن بھی جو سختی نہ کر سکے تو نرمی سے پیش آوے اور پاؤں پر گرے، اور کان میں بات ملائم کہے اور دل میں اپنی جگہ کرے۔ جب رخنہ کہیں پاوے تو اپنا کام کر گذرے۔
الغرض چوہے نے جب قصہ تمام کیا تو یہ بات کہی: ‘‘اے زاغ! میں جانتا ہوں تو میرے خون کا پیاسا ہوا ہے”۔ کوا بولا: ‘‘تمھارے گوشت کھانے سے میری حیات ابدی نہ ہوگی اور دولت بے زوال کچھ میرے ہاتھ نہ آوے گی۔ اس بات کو تم سچ ہی جانو کہ میں اپنے دل و جان سے تمھاری دوستی کا خواہاں ہوں، جیسی کہ چتر گریو کے اور تمھارے درمیان محبت تھی، کیوں کہ میں نے تم سا یار وفادار کہیں نہیں دیکھا۔ بھلے آدمیوں سے دوستی کرنی بہتر ہے، اس واسطے کہ وے خاصیت دریا کی رکھتے ہیں۔ جیسا کہ وہ عمیق ہے، ایسے ہی یے بھی گمبھیر ہیں۔ اگر کوئی آگ دریا میں ڈالے تو وہ ہرگز گرم نہیں ہوتا اور نیک مرد بھی کسی کی بری بات سے ہرگز خفا نہیں ہوتے۔ میں نے تمھارا احوال خوب دریافت کیا۔ تم نیک بخت ہو، تمھاری نیک خصلت پر میں عاشق ہوا ہوں”۔ چوہا بولا: ‘‘میں نے تجھے کئی بار کہا کہ میں دوستی تجھ سے کیوں کر کروں؟ میری تیری دوستی گویا آگ پانی کی سی ہے۔ ہر چند آگ پانی کو ہانڈی میں لے کے اپنے سر پر رکھ کر گرم کرتی ہے لیکن وہ اس کی عداوت سے ہاتھ نہیں اٹھاتا۔ جب دونوں اکٹھے ہوئے تو وہ اسے بجھا ہی دیتا ہے۔ اے زاغ! تیرا کیا اعتماد؟ جیسا تو باہر سے کالا ہے ویسا ہی اندر سے۔ میں تیری غذا ہوں، تو جہاں مجھے پاوے کھاوے۔ تجھ سے محبت کا لگاؤ کیوں کر ہو سکے؟” کوا بولا: “جو تو نے کہا سو میں نے سنا۔ اب میں نے اپنے اوپر لازم کیا ہے کہ تیری ہی رفاقت میں رہوں۔ اگر تیں قبول نہیں کرے گا تو تیرے دروازے پر اتنے فاقے کھینچوں گا کہ میری جان کی طوطی اس خاک کے پنجرے سے پرواز کرے گی۔ تو بھلا مانس ہے۔ اگر تیرے ساتھ میری دوستی ہوگی تو کبھو تفاوت نہ پڑے گا، کیوں کہ مصاحبت رزالے کی کیسی ہے جیسے مٹی کا برتن۔ ذرا سی ٹھیس میں ٹوٹ جاوے۔ اور رفاقت اشراف کی مثل ظرف مسی کے ہے؛ کیسا ہی صدمہ پہنچے تو بھی نہ ٹوٹے؛ اگر کہیں چوٹ کھاوے تو وہیں درست ہو سکے۔ اے چوہے! اکثر چار پاے جانور کچھ کھلانے سے اپنے ہوتے ہیں اور نادان کم عقل طمع اور حرص سے دوستی اختیار کرتے ہیں۔ لیکن جہاں کہیں مرد عاقل اور زیرک ہیں، سو وے بہ سبب نرم دلی کے ملاقات کرتے ہیں اور مہربان ہوتے ہیں۔ اور تو ایسی خوبی رکھتا ہے کہ میں تمام ملک میں پھرا پر تجھ سا یار وفادار میرے دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس واسطے میں چاہتا ہوں کہ تجھ سے ربط دوستی کا اور رشتہ محبت کا پیدا کروں”۔
چوہے کا دل ان باتوں سے نہایت ملائم ہوا اور اپنے سوراخ سےباہر آیا۔ ملاقات کر کے کہا: ”اے عزیز! تو نے میری جان کے سوکھے درخت میں گویا میٹھا پانی دیا اور میرے دل کو نہایت خوش کیا۔ اب تو میرا یار جانی ہوا، آ تجھ سے بغل گیر ہوں۔ دونوں آپس میں مل کر بہت خوش ہوئے۔ چوہے نے مہمانی اس کی تکلف سے کی۔ جب کھا پی کے فارغ ہوئے تو یہ اپنے بل میں آیا، وہ اپنی جگہ پر کیا۔ پھر وے دونوں یار دن کو آپس میں ہر روز ایک جگہ ہوا کرتے اور چرنے چگنے کے لیے ہر ایک طرف جایا کرتے، پر رات کو ایک مقام میں رہا کرتے۔ اگر کوا کچھ اچھی چیز کھانے کی پاتا تو چوہے کے واسطے اکثر لاتا۔ اسی طرح اس میدان میں اوقات بسری کیا کرتے۔
بعد ایک مدت کے کوا کہنے لگا کہ یار! اب تو کچھ کھانے پینے کی چیزیں اس اطراف میں نہیں ملتیں، جو ملتی بھی ہیں تو بڑی محنت اور دوڑ سے۔ میں اب یہ چاہتا ہوں کہ یہاں سے دوسری جگہ چلیے اور وہاں چل کر فراغت سے گزران کیجیے۔ ہرنک چوہے نے اسے جواب دیا کہ سن یار! بغیر دیکھے سنے دوسری جگہ کیوں کر جاویں؟ اقتضا دانائی کا یہ ہے کہ پہلے اپنے واسطے مکان تلاش کیجیے، جو خاطر خواہ جگہ ملے تو قدیم مکان کو چھوڑ دیجیے، نہیں تو اسی جگہ میں بھلی بری طرح سے دن کاٹیے۔ کوا بولا: ‘‘ایک مکان میرا دیکھا ہوا ہے، اسی کو میں نے ٹھہرایا ہے”۔ چوے نے کہا: ‘‘وہ کہاں ہے؟” کوا کہنے لگا کہ دنڈ کارن ایک جنگل ہے۔ اس میں کاویری ندی اتر سے دکھن کو بہتی ہے۔ متھرک کچھوا میرا قدم یار وہاں بارہ برس سے رہتا ہے۔ وہاں پہنچ کر جو غذا درکار ہوا کرے گی سو اس سے طلب کیا کریں گے۔ یقین ہے کہ اس کے وسیلے سے خدا ہم کو روزی پہنچایا کرے گا۔ تب چوہا بولا کہ اگر تمھارا ارادہ مصمم ہے کہ یہاں کی سکونت سے ہاتھ اٹھاؤ تو میں تنہا یہاں کیوں کر رہوں گا، مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو۔ اس واسطے کہ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ جس ملک میں خاوند بینا، اور چرچا علم کا، اور عاقل دور اندیش، اور حاکم عادل و طبیب کامل اور دوست جانی نہ ہو وہان بود باش اختیار نہ کیا چاہیے۔ چنانچہ اس کے آگے میرا پرانا یار چتر گریو کبوتروں کا بادشاہ چلا گیا اور میں یہاں اکیلا رہ گیا۔ اور تس پیچھے تو میرا یار ہوا، اب تیں بھی یہاں سے جایا چاہتا ہے؛ پس ایسے تنہائی کے دن میں کیوں کر کاٹوں گا؟ بار! اگر تو جاتا ہے تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے چل۔
زاغ نے جب چوہے سے یہ احوال سنا، تب آپس میں متفق ہو کر اس ندی پر گئے۔ کچھوا ان دونوں کو دور سے آتے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ آگے بڑھ کر ملاقات کی اور خیر و عافیت پوچھی۔ کوے نے بھی جواب دیا۔ کچھوے نے کہا: ‘‘یہ دوسرا تمھارے ساتھ کون ہے؟” زاغ بولا: ‘‘یہ وہ چوہا ہے کہ جو میرے ہزار زبان ہو تاہم اس کی تعریف نہ کر سکوں اور نام اس کا ہرنک ہے”۔ پھر سنگ پشت دوبارہ گرم جوشی سے بغل گیر ہوا۔ مثل ہے کہ بڈھا، جوان، لڑکا کوئی ہو، جو اپنے گھر آوے تو اس کی تعظیم و تکریم کرنی ضرور ہے، کیوں کہ مہمان کی بزرگی ہر ایک متنفس کے نزدیک ثابت ہے۔ اور یہ کہاوت ہے کہ اگر چھوٹا آدمی بڑے کے گھر آوے تو اس کی بھی تواضع لازم ہے اور چتر گریو کا تمام قصہ کہہ سنایا۔ تب کچھوے نے خوب سی ضیافت کی اور بعد کھلانے پلانے کے پوچھا کہ حضرت سلامت! تم نے اپنی جگہ کو کیوں چھوڑا اور اس بڑے جنگل میں۔کیوں آئے؟ اس کا سبب بیان کیجیے۔ چوہا کہنے لگا کہ سن اے ندی کے راجا! چندر نام ایک پہاڑ ہے۔ اس کے نیچے ایک بستی ہے۔ اس کا نام چنپا پور، اکثر جوگی وہاں رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک چورا کرن نام جوگی کے گھر میں میں اپنا بل بنا کر رہتا تھا۔ وہ جوگی ہر روز اس شہر میں بھیک مانگ کر کچا پکا اناج لایا کرتا۔ کھا پی کر جو بچتا تو کوٹھری کے اونچے طاق پر رکھتا اور میں اپنے بل سے سر نکال کر جھانکتا رہتا۔ جب وہ سوتا تو میں سوراخ سے باہر آتا اور اچھل کر طاق پر جا رہتا۔ اچھی طرح خاطر جمع سے کھاتا اور باقی جو رہتا سو اسے ضائع کرتا اور کہیں نہ جاتا، وہیں اپنی زندگی بسر کیا کرتا۔
ایک دن چورا کرن جوگی لاٹھی ہاتھ میں لے کر میرے بل کے پاس آیا، اس کے منہ کو کھٹکھٹانے لگا۔ اس وقت ایک بنیا کرن نام دوست دار قدیم اس کا اس کے گھر آیا اور یہ اس ٹھک ٹھکانے کی فکر میں ایسا لگ رہا تھا کہ اس کی طرف متوجہ نہ ہوا۔ تب وہ بولا کہ میں تمھاری ملاقات کے واسطے آیا ہوں اور اختلاط کیا چاہتا ہوں اور تم میرے ڈرانے کے لیے ہاتھ میں لکڑی لیے بیٹھے ہو۔ تب جورو چورا کرن کی یہ صورت دیکھ کر کہنے لگی کہ آج بنیا کرن مدت کے بعد آیا ہے۔ اس کی تعظیم کر، اس کا احوال پوچھ اور اپنی حقیقت اس سے کہہ۔ چورا کرن بولا: ‘‘میری یہ حرکت بے جا نہیں۔ اس بل میں ایک چوہا ہے۔ جو چیز کھانے کی طاق پر رکھتا ہوں، وہاں وہ اچھل کر جاتا ہے، جو کھاتا ہے سو کھاتا ہے اور باقی کو رائگاں کرتا ہے”۔ بنیا کرن بولا کہ وہ جگہ ذرا مجھے دکھاؤ۔ کہا: ‘‘دیکھو یہی ہے وہ طاق”۔ اس نے دیکھ کر کہا کہ یہ اتنا اونچا ہے کہ اس پر بلی بھی زغند نہ مار سکے اور چوہے کی تو کیا تاب و طاقت کہ اس طاق پر جست کرے۔ یہ ہرگز بے سبب نہیں۔ شاید اس کے نیچے جہاں وہ رہتا ہے، کچھ نہ کچھ مال ہوگا۔ یہ قوت بغیر مال کے نہیں ہوتی۔ چنانچہ ایک بوڑھے بنیے کی جوان جورو نے اپنے خصم کے لگا تار کئی بوسے لیے۔ یہ حرکت اس کی حکمت سے خالی نہ تھی۔ چورا کرن نے پوچھا: ‘‘وہ بات کیوں کر ہے؟” بنیا کرن کہنے لگا۔
نقل چندرسین بنیا اور کیلاوتی بنیے کی بیٹی اور منوہر بقال کی
ہندوستان کی کسی سر زمین میں ایک شہر ہے۔ اس میں چندر سین ایک بنیا بڑا دولت مند (کہ برس سو ایک کی عمر اس کی تھی) رہتا تھا اور ایک نوجوان عورت کسو بنیے کی بیٹی بھی (کہ نام اس کا کیلاوتی تھا) اسی شہر میں رہتی تھی؛ ایسی خوب صورت کہ اس کے دیکھنے سے چاند سورج بے تاب ہوتے اور بالوں کی سیاہی سے اس کے بھنورا شرمندہ ہوتا اور چشم نرگس شہلا اپنی سے خلقت کو فریفتہ کرتی اور جادو فریب کمان ابرو اپنی سے لوگوں کو دیوانہ بناتی اور اپنے دانتوں کی چمک سے بادشاہی جواہرات کو جلا بخشتی۔ یہ بقال مال کی مستی سے اسے اپنے نکاح میں لایا لیکن یہ نہایت بوڑھا تھا اور وہ نوجوان نوخیز تھی۔ اس واسطے بوڑھے خاوند کی صحبت سے خوش نہ رہتی۔
ایک دن اس نے ایک جوان خوب صورت بقال بچے کو (جو نام اس کا منوہر تھا) دیکھا، دیکھتے ہی عاشق ہو گئی۔ کہنے لگی کہ سن منوہر! میں جوبن کے دریا میں ڈوبتی ہوں، میرا ہاتھ پکڑ، اپنے عشق کی کشتی میں اٹھا سکتا ہے کہ نہیں؟ تعشق سے بولا کہ ہاں میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ تم سے کسی طرح آشنائی پیدا کروں۔ کیوں کہ میرا دل بھی بہت دنوں سے تمھاری محبت کی کمند میں گرفتار ہوا ہے۔ جب منوہر اور کیلاوتی کا عشق غالب ہوا، تب دونوں خلوت میں آئے اور شہوت کی پیاس مواصلت کے پانی سے دونوں کی بجھی۔ اسی ذوق و شوق میں یوں ہیں ایک مدت گذری۔
ایک دن چندرسین بے وقت اپنے گھر میں آیا۔ اس وقت منوہر اس کے گھر میں تھا۔ کیلاوتی نے دیکھا کہ اب میرا بھیدظاہر ہوتا ہے؛ وہیں چار پائی سے اٹھ کر اپنے گھر کی دہلیز تک دوڑی آئی اور اپنے خصم کے سر کے بال پکڑ کر پانچ چار چومے پیہم اس کے منہ کے لیے اور ہاتھ پکڑ کر ایک گوشے میں لے گئی۔ منوہر اتنی فرصت میں اس کے خاوند کی آنکھ بچا کر گھر سے باہر نکل گیا۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ جا چکا، تب اپنے شوہر کو دو چار لاتیں مار کر کہنے لگی کہ اے بوڑھے خبیث! شہوت نے مجھے اتنی مدت میں آج نہایت بے کل کیا تھا، سو تجھ سے کچھ بھی میرا مطلب حاصل نہ ہوا۔ غصہ کر کے پلنگ پر آئی اور سر سے پاؤں لگ چادر تان کے سو رہی۔ تب چورا کرن بولا: “چنانچہ چومنا جوان عورت کا بوڑھے کے منہ کو بے علت نہیں، اسی طرح زغند چوہے کی بے سبب نہیں”۔ الغرض دونوں جوگیوں نے اپنی جیب سے سفید مٹی نکال کے زمین پر لکیریں نجومیوں کی طرح کھینچ کر معلوم کیا کہ اس چوہے کے سوراخ میں خواہ مخواہ مال ہے، نہیں تو اتنی قوت چوہے میں کہاں سے آئی؟ جس کے پاس دولت ہے اسی کو بہت زور ہے ؎
نخشبی ہے مرد دولت مند خوب
مفلسوں کا دل شکستہ ہے سدا
آدمی کی قدر و قیمت زر سے ہے
مرد جو بے مال ہے کس کام کا
جوگیوں نے کدالی سے اس بل کو کھودا اور سارا ڈھیر روپیوں کا وہاں سے نکال لیا۔ وہ مال میرے بزرگوں کا اور میرا جمع کیا ہوا تھا، انھوں نے وہ سب کا سب اپنے قبضے میں کر لیا۔ میں نے دیکھا کہ جب میری ساری دولت اپنی کر لی، تب تو مجھے کچھ تاب و طاقت نہ رہی، وہیں مبہوت سا ہو گیا۔ لیکن چند روز میری زندگی کے باقی تھے، اس واسطے جان عزیز قالب سے جدی نہ ہوئی۔ اے بادشاہ! ایک تو میرا مال گیا، دوسرے جوگی طعنے مارنے لگے؛ اس دکھ اور بری باتوں سے میرا دل جل بل کے خاک ہو گیا۔ سو اسی واسطے اپنی جاے جگہ چھوڑ، اب آپ کے قدموں تلے آ پہنچا ہوں”۔ کچھوے نے پوچھا: ‘‘کہو یار! تم کو کیا بات زبوں کہی تھی؟”، کہا: ‘‘اگر یہ مال کسی معتبر پاس ہوتا تو اتنی کفایت اور جز رسی نہ کرتا، سر حساب رہتا۔ یہ چوہا سخت نادان اور احمق تھا جس نے اپنے زور کو ظاہر کیا۔ مثلاً بزرگ کہہ گئے ہیں: جو کسی کو مال مفت ہاتھ آوے یا اپنے زور بازو سے کماوے اور وہ اسے نہ کھاوے، نہ کسی کو دے، نہ دلاوے تو اس کے جمع کرنے کی محنت ناحق اٹھاوے اور مفت کی اذیت پاوے اور عالم میں شوم بد بخت کہلاوے۔ بڑی فجر اٹھ اس کا کوئی نام نہ لیوے، بلکہ اس کے نام پر نت اٹھ لوگ جوتیاں ماریں اور وہاں کی زمین کو سب کے سب بد کہیں”۔ ایسی ایسی گفتگو سے اور طعن تشنیع سے مجھ غریب کو ہر روز جلاتے تھے؛ سو یہ بری باتیں مجھے برداشت نہ ہوئیں”۔
کچھوا بولا: ‘‘یار! تو اپنے دل کو رنجیدہ مت کر۔ جیسا وے تجھے کہتے تھے کہ شوم کی موت اور حیات دونوں برابر ہیں۔عقل مندوں نے بھی ایسا ہی کہا ہے ؎
کھانے کے واسطے زر ہے گا اے طفل خوشتر
رکھنے کو سنگ اور زر ہی دونوں ہیں برابر
اے بھائی! خوب ہوا جو تمھارے ہاتھ سے مال جاتا رہا، نہیں تو تمھیں کوئی روپوں کے واسطے مار ڈالتا۔ بارے شکر خدا کاتم سلامت رہے، مال بہتیرا پھر ہو رے گا۔ جس کے یہاں دولت جمع ہو اور وہ اس کے موافق خرچ نہ کرے، یہی اس کے در پیش آوے جو تیرے آگے آیا”۔ چوہے نے کہا: ‘‘کیا تو بھی طعنے دیتا ہے جوگیوں کی طرح؟ لیکن بدون مال کے آدمی ناچیز ہے۔ اگر مال دار نا آشنا کسی کے گھر مہمانی میں جاوے تو لوگ اس کی مدارات حد سے زیادہ کریں۔ جو غریب مفلس دوستوں کے یہاں جاوے تو اسے خاطر میں نہ لاویں۔ دولت بہت اچھی چیز ہے۔ مرد بے زر ہمیشہ رنڈی کا زیر دست ہے۔ جب تک آدمی اپنا ہاتھ خرچ کی طرف سے نہ سمیٹے اور پیسوں کی تھیلی پر مضبوط گانٹھ نہ دیوے، ہرگز دولت نہیں رہتی۔ اے عزیز! جو دیکھا کہ میرا مال و اسباب ظلم سے بد بخت جوگیوں کے جاتا رہا، گھر خالی ہوگیا، ہر کسی طرح وہیں گزران کرنے لگا۔ دنیا میں دولت کے برابر کوئی دوست نہیں، بہ منزلہ ماں باپ کے ہے بلکہ زیادہ۔ کیوں کہ وہ ہر طرح سے حاجت روا ہے، یعنی بدون اس کے دنیا میں کوئی کام انجام نہیں پاتا۔ میں نےاپنے دل میں کہا اب مجھے یہاں رہنا صلاح نہیں اور یہ بات غیر سے کہنی بھی مناسب نہیں؛ جیسا کہ کہا ہے اگر عقل مندہو، ان تین چیزوں کو حتی المقدور چھپاوے: ایک تو اپنے مال کا نقصان، دوسرے زبونی اپنی عورت کی، تیسرے دل کادکھ۔ تم جو میرے دوست ہو، اس واسطے اپنا احوال کہا۔ جب کودنے کی قوت نہ رہی ناچار اپنے قدیم مکان کو چھوڑ دیا اور جنگل میں گنگا کنارے رہنے لگا۔ بارے میں نےخدا کا شکر کیا کہ بالفعل آپ کے دامن دولت کے ساے میں آ پہنچا ہوں۔ سچ ہے جو کہہ گئے ہیں کہ دنیا زہر کا درخت ہے۔ جس پر حق تعالی کا رحم ہوتا ہے اس کو پانچ چیزیں میسر ہوتی ہیں: اول ہر روز ترقی علم کی، دوسرے بندگی خدا کی، تیسرے شناسائی دل کی، چوتھے سچائی بات کی، پانچویں محبت بھلے آدمی کی۔ اے سنگ پشت! میں بد بخت جوگیوں کے ظلم سے دل گیر نہیں ہوا ہوں۔ جو جان سلامت رہی اور تم سے مربی کی ملاقات ہوئی تو مال کیا بلا ہے، سب شے مہیا ہو سکتی ہے۔ دنیا کی دولت کا کچھ اعتبار نہیں، کبھی آتی ہے کبھی جاتی ہے”۔
کچھوے نے کہا: ‘‘بھائی! جو اپنے مال کی زکوۃ دیوے تو اس کے خزانے میں کمی نہیں ہوتی اور کوئی اس میں حرکت نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ بزرگوں نے کہا ہے: جو کوئی پانی کو بند کرے اور اس کے نکلنے کی تھوڑی بھی راہ نہ رکھے تو جمع ہو کر باندھ کیسا ہی مضبوط ہو، توڑ کر کے سب پانی نکل جاوے۔ مال کی بھی یہی حالت ہے؛ جو کوئی محنت سے مال جمع کرے اور اسے نہ کھاوے اور نہ کسو کو خدا کی راہ میں دیوے تو اس کی قسمت میں یہی ہے کہ اس کا مال اور کوئی کھاوے ؎
آپ کھا، اوروں کو دے کچھ ہاتھ اپنے سے عزیز
واسطے اوروں کے بھی کچھ رکھ لے اے صاحب تمیز
اے دوست! دولت مند شوم نگاہ بان مال کا ہے، نہ مالک اس کا ہے۔ بلکہ فقیر اس سے ہزار درجے بہتر ہے کہ جو کچھ تھوڑا بہت اس کے ہاتھ آوے، سو بے تامل خرچ کرے۔ رات کو بہ فراغت اپنے لڑکے بالوں میں سووے اور کسی طرح کا غم و غصہ دل میں نہ لاوے۔ غنی اور بخیل کے تئیں ہر ایک رات کو مال و جان کا ڈر ہی رہتا ہے؛ مبادا کوئی روپیوں کی طمع سے جان نہ مار جاوے۔ مگر تم نے کیا اس گیدڑ کی حکایت نہیں سنی؟” چوہا بولا: ‘‘کہو تو یار! اس کا قصہ کیوں کر ہے؟” کچھوا کہنے لگا۔
نقل پرمان نام حاکم اور ارتھ لوبھی گیدڑ کی
کلیان پور نام ایک شہر ہے۔ اس میں ایک شخص حاکم تھا۔ نام اس کا پرمان۔ اتفاقاً ایک دن سوار ہو کر شکار کے واسطےکسو جنگل میں گیا؛ جاتے ہی وہاں ایک ہرن خوب صورت سا نظر آیا۔ جلد گھوڑے سے اتر کر اس نے اسے تیر مارا۔ وہ اس کے ہاتھ کا تیر کھاتے ہی تھرتھرا کر گرا۔ اس نے اس کو اپنے کاندھے پر اٹھایا اور گھوڑے کی طرف چلا، وہیں ایک بڑا ساخوک اپنے سامھنے آتے دیکھا۔ آہو تو اس نے مارے حرص کے کاندھے سے زمین پر رکھ دیا اور ٹک ایک سامھنے سے اس کے کترا کر اور آنکھ اس کی بچا کر پیچھے اس کے لگ گیا۔ آخرش قابو پا کے اسے بھی تیر سے مارا۔ سور کے جب تیر لگا تو جھنجھلا کر اپنے دانتوں سے اس کو بھی مار رکھا اور آپ بھی وہاں مر رہا۔
غرض پرمان شکاری، ہرن اور خوک تینوں ایک ہی جگہ پر مر کر رہ گئے۔ گھڑی دو ایک کے پیچھے اس میدان میں ارتھ لوبھی نام ایک گیدڑ وہاں آن پہنچا۔ خوشی بہت سی کی اور خدا کا شکر بجا لایا اور کہا: ‘‘ایسی غذاے لطیف مجھے کبھی میسر نہیں ہوئی تھی جیسی آج ہوئی۔ اب چند روز اچھی طرح فراغت سے کھاؤں اور کبابوں کے واسطے اچھا اچھا گوشت سکھا کر رکھوں گا”۔ خیر وہ حریص یہ خیال اپنے دل میں باندھ کے پہلے کمان کے چلے کو لگا چبانے۔ کمان تو چڑھی ہوئی تھی؛ جب زہ کٹ گئی تب کمان کا گوشہ ایسا زور سے سینے میں اس لالچی کے لگا کہ پانی نہ مانگا۔ جب اس حریص نے وہ شکار نہ کھایا اور اسے ذخیرہ کر رکھا اور کمان کی زہ چبانے لگا، یہی اس کی قسمت کا بدا تھا جو اس کے آگے آیا۔ جو کوئی زر پیدا کرے، لازم ہے کہ اس میں سے کچھ کھاوے، کچھ رکھے، کچھ خدا کی راہ میں دیوے۔ سو تو تو نے نہ کیا، مفت برباد دیا، اب اس کا افسوس بھی مت کر”۔ چوہا بولا: ‘‘بھائی! بات یہی ہے جو تو کہتا ہے”۔ پھر باخے نے کہا: ‘‘اے یار! اگر مال کے واسطے کڑھے گا تو اس کڑھن سے تصدیع اٹھاوے گا اور اسی کوفت میں مر جاوے گا، اور لوگ ٹھٹھے مار کر یہ کہیں گے کہ کیا عقل مند تھا جس نے مال کے لیے اپنے تئیں ہلاک کیا۔ اگر جان سلامت ہے تو مال بہتیرا ہو رہے گا”۔ باخا پھر کہنے لگا: ‘‘اے چوہے! جو گیدڑ اتنا گوشت کھاتا تو اس کی نوبت یہاں لگ نہ پہنچتی۔ حاصل یہ ہے جو تو نے مال نہ کھایا تو غم بھی نہ کھا، کیوں کہ کہا ہے: جب ہاتھ پاؤں کے ناخن اور دانت اور سر کے بال اپنی جگہ سے جدے ہوئے تو محض ناچیز ہیں۔ جو زر کے واسطے غم ناک رہے گا تو گوشت تیرا گل جاوے گا اور ہڈیاں چونا ہو جاویں گی۔ خدا کی بندگی میں اتنا متوجہ رہ کہ دنیا تیری لونڈی ہو رہے۔ دیکھا نہیں جب عورت کو پیٹ رہتا ہے، لڑکا ہونے کے آگے خوراک اس کی حق تعالیٰ اس کی ماں کی چھاتیوں میں پیدا کرتا ہے۔ ہمارا تمھارا روزی کا دینے والا وہی داتا ہے۔ اے یار! اس مکان کو اپنا گھر جان اور تو میرے پاس رہ”۔
جب اتنی فروتنی لگ پتنگ کوے نے سنی تو زبان اپنی کچھوے کی تعریف میں کھولی اور کہا: ‘‘اگر ہاتھی ندی کی دلدل میں پھنسے تو ہاتھی سوا کوئی اسے نہیں نکال سکتا ہے۔ اسی طرح اس عالی خاندان چوہے پر جو اب ایسا برا وقت پڑا ہے، تجھ لگ آ پہنچا کہ تم بھی بڑے گھرانے سے ہو”۔ بعد اس گفتگو کے چوہے، کوے اور کچھوے میں دوستی دلی ہوئی اور تینوں ایک جگہ میں رہنے لگے۔
ایک دن دیکھتے کیا ہیں کہ چتر لگھ نام ایک ہرن ان کی طرف بھاگا چلا آتا ہے۔ اس کو دیکھ کر تینوں یار بھاگے۔ باخا ندی میں جا رہا، چوہا بل میں گھس گیا اور کوا درخت پر اڑ گیا۔ اور چاروں طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا جو ہرن کے پیچھے کوئی نہیں آتا۔ خیر جب وہ ان کی جگہ پہنچا تب کوا بولا۔ کوے کے بولتے ہی تینوں یار آ اکٹھے ہوئے۔ ان میں سے باخے نے آہو سے پوچھا: ‘‘تیرے پیچھے تو کوئی نہیں، تیں کس واسطے اتنا ہربڑا کر دوڑا آیا، خیر تو ہے؟” وہ بولا کہ میں شکاریوں کے ڈر سے ایسا گھبرا کے بھاگا آیا ہوں اور اب اپنا یہ ارادہ ہے کہ اس باقی عمر کو تمھاری رفاقت میں کاٹوں۔ کچھوے نے چوہے کی طرف دیکھا۔ چوہے نے کہا: ‘‘اب جو تو ڈر کر یہاں آیا ہے، خاطر جمع رکھ، دل میں کچھ اندیشہ نہ کر، تیں ہمارا ساتھی ہوا۔ اے یارو! ہرن اور ہم آپس میں شریک نیک و بد کے ہوئے”۔
یہ بات سن کر وہ بہت خوش ہوا اور درخت کے تلے نزدیک یاروں کے بیٹھا۔ کچھوے نے اس سے پوچھا: ‘‘یار! شکاری کون ہے اور انھیں تو نے کہاں دیکھا ہے؟” یہ بولا: ‘‘راجا کے بیٹے حاکم ملک کٹک کے اپنے لشکر سمیت کنارے بھاگ رتھی ندی کے آ اترے ہیں۔ میں نے یوں سنا ہے کہ وے کل جھیل میں مچھلیوں کا شکار کھیلیں گے”۔ یہ سنتے ہی باخے کے دل میں شکاریوں کا ڈر پیدا ہوا۔ وہ کہنے لگا: ‘‘جو میں آج اس جھیل میں رہوں گا تو کل بھوک کی آگ میں جلوں گا؛ یعنی وے مچھلیاں پکڑ لیں گے، میں بھوکا مروں گا۔ بہتر یہ ہے کہ میں کسو اور تالاب میں جاؤں”۔ کوے اور آہو نے کہا: ‘‘بہت اچھا”۔ ہرنک چوہا متامل ہو کر بولا کہ باخے کو خشکی میں چلنا مشکل ہے۔ جو تری کی راہ ملے تو سلامت پہنچے۔ جیسا کہ کہا ہے: پانی کے رہنے والوں کو پانی کی قوت ہے اور آدمیوں کو پناہ کوٹ سے ہے۔ یارو! جو اس کو زمین پر چلنے دو گے، چنانچہ بقال اپنے کیے سے پشیمان ہوا تھا، تم بھی اپنے کیے کی ندامت کھینچو گے”۔ یاروں نے پوچھا: ‘‘وہ قصہ بنیے کا کیوں کر تھا؟” چوہا بولا۔
نقل تنکبیر نام ایک شخص اور نوجوبنا بقال کی بیٹی کی
شہر قنوج میں بیرسین نامی ایک راجا تھا۔ اس نے اپنے نام کا ایک شہر بسایا اور نام اس کا بیرپور رکھا۔ اس شہر کی حکومت تنکبیر نام ایک اس کا ملازم تھا، اسے دی۔ ایک مہینے کے پیچھے وہ شہر دیکھنے کو نکلا۔ ایک بقال کی بیٹی نوجوبنا نام اپنے کوٹھے پر کھڑی تھی، اسے دیکھا۔ وہیں اس کی زلف ناگن نے اس کو ڈسا۔ گھوڑے سے زمین پر گرا اور بے ہوش ہو گیا۔ لوگوں نے پالکی میں ڈال اس کے گھر پر لا پہنچایا۔ دائی نے پوچھا: ‘‘اے فرزند! تجھے کیا ہوا؟” کہا: ‘‘میری نظر ایک نازنین پر پڑی ہے۔ میں نہیں جانتا وہ پری تھی یا آدمی۔ اس کے گل بن کا کانٹا میری آنکھ میں چبھ گیا۔ اسی درد سے میں بے قرار ہوں”۔ دائی نے معلوم کیا کہ یہ لڑکا نوجوبنا کے حسن کے تیر سے زخمی ہوا ہے۔ وہ اس فکر میں ہوئی کہ اس کا اور اس کا کسی طرح ملاپ ہو۔ کسی بہانے سے نوجوبنا کے یہاں آ کر دیکھتی کیا ہے کہ اس کے جمال کی کٹاری کی ماری ہوئی یہ بھی ایسی لوٹ پوٹ ہو رہی ہے جو ہلنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ آہستے آہستے اس کے کان میں کہا: ‘‘اے نوجوبنا! تیرے واسطے میرا تنکبیر روتا ہے اور مدہوش پڑا ہے۔ اگر تجھ سے اس کی دست گیری ایک بوسے سے ہو سکے اور سچیت کرے تو میں تجھے سونے کا ٹکا دوں”۔ نوجوبنا بولی: ‘‘اے نادان دائی! یہ سودا اور دکان سے جا کر خرید کر”۔ دائی نے پھر عذر کیا کہ پھول میرا تیری محبت کے آفتاب سے مرجھایا ہے۔ جو تیرے ہی جمال کا سایہ پڑے تو تر و تازہ ہووے۔ نوجوبنا بولی: ‘‘اے دائی! اس میرے باغ کا نگہبان میرا خاوند ہے”۔یہ اس کے منہ کی بات سن کر دائی چپکے پھر آئی۔ تب تنکبیر دیکھ کر کہنے لگا: ‘‘اے دائی! ‘کفچہ زدی حلوا کو؟’ یعنی محنت کی مزدوری کہاں؟” دائی نے کہا: ‘‘میں اپنے کام کو پختہ کر آئی ہوں لیکن چند روز صبر کیا چاہیے۔ وہ اپنے شوہر سے ڈرتی ہے۔ اس کا میں ایک علاج کرتی ہوں، جو اس کا خاوند از خود تمھارے پاس لا پہنچاوے۔ سن لڑکے! کام حکمت اور عقل سے نکلتا اور زبردستی سے ہرگز نہیں بن پڑتا ہے۔ کیا تو نے قصہ گیدڑوں کا نہیں سنا کہ عقل کے زور سے جیتے ہی ہاتھی کو کھا گئے؟” تنکبیر نے کہا: ‘‘وہ قصہ کیوں کر ہے؟” دائی بولی۔
نقل دھول تلک ہاتھی اور آتما نام گیدڑ کی
یوں کہتے ہیں کہ ڈنڈ کارن نام ایک جنگل ہے۔ اس میں دھول تلک نام اک مست ہاتھی تھا۔ گیدڑ اس کی فکر میں ہوئے کہ کسی طرح دو تین مہینے تک اس کا گوشت کھاویں۔ ان میں ایک آتما نام گیدڑ تھا۔ اس نے کہا: ‘‘یارو! اس ہاتھی کو میں دانائی کی زنجیر سے باندھ کر حکمت کے تیروں سے ماروں گا”۔ یہ کہہ کر جلد چلا۔ جب ہاتھی کے پاس پہنچا، سلام کر کے ادب سے تفاوت کھڑا ہوا۔ اس نے پوچھا: ‘‘تو کون ہے، کہاں سے آیا؟” بولا: ‘‘مجھے سب جانوروں کے اور گیدڑوں کے راجاؤں نے تمھاری خدمت میں بھیجا ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ تمھیں اس جنگل کا بادشاہ کریں۔ اگر قبول ہو تو آپ اس میں ایک دم توقف نہ کیجیے، جلد چلیے۔ دونوں بادشاہ سارے جانوروں سمیت تمھارے منتظر ہیں”۔
ہاتھی مارے خوشی کے جلد جلد چلا۔ گیدڑ فریبی جھیل کی راہ سے (جس میں چور بالو تھی) لے چلا۔ وہ تو ہلکا تھا، دبے پاؤں جھیل کے پار جا کھڑا ہوا اور اس کو بلانے لگا کہ ناک کی سیدھ چلے آؤ، پانی بہت تھوڑا ہے۔ ہاتھی بوجھل تھا، پاؤں رکھتے ہی دلدل میں پھنس گیا۔ کہا: ‘‘یار! کیا کیا چاہیے؟” گیدڑ بولا کہ میری دم پکڑ لے تو میں تجھے ندی سے نکال لوں۔ اس نے کہا: ‘‘اے نادان! تیرے زور سے میں کیوں کر نکلوں گا”۔ تب گیدڑ بولا: ‘‘اگر تم کہو تو میں اپنی قوم کو بلا لوں جو تمھیں اس دلدل سے کھینچ نکالے؟” ہاتھی اُس چہلے میں پھنسنے سے ایسا عاجز ہو کے ہاتھ پاؤں مارتا تھا کہ جیسے کوئی دریا میں بہتے ہوئے بہتا تنکا دیکھ کر ہاتھ بڑھا وے کہ شاید اسی کے آسرے سے بچ جاؤں، پر اُس کو وہ تنکا ناچیز کیا فائدہ کرے۔ مارے بدحواسی کے کہنے لگا کہ اچھا تو جا، اپنے یاروں کو بلا لا کہ وے مجھے اس مصیبت سے چھڑاویں۔ گیدڑ دوڑا اور اپنی تمام برادری کو بلا لایا اور آپ اس کے سامھنے آ کھڑا ہوا اور وے پیچھے سے ہاتھی کا گوشت کاٹ کاٹ کھانے لگے۔ تب ہاتھی نے کہا ؎
باغ دل میں تو نے میرے تخم الفت بو دیا
آخرش تو نے کیا ووہی ترے دل میں جو تھا
دل مرا لے کر ہوا افسوس ظالم سنگ دل
تھا ترے دل میں یہ کب میں جانتا تھا دل جلا
پھر دائی نے کہا: ‘‘اے تنکبیر! تو نے دیکھا کہ اپنی عقل کے زور سے گیدڑ نے ہاتھی کا کام تمام کیا۔ کیا مجھ سے اتنا بھی نہ ہوگا کہ میں اپنی عقل کی رسائی سے تیرا کام بہ خوبی انجام دوں۔ وہ کون سا کام ہے جو عقل سے نہیں ہو سکتا”۔تنکبیر نے کہا: ‘‘اے دائی! میرے دل کی شاہین نوجوبنا کے مرغ حسن کے درپے ہے۔ اس سبب سے نہ چہرے پر رنگ ہے نہ دل میں قرار”۔ آخرش دائی تنکبیر کے کان میں کچھ ایسی باتیں کر کے اپنے گھر چلی گئی کہ جس سے طالب اپنے مطلب کو پہنچے۔ تب تنکبیر نے نوجوبنا کے خاوند کو بلا کر نوکر رکھا اور بہت سا سرفراز کیا اور اچھے اچھے کام اس کو سونپے۔
ایک دن تنکبیر نے اس سے کہا کہ اے یار! میں نے آج رات کو ایک خواب دیکھا ہے کہ ایک عورت شیر پر سوار ہے اور مجھ سے کہتی ہے کہ اگر تو ایک مہینے تک ہر روز ایک عورت کو اپنے گھر بلواوے اور تاش بادلا پہناوے اور پٹکا اپنے گلے میں ڈال کر اس کے پاؤں پڑے اور رخصت کر دیا کرے تو تیری عمر و دولت دن بہ دن بڑھے گی اور جو عورت تیرے پاس سے زری پوش ہو کر جاوے گی، اس کے بیٹا بے شبہ پیدا ہووے اور اس کے خاوند کی عمر دراز۔ اگر یہ کام تجھ سے نہ ہو سکے گا تو شوہر نوجوبنا کا (جو تیرے پاس رہتا ہے) مر جائے گا اور اس کے بعد تو بھی نہ بچے گا۔ بھلا کہہ تو اب کیا کیا چاہیے؟اُس بقال نے کہا: ‘‘جو کچھ حکم ہو، موافق اُس کے کروں”۔تنکبیر نے کہا کہ عورت لانا تمھارا کام ہے اور تاش بادلا پہنانا میرا ذمہ۔جب رات ہوئی، بقال نے ایک رنڈی اس کے یہاں لا پہنچائی۔ اسے وہ اپنی خلوت میں لے گیا۔ تب بنیا چھپ کر دیکھنے لگا کہ دیکھوں تو اس عورت پر وہ ہاتھ ڈالتا ہے کہ نہیں۔ دیکھا کہ اس نے ایک جوڑا زری کا پہنا کر پٹکا اپنے گلے میں ڈال، اُس کے پاؤں پڑ رخصت کیا۔ بقال نے یہ سب احوال دیکھ کر اپنے دل میں کہا کہ تنکبیر بڑا بے وقوف ہے جو اتنا لباس زربفت کا مفت اسے دیا۔ جب بقال اور وہ عورت دونوں باہر آئے، اس نے عورت کو کہا کہ آدھے کپڑے اس میں سے مجھے دے۔ وہ بولی: ‘‘مجھے تو تنکبیر نے دیے ہیں، تجھے کیوں دوں؟” غرض وے دونوں آپس میں یہاں تک جھگڑے کہ کپڑے عورت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے اور آدھی ڈاڑھی بقال کی اس عورت نے کھسوٹ لی۔ تنکبیر کو جو یہ خبر پہنچی تو بہت سا ہنسا اور جانا کہ آج کل مطلب میرا حاصل ہوگا۔
بقال نے اپنی جورو سے سب احوال مفصل رات کا کہا۔ اس نے جواب دیا کہ تو کسی اوچھی کم ظرف کو لے گیا ہوگا۔ اگر کسی معتبر کو لے جاتا تو ایسا فضیحت نہ ہوتا۔ دوسری رات ایک عمدہ رنڈی کو لے گیا۔ تنکبیر نے ویسا ہی سلوک اس کے ساتھ بھی کیا جیسا پہلی کے ساتھ کیا تھا۔بقال یہ دیکھ کر اپنے دل میں حسرت کرنے لگا۔ تیسرے دن اپنی عورت سے کہا: ‘‘اے نوجوبنا! اتنی دولت بے فائدہ جاتی ہے۔ اگر ایک رات تو میرے ساتھ چلے تو سب دولت تیرے ہاتھ آوے”۔ وہ بولی کہ میں نامحرم مرد کے گھر کیوں کر جاؤں۔ بقال کو اپنی عورت پر نہایت اعتماد ہوا اور کہنے لگا کہ تنکبیر پہنچتے ہی لباس زری کا دیتا ہے اور پاؤں پڑ کے رخصت کرتا ہے۔ نوجوبنا نے کہا: ‘‘جو عورت اپنے خاوند کے حکم میں نہ ہو، قیامت کے دن اس کو عذاب میں گرفتار کریں گے۔ میں تیری رضامندی چاہتی ہوں، جو کچھ کہے گا بہ سر و چشم قبول کروں گی”۔ بقال نہایت خوش ہوا اور کہنے لگا: ‘‘رحمت خدا کی تیرے ماں باپ پر”۔
جب آفتاب سیاح آسمان کے میدان کو طے کر کے مغرب کے گوشے میں پہنچا، تخمیناً پہر رات گئی ہوگی جو بنیا کم عقل بہ دستور سابق اپنی جورو کو بھی دولت کی طمع سے تنکبیر کے پاس لے گیا۔ وہ اسے دیکھتے ہی باغ باغ ہو کر اپنے خلوت خانے میں لایا اور کہنے لگا: ‘‘اے نوجوبنا! تیرے کافر عشق کے لشکر نے میرے ملک دل خراب کیا تھا۔ تیرے آنے سے بارے آباد ہوا”۔ بنیا جو وہاں چھپا ہوا کھڑا تھا، اس بات کے سنتے ہی شرمندہ ہوا، اپنا سر پیٹتے گھر کی راہ لی۔
اے یارو! اگر کچھوا خشکی کی راہ چلے گا تو جیسا بقال اپنے کیے سے پشیمان ہوا تھا، یہ بھی ہوگا۔ کچھوے کا دل ہرن کے خبر دینے سے شکاریوں کے ڈر کے مارے تو گھبرا ہی رہا تھا، چوہے کے کہنے پر عمل نہ کیا۔ ہرن اور کوے کی صلاح سے معاً تالاب کو چھوڑ چل نکلا۔ کوے، چوہے اور ہرن کو بھی اس کے ساتھ جانا ضرور پڑا، کچھوے کے پیچھے لگ چلے۔ بہ ہزار خرابی کوس بھر گئے ہوں گے؛ چاہا کہ کسی درخت کی چھاؤں میں ٹھہریں، یکایک دیکھتے کیا ہیں کہ ایک مرد شکاری تیر کمان لیے چلا آتا ہے۔ ہر ایک یار نے اپنی اپنی راہ پکڑی۔ کوا تو درخت پر جا بیٹھا اور چوہا کسی بل میں گھس گیا اور ہرن جنگل کی طرف بھاگ گیا۔
کچھوا تری کا جانور تھا۔ خشکی میں بھاگ نہ سکا، وہیں رہ گیا؛ تب شکاری نے اسے پکڑ کر چاروں ہاتھ پاؤں باندھ، کمان کے گوشے میں لٹکا، اپنے گھر کی راہ لی۔ جب تینوں یاروں نے دیکھا کہ کچھوا پکڑا گیا، وے رونے لگے۔ چوہا بولا: ‘‘اے بھائیو! میں تم سے نہ کہتا تھا کہ کچھوا اگر خشکی سے جائے گا تو نہایت رنج اٹھائے گا۔ اب یہ تمھاری آہ و زاری کچھ کام نہیں کرتی۔ اب ایسی تدبیر کرو جس سے کچھوے کی مخلصی ہووے”۔
کوے اور ہرن نے کہا: ‘‘اے ہرنک! بغیر تیری عقل و تدبیر کے اس کا چھٹکارا معلوم”۔ چوہا بولا: ‘‘اے ہرن! یہاں سے آگو چل کر جہاں کہیں پانی کا ڈبرا نظر آوے تو لنگڑا کر کھڑا رہنا۔ جب وہ تیر انداز نزدیک آوے تو آہستے آہستے لنگڑاتا ہوا بھاگیو”۔ ہرن نے وہی کیا۔ جب وہ مرد کچھوے سمیت پانی کے کنارے پہنچا، دیکھا کہ ہرن لنگڑاتا جاتا ہے۔ کچھوے کا وزن بھاری تھا، اس کو زمین پر رکھ دیا اور ہرن کے پیچھے چلا۔ جب قریب تیر کے فاصلے پر گیا، چوہے نے پیچھے سے کچھوے کی پھانسی کاٹ کر ہرن کو پکارا اور کہا: ‘‘اے ہرن! کچھوا صحیح سلامت پانی میں آ پہنچا، تو بھی جنگل کو بھاگ جا”۔ وہ یہ بات سنتے ہی بھاگا۔ جس وقت تیر انداز ہرن کے پیچھے سے پھر آیا، دیکھتا کیا ہے کہ کچھوا نہیں۔ پشیمان ہو کر بولا: ‘‘بزرگ یوں کہہ گئے ہیں: جو کوئی آدھی کو چھوڑ ساری کو دھاوے وہ آدھی بھی ہاتھ نہ آوے۔ اگر میں ہرن کے پیچھے نہ جاتا تو کچھوا میرے ہاتھ سے نہ بھاگتا”۔ شکاری افسوس کرتا چلا گیا۔ تب ان چاروں یاروں نے اکٹھے ہو کر خوشی کی اور کہا: یہ مکان ہم کو سزاوار ہے، اسی جگہ ہم رہیں گے۔ چوہا، کوا، ہرن کچھوا چاروں اسی جگہ گھر بنا کر رہنے لگے۔
جب برہمن نے بات مترلاتھ کی تمام کی، راجا کے بیٹوں کو کمال خوشی ہوئی اور کہنے لگے کہ محبت و دوستی کرنی ایسا فائدہ رکھتی ہے۔ مہاراج! اس قصے کے سننے سے ہم کو نصیحت و فائدہ ہوا۔
دوسرا باب
پھر دوستوں کی جدائی کا احوال بشن سرما پنڈت راجا کے بیٹوں سے کہنے لگا کہ ایک باگھ اور بیل سے آپس میں دوستی تھی۔ گیدڑوں نے اپنی دانائی اور عقل کے زور سے اُن کے بیچ میں جدائی ڈال دی۔ راجا کے لڑکوں نے کہا ‘‘کیوں کر؟”
داستان بھاگ بھرتا بنیے اور سنجوگ اور نندوک بیل کی
پنڈت بولا کہ چندر پور نام ایک شہر تھا۔ اس میں ایک مال دار بنیا بھاگ بھرتا نام رہتا تھا۔ جب کسی بڑے دولت مند کو دیکھتا تو اپنے تئیں فقیر جان کر دل میں یہ بات ٹھہراتا کہ تجارت کو جایا چاہیے تاکہ مال زیادہ ہووے۔ جیسا کہ بزرگوں نے کہا ہے کہ مجہول آدمی کے ہاتھ دولت نہیں لگتی اور دنیا ایسی جگہ ہے کہ اگر مال کمینے اور کم ذات کے پاس ہووے تو سب لوگ اس کی تعظیم کرتے ہیں۔
یہ سوچ کر دو بیل خرید لایا۔ ایک کا نام سنجوگ اور دوسرے کا نندوک رکھا۔ موتی، لعل، ہیرا، پنا اور کچھ زری باف خرجیوں میں بھر بیلوں پر لاد کر کشمیر کی راہ لی۔ تخمیناً بیس اکیس منزل گیا ہوگا کہ سنجوگ کا ایک گڑھے میں پاؤں پڑتے ہی ایسی ضرب آئی کہ چلنے سے باز رہا؛ تب بنیا متفکر ہو کر کہنے لگا کہ یہ عبث کا دیوانہ پن ہے جو کوئی مال کے جمع کرنے کے واسطے کہیں جاوے۔ کیوں کہ جو کچھ خدا نے قسمت میں لکھا ہے، جہاں رہے مل رہتا ہے۔ پھر یہ فکر کرنے لگا کہ اس اسباب کو کس طرح لے جاوے۔ اسی تردد میں دو تین روز اُسی جنگل میں رہا۔
اتفاقاً ایک قافلہ سوداگروں کا مال بیچ کر بیلوں کو خالی لیے ہوئے وہاں آ نکلا۔ بنیا اُن تاجروں کو دیکھ کر اُن کے پاؤں پڑنے لگا اور اپنا احوال کہنے۔ سوداگروں نے اُس کی بے کسی پر رحم کھا کر ایک بیل حوالے کیا۔ اُس نے اُس لنگڑے بیل کو وہیں چھوڑا اور جو بیل قافلے سے لیا تھا، اُس پر خرجی لاد کر اپنی منزل مقصود کی راہ لی۔ اور سنجوگ دو تین مہینے تک ‘‘نہ آگے ناتھ نہ پیچھے پگھا”۔ ایسی گھاس اُس جنگل کی کہ کسی جانور نے آنکھوں نہ دیکھی ہوگی، چر چگ کر سنڈا بن گیا۔
حکایت سنجوگ اور پنگل نام شیر کی
ایک روز ندی کے کنارے وہ چرتا تھا کہ پنگل نام ایک شیر (جو اُس جنگل کی بادشاہت کرتا تھا) پانی پینے کے لیے آ نکلا۔ بیل اُس شیر کو دیکھ کر مارے مستی کے کھورو کرنے اور سینگوں سے زمین کھودنے لگا اور جیسا بادل گرجتا ہے، ویسا ہی ڈکارنے۔ شیر نے جو اُسے اس طرح دیکھا تو اُس کے ڈر کے مارے بھاگ کر اپنی آکھر میں جا گھسا اور جی میں کہنے لگا کہ آج خدا نے میری جان بچائی۔ کئی برس سے میں اس جنگل کی بادشاہت کرتا ہوں لیکن ایسی بلا اور ایسا مہیب جانور میں نے آج لگ نہیں دیکھا۔
حکایت دو گیدڑ دوتک و کرتک کی
اسی فکر میں تھا کہ دو گیدڑ دوتک و کرتک نام (جو شیر کے وزیر تھے اور اُس نے اُن کی کچھ تقصیر پا کر نکلوا دیا تھا) آس پاس اُس کے لگے رہتے تھے۔ شیر کے پانی نہ پینے کی کیفیت اور اُس کی سراسیمگی کو معلوم کر کے آپس میں کہنے لگے کہ آج کیا ہے کہ شیر نے پانی نہ پیا، پیاسا ہی جلد چلا آیا اور نہایت غمگین ہو رہا ہے۔ چل کر مجرا کیجیے اور سبب پریشانی کا پوچھیے کہ آپ متفکر کیوں ہیں؟ اس میں وہ خوش ہوگا؛ غالب ہے کہ سرفراز بھی کرے گا۔ کرتک نے کہا کہ بھائی! اُس نے ایک مدت ہوئی کہ ہم کو اپنی خدمت سے معزول کیا ہے، ہمیں کیا غرض جو اُس کے پاس جاویں، وہ جانے اُس کا کام۔ جس روز سے کہ ہم اس سے جدا ہوئے ہیں، خدا ہم کو بے غل و غش روزی پہنچاتا ہے۔ اُس کا شکر بجا لاتے ہیں۔ سنو یار! جو خوب دیکھا تو بندگی خالق ہی کی خوب ہے، اَور کی اطاعت کرنی اچھی نہیں۔ اس واسطے بادشاہ کی نوکری کرنے کو ہمارا جی نہیں چاہتا۔ اور جو شخص کسو کی حاجت روا نہ کر سکے تو اُس کی چاکری کرنی حماقت ہے کیوں کہ خسروِ دل ہمارا جسم کے ملک میں آپ بادشاہت کرتا ہو، اُس کو کیا ضرور ہے کہ غیر کا فرماں بردار ہو۔ اگر کسی نوع کی کچھ احتیاج رکھتا ہو تو مضائقہ نہیں۔ اے یار! نوکری میں کچھ اختیار اپنا باقی نہیں رہتا۔ چنانچہ جاڑا، گرمی، برسات، بھوک، پیاس، زمین پر سونا، جنگل جنگل پھرنا، یہ سب اپنے پر اٹھانا ضرور پڑتا ہے۔ اگر ایسی محنت خدا کی بندگی میں کوئی کرے تو فرشتے سے بھی فوقیت لے جاوے۔ اور دوسرے کی تابع داری میں جینا مرنے سے بدتر ہے کیوں کہ جب کوئی کسی کا نوکر ہو اور وہ کہے کہ تو فلانے مکان کو جا، گو کہ ہر ایک منزل اُس کی دشوار پُر خطر ہو اور وہاں جاتے ہی مارا جاوے، تو بھی خواہ مخواہ جانا ہی پڑے۔
دوتک نے کہا: ‘‘اے بھائی! جب لگ کہ کوئی کسی کی خدمت نہیں کرتا، تب لگ بڑے مرتبے کو نہیں پہنچتا اور ہاتھی گھوڑے دولت دنیا نہیں پاتا، صاحب جاہ و حشم نہیں ہوتا۔ ہم نے ایک مدت تک اُس کا نمک کھایا ہے، ضرور ہے کہ ہم اُس کے پاس جاویں اور اُس کا احوال پوچھیں”۔ کرتک نے کہا کہ میں یہ صلاح نہیں دیتا کہ تو شیر کے پاس بے بلائے جاوے اور اس کے بے پوچھے کچھ بات کہے، کیوں کہ اب اُس کام کا عہدہ (کہ جس پر ہم تھے) اَوروں کے ہاتھ میں ہے۔ جو کوئی ہاتھ ڈالے تو اُس کی وہ حالت ہو جیسی بندر کی ہوئی۔ دوتک بولا کہ اُس کا قصہ کیوں کر ہے؟ کرتک نے کہا۔
نقل ایک بڑھئی اور بندر کی
یوں کہتے ہیں کہ کسی ولایت میں مدن دھرم نام ایک جنگل ہے۔ اُس میں ایک بڑھئی لٹھا آرے سے چیرتا تھا۔ جب آرا اٹکنے لگتا تو دور کی پچر اکھیڑ کر نزدیک لا لگاتا۔ بڑھئی کی یہ حرکات کسی درخت پر بیٹھا ہوا بندر دیکھتا تھا۔ جو اتنے میں اس بڑھئی کو پیاس لگی، پانی پینے کو کسی تالاب پر گیا۔ بندر درخت سے اُتر کے اُس لکڑی پر آ بیٹھا اور جس طرح بڑھئی کو پچر اکھیڑتے دیکھا تھا، یہ بھی اکھیڑنے لگا؛ پچر اکھیڑی، وہیں اُس کے فوطے لٹھے کی درز میں پھنس کر پس گئے اور فی الفور وہ مر گیا کیوں کہ بندر کا کام نجاری نہیں۔ مثل مشہور ہے کہ جس کا کام اُسی کو چھاجے، اور کرے تو ٹھینگا باجے۔ جو غیر کے کام میں دخیل ہوگا تو ایسا ہی برا دن اُس کے آگے آوے گا۔ پھر کہا: ‘‘اے یار! ان دنوں میں شیر کے پاس بہت سے مصاحب ہیں۔ تیرے جانے سے وہ کب خوش ہوں گے بلکہ تیری فکر میں رہیں گے”۔ دوتک نے کہا: ‘‘بھائی! شیر ہمارا قدیم خاوند تھا اور ہم اُس کے خدمت گاروں میں تھے۔ پس ہم کو اور تم کو لازم ہے کہ اُس کے پاس ایسے وقت میں جاویں اور جو کچھ ہم سے ہو سکے اُس میں قصور نہ کریں”۔ تب کرتک بولا: ‘‘اے یار! جو کوئی اپنا کام چھوڑ کر دوسرے کے کام میں دخیل ہو تو ویسا ہی انعام وہ پاوے جیسا شام بھگت گدھے نے اپنے خاوند سے پایا”۔ دوتک بولا: ‘‘وہ کیوں کر ہے؟” کرتک نے کہا۔
نقل شام بھگت گدھے اور کنجو دھوبی کی
یوں سنا ہے کہ گنگا کے کنارے بنارس نامی کوئی شہر ہے۔ وہاں ایک نوجوان دھوبی کنجو نام بڑا دولت مند رہتا تھا۔ ایک شب وہ اپنی جورو کے ساتھ غافل سوتا تھا کہ اُس کے گھر میں چور آئے۔ شام بھگت گدھا آنگن میں بندھا تھا اور اُس کی بغل میں کنیست نامی کتا بیٹھا ہوا تھا۔ گدھے نے کہا: ‘‘اے کتے! گھر میں خاوند کے چور آئے ہیں، تو ذرا بھونک جو گھر کا مالک جاگے”۔ کتا بولا: ‘‘اے گدھے! میرے کام میں دخل مت کر۔ تو کیا جانے اس دھوبی کے گھر میں میری قدر کچھ نہیں۔ جب لگ کہ اس کا نقصان نہ ہوگا تب لگ میری قدر نہ جانے گا”۔ گدھے نے کہا: ‘‘اے کتے! جو کوئی اپنے صاحب کی بندگی میں قصور کرے تو وہ مطعون خلائق ہوتا ہے۔ کتا بولا: ‘‘او گدھے! اگر تو میرے عہدے میں ہاتھ ڈالے گا تو تجھ پر میرا صبر پڑے گا”۔
اس نے اُس کی بات نہ مانی اور جلدی سے اپنے ہاتھ پاؤں کے چھاند باندھ توڑ تاڑ جہاں دھوبی اپنی جورو کے ساتھ سوتا تھا، وہاں جا کر رینگنے لگا۔ وہ جو کچی نیند سے چونکا تو مارے غصے کے ایک سونٹا لے کر اُسے خوب سا پیٹ ڈالا۔ جو کتے کی بات نہ مانی تو اُس کے صبر میں گرفتار ہوا۔دوتک بولا: ‘‘اے کرتک! سچ ہے جو کوئی دوسرے کے کام میں دخل کرے تو اُس کی یہی سزا ہے۔ لیکن تو جانتا ہے کہ جب ہم شیر کے پیچھے پیچھے پھرتے تھے، جو کچھ اُس کا جھوٹھا پاتے تھے، کھاتے تھے۔ اور بڑوں کے پاس رہنے سے کئی کام نکلتے ہیں؛ پہلے دوستوں کا بھلا ہوتا ہے، پھر دشمنوں کا بُرا اور جو اُس کے ساتھ رہتے ہیں، اُن کی پرورش بہ خوبی تمام ہوتی ہے”۔ کرتک نے کہا: ‘‘اے دوتک! برسوں سے یہ شیر ہم سے آزردہ ہے اور اُس نے در دولت سے نکال دیا ہے۔ مجھے تجھے اُس سے اب علاقہ نہیں۔ اگر بے بلاوے اُس کے تو جاوے گا اور بے پوچھے کچھ کہے گا تو وہ کب تیری سنے گا۔ مثل مشہور ہے: اُترا شحنہ مردک نام”۔ اُس نے کہا کہ تو نہیں جانتا، خاوند کبھی خفا ہوتے ہیں اور کبھی مہربانی کرتے ہیں۔ اس بات کو اپنے جی میں لا کر اس کو تنہا مت چھوڑ۔ سنو بھائی! نیکی حاصل کرنی بے رنج و محنت ممکن نہیں، جیسا کہ ایک بھاری پتھر نیچے سے اونچے پر لے جانا، اور بدی ایسی ہے کہ اس پتھر کو نیچے گرا دینا۔ اگرچہ شیر ہم سے آزردہ ہے لیکن اب وہ حادثے میں گرفتار ہے۔ اگر اس وقت ہم نہ جاویں تو اس کو کوئی برا نہ کہے گا بلکہ ہم کو لوگ حرام خور کہیں گے۔ تھوڑے کے واسطے بدنامی اٹھانا خوب نہیں۔ اگر تو کہے تو شیر کے پاس جاؤں؟”
کرتک بولا: ‘‘میں نے تیری بات مانی لیکن بادشاہ کے حضور میں جا کر پہلے کیا کہے گا؟” دوتک نے کہا: ‘‘یہ تمھیں معلوم ہے کہ وہ کس سے ڈرا ہے، اس لیے غم گین ہو کر بیٹھا ہے؛ جو احوال ہو سو اُس سے پوچھ لیجیے اور خلش اُس کے دل سے مٹا دیجیے”۔ کرتک نے کہا: ‘‘یہ اُس پر کیوں کر کھلے کہ تو اُس پر مطلع ہوا ہے اور تو نے کیوں کر جانا کہ اُس کے جی میں دھشت بیٹھی ہے؟” دوتک نے جواب دیا کہ ڈرا ہوا قرینے سے پہچانا جاتا ہے اور وہ عاقل نہیں ہے جو پوچھ کر معلوم کرے۔ تب کرتک نے کہا: ‘‘بھلا آدمی اُسے کہتے ہیں جو نیکی کرے لیکن منہ پر نہ لاوے اور خاوند کو خوش رکھے۔ اگرچہ وہ کتنا ہی منہ لگاوے پر اپنی حد سے قدم آگے نہ بڑھاوے اور اپنے تئیں نت نیا نوکر جانتا رہے اور اُس کے حکم کو مانتا رہے”۔
پھر دو تک نے کہا کہ مجھے مناسب نہیں جو میں گیدڑوں میں بیٹھ رہوں، بلکہ یہ چاہتا ہوں کہ اپنی خدمت کی قوت سے شیر کو اپنا کروں۔ کہتے ہیں خاوند کی مرضی کے تابع رہنا اور اپنی قدر کے موافق بات کرنا ہر ایک سے نہیں ہو سکتا، اور سب ہنروں سے میں واقف ہوں۔ کرتک نے کہا: ‘‘بھائی! خدمت کرنی بہت مشکل ہے۔ جیسی چاہیے ویسی کسو سے ادا نہیں ہو سکتی”۔ دوتک بولا کہ نوکر پہلے اتنا دریافت کرے کہ جب خاوند کے سامھنے جاوے، وہ اُسے دیکھ کر خوش ہو کے کچھ بات کرے اور بیٹھنے کی پروانگی دے، تب معلوم کرے کہ مجھ پر مہربان ہوا۔ اگر اُس کے دیکھنے سے وہ تیوری چڑھا کر منہ پھراوے تو برعکس سمجھے اور یقیں جانے کہ اُس کے دل میں میری طرف سے کچھ کدورت ہے۔ اُس خاوند سے کچھ نہ بولے اور ٹل جاوے۔
کرتک نے کہا: ‘‘اگر بادشاہ تجھ کو کتنا ہی سرفراز کرے، چاہیے کہ بے پوچھے اور بے محل دم نہ مارے”۔ دوتک نے کہا: ‘‘تو اپنے دل میں کچھ فکر مت کر کہ میں اپنے نقد سخن کو بے جا خرچ نہ کروں گا مگر دو جگہ: ایک تو جس وقت دشمن ایسی گھات میں ہو کہ آج کل میں دغا سے کام کو ابتر کرے اور دوسرے ایسے کام میں کہ جس سے نقصان خاوند کا ہوتا ہو۔ اور تو اسے دیکھنا کہ میں بغیر خیر خواہی کے ایک بات بھی بادشاہ سے ہرگز نہ کہوں گا۔ خدا چاہے تو تھوڑے دنوں میں اپنے ذہن کی رسائی سے وزیر کہلاؤں گا۔ اب مجھ پر مہربانی کیجیے اور خوشی سے رخصت دیجیے۔ پھر ایسا قابو نہ پاؤں گا، ہاتھ مل کر رہ جاؤں گا”۔
کرتک بولا کہ مجھے یہ معلوم ہوا کہ تو جائے بغیر نہ رہے گا۔ لے اب میں نے تجھے بہ خوشی رخصت کیا اور خداے کریم کو سونپا۔ تب دوتک یہاں سے رخصت ہو کر بادشاہ کے پاس گیا اور آداب بجا لایا۔ شاہ نے اُس پر بہت سی مہربانی و شفقت کر کے بیٹھنے کا حکم کیا اور کہا: ‘‘اے دوتک! ہم نے بہت دن پیچھے تجھ کو دیکھا، اتنے دنوں تو ہمارے پاس کیوں نہ آیا؟” بولا: ‘‘اپنی کم نصیبی سے۔ لیکن اب میرے طالعوں نے جو پھر یاوری کی تو میں حضور میں حاضر ہوا اور جہاں پناہ کی خدمت میں مشرف”۔ حضرت نے فرمایا: ‘‘خیر آئندہ ایسا نہ ہو”۔ تب وہ مؤدب ہو کر کہنے لگا کہ غلام کا کیا مقدور کہ خاوند کی خدمت سے ایک دم غیر حاضر رہے۔ شیر نے کہا: ‘‘اے دوتک! تو تو ہمارا قدیم رفیق ہے، سچ کہہ اتنے دنوں نہ آنے کا تیرے کیا سبب؟” اُس نے عرض کی ؎
میں ہوں کس لائق جو تیری دوستی کا دم بھروں
ہاں مگر ادنا ترے کوچے کے میں کُتوں میں ہوں
غلام اس واسطے حاضر نہ ہوا کہ مجھ بغیر جہاں پناہ کا کام کسی نوع سے بند نہیں”۔ شیر نے کہا: ‘‘اے نادان! مرد کو چاہیے کہ اپنے قدیم خاوند کی نمک حلالی میں قصور نہ کرے اور کبھی کبھی اُس کے یہاں حاضر ہوا کرے۔ اور جس کو خدا نے ہاتھ پاؤں اور دانائی، بینائی اور ہوش گوش دیا ہے، وہ کیوں کر کسی کے کام نہ آوے۔ سنا ہے اتنے دنوں جو تو ہم سے جدا رہا تو اس میں سراسر تیرا ہی نقصان ہوا۔ اب جو تو ہمارے حضورِ اعلیٰ میں حاضر ہوا ہے، تھوڑے دنوں میں اتنی دولت تیرے ہاتھ لگے گی کہ مستغنی ہو جائے گا”۔
بادشاہ کو جو اُس نے اپنے اوپر مہربان دیکھا تو عرض کی: ‘‘خداوند! اگرچہ بگلا درخت کے اوپر رہتا ہے اور قاز نیچے، لیکن وہ اوپر کے بیٹھنے سے افضل نہیں ہو سکتا۔ جہاں پناہ نے جو اَوروں کو وزارت کا عہدہ سپرد کیا ہے، کیا وے مجھ سے فہم و فراست میں زیادہ ہیں؟ بادشاہ کو چاہیے کہ بینا اور نیک نظر ہو، ہمیشہ ہنر مندوں کی جست و جو میں رہے کیوں کہ عقل مند بہت کم یاب ہیں اور نادانوں کی بیخ کنی میں۔ خداوند! اگرچہ حضور میں ہرن، پاڑھے، چِکارے بہت سے جمع ہیں لیکن بے وقوفوں سے بھلائی کی کیا توقع۔ یہ اسی کام کے ہیں کہ سر پر سینگ لیے پھریں اور ایسے کام جو دشمن نہ کرے، سو کریں ؎
دشمنِ جاں ہووے اگر ہوشیار
اس سے ہے بہتر جو ہو نادان یار
جہاں پناہ! یہ جو اَور اُمرا حضور میں حاضر ہیں، مجھے بہ نظر حقارت دیکھیں گے اور جناب عالی کی خدمت میں عرض کریں گے کہ اس بے وقوف کم اصل گیدڑ کو سردار نہ کیا چاہیے اور جو کوئی ان اُمراؤں میں سے لائق ہو اُس پر مہربانی کر کے سرفراز کیجیے، جو ہر وقت خدمت میں حاضر رہے”۔
یہ کہہ کر کہنے لگا: ‘‘پیر مرشد! خاوندوں کو یہ لازم نہیں ہے جو ہر ایک کو منہ لگاویں اور ہر کُدام کی بات سنیں بلکہ یوں چاہیے جو جس لائق ہو اُس کی اتنی ہی قدر کریں اور ہمیشہ احوال پُرساں رہیں۔ اگر خاوند عقل مند اور قابل رفیق کو ذلیل کر کے احمق کو عزیز رکھے اور کسی مشکل کام کرنے کے واسطے اُس کو حکم کرے تو ایسا ہے جیسے کوئی سر کی پگڑی پاؤں پر لپیٹے اور پاؤں کی جوتی سر چڑھاوے۔ لوگ جوتی اور پگڑی پر نہیں ہنستے بلکہ اُسی پر ٹھٹھے مارتے ہیں اور کہتے کہ یہ شخص دیوانہ ہوا ہے۔پس بادشاہ کو چاہیے کہ عاقل اور ہنر مندوں کو دوست اور معزز رکھے تاکہ اچھے اچھے لوگ اُس کے یہاں جمع ہوں۔ اور جو بادشاہ اپنے یہاں سے اہل علم و ہنر کو خارج کرے تو یقین ہے کہ بادشاہت اُس کی قائم نہ رہے، کیوں کہ داناؤں کو نکال دینے سے فتنہ و فساد برپا ہوتا ہے اور رعیت و پرجا خود بہ خود بھاگ جاتے ہیں، ملک اُجاڑ ہو جاتا ہے، سلطنت اُس کے قبضے میں نہیں رہتی ہے۔ یہ یاد رکھو کہ ملک کی آبادی عدل و انصاف سے ہے۔ اگر انصاف نہ ہو تو ملک ویران ہو جاوے۔ اور جب تک وزیر دانش مند اور بادشاہ نیک نیت نہ ہو، تب لگ ملک میں خلل ہی پیدا ہوتا ہے۔اے خداوند! اگر اچھی بات دانائی سے لڑکا کہے تو اُس کو بھی پلے باندھیے اور بوڑھا جو بُری بات نادانی سے کہے، ہرگز اُس پر کان نہ دھریے۔ جس میں عقل اور علم اور تحمل ہو، کیا چھوٹا، کیا بڑا، کیا بوڑھا، کیا بالا، وہی سب سے بہتر ہے”۔
پنگل نے کہا: ‘‘اے دوتک! اگرچہ تو کئی مہینے دشمنوں کے ڈر سے میرے پاس نہ آیا، کچھ مضائقہ نہیں۔ تو بڑا نمک حلال ہے، اس لیے میں نے تجھے اپنا وزیر کیا”۔ دوتک نے عرض کی: ‘‘آپ کے اقبال سے ڈر تو کسو سے نہ تھا، مگر پیادہ پائی کے سبب سے حاضر نہ ہو سکا”۔ شیر بولا: ‘‘کیا گھوڑا چاہتا ہے؟” اُس نے التماس کیا کہ خداوند! اسی اندیشے سے آپ نے مجھ کو حضور سے دور کیا تھا۔ اُس نے مسکرا کر کہا: ‘‘یہ چالاکی تو نے کس سے سیکھی”۔ پھر بولا: ‘‘اب تیرے افلاس کے دن گئے اور فراغت کے آئے۔ سچ ہے کہ تجھ سا عقل مند میرے نوکروں میں کوئی نہیں۔ اب میں تجھ پر مہربان ہوں، جو تیرا مطلب ہو سو بلا وسواس حضور میں ظاہر کر”۔ وہ بولا کہ غلام کی عرض یہ ہے جو آپ اُس روز ندی پر پانی پینے گئے تھے بے پیے پھر آئے، اُس کا کیا سبب؟ اس نے کہا: ‘‘تو بڑا دانا اور نہایت عقل مند ہے، اس میں ایک بات تنہائی کے کہنے کی ہے کیوں کہ اگر اُسے ہمارے مصاحب سنیں تو بھاگ جاویں”۔ یہ کہہ کر اُسے خلوت میں لے جا کر کہنے لگا کہ اس جنگل میں ایک ایسا جانور آ کر رہا ہے جس کی مہیب آواز نے میرے دل کو اس قدر بے چین کیا ہے کہ میں کچھ کہہ نہیں سکتا ہوں۔ اسی اندیشے سے میں اپنا گھر چھوڑا چاہتا ہوں۔ بلکہ تو نے بھی اُس کی آواز سنی ہوگی۔ اُس نے کہا: ‘‘خداوند! مجھے تو یہ معلوم ہوا تھا کہ شاید کہیں آسمان ٹوٹا یا بادل گرجا”۔
پھر شیر بولا کہ تو اس میں کیا صلاح دیتا ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ یہ صلاحِ وقت نہیں کہ یکایک اپنا تھر چھوڑ دیجیے یا لڑ بیٹھیے۔ اگرچہ وہ تمھارا دشمن ہے، پر اب ذرا دیکھو تو تمھارے ان نوکروں سے کیسی خدمت ہوتی ہے۔ نوکر اور جورو اور رفیق اُس کو کہتے ہیں جو وقت پڑے پر کام آویں اور وے اُسی سے پہچانے جاتے ہیں”۔ وہ بولا: ‘‘جو تو کہتا ہے درست۔ اب کچھ ایسی تدبیر کیا چاہیے کہ اُس کی آواز سے میرے دل میں جو دھڑکا پہنچا ہے، سو نکل جاوے”۔ اُس نے کہا: ‘‘جہاں پناہ! جب تک میری جان میں جان ہے، مطلق کسی نوع کا خطرہ اپنے دل میں نہ لائیے اور اگر حکم ہو تو کرتک جو میرا بھائی ہے، اُس کو بھی حضور میں حاضر کروں کہ آنا اُس کا بہتر ہے، کیوں کہ وہ بڑا عاقل و زور آور ہے۔ ایسے وقت میں ویسے نوکر کا بلانا مناسب ہے”۔ شیر نے کہا: ‘‘بہت اچھا”۔ اُسی وقت اکثر جانور اُس کے اشارے سے کرتک کے بلانے کو دوڑے اور بادشاہ کی خدمت میں اُس کو لا حاضر کیا۔
بادشاہ نے اُس وقت دوتک کو خلعت وزارت کا دے کر بہت سی مہربانی اور شفقت اُن دونوں کے حال پر فرمائی۔ تب کرتک نے دوتک سے کہا: ‘‘اے بھائی! یہ انعام اور خلعت جب حلال ہو کہ ہم بھی نمک حلالی کریں”۔ پھر دونوں بادشاہ کے حضور میں آداب بجا لائے۔ بادشاہ نے فرمایا کہ اب کیا کہتے ہو؟ اُنھوں نے عرض کی: ‘‘اگر جی کی امان پاویں اور حکم ہو تو جست و جو سے اُس کا احوال دریافت کریں کہ وہ ایسا کون ہے کہ جس نے خداوند کی سلطنت میں دخل کیا”۔ یہ بات سن کر شاہ نے اُن کو رخصت دی۔
جب وے کھوج کو نکلے تو راہ میں کرتک نے کہا: ‘‘بھائی! جس سے شیر ڈرا ہے اور تو بھی اُس کی ہیبت کا مقّر ہے، اُس سے جواب و سوال اور برابری کیوں کر کرے گا؟ جو چیز کہ ممکن نہ ہو، اُس کا قبول کرنا خیالِ فاسد ہے”۔ دوتک نے کہا: ‘‘اے نادان! بادشاہ کے رو برو جو دانا ہیں تو وے دور اندیشی سے رائی کو پربت کر دکھاتے ہیں اور اپنی ڈاڑھی کی حُرمت رکھتے ہیں”۔ کرتک نے کہا کہ جو شاہوں کی نگاہ لطف سے نہال ہوتے ہیں، سو اُس کی چشم غضب سے خرابی بھی دیکھتے ہیں۔ چاہیے یوں کہ جتنا کوئی کر سکے اُتنا ہی قبول کرے۔ دوتک بولا کہ وہ ایسا ایک جانور ہے کہ گیدڑ کو بھی نہیں مار سکتا۔ تب وہ کہنے لگا کہ بھلا کتنے روز سے بادشاہ اسی فکر میں تھا۔ تو نے پہلے ہی کیوں نہ کہا۔ دوتک بولا کہ بھائی! اگر اس کو دہشت نہ ہوتی اور میں پہلے ہی کہہ دیتا تو مجھے وزیر کیوں کرتا اور تجھے کیوں بلاتا۔ حق تعالیٰ نے یہ حیوان اس جنگل میں ہمارے نصیبوں سے بھیجا ہے اور بعضے بزرگوں کی یہ خو ہے کہ بپت کے وقت خواہاں ہوتے ہیں اور نہیں تو بات بھی نہیں پوچھتے، اپنے ہی حال میں خوش رہتے ہیں۔ چنانچہ جب آدمی کو مچھر کاٹتے ہیں، تب وہ دھواں کرتا ہے تاکہ وہ اس کی کڑواہٹ سے جاتے رہیں۔ اس بات کو یقین جانو کہ بے غرض کوئی کسی کو نہیں پوچھتا۔
آخر وے دونوں بھائی سنجوگ کی طرف گئے۔ کرتک ایک درخت کے نیچے بیٹھا اور سر اٹھا کر مونچھوں کو تاؤ دینے لگا اور دوتک سنجوگ کے پاس جا کر کہنے لگا کہ اے بیل! تجھ میں کیا تاب و طاقت اور تیری کیا بساط اور مجال۔ اگر اپنی خیریت چاہتا ہے تو میرے ساتھ کرتک کے پاس چل کہ وہ بادشاہ کا خاص ملازم ہے اور نہیں تو تجھے مار ڈالیں گے۔ اس ڈر سے وہ اُس کے ساتھ ہولیا اور کرتک کے نزدیک جا کر سلام کیا۔ وہ تیوری چڑھا کر کہنے لگا: ‘‘اے نادان! تو کون ہے جو اتنی دلیری کی کہ بدون حکم بادشاہ کے (کہ جس کا میں وزیر ہوں) اس جنگل میں آیا؟ ابھی حکم کروں تو تیری کھال کھینچی جاوے”۔ سنجوگ ڈرا اور تھرتھرا کر کہنے لگا کہ مجھ سے بڑی خطا ہوئی۔ جو تم سے ہو سکے تو میری تقصیر معاف کرواؤ۔ کرتک نے کن انکھیوں سے دوتک کی طرف اشارہ کیا کہ اس کو میرے پاؤں پر ڈال دے۔ دوتک نے سنجوگ کا کان پکڑ کرتک کے پاؤں پر ڈالا۔ اُس نے کہا کہ اگر اپنی بھلائی چاہتا ہے تو میرے ساتھ بادشاہ کے حضور چل۔
بیل نے کہا: ‘‘اگر مجھ کو حضور میں لے چلتا ہے تو میری جان بخشی کروانا”۔ تب کرتک نے نہایت مہربانی سے اُس کی پیٹھ ٹھونک کر کہا کہ تو اپنے دل میں کچھ خطرہ نہ کر کیوں کہ کیسی ہی سخت ہوا چلے پر کسی گھاس کو نہیں گراتی مگر بڑے درختوں کو؛ اس واسطے کہ گھاس نے جو اپنے تئیں پائمال خلائق کا کیا ہے، اسی عاجزی و انکساری کی برکت اسے صحیح و سلامت رہتی ہے اور درخت اپنے تئیں بڑا جانتے ہیں، اسی سبب جڑ سے اکھڑ پڑتے ہیں۔ سن اے بیل! بادشاہوں کا بھی وہی خواص ہے۔ تو بھی جو اس غریبی سے میرے ساتھ بادشاہ کے روبرو جاوے گا تو نہایت سرفراز ہوگا۔جب بادشاہ کی ڈیوڑھی کے نزدیک پہنچے، تب اُس کو دروازے پر کھڑا کر کے وہ دونوں بھائی بادشاہ کے حضور گئے اور آداب بادشاہی بجا لائے۔ شاہ نے پوچھا کہ جس کام کے واسطے تم گئے تھے، کچھ اُسے دریافت کیا کہ نہیں؟ دوتک نے عرض کی کہ خداوند! جیسا آپ نے فرمایا تھا اُس زیادہ دیکھنے میں آیا، لیکن اُس کو ہم ایک تقریب اور فریب کی ڈوری سے باندھ لائے ہیں اور وہ قدم بوسی کی آرزو میں دروازے پر کھڑا ہے۔ شیر نہایت خوش ہو کر پھول بیٹھا اور کہا: ‘‘لے آؤ”۔ دونوں گیدڑ گئے اور ناتھ پکڑ کر اُسے حضور میں لے آئے اور مجرا کروایا۔ بادشاہ نے اُس کو مہربانی کا خلعت دیا اور اُس کے رہنے کے واسطے ایک جگہ مقرر کروا دی۔ وہ اُس میں رہنے لگا اور دوتک و کرتک کو روپے اشرفیوں کے توڑے کے توڑے بخشے اور خدمت خزانچی گری کی کرتک کو دی۔ اور دونوں کو پاس بٹھلا کر پوچھا کہ کہو اس کو کیوں کر لائے؟ دوتک نے عرض کی: ‘‘خداوند! میں نے اس کی ناک میں عقل کے نشتر سے سوراخ کیا اور نرم باتوں کی رسی سے ناتھ کر حضور میں پہنچایا۔ اور میں ہمیشہ جہاں پناہ کا کام جان و دل سے اس واسطے کرتا ہوں کہ خداوند روز بروز میرے حال پر مہربانی زیادہ فرماویں۔ اور اگر کوئی دشمن میری طرف سے پیر مرشد کے دل میں بدی ڈالے تو اغلب کہ غلام کی طرف سے خاطر مبارک میں گرد کدورت کی نہ بیٹھے اور شفقت میں تفاوت نہ آوے۔ جیسا کہ راج کنور اور بنیے کی دوستی میں ایک بڑھیا عورت نے ادنیٰ حرکت سے جدائی ڈالی۔ شیر نے پوچھا: ‘‘اُس کا قصہ کیوں کر تھا؟” دوتک نے کہا۔
نقل کرپا کنور اور دھنپت چوپڑ باز کی
میں نے یوں سنا ہے کہ دھولا گر ایک پہاڑ ہے۔ اُس کے نیچے ایک ندی بہتی ہے۔ پانی اُس کا صاف سفید کافور سے زیادہ خوش بو ہے۔ اُس کے کنارے پر ایک بوندی نام شہر بستا ہے۔ اُس شہر میں ایک راجا تھا کہ اُس کے باورچی خانے میں ہر روز سو من نمک خرچ ہوتا تھا؛ اس سے اور جنس کا اندازہ کیا چاہیے کہ کتنی کچھ خرچ ہوتی ہوگی۔ اُس کے ایک لڑکا تھا۔ نام اُس کا کرپا کنور۔ نہایت شفقت سے اّس کو کبھی اپنے پاس سے جدا نہ کرتا۔ جو حرکت اُس سے ہوتی اس کے نزدیک خوش آیند تھی اور اُس کا دل کسی بات سے آزردہ نہ کرتا۔
ایک دن اُس لڑکے نے اپنے خدمت گاروں سے پوچھا کہ کوئی اچھا چوپڑ باز اس شہر میں ہے؟ انھوں نے عرض کی کہ دھنپت نام ایک بنیے کا بیٹا خوب کھیلتا ہے۔ اگر حکم ہو تو اُس کو لاویں۔ کہا: ‘‘جلد لاؤ”۔ تب لوگوں نے بقال کی ڈیوڑھی پر جا کر دستک دی۔ وہ گھر میں سے نکلا اور کنور کے لوگوں کو اپنے دروازے پر دیکھ کر ڈرا اور پوچھا کہ تم یہاں کیوں آئے ہو؟ انھوں نے کہا کہ تم ہرگز اپنے دل میں چنتا نہ کرو۔ راج کنور نے تم کو چوسر کھیلنے کو بلایا ہے۔ دھنپت جڑاؤ چوسر سونے روپے کی نردوں سمیت اور کچھ جواہر بیش قیمت اپنے ساتھ لے کر اُس کے پاس حاضر ہوا اور اُس کی خوب صورتی دیکھ کر بہت خوش ہوا اور سلام کر کے اُس جواہر میں سےکچھ اُس کو نذر گزرانا۔ اُس نے اُس کی نذر قبول کر کے چوسر بچھوا کھیلنا شروع کیا۔ بڑی دیر تک کھیلا کیے، پر برابر سرابر ہی رہے۔ جب وہ رخصت ہو کر جانے لگا، تب کنور نے ایک اشرفی اُس کو بہ طور انعام دے کر کہا کہ تو ہر روز ہمارے یہاں آیا کر۔ وہ ہمیشہ آتا اور چوسر کھیلا کرتا اور اشرفی روز اسی صورت سے لے جاتا۔
اسی طرح بہت سے دن گذرے۔ اُن دونوں میں یہاں تک اخلاص ہوا کہ کنور بھی اُس کے گھر جانے لگا۔ چنانچہ وہ دونوں آٹھ پہر ایک ساتھ ہی رہنے لگے۔ اور وہ ایسا کھیل میں غرق ہوا کہ کھانے پینے کی سُرت بھلا دی، بلکہ خبر گیری ملک و لشکر کی اور دیکھنا بھالنا ہاتھی گھوڑے مال خزانے کا ایک قلم دل سے اٹھا دیا۔ جب یہ اطوار اپنے لڑکے کے راجا نے دیکھے، تب اُس نے غم گین ہو کر دیوان سے یہ بات کہی کہ یہ لڑکا ملک کو برباد کر دے گا۔ کوئی ایسا شخص اس شہر میں ہے کہ اس میں اور اُس لڑکے میں جدائی ڈال دے؟ دیوان نے تدبیر تو بہت سی کی کہ اُن دونوں کی دوستی میں خلل پڑے پر کچھ پیش رفت نہ گئی۔
بعد دو تین برس کے ایک عورت مکارہ نے راجا کو آ کر سلام کیا اور کہا کہ اگر مہاراج کہیں تو میں اُن دونوں میں بات کہتے دشمنی ڈال دوں۔ یہ سن کر وہ بہت خوش ہوا اور کہنے لگا: ‘‘یہ کام مشکل ہے، سچ کہو کہ کتنے عرصے میں کتنی محنت اور کس قدر روپے خرچ کرنے سےہوسکے گا؟” بولی: ‘‘مہاراج! جو کوئی دوستی اور نیکی کیا چاہے تو وہ نہایت محنت و مشقت سے حاصل ہوتی ہے لیکن دوستوں میں دشمنی اور بدی ڈالنی بہت سہج ہے”۔ پھر اُس نے کہا کہ تو یہ کام کَے دن میں کرے گی؟ وہ بولی کہ ایک پَل میں۔ یہ بات سن کر دل میں متعجب ہوا اور ایک بیڑا دے کر بِدا کیا۔
یہ یہاں سے وہاں گئی جہاں وہ دونوں بیٹھے تھے اور سامھنے اُن کے کھڑی ہو کر بنیے کے بیٹے کی طرف آنکھ سے اشارہ کیا اور ہاتھ سے بلایا۔ وہ کنور کا منہ دیکھنے لگا۔ اُس نے کہا: ‘‘جاؤ دیکھو تو کیا کہتی ہے”۔ وہ اُس کے پاس آیا۔ کٹنی نے اُس کے کان کے پاس اپنا منہ لگا جھوٹھ موٹھ کُھسر پُھسر کر رستا پکڑا۔ وہ بے چارہ کنور کے نزدیک پھر آ بیٹھا۔ اُس نے پوچھا: ‘‘کہو بڑھیا تمھارے کان میں کیا کہہ گئی؟” بقال بچے نے قسم کھا کے کہا: ‘‘کچھ نہیں”۔
اسی رد و بدل میں دو چار گھڑی کا عرصہ گذرا۔ کنور نے کہا: ‘‘کیا برا وقت ہے، جو کوئی کسی کے حق میں بھلائی کرے تو گویا اپنے واسطے بُرائی۔ وہ عورت میرے رو برو تجھ سے کچھ کہہ گئی اور تو مکرتا ہے”۔ یہ کہہ کر اُس نے تیوری چڑھائی اور اُس سے علاحدہ ہو کر اپنے لوگوں سے کہا کہ اس بڑھیا کو پکڑ لاؤ۔ جو کچھ کہہ گئی ہے، اُسی سے معلوم ہوگا۔ اتنے میں وہ کٹنی پھر اُسی کے پاس آ بیٹھی۔ نوکر چاکر جو اُس کے دوڑے تو اُس مکارہ کو اُس کے پاس پکڑ لے گئے۔ کنور نے پوچھا: ‘‘بڑھیا! سچ کہہ تو کون ہے؟” اُس نے کہا: ‘‘میں اُسی کے باپ کی قدیم نوکر ہوں۔ اُس نے مجھے بھیجا تھا کہ تو دھنپت کو جا کے آہستے سے پوچھ کہ کنور کو تو نے کھلایا کہ نہیں؟” اُس نے کٹنی سے پوچھا: ‘‘وہ کیا چیز ہے؟” وہ بولی کہ میں نہیں جانتی، وہ شیرینی یا کچھ اور کھانے کی چیز ہوگی۔یہ سن کر اُسے تو رخصت کیا، آپ من میں سوچنے لگا کہ اگر اُس کے باپ نے کچھ اچھی چیز میرے کھانے کے واسطے کہی ہوتی تو دھنپت مجھ سے ہرگز نہ چھپاتا اور اتنی قسمیں نہ کھاتا۔ اب اس قرینے سے مجھے خوب معلوم ہوا کہ سواے زہر کے اور کوئی چیز کھلانے کو نہ کہی ہوگی۔ یہ گمان اپنے دل میں لا کر غصے ہوا۔ اپنے نفروں سے کہا کہ بقال بچے کو میدان میں لے جا کر جلد گردن مارو تاکہ ایسے بُرے کا پھر کبھی میں منہ نہ دیکھوں۔ تب اُنھوں نے اُس غریب کو وہاں لے جا کر نا حق ذبح کیا”۔
جہاں پناہ! ایسی ایسی باتوں سے مجھے کمال خطرہ ہے کہ مبادا کوئی میرا بد خواہ کچھ جھوٹھ موٹھ تہمت لگاوے تو میرا بھی حال اُسی کا سا ہووے۔ پیر مرشد! دانا وہ شخص ہے کہ دشمن کے کہنے سے اپنے دوست کی بُرائی نہ چاہے اور بد خواہ کو پہچانے اور اُس کے کہنے پر ہرگز عمل نہ کرے۔ شیر نے ہنس کر کہا ؎
خدا نے لکھا جس کا جو سِن و سال
ڈسے سانپ اُس میں نہ کھاوے ببر
نہ پانی کا خطرہ نہ آتش کا خوف
پھرے گونجتا بن میں جوں شیر نر
اے دوتک! تو اپنے دل میں ہرگز کسی چیز کا اندیشہ نہ کر، اپنے کام سے ہر وقت ہوشیار خبردار رہ۔
غرض جب دوتک اور کرتک نے بادشاہ کے یہاں سے خلعتِ سرفرازی اور جان کی امان پائی، رخصت ہو کر خوشی سے بغلیں بجاتے ہوئے اپنے گھر کو آئے۔ اسی طرح ایک مدت تک دونوں بھائی وزارت اور خزانچی گری کرتے رہے اور بادشاہ کی مہربانی اُن پر روز بہ روز زیادہ ہوتی رہی۔ سنجوگ رفتہ رفتہ اپنے درجے سے یہاں تک گرا کہ خدمت گاروں میں رہنے لگا۔ نہ بادشاہ اُس کو بُلائے، نہ یہ حضور میں مُجرے کو جانے پاوے، اس لیے نہایت مغموم رہا کرے۔
ایک دن پنڈ کرن بادشاہ کے بھائی نے چاہا کہ میں شکار کو جاؤں۔ اتفاقاً اُس روز سنجوگ کہیں پاس کھڑا تھا۔ یہ بات سنتے ہی رُو برُو بادشاہ کے عرض کی کہ اتنا شکار کل آیا تھا، کیا وہ سب خرچ ہو چکا۔ بادشاہ نے فرمایا کہ اس کو دو تک اور کرتک جانے۔ اُس نے پھر التماس کیا کہ حضرت! اُس کو دریافت کیجیے کہ اس میں سے کچھ باقی ہے کہ نہیں۔ تب بادشاہ مسکرا کر کہنے لگا کہ کل پر کیا موقوف ہے، ہم ہر روز شکار لاتے ہیں۔ جو ہمارے دن رات کے ناشتے اور کھانے سے بچتا ہے، دوتک کرتک لے جاتے ہیں۔ کچھ آپ کھاتے ہیں، کچھ فقیروں کو کھلاتے ہیں۔ وہ بولا کہ خداوند! یہ بات خیر خواہی اور عقل سے بعید ہے کہ بدون حکم آپ کے لے جاویں اور بادشاہی خزانے میں کچھ پس انداز نہ کریں۔ پیر مرشد! نوکر ایسا چاہیے کہ خاصیت کوٹھی کی رکھے۔ وہ ایک ظرف ہے، کچی مٹی سے بناتے ہیں، اکثر اناج رکھنے کے لیے اُس میں ایک ہی بار بہت سا غلہ اوپر سے بھر کے بند کر دیتے ہیں اور تھوڑا تھوڑا موکھے کی راہ سے موافق احتیاج کے نکال نکال خرچ کرتے ہیں۔ اور نوکر ایسا نہ چاہیے کہ جو کوئی اُسے اپنے گھر کا مختار کرے یا کچھ اسباب بہ طور امانت کے سونپے، وہ اسے غفلت سے برباد دیوے، یا کھوکھنڈا بیٹھے، یا سب کا سب کھا جاوے۔
خداوند! خزانے کو بادشاہ اپنی جان کے برابر سمجھتے ہیں کیوں کہ اگر خزانہ رہے تو لشکر بھی جمع ہو سکتا ہے؛ جو پیسا نہ ہو تو فوج نہ رہے اور فوج نہ ہو تو ملک ہاتھ سے نکل جاوے۔ اور یہ سخت عیب ہے کہ بادشاہ خزانے کی خبر نہ لے؛ کس واسطے کہ چار چیزیں خزانے کے حق میں زبوں ہیں: ایک تو تھوڑی آمد بہت خرچ، دوسرے غافل رہنا، تیسرے آپ سے جدا رکھنا، چوتھے لُوٹ کا مال خزانے میں داخل کرنا۔
یہ بات سن کر پنڈ کرن نے بادشاہ سے کہا کہ دوتک اور کرتک کو اپنے اپنے گھر کا بالفعل یہاں تک مختار کیا ہے کہ تمام خزانہ اور لشکر اُن کے قابو میں ہے۔ جو اسی طرح سے اُن کے ہاتھ میں رکھو گے تو یقین ہے ایک دن وے سر اٹھاویں گے اور مخالف بنیں گے۔ اس سے بہتر ہے کہ خزانہ ان کے ہاتھ سے نکال لیجیے اور سنجوگ کے حوالے کیجیے۔ صرف کام وزارت کا ان دونوں کے ذمے رہے۔ جیسا کہا ہے کہ تین شخص کو خزانے کا مختار نہ کیجیے: ایک تو اپنے کو، دوسرے سپاہی کو، تیسرے جو وقت پر اپنے کام آیا ہو۔ کیوں کہ اگر اپنے کو سونپیں گے تو اپنایت جان کر کھا جاوے گا اور کہے گا کہ میرا کیا کریں گے اور مجھ سے کیا لیں گے۔ اگر اس کو ستاویں تو تمام خلقت اپنے ہی تئیں برا کہے گی اور لوگ ہنسیں گے کہ واہ! اپنوں سے خوب سلوک کیا۔ اگر سپاہی کے حوالے ہو تو وہ اپنی تروار کے زور سے سب چٹ کر جاوے، ایک کانی کوڑی بھی گھس لگانے کو نہ دے، اگر مانگو تو لڑنے کو موجود ہو۔ تیسرے وہ جو وقت پر کام آیا ہو؛ جو اسے دیجیے تو وہ بھی ہضم کر بیٹھے، اس بات پر کہ جس کا مال ہے، وہ میرا احسان مند ہے۔ اگر اس سے لیا چاہیں تو ہر ایک سے کہے کہ میں نے اس سے فلانی جگہ یہ سلوک کیا اور وہ مجھ سے بے مروتی کرتا ہے۔
اے بادشاہ! سواے ان تین شخصوں کے خزانچی گری یا اور کام (کہ جس سے آقا کو فائدہ ہو) کسی کو سپرد کرے اوراس کو بھی خوب سا دریافت کرے اور دیکھے کہ بادشاہی خزانے میں سے خرچ کرتا ہے یا نہیں۔ اگر اپنے خرچ میں لاتا ہے تو اس کو بھی کام نہ دیجیے۔ اگر کام دیا ہے تو اسے معزول کیجیے تا کہ اوروں کو عبرت ہو۔
بادشاہ نے کہا کہ بھائی! جو تم کہتے ہو سو سچ ہے۔میں بھی جانتا ہوں دوتک و کرتک نے کچھ ہاتھ پاؤں پھیلائے ہیں اور کبھی کبھی عدول حکمی کرتے ہیں۔ پنڈ کرن بولا کہ بزرگوں نے کہا ہے کہ وزیر عقل مند اور مدبر چاہیے کہ اسباب و اجناس ہر طرح کی مہیا رکھے تو وہ وزارت کے قابل ہے۔ یہ بات میں آپ کی خیر خواہی سے مصلحتاً کہتا ہوں، اور داناکو ایک اشارہ بس ہے۔ چنانچہ میں نے آگے بھی عرض کی تھی خزانہ سنجوگ کے حوالے کیا چاہیے، کس واسطے کہ وہ گیدڑگوشت کے کھانے والے ہیں اور یہ بیل گھاس چرنے والا ہے۔ بادشاہ نے یہ بات قبول کی اور اسے خلعت بخشی گری کادیا اور خزانہ بھی حوالے کیا۔ جب دوتک اور کرتک نے اس مجلس کا رنگ اور بادشاہ کی اعتراضی کی گفتگو دو چار دن کے پیچھے کسی طرح معلوم کی، تب آپس میں کہنے لگے کہ دیکھو ہم نے اس بیل کو بادشاہ سے ملا دیا اور وہ ہمارے ہی اکھاڑنے کے درپے ہوا۔ اگر اسے ہم بادشاہ کے پاس یوں نہ لے جاتے تو اس کی نظروں کیوں گرتے اور یہ آفت ہم پر کیوں آتی۔ ہمارا کیا ہمارے ہی آگے آیا اور اس بات کو اب کسی سے کہہ بھی نہیں سکتے۔ کیا کیجیے جی ہی میں مسوس مسوس کر رہیے۔ مثل مشہور ہے ‘‘چور کی ماں کوٹھی میں سر ڈال کر روئے”۔
یہ روداد گندھرب، کنیت اور نندو نائی اور ساد کنوار کےقصے کی ہے کہ اپنے کیے سے ذلیل و خوار ہوئے۔ ویسا ہی ہم بھی نادم و پریشان ہوں گے۔ کرتک نے کہا کہ وہ قصہ کیوں کر ہے؟ دوتک بولا۔
نقل گندھرب، کنیت اور نندو نائی اور ساد کنوار کی
یوں سنا ہے کہ کنچن پور نام ایک شہر ہے۔ اس میں راجا بیر بکرماجیت رہتا تھا۔ اس کے نائب نے اپنے لوگوں کوایک روز حکم کیا کہ نندو حجام کو مقتل میں لے جاؤ۔ گندھرب ساد کنوار اور حجام کے قصے سے واقف تھا، اس واسطے ان کے پیچھے تماشا دیکھنے کو ہو لیا۔ جب وہ لوگ قتل گاہ میں پہنچ کے اس حجام کی گردن مارنے لگے، تب گندہرب نے اس کا ہاتھ پکڑ اپنے پیچھے کر لیا اور کہنے لگا کہ یہ حجام واجب القتل نہیں ہے، کیوں کہ احوال اس کا اور قصہ ساد کنوار کا دونوں ایک ساں ہیں اور میں اس سے خوب واقف ہوں۔ نائب کے آدمیوں نے پوچھا کہ وہ کیوں کر؟ اور تو کون ہے اور کیا جانتا ہے؟ گندھرب نے کہا کہ میں بنارس کے راجا کا بیٹا ہوں جو سنگل دیپ کا حاکم تھا۔
ایک دن میں اپنے باغ کی بارہ دری میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں ایک سوداگر بچہ کشتی سے اتر کر میرے پاس آیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کچھ حقیقت دریا کے سفر کی بیان کر۔ اس نے کہا کہ میں نے جہاز پر ایک عجب تماشا دیکھا ہے۔ اگر میں تجھ سے کہوں، خدا جانے تو باور کرنے یا نہ کرے۔ میں نے کہا کہ تو کہہ، میں یقین کروں گا۔ سوداگر بچہ کہنے لگا کہ دریا میں پانی کے اوپر ایک صندل کا درخت ہے اور اس درخت کے نیچے ایک جڑاؤ پلنگ بچھا تھا اور اس پر ایک عورت خوب صورت بیٹھی تھی کہ یک بہ یک میرے کان میں آواز آئی کہ اس کا نام رتن منجری ہے۔ مجھ کو دیکھ کر جو ہنسی تو موتی سے دانتوں کی جھلک سے تمام دریا روشن ہو گیا۔ اس سے زیادہ اس کی تعریف کیا کیجیے۔ جس دن سے کہ میری آنکھ اس سے لگی ہے، اس دن سے ایک پل آنکھ نہیں لگتی اور وہی صورت میری آنکھوں میں آٹھ پہر پڑی پھرتی ہے اور دل میں ایسی گڑی ہے کہ میرے ہوش و حواس بالکل جاتے رہے ہیں۔ اگرچہ فقیر ہو گیا ہوں پر اس کی یاد میں خوش رہتا ہوں اور کبھی اس کو نہیں بھولتا، بلکہ جس طرح دیکھا ہے وہی نظر آتی ہے۔جب میں نے سوداگر بچے کی زبانی یہ احوال اور تعریف اس کے دانتوں کی سنی، تب ایک حالت سکتے کی سی ہو گئی۔پھر بعد ایک پہر کے مجھ کو ہوش ہوا۔ اسی گھڑی اس کے دیکھنے کے اشتیاق میں جہاز پر سوار ہوا۔ جس جگہ سوداگر بچے نے اس کا پتا دیا تھا، ادھر ہی گیا۔ چند روز کے بعد وہاں جا پہنچا اور جتنی خوبیاں میں نے اس کی سنی تھیں، اس سے زیادہ دیکھیں اور یہ چاہا کہ اس کو میں اپنے گلے سے لگا لوں، ووں ہیں رتن منجری چارپائی سمیت پانی میں جاتی رہی۔ میں بھی اس کے پیچھے کود پڑا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شہر نہایت آباد ہے۔ میں نے لوگوں سے پوچھا کہ اس کا نام کیا ہے؟ انھوں نے کہا کہ اس کو گنگ بین کہتے ہیں۔ یہ سن کر میں کچھ آگے بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سونے کا محل جڑاؤ جگمگا رہا ہے اور اس کے اوپر رتن منجری بناؤ کیے ہوئے بیٹھی ہے۔ میں اس کو دیکھتے ہی خدا کی درگاہ میں سجدہ کر کے خوش ہوا اور دل میں کہا کہ اللہ نے مجھ کو جیتے جی بہشت میں داخل کیا۔ اور اس نے جو مجھے دیکھا تو لونڈیوں کو بھیج کر بلوا لیا اور بہت سی تعظیم و تکریم سے اپنے پاس بٹھلا کر پوچھا کہ اے شخص! تو کون ہے اور کہاں سے آیا؟ اس بات کو سن کر میں نے کہا کہ میں سنگل دیپ کے راجا کا بیٹا ہوں اور مجھے گندھرب کہتے ہیں لیکن اب تیرا غلام ہوں۔ رتن منجری نے کہا کہ نہیں بلکہ میں تیری لونڈی ہوں اور تو میرا میاں ہے، بہ شرطیکہ تو ایک بات سے باز رہے اور اس کے سوا جو تیرا جی چاہے، سو کرے۔ میں نے کہا کہ کیا کہتی ہو، کہو۔ تمھارا کہنا بہ سر و چشم قبول کیا۔ جس چیز کو منع کروگی سو نہ کروں گا۔ رتن منجری نے کہا کہ یہ تصویر جو اس محل میں کھینچی ہوئی ہے، کبھی تو اسے ہاتھ نہ لگانا۔ میں نے کہا کہ ہاتھ لگانے کا تو کیا ذکر ہے بلکہ میں اس کے پاس بھی نہ جاؤں گا۔ یہ سن کر رتن منجری مجھ کو دل و جان سے پیار کرنے لگی۔
چند روز اس کے باعث سے میرے عیش و عشرت میں گذرے۔ ایک دن میرے دل میں یہ خیال گذرا کہ ذرا اس تصویر کودیکھیے کہ وہ کیسی ہے۔ غرض اس کے پاس گیا تو ایک صورت عجیب و غریب دکھلائی دی۔ بے قرار ہو کر اس کی چھاتی پر ہاتھ ڈالا۔ جوں ہی میرا ہاتھ اس کی چھاتی تک پہنچا ووں ہی اس نے ایک لات ایسی ماری کہ میں کوہ قاف میں جا پڑا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ نہ وہ بستی ہے، نہ مکان، نہ رتن منجری۔
غرض اس خرابی سے میں پھرتے پھرتے تمھارے شہر میں آ نکلا ہوں۔ جب آفتاب غروب ہوا، تب میں ایک اہیر کے گھر میں اترا اور کچھ کھا پی کر سو رہا۔ پہر سوا پہر رات گئی ہوگی جو میری آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک غیر شخص اہیرنی سے مشغول ہے کہ اتنے میں اہیر شراب کے نشے میں سرشار آ پہنچا۔ اس نے پاؤں کی آہٹ سے معلوم کیا کہ اہیر آیا،ووں ہی دبے پاؤں بھاگا۔ اہیر تاڑ گیا کہ کوئی اہیرنی کے پاس تھا۔ جاتے ہی اس کے جھونٹے پکڑ کر خوب ہی لتیایا اورسائبان کے کھنبھے سے کس کے باندھا اور آپ سو رہا۔ گھڑی ایک کے بعد کنیت چرنا نائن کٹنی آکر اہیرنی سے کہنےلگی کہ تیرا یار مادھو حلوائی کی دکان کے پچھواڑے کھڑا روتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر وہ آج میرے پاس نہ آوے گی تو اپنے پیٹ میں چھری ماروں گا۔ گوالن بولی: ‘‘تو دیکھتی نہیں، میں کس حالت میں گرفتار ہوں۔ بھلا اُس کے پاس کیوں کر جاؤں۔ آج میرے خاوند نے مجھے مار کر اس ستون سے باندھا ہے، جو کھلی ہوتی تو سر کے زور جاتی”۔
نائن نے کہا: ‘‘میں تجھے کھول دوں؟” وہ بولی: ‘‘جو اس عرصے میں میرا شوہر جاگے اور کھنبھا خالی دیکھے تو خدا جانے اس سے زیادہ مجھے کیا اذیت دے”۔ اُس نے کہا: ‘‘خیر جو آج تو اُس کے پاس نہ جاوے گی تو کل اُسے جیتا نہ پاوے گی”۔ اہیرنی بولی: ‘‘جو تیری رضا مندی اسی میں ہے تو میں نے قبول کیا لیکن تو میرے بدل بندھی رہ اور جب لگ کہ میں وہاں سے نہ پھر آؤں، تب لگ ہرگز نہ بولنا”۔ نائن نے اُسے کھول دیا، اس کی جگہ اپنے تئیں بندھوا لیا، وہ اپنے یار کنے گئی۔جب دو چار گھڑی رات باقی رہی تب اہیر چونکا تو اُٹھ کر اُس کو کھنبھے سے کھول ساتھ سُلا کر کہا کہ میں نے تیری تقصیر معاف کی اور تو بھی قسم کھا کہ پھر ایسا بُرا کام نہ کروں گی۔ کئی بار اُس نے یہی بات کہی۔ یہ سُن کر دم کھا رہی۔ دل میں سمجھی کہ اگر بولوں گی تو یہ پہچان جائے گا۔ میں شہر میں بدنام ہو جاؤں گی۔ اسی ڈر سے اپنی آواز اُسے نہ سنائی۔ گوالے نے جب دیکھا کہ یہ سوگند نہیں کھاتی، تب جانا کہ اس کے دل میں حرام زدگی بھری ہوئی ہے، یہ اُس کام سے باز نہ رہے گی۔ خفا ہوکر پھر اُسے کھنبھے سے کس کے باندھا اور ناک اُس کی کاٹ لی، آپ چارپائی پر سو رہا۔گھڑی دو ایک میں اہیرنی اپنے یار کے پاس سے آئی اور آہستہ آہستہ نائن سے پوچھنے لگی: ‘‘کہو بی بی! میرے پیچھے تم پر کوئی حادثہ تو نہیں پہنچا؟” وہ بولی: ‘‘ کیا پوچھتی ہے۔ تیری خاطر میری ناک کٹ گئی”۔ اُسی وقت اُسے تو کھول دیا اور اپنے تئیں بندھوا لیا۔ یہ تو نکٹی ہو کر دل میں پچھتاتی ملولے کھاتی اپنے گھر چلی گئی۔ اُس کے پیچھے اہیر کی آنکھ کھلی اور پو بھی پھٹنے لگی۔ تب یہ کہنے لگا کہ اے نابکار! تو نے اپنی بدکاری سے توبہ نہ کی اور ناک کٹوائی۔ وہ بولی: ‘‘اگرچہ تو نے مجھ بے قصور پر زور و ظلم کیا لیکن تو دیکھ جو میں بھلے آدمی کی جنی اور نیک بخت ہوں تو رام جی کی دیا سے نکٹی نہ رہوں گی۔ میری ناک جیسی کی تیسی ہو جائے گی۔ اُس کی بات سنتے ہی وہ اُٹھا۔ ناک جوں کی توں دیکھ کر حیرت میں رہا۔ جی میں کہنے لگا کہ یہ عورت نیک زنوں سے ہے، جو اس کی ناک کٹی ہوئی پھر درست ہو گئی۔
یہ سمجھ کر پٹکا گلے میں ڈال، اُس کے پاؤں پر گر، منتیں کرنے لگا اور اپنی تقصیر معاف کروانے۔ اور بولا کہ میں نے ناحق تجھے دکھ دیا، یہ میری خطا معاف کر، پھر کبھی تیری اذیت کا روا دار نہ ہوں گا۔ یہ کہہ کر گندھرب نے کہا: ‘‘اے یار! میں اُس اہیرنی کے مکر سے تو حیران تھا ہی، پھر دل میں یہ خیال کیا کہ اس نائن کا اب تماشا دیکھیے کہ وہ اپنے خاوند سے کیا بہانہ کرے گی۔ غرض میں منہ اندھیرے اُس کے گھر کی دیوار کے کونے لگ کر کھڑا ہو رہا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ حجام باہر سے اپنے گھر میں آیا، آنگن میں کھڑا ہوکے اپنی عورت سے آئینہ مانگنے لگا۔ اُس نے پٹ کی اوٹ سے نہرنی ہاتھ بڑھا کر اُس کو پکڑا دی۔ اُس نے کہا: ‘‘میں آئینہ مانگتا ہوں، یہ لے اُسے لادے”۔ پھر اُسترہ لا دیا۔
اُس نے وہ اُس کے ہاتھ سے لے لیا اور خفا ہو کر کہا کہ کچھ تو دیوانی ہوئی ہے یا تو نے معجون کھائی ہے۔ میں آئینہ مانگتا ہوں تو کچھ کا کچھ لے آتی ہے۔ یہ کہہ کے پکار پکار کر کہنے لگا کہ میں ابھی اس اُسترے سے تیری ناک کاٹ ڈالتا ہوں۔ یہ بات اُس کے سب محلے والوں نے سنی۔ اُس نے وہ اُسترا باہر سے گھر میں پھینک دیا؛ ووں ہیں وہ رو رو کر کہنے لگی کہ ہے! ہے! اس اُسترے سے میری ناک کٹ گئی۔ اس آواز پر تمام محلے کے رہنے والے دوڑے اور آکر جو دیکھنے لگے تو سچ مچ اس کی ناک کٹی ہوئی دکھلائی دی اور وہ حجام بھی اس حالت کو دیکھ کر ششدر رہا۔ عذر خواہی کرکے کہنے لگا کہ بی بی! یہ مجھ سے بڑی تقصیر ہوئی ہے، اسے معاف کر۔اس بات کو سن کر نائب کے نوکروں نے کہا کہ اے گندھرب! تیرا اور اس نائی کا قصہ ہم نے سنا۔ اب ساد کنوار کی کہانی کا بیان کر۔
نقل ساد کنوار اور پنڈکی کسبی کی
اُس نے کہا کہ ساد کنوار بڑھئی بچہ تھا اور کڑوڑ روپے کا مال لے کر اپنے گھر سے تجارت کرنے کو نکلا اور چودہ برس تک سوداگری ہی کرتا رہا، اور کئی کڑوڑ روپے جمع کرکے اپنے گھر کو چلا۔ اتفاقاً راہ میں ایک شہر ملا کہ اُسے کام رُو کہتے ہیں۔ یہ وہاں گیا اور سنا کہ ایک عورت پنڈکی نام اس شہر میں ایسی حسین رہتی ہے کہ جس کی خوبصورتی کی تعریف بیان سے باہر اور کمر اُس کی ایسی پتلی کہ ویسی کسی عورت کی نہ ہوگی۔ ایک رات کی چوکی کے ہزار روپے لیتی ہے۔ یہ سُن کر نہایت بے قرار ہوا۔ دل میں کہنے لگا کہ اگر اس عورت کو میں نہ دیکھوں گا تو قیامت تک افسوس رہے گا۔ ہزار روپے اپنے ساتھ لے اُس کے یہاں گیا۔ تمام رات عیش و عشرت میں مشغول رہا۔ یہ ارادہ کیا کہ کئی شب اس کے پاس اور بھی رہیے۔ جب رات نے اپنا دامن سمیٹا اور سورج نے صبح کے گریبان سے منہ نکالا، تب ساد کنوار اپنے گھر آیا۔
اس طرح سے کئی رات آیا جایا کیا۔ اُس رنڈی کے گھر میں کاٹھ کا ایک جڑاؤ پُتلا طلسم کا بنا ہوا، نام اُس کا عجیب، پیشانی پر اُس کی ایک لعل بے بہا جڑا ہوا تھا کہ جس کی روشنی کے باعث چراغ کی حاجت نہ تھی۔ اُس کو دیکھ کر ساد کنوار کا دل للچایا اور اپنی خاطر میں یہ بات لایا کہ اس عورت نے میرے بہت سے روپے لیے ہیں۔ اُن کے عوض یہ جواہر بیش قیمت لیجیے اور یہاں سے چپکے چل دیجیے۔
اُس رنڈی نے جو اُس کے بشرے سے دریافت کیا کہ یہ اُس جواہر کو مفت اُڑایا چاہتا ہے؛ یہ سمجھ کر اُس کے پاس سے سرک گئی اور ایک پردے کی آڑ میں جا بیٹھی۔ اس نے جو اتنی فرصت پائی تو چارپائی سے اُٹھ کر ہاتھ دوڑایا کہ اُس گوہر شب چراغ کو اکھیڑ لے۔ جوں ہی اس کا ہاتھ اُس تک پہنچا ووں ہیں اُس پتلے نے اُس کا پنجہ پکڑ لیا۔ اُس نے بہتیرا چاہا کہ کسی تدبیر سے اپنا پنجہ چھڑا کر بھاگے لیکن اُس نے اور بھی ایسا گہکر پکڑا کہ یہ بے قابو ہو گیا۔ ندان جب چھڑا نہ سکا تو گھبرا کر چلانے لگا۔ تب اُس کی لونڈیوں نے یہ ماجرا دیکھ کر اپنی بی بی سے (جو پردے کو لگی اسی واسطے بیٹھی تھی) جا کہا: ‘‘لو نہ بی بی! تمھاری مراد بر آئی”۔
یہ خوش خبری سنتے ہی وہ وہاں سے دوڑی آئی۔ آ کر دیکھا کہ دام میں سونے کی چڑیا پھنسی ہے۔ ہنس کر کہنے لگی کہ اے ساد کنوار! میں جانتی تھی کہ تو کسی بڑے آدمی کا لڑکا ہے اور یہ نہ سمجھتی تھی کہ تو ایسا اُچکا دغا باز ہے۔ دیکھ ابھی کوتوال کو خبر کرتی ہوں۔ وہ تجھے لے جا کر کل سُولی دے گا۔ ایسے چور کی سزا یہی ہے۔ یہ سن کر بہت ڈرا اور اپنی کوتہ اندیشی پر ہزار لعنت و ملامت کی۔ پھر منت و التجا سے کہنے لگا کہ اے پنڈکی! کسی طرح تو مجھے کوتوال کی سولی سے بچالے۔ وہ بولی کہ ایک صورت سے تیری جان بخشی ہو سکتی ہے۔ اگر تو تمام مال و اسباب اپنا مجھ کو منگا دے اور پھر کبھی اُس کا دعویٰ مجھ سے نہ کرے۔ اور نہیں تو اپنی جان سے ہاتھ دھو۔ اُس نے دیکھا کہ سواے اس کے میرا چھٹکارا نہیں؛ تب اُس نے اپنے لوگوں کو بلوا کر کہا کہ میرا سب مال و متاع اس کے حوالے کرو، نہیں تو میں اس کے ہاتھ سے مارا جاتا ہوں۔ اُنھوں نے تمام نقد و جنس جو کچھ تھا، اُس عورت کو لا دیا۔ تب اُس نے اُس کا ہاتھ چھڑا دیا تو وہ غریب راتوں رات بھاگ کر کسی طرف چلا گیا اور مَیں رفتہ رفتہ تمھارے ملک میں آ نکلا۔ یہ سب احوال راجا کے نوکروں نے سُن کر حجام کو چھوڑ دیا۔
یہ قصہ دوتک نے کرتک سے کہہ کر کہا کہ جیسے گندھرب اور ساد کنوار اور حجام نے عورتوں کے ہاتھ سے ذلت کھینچی، ویسی ہی ہم نے بھی اس بیل سے۔ اب کچھی ایسی تدبیر کیا چاہیے کہ جس ڈھب سے شیر اور بیل میں دوستی کروائی تھی، ویسی اُن دونوں میں دشمنی ڈلواؤں۔ کرتک نے کہا: ‘‘یہ امر نہایت مشکل ہے، کیا تو نے نہیں سنا کہ سیتا باوجود کہ رام کی جورو تھی، اُس سے کچھ نہ ہو سکا؟” دوتک نے پوچھا: ‘‘کیوں کر؟” اُس نے کہا۔
نقل سیتا، رام اور اُس کی بہن کی
اگرچہ وہ قصہ طول طویل ہے لیکن مختصر کرکے کہتا ہوں۔ سیتا، رام اور اُس کا بھائی لچھن ان تینوں نے بارہ برس تک ایک جنگل میں گزارن کی۔ جب لنکا میں راون نے یہ بات سنی تو اُس جنگل سے سیتا کو لے اُڑا لے گیا۔ رام پھر بڑی محنتوں سے اُس کو وہاں سے لایا۔ جتنی عزت اُس کی آگے تھی اُتنی ہی رہی، کچھ اُس کی آبرو میں بٹا نہ آیا اور اپنے دل کو اُس کی محبت سے ہرگز نہ پھیرا۔ اُس کی بہنیں (جو سیتا کو دیکھ نہیں سکتی تھیں) آپس میں صلاح کی، کچھ ایسی فکر کیا چاہیے کہ اُس کی محبت بھائی کے دل میں نہ رہے۔ ایک ان میں سے اُٹھ کر دوسری سے کہنے لگی کہ دیکھ ابھی میں تجھے اُس کا تماشا دکھلاتی ہوں۔ یہ کہہ کر بھائی کے گھر گئی۔ وہ اُس وقت چوپڑ کھیلتا تھا۔ یہ جاتے ہی بھاوج سے ٹھٹھا کرنے لگی اور ہنستے ہنستے اُس سے پوچھا کہ تجھے کچھ یاد ہے راون کی شکل کیسی تھی؟ سیتا بے چاری اُس کے مَکر چَکر سے واقف نہ تھی، سدھاوٹ سے بولی: ‘‘راون کے دس سر، بیس آنکھیں اور سو اُنگلیاں تھیں”۔ پھر وہ کہنے لگی کہ اُس کی تصویر ذرا تُو کھینچ تو میں دیکھوں وہ کیسا تھا۔اُس بد ذات کے کہنے سے یہ نیک بخت بے خوف و خطرے سفید مٹی سے زمین میں اُس کی صورت کا نقشہ کھینچنے لگی۔ اس میں وہ مکارہ بولی کہ جب تک تو کھینچے، میں اپنے لڑکے کو دودھ پلا آؤں۔ یہاں سے دوڑی ہوئی جہاں رام چوپڑ کھیلتا تھا، چلی گئی۔ جاتے ہی کہا: ‘‘ذرا اپنی جورو کا تماشا چل کر دیکھو”۔ یہ کہہ کر بھائی کا ہاتھ پکڑ لائی، جہاں سیتا وہ نقشہ کھینچ رہی تھی۔ کہا: ‘‘دیکھو جو اس نے اُسے نہیں دیکھا اور اُس سے نہیں ملی تو اُس کی تصویر کھینچ کر کیوں دیکھتی ہے؟” یہ دیکھ سن کر رام کو بہت غیرت آئی۔ خفا ہو کر کہنے لگا کہ سیتا! تجھے جان سے کیا ماروں تو عورت ہے اور رنڈی کا مارنا مرد ہوکر خوب نہیں لیکن بہتر یہ ہے کہ میرے گھر سے نکل جا۔
کرتک نے یہ داستان سنا کر کہا کہ عورت کی محبت میں رام نے دریا پر پل باندھ کر لنکا کو جلایا اور سونے کے کوٹ کو توڑا اور اُسے خاک سیاہ کیا اور راون کو مارا۔ لیکن اپنے گھر سے ایسی پارسا عورت کو ایک دم میں رنڈی کے بہکانے سے نکال دیا۔ دوتک نے کہا: ‘‘بھائی! وہ کون سی بات ہے جو مکر و حیلے سے نہیں ہو سکتی۔ سیتا نیک بخت تھی، اپنے خاوند کی آبرو کے واسطے کچھ نہ بولی۔ اگر بدکار ہوتی تو جیسا کہ ایک مالن نے اپنے خصم کے ساتھ یہ سلوک کیا کہ اُس کے روبرو ایک یار کو نکال دیا اور دوسرے کو نہلا دُھلا، کھلا پِلا، اُس کے ساتھ کرکے تھوڑی دور تک بستی سے باہر پہنچوا دیا، ویسا ہی وہ بھی کرتی۔ کرتک نے کہا کہ وہ نقل کیوں کر ہے؟ دوتک بولا۔
نقل ایک مالن اور اُس کے یاروں اور اُس کے خصم کی
دوارکا نگری میں ایک مالی کی رنڈی بدکار کوتوال اور اُس کے بیٹے سے رہتی تھی۔ ایک دن کو ایسا اتفاق ہوا کہ اُس کے لڑکے سے بُرے کام میں مشغول تھی کہ اتنے میں کوتوال دروازے پر آیا اور کواڑوں کو کھٹکھٹایا؛ تب اُس نے لڑکے کو جلدی سے کوٹھی میں چھپایا اور اُس کو دروازے پر سے اپنے پاس بُلایا اور فی الفور ہم بستر ہونے لگی۔
قضا کار ووں ہیں اُس کا خاوند بھی دروازے پر آن پہنچا۔ تب رنڈی نے کوتوال کو سکھایا کہ میں تو پٹ کھولنے جاتی ہوں، پر تم لٹھ کاندھے پر دھرے، بڑبڑاتے، غصہ کرتے باہر چلے جانا، میں پیچھے بات بنا لوں گی۔ اُس نے ویسا ہی کیا۔ تب مالی نے گھر میں آکر اُس سے پوچھا کہ آج ہمارے گھر میں رات کو کوتوال کیوں آیا تھا اور خفگی کس بات پر کرتا چلا گیا؟ مالن بولی کہ اُس کا بیٹا اُس سے آزردہ ہو کر میرے یہاں چھپا ہے اور وہ اُس کو ڈھونڈھتا ہوا آیا تھا۔ اُس نے جو اپنا بیٹا یہاں نہ پایا تو کچھ بکتا ہوا چلا گیا۔ یہ کہہ کر اُس نوجوان کو کوٹھی سے نکالا اور نہلا دھلا، کھلا پلا، اپنے خصم کو اُس کے ساتھ کرکے تھوڑی دور اُسے پہنچوا دیا اور رخصت کے وقت کہہ دیا کہ یہ گھر اپنا ہی سمجھو۔ جب تمھارا جی چاہے، تب آیا کیجو۔
اس لیے میں کہتا ہوں کہ کام پڑے پر جس کی عقل بحال رہے، وہی عاقل ہے۔ پھر کرتک نے کہا: ‘‘بھائی! اُن دونوں میں بڑی دوستی ہے، تم کیوں کر چھڑاؤ گے؟” دوتک بولا کہ یار! جو کام تدبیر سے ہوتا ہے سو زور سے نہیں ہوتا، جیسا کہ کوے نے سانپ کو جان سے کھوایا۔ سنجوگ کیا مال ہے کہ میں اُس کو اُس کے رُتبے سے گرا نہ سکوں گا۔ پھر کرتک نے پوچھا کہ وہ قصہ کیوں کر ہے؟ دوتک بولا۔
نقل ایک کوے اور سانپ کی
درخت پر ایک جوڑا کووں کا مدتوں سے رہتا تھا اور اُسی درخت کی جڑ کے کھنڈلے میں بڑا سا کالا سانپ رہا کرتا۔ کوے کی مادہ نے اپنے گھونسلے میں انڈے دیے اور کوا سینے لگا۔ بعد بیس بائیس روز کے بچے نکلے۔ جب مہینے ایک کے بچے ہوئے، تب وہ سانپ اپنی جگہ سے نکلا اور آستے آستے اُس درخت پر چڑھا۔ کوا تو اُس وقت وہاں نہ تھا، اُس کے بچوں کو کھوندے میں سے کھا لیا۔ ہر چند اُس کی مادہ ایک دوسری ٹہنی پر بیٹھی ہوئی بہتیرا کاں کاں کیا کی اور بہت واویلا کر رہی، پر کوئی اُس کی داد کو نہ پہنچا اور کچھ فائدہ اُس کی فریاد سے نہ ہوا۔ جب کوا باہر سے پھر آیا تو مادہ نے اُس سے بچوں کی مصیبت اور اپنے کلپنے کا احوال کہا۔ یہ اُس سانپ کا ظلم سن کر دو تین دن بچوں کے سوگ میں رہا اور بہت سا رویا دھویا کیا اور دانا پانی چھوڑا۔ تب اُس گرد نواح کے جتنے کوے تھے، اُس حادثے کی خبر سن کر سب آئے۔ اور اُسے، جو اپنے جگر گوشوں کے ماتم میں ماتمی لباس پہن کر بیٹھ رہا تھا، تسلی دی اور اُس کا ہاتھ منہ دُھلا، کھانا پینا کھلا پلا رخصت ہو کر اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ تب مادہ نے نر سے کہا: ‘‘اب یہاں رہنا خوب نہیں۔ صلاح یہی ہے کہ اس جگہ کو چھوڑ دیجیے، کہیں دوسری جگہ آرام کی اچھی سی دیکھ کر جا رہیے، کیوں کہ حکما کہتے ہیں تین چیزوں سے انسان جلد مر جاتا ہے: ایک تو یہ کہ جس کی عورت بے گانے مرد پر فریفتہ ہو، دوسرے یہ کہ رہنا اُس گھر میں جہاں سانپ رہتا ہو، تیسرے یہ کہ دوستی کرنا احمق سے”۔
کوے نے کہا: ‘‘اے ناقص عقل! تو اتنی بے قرار نہ ہو، ٹُک صبر کر، دیکھ تو میں تیرے بچوں کا بدلہ کیوں کر لیتا ہوں”۔ وہ بولی: ‘‘تجھے میرے ساتھ اتنی جھوٹھی باتیں کرنی نہ چاہئیں۔ تیری عقل کی کیا رسائی جو اُس سے کچھ کام ہو سکے اور نادان میں ہزار طرح کی قوت ہو پر اُسے کچھ فائدہ نہیں ہوتا”۔ کوے نے اُس سے کہا: ‘‘تو نے نہیں سنا جو خرگوش نے اپنی عقل کے زور سے شیر کو مارا”۔ وہ بولی: ‘‘یہ بھی تُو جھوٹھ کہتا ہے۔ بھلا خرگوش شیر کو کیوں کر مارسکتا ہے؟”کوے نے کہا۔
نقل ایک خرگوش اور شیر کی
منڈ کارن ایک جنگل ہے، وہاں اکثر اقسام طرح کے جانور رہتے تھے۔ اتفاقاً دردانت نام ایک شیر کسی پہاڑ سے نکل کر اُس جنگل میں آرہا۔ ہر روز بارہ جانور وہاں سے مارتا؛ ایک اُن میں سے کھاتا اور سب چھوڑ کر چلا جاتا۔ جب دو تین مہینے اسی طرح گذرے تو بہت سے جانور مارے گئے۔ جب یہ صورت وہاں کے جانوروں نے دیکھی تو سب جمع ہو کر آپس میں کہنے لگے کہ اگر اسی طرح یہ شیر ہمیں مارا کرے گا تو کئی مہینے کے عرصے میں کوئی باقی نہ رہے گا، سب کو ٹھکانے لگا دے گا۔
آخر سب نے مل کر یہ صلاح کی کہ شیر کے پاس کسی شخص دانا کو بھیجا چاہیے کہ وہ جا کر یہ بات کہے کہ تمھارا پیٹ ایک جانور سے بھرتا ہے، پس اتنے جانوروں کا روز تم خون ناحق کیوں کرتے ہو؟ ایک جانور ہر روز ہم تمھارے کھانے کے لیے پہنچا دیا کریں گے۔ یہ بات تمھارے واسطے بہت اچھی ہے اور ہمارے بھی۔
جب آپس میں اُن کے یہ صلاح ٹھہری کہ ایک گیدڑ کو یہاں سے یہ پیغام دے کر اُس کے پاس بھیجیے۔ اس میں ایک خرگوش مجلس سے بول اُٹھا کہ یارو! یہ بات گیدڑ سے ہرگز درست نہ ہوگی بلکہ یہ وہاں جاکر ہمارے برخلاف کہے گا، کیوں کہ جب سے یہ شیر اس جنگل میں آیا ہے، تب سے ہمارے گھروں میں ماتم اور گیدڑوں کے شادی ہوئی ہے۔ وہ جھنجھلا کر بولا کہ اگر میری وکالت تجھ کو منظور نہیں اور فتنہ انگیز جانتا ہے تو تُو ہی جا اور اس معاملے کو بنا لا۔ تب خرگوش نے اس مہم کے واسطے کمر ہمت باندھی اور شیر کے نزدیک جاکر آداب بجا لایا۔ اُس نے دیکھ کر پوچھا: ‘‘تو کہاں سے آیا؟” اُس نے ہاتھ جوڑ کر عرض کی کہ خداوند! اس جنگل کے تمام رہنے والے نے مجھے بہ طور ایلچی کے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے اور یہ عرض کی ہے کہ خود بدولت کو بہت جانوروں کو مارنے اور اذیت دینے سے کیا حاصل؟ ہم سرکار میں یہ اقرار نامہ لکھ دیتے ہیں کہ ہمیشہ ایک جانور آپ کی خوراک کے واسطے بلا ناغہ پہنچا کرے گا، اس میں ہرگز کبھی خلاف نہ ہوگا۔ شیر نے قبول کیا۔ خرگوش وہاں سے رخصت ہوا، اپنے جنگل کو پھر آیا۔ جو گفتگو اُس کے اور اِس کے درمیان ہوئی تھی، سو جانوروں کو سب سنا دی۔ ہر روز ایک گلے سے جانور شیر کے یہاں پہنچا کرتا۔
جب نوبت خرگوش کی پہنچی، اُس نے اندیشہ کیا کہ اب کچھ ایسی تدبیر کروں کہ جس سے شیر کا لقمہ نہ ہوں۔ یہ خیال دل میں لاکر اپنے بچوں سے رخصت ہو، روتا ہوا شیر کی طرف چلا۔ تھوڑی دور جا کر راہ میں بیٹھا اور اپنے دل میں یہ فکر کرنے لگا کہ لوگ مجھے دانا اور عقل مند کہتے ہیں۔ اگر میری عقل اس وقت کچھ کام نہ آوے تو جاے تعجب اور محل افسوس کا ہے۔ وہاں سے اُٹھ کر یہ خیال کرتا ہوا ہولے ہولے نزدیک شیر کے گیا۔ وہ بھوک کی جھانجھ میں بیٹھا تھا۔ اُسے دیکھتے ہی غرانے لگا کہ تو نے آج اتنی دیر کیوں لگائی؟ میرے ناشتے کا وقت ٹل گیا اور بھوک نے مجھے بے تاب کیا۔
خرگوش ڈرتے ڈرتے کہنے لگا کہ اگر امان پاؤں تو کچھ عرض کروں۔ باگھ بولا: ‘‘جو کہنا ہو سو جلد کہہ لے”۔ خرگوش کہنے لگا کہ میں چلا آتا تھا، راہ میں ایک شیر ملا۔ اُس نے میرا پیچھا کیا، میں بھاگا اور پکار کے کہا کہ تو نہیں جانتا ہے کہ بادشاہ یہاں کا دردانت ہے؟ میں اُس کی خوراک ہوں، تو کون ہے کہ مجھے کھایا چاہتا ہے؟ بادشاہ سے نہیں ڈرتا اور اس کا خوف نہیں کرتا؟ تد وہ بولا کہ دردانت کیا چیز ہے اور اس کو اتنی طاقت کہاں کہ مجھ سے لڑے اور اب اس جنگل میں رہ سکے۔ تجھے میں نے اس واسطے چھوڑ دیا کہ تو جا کر اُسے خبر کرے۔ غریب پرور! میں نے آپ کو اطلاع کردی، آگے مختار ہیں۔ شیر اتنی بات سنتے ہی غصے سے جل گیا۔ کہنے لگا کہ تو مجھے اُس کا ٹھکانا بتلا دے۔ یہ آگے آگے شیر پیچھے پیچھے۔ جاتے جاتے ایک ایسے جنگل میں لے گیا کہ جس میں ایک بڑا کُوا تھا۔ اُس کنویں کے لب پر کھڑا ہو کر کہنے لگا کہ آپ کا دشمن اسی میں ہے۔ جیوں شیر نے کنویں کو جھانکا، تیوں اپنا عکس پانی میں دیکھا؛ جانا کہ وہ یہی ہے۔ غضب ناک ہو کر بھبکنے لگا اور ویسی آواز کنویں سے نکلنے لگی۔ شیر خفگی سے بول کر اُس کنویں میں کود پڑا اور پانی میں ڈوب کر مر گیا۔
پھر کوے نے کہا کہ اے مادہ! جس طرح اُس خرگوش نے اپنی عقل کے زور سے شیر کو مار کھپایا، اُسی طرح میں بھی اس سانپ کو ماروں گا۔ مادہ نے کہا: ‘‘اگر تجھ کو کچھ عقل ہے تو دیری نہ کر”۔ کوا بولا: ‘‘دانش مندوں نے یوں کہا ہے کہ جلدی میں کوئی کام اچھا نہیں ہوتا ہے ؎
جلدی نہ کر کہ کام ہے موقوف وقت پر
سارا انار تڑکے ہے وقت آئے ہے اگر
ان شاء اللہ تعالیٰ آج تو میں اپنے دل سے مصلحت کرتا ہوں کل اپنا کام کروں گا”۔ مادہ نے کہا: ‘‘اے کوے! جس کو جو کام کرنا ضرور ہوا اور اُس سے وہ ہو سکتا ہو اور وہ کہے کہ آج نہیں کل کروں گا، اُس سا دوسرا کوئی دنیا میں نادان نہیں۔ اس واسطے یہ مثل لائے ہیں: شب حاملہ فردا چہ زاید”۔ کوا یہ بات سن کر چیت گیا۔ وہ بولی: ‘‘مناسب یوں ہے کہ ابھی تو یہاں سے جا اور سانپ کے مارنے کی تدبیر کر کیوں کہ وہ ہمارا جانی دشمن ہے”۔
کوا جو اُڑا تو وہاں کے بادشاہ کے رنگ محل پر جا بیٹھا۔ اتفاقاً اُس وقت بادشاہ کی بیٹی غسل کرتی تھی اور اپنا نولکھا ہار موتیوں کا گلے سے اُتار کر کھونٹی پر لٹکا دیا تھا۔ کوا اُس ہار کو اپنی چونچ میں لے کر کوٹھے کی مُنڈیر پر جا بیٹھا۔ لونڈیوں نے غُل مچا کر کہا کہ شہزادی کا ہار کوا اٹھا لے گیا اور کوٹھے پر جا بیٹھا۔ اس بات کے سنتے ہی بادشاہ نے لوگوں کو دوڑایا کہ خبردار! ہار جانے نہ پاوے۔ جب کوے نے دیکھا کہ ایک خلقت میرے گرد جمع ہوئی، تب وہ وہاں سے آہستے آہستے اڑتا ہوا اپنے گھونسلے کی طرف چلا۔ جتنے آدمی جمع ہوئے تھے، سو سب اُس کے پیچھے پیچھے ہاں ہاں کرتے دوڑے۔ وہ اُس درخت پر جا بیٹھا جس میں وہ سانپ تھا اور وہ لوگ بھی اُس کے نیچے جا کھڑے ہوئے۔ اور آدمیوں کے شور و غُل سے سانپ درخت پر چڑھ گیا اور کوے کے گھونسلے میں جا چھپا۔ تب کوے نے غنیمت جان کر وہ ہار سانپ کے گلے میں ڈالا اور آپ دوسرے درخت پر جا بیٹھا۔ دو چار آدمی وہ ہار اتارنے کو ان میں درخت پر چڑھ گئے۔ وہاں جا کر کیا دیکھتے ہیں کہ ہار سانپ کے گلے میں پڑا ہے اور وہ اُن کو دیکھ اپنا سر اُٹھا کر چاروں طرف پھنکاری مارنے لگا۔ وے لوگ اُس کے ڈر سے ہار نہ لے سکے اور نیچے اُتر آئے اور لوگوں سے کہنے لگے کہ ہار سانپ کے گلے میں پڑا ہے۔ وہ غصے سے پھنکاری مار رہا ہے، ہمارا ہواؤ نہیں پڑتا جو اُس کے گلے سے اُتاریں۔ تب انھوں نے بڑھئی کو بلوایا اور وہ پیڑ جڑ سے کٹوایا۔ سانپ کو مار ہار بادشاہ کے پاس لے آئے۔
پھر دوتک نے کہا: ‘‘بھائی! کوے نے سانپ مارا اور خرگوش نے شیر۔ یہ بیل کیا چیز ہے جو میں اپنی عقل سے اُس کو نہ مار سکوں گا”۔ کرتک نے کہا: ‘‘اے دوتک! اگر تجھ کو مارنے کی طاقت ہے تو جا اس کام میں غفلت نہ کر”۔
دوتک نے جب کرتک کی زبان پائی تو تنہا سنجوگ کو بُلا کر جھوٹھ موٹھ کہنے لگا کہ مجھے بادشاہ نے کہا ہے کہ تو سنجوگ کو جا کر کہہ دے کہ سرکار بادشاہی میں فوج کم ہے اور خزانہ بہت۔ تو لشکر رکھنے کی ایسی فکر کر کہ کسی کو خبر نہ ہو اور سپاہ رکھی جاوے۔ سنجوگ نے اُس کی بات پر اعتماد کرکے دروازہ خزانے کا کھولا اور سپاہ رکھنے لگا۔
جب دوتک نے دیکھا کہ سنجوگ نے فوج رکھنے کے پیچھے سارا خزانہ بادشاہی صرف کیا، تب شیر کے پاس جاکر آداب بجا لایا اور اپنے پاے پر کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا کہ جہاں پناہ! ان دنوں کچھ عجائب تماشا نظر آتا ہے، پر جناب عالی کے رُو برو عرض نہیں کر سکتا ہوں کیوں کہ بزرگوں نے کہا کہ جو کوئی بِن بلائے کسی کے گھر جاوے یا بِن پوچھے بات کہے تو اُس کے برابر کوئی احمق نہیں۔ لیکن میں ڈرتا ہوں کہ میرا وہ حال نہ ہو جو اُستاد سے شاگرد کا ہوا۔ شیر نے پوچھا: ‘‘وہ قصہ کیوں کر ہے؟” دوتک کہنے لگا۔
نقل اُستاد اور شاگرد کی
میں نے یوں سنا ہے کہ لکھنوتی ایک بستی ہے۔ وہاں کسی معلم سے ایک لڑکا پڑھتا تھا اور میاں جی اُس کا افیمی۔ جب افیم اُتر جاتی اُسے نیند آتی اور اونگھنے لگتا۔ اگر اُس حالت میں کوئی اُسے کچھ کہتا یا شاگرد کوئی لفظ سبق کا پوچھتا تو خفا ہوکر شاگرد کو خوب مارتا اور کہتا کہ اے بے وقوف! اول مکتب میں ادب سیکھا چاہیے کہ جس کے باعث بہت سے کام نکلتے ہیں۔ غرض ہر روز شاگرد کو یہی تاکید کیا کرتا تھا کہ اگر پھر کبھی بغیر پوچھے مجھ سے کوئی بات کی یا مجھے سوتے سے جگایا تو مارتے مارتے مار ڈالوں گا۔ شاگرد نے توبہ کی کہ پھر ہرگز ایسا کام نہ کروں گا۔
ایک دن رات کو چراغ اپنے سامھنے رکھ کر اُسی شاگرد کو پڑھا رہا تھا۔ اتنے میں اُسے پینک جو آئی تو شملہ اُس کا چراغ کی ٹیم پر جا پڑا اور پگڑی جلنے لگی۔ گرمی جو اُس کو پہنچی تو چونک کر شاگرد سے کہنے لگا کہ اے بد ذات! تو دیکھتا تھا کہ پگڑی میری جلتی تھی، مجھے کیوں نہ جگا دیا؟ یہ کہہ کر اُس کو بہت سا مارا۔ اُس نے رو رو کر کہا کہ آپ ہی نے مجھے منع کیا تھا، سونے کے وقت مجھے مت جگائیو اور بے پوچھے بزرگوں کی بات میں نہ بولیو کہ بے ادبی ہے۔ اس واسطے میں نے آپ کو نہ جگایا۔ آخوند جی نے کہ کہا کہ لاحول ولا قوۃ۔ میں نے اس بات کو منع نہیں کیا تھا کہ کسی کا نقصان اپنے سامھنے ہو، وہ اُسے خبر نہ کرے اور بیٹھا دیکھا کرے۔
پھر دوتک نے کہا کہ خداوند! میرا اور آپ کا قصہ اُس استاد اور شاگرد کا سا ہے۔ اگر کہوں تو بے ادبی، جو نہ کہوں تو سرکار کا نقصان ہے۔ بادشاہ نے فرمایا کہ میں نے تجھے اپنا وزیر اسی واسطے کیا جو تو دیکھو سو حضور میں ظاہر کرے۔ اگر تو نے کچھ دیکھا ہے تو کیوں نہیں کہتا؟ خصوص جس میں کہ سرکار کا فائدہ ہو، اسے چھپانا نہایت نامناسب ہے۔ تب اس نے عرض کی: ‘‘جو غلام حضور میں ظاہر کرے، اگر اسے باور کیجیے تو مفصل گوش گزار کرے”۔ شاہ نے اشارہ کیا کہ ہوں۔ دوتک بولا کہ خداوند! سنجوگ باغی ہوا ہے کیوں کہ جناب عالی کے بے حکم اوپر ہی اوپر فوج رکھتا ہے۔ اور وہ آپ بھی زور آور ہے؛ سواے اس کے سرکار کا خزانہ اسی کے ہاتھ میں ہے۔
اس بات کے سنتے ہی بادشاہ آگ ہو گیا اور کئی جاسوس اسی وقت اس کا احوال دریافت کرنے کو مقرر کیے۔ انھوں نے دو چار دن کے بعد اس کا احوال موافقِ اظہار دوتک کے حضور میں ظاہر کیا۔ تب دوتک بولا کہ پیر مرشد! مقدمے کی صورت یوں ہے جو آپ نے سنی، غلام نے خلاف نہیں عرض کیا۔ اب آپ مختار ہیں۔ جیسا مناسب جانیے ویسا کیجیے۔ تب شیر نے دوتک سے کہا: ‘‘اگر میں اس کو مار ڈالوں تو ساری خلقت مجھے کہے گی کہ یہ کیسا بادشاہ ہے کہ جس کو بلا کر خلعت سرفرازی کا دیتا ہے، پھر اسے مار ڈالتا ہے۔ یہ بات میرے حق میں موجب بدنامی کا ہے”۔
دوتک نے عرض کی کہ خداوند! غلام کی عقل ناقص میں یوں آتا ہے کہ بالفعل اس کو خزانے کی خدمت سے تغیر کیجیے اور دوسرے کو اس کی جگہ بحال۔ اور اس کے کھانے کے لیے کچھ تھوڑا سا مقرر کر دیجیے کہ جس سے اس کے بدن کا زور کم ہو جاوے۔ بادشاہ نے دوتک کے کہنے سے فرمایا کہ سنجوگ سے کام چھین لیں اور راتب کم کر دیں۔ تب دوتک حضور سے رخصت ہوا اور بادشاہی دروازے پر آ کر دربان سے کہا کہ حضرت کا حکم یوں ہے کہ سنجوگ آج کی تاریخ سے بے حکم ہمارے حضور میں نہ آنے پاوے۔ یہ کہہ کر اپنے گھر گیا اور سنجوگ کو بلا کر کہا کہ بادشاہ نے تیرے حق میں یوں فرمایا ہے کہ بے ہمارے بلائے حضور میں وہ نہ آوے اور فوج کے رکھنے میں مشغول اور سرگرم رہے۔ جب بہت سی نگہ داشت کر چکے تب حضور میں آوے۔ وہ بیل بے وقوف اس وزیر دغا باز کی بات کو سچ جان کر خوشی خوشی سپاہ رکھنے لگا اور کئی روز حضور میں مجرے کو نہ گیا۔ تب دوتک نے قابو پا کر دربار میں کسی سے بادشاہ کو سنا کر پوچھا کہ سنجوگ کئی دن سے یہاں نہیں آیا، اس کا سبب کیا ہے؟ وہ بولا کہ مجھے معلوم نہیں۔ ووں ہیں بادشاہ نے زبان مبارک سے فرمایا کہ وہ پانچ چار روز سے حضور میں حاضر نہیں ہوتا۔
دوتک نے کہا کہ بندے نے پہلے ہی جناب عالی میں عرض کی تھی کہ اس کے پاس دن بہ دن فوج جمع ہوتی ہے۔ یقین ہے کہ وہ آج کل آپ سے مقابلہ کرے۔ بادشاہ نے کہا: ‘‘اے دوتک! اگرچہ اس کی بد ذاتی جاسوسوں کی زبانی کچھ کچھ ہم سن چکے ہیں تاہم جس کو تو عقل مند جانے اس کو وہاں جلد بھیج دے کہ قرار واقعی اس کا احوال دریافت کر کے ہم کو خبر دے”۔ وہ ایک عقل مند چوہے کو جو اس کا یار جانی تھا، اپنے طور کی باتیں سکھا پڑھا روبرو بادشاہ کے لایا اور اسی کو اس مقدمے کی تحقیقات کے واسطے مقرر کروایا۔ جب یہ سنجوگ کے یہاں پہنچا، وہ اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور بہت سی تعظیم کی اور اپنے پاس بٹھایا، عطر و پان اس کے سامھنے رکھوائے اور پوچھا کہ تمھارا آنا یہاں کیوں کر ہوا؟ کہا: ‘‘دوتک وزیر نے مجھے تمھارے پاس اس واسطے بھیجا ہے کہ سواری بادشاہ کی عنقریب ہے؛ تم نے اب تک کچھ فوج رکھی ہے یا نہیں؟ اگر رکھی ہے تو بہت اچھا و اِلّا بادشاہ کو کیا جواب دو گے جب وہ پوچھے گا؟” سنجوگ بولا کہ میری طرف سے وزیر کی خدمت میں سلام عرض کر کے التماس کرنا کہ میں نے خداوند کے اقبال سے بڑی کٹیلی فوج جمع کی ہے۔ تھوڑے سے لوگ اور بھی رکھ لوں تو حضور میں حاضر ہوں۔
یہ کہہ کر کچھ اسے دے دلا بہ خوبی رخصت کیا۔ پھر وہ حضور میں حاضر ہوا اور آداب بجا لایا۔ تب حضرت نے پوچھا کہ میں نے جو تجھے وہاں بھیجا تھا سو تو نے کیا دیکھا؟ اس نے عرض کی: ‘‘پیر مرشد! میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آیا ہوں کہ اس نے بہت لوگ رکھے ہیں اور اس کی بات چیت اور اوضاع اطوار سے اور اس کے بعضے ملازموں کی زبانی معلوم ہوتا ہے کہ آج کل خداوند کا سامھنا کرے۔ یہ سنتے ہی شیر آگ کا بگولا ہو کر دوڑا اور جھپٹ کے سنجوگ کی گردن توڑ ڈالی اور اس کا لہو پی گیا۔
بعد اس کے وفاداری اور خوبیاں اس کی جب یاد آئیں، بہت سا افسوس کیا اور کہنے لگا کہ میرا بڑا خیر خواہ نوکر تھا۔ میں نے اس کے مارنے میں عبث جلدی کی۔ بہتر یہ تھا کہ اس کا احوال بہ تامل دریافت کر کے جو مناسب جانتا سو کرتا۔
دوتک نے کہا: ‘‘خداوند! اب اس کے لیے پچتانا عبث ہے کیوں کہ یہ بات دنیا میں زبان زد ہے کہ نہ ٹوٹا شیشہ بنتا ہے، نہ مُوا آدمی پھر جیتا ہے۔ خدا نہ خواستہ اگر وہ تم سے مقابلہ کر بیٹھتا تو تمام عمر اس رسوائی کا داغ تمھارے دل سے نہ چھوٹتا۔ خوب ہوا جو دشمن زبردست مارا گیا۔ اور اگر وہ آپ کے ہاتھ سے بچ جاتا تو آخر بدلا اس کا کبھو نہ کبھو تم سے لیتا”۔ یہ سن کر بادشاہ اپنے دیوان خانے میں آ بیٹھا اور کھانا کھانے لگا۔ تب دوتک نے یہ شعر حضور میں پڑھا ؎
اگر تو سیج کو سو طرح سے لگاوے گا
یہ یاد رکھ تو کبھی اس سے پھل نہ پاوے گا
جب بشن سرما پنڈت نے دوسری کہانی سُرہد بھید کی (یعنی اچھی دوستی میں بگاڑ کرانا) تمام کی، تب راجا کے بیٹوں نے کہا کہ مہاراج! ہم نے یہ کتھا سنی؛ اب تیسری نقل بگرہ یعنی جنگ کی بیان کیجیے کہ اس کے سننے سے ہم مستفید ہوویں۔
تیسرا باب
پنڈت نے کہا: ‘‘یوں سنا ہے کہ کسی وقت خشکی اور تری کے جانوروں میں لڑائی ہوئی تھی۔ آبی جانوروں کا بادشاہ قاز اور خشکی کے پرندوں کا ہدہد تھا۔ باوجود قاز کا لشکر زیادہ تھا پر ہدہد نے اپنی دانائی اور تدبیر سے اس پر فتح پائی”۔ راے زادوں نے پوچھا کہ مہاراج! وہ کیوں کر ہے؟ اسے مفصل بیان کیجیے۔
نقل قاز اور ہدہد کی
پنڈت کہنے لگا کہ ہندوستان میں ایک شہر ہے۔ نام اس کا کرن پور۔ اس کے نزدیک ایک بڑی سی جھیل تھی کہ اس سے کئی ندیاں اور نالے نکلے تھے۔ اس میں قاز بادشاہی کرتا تھا اور مرغابی سے تا سُرخاب اور بگلے سے جل کوّے تک اس کے حکم میں تھے۔ قاز ایک روز اپنے تخت پر خوش و خرم بیٹھا تھا، اتنے میں ایک بگلے نے آکر آستانہ بوسی کی اور آداب سے ہاتھ باندھ کر دور کھڑا ہو رہا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ تجھے آج بہت دنوں پیچھے دیکھا۔ بگلا بولا کہ غلام گھر میں نہ تھا۔ ابھی ایک ملک سے چلا آتا ہے کہ وہاں کا احوال مجھ سے بیان نہیں ہو سکتا۔ فرمایا: ‘‘کچھ کہا چاہیے”۔ عرض کی کہ بیٹھے بیٹھے جو دل اُکتایا تو جی میں یوں آیا کہ کہیں کی سیر کیجیے۔ جب گھر سے نکلا، پھرتے پھرتے دکھن کی طرف جا پہنچا۔ وہاں ایک پہاڑ نظر آیا۔ اُس کو دھولاگر کہتے ہیں۔ اُس کے گرد میوے دار درخت بہت سے دیکھنے میں آئے اور وہاں کے باشندوں سے یہ معلوم ہوا کہ یہاں کے پرندوں کا بادشاہ ہدہد ہے۔ میں نے اپنے جی میں یہ ارادہ کیا کہ اگر اُس سے ملاقات ہو جاوے تو کیا خوب اتفاق ہو۔ میں اسی سوچ بچار میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں اُس کے بھی دس بارہ نوکر وہاں آ نکلے۔ مجھ سے اور اُن سے جو گفت گو درمیان آئی سو قابل اظہار کے نہیں۔
قاز نے کہا: ‘‘تم شوق سے بے خوف و خطرے جو دیکھا اور سنا ہے سو کہو، اُس کا کچھ مضائقہ نہیں۔ مثل ہے کہ نقل کفر کفر نہ باشد”۔ جب بگلے کی خاطر جمع ہوئی، ادب سے بیٹھ کر کہنے لگا کہ اے خداوند! آتے ہی اُس کے نوکروں نے مجھ سے پوچھا: ‘‘ تو کون ہے اور یہاں کیوں آیا ہے؟” میں نے کہا: ‘‘قاز بادشاہ کے خاص نوکروں میں سے ہوں اور بہ طریق سیر کے ادھر آ نکلا ہوں۔ اب اپنے ملک کو چلا جاؤں گا۔ پھر میں نے اُن سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ بولے کہ ہم ہدہد بادشاہ کے نوکر ہیں، جو اس وقت میں ویسا بادشاہ کوئی نہیں۔ میں نے کہا کہ اتنی بڑائی اور فخر کرنا کیا ضرور ہے۔ خدا کی قدرت معمور ہے۔ پھر انھوں نے پوچھا کہ تم سچ کہو کہ اپنے اور ہمارے بادشاہ میں کس کو بڑا جانتے ہو اور دونوں کے ملکوں میں سے کس کا ملک زیادہ آباد ہے؟ میں نے جواب دیا کہ اے نادانو! کیا پوچھتے ہو، کہاں راجا بھوج اور کہاں گنگا تیلی ؏
چہ نسبت خاک را با عالم پاک
کرن پور ہمارا وہ شہر ہے کہ بہتوں پر فضیلت رکھتا ہے اور ہمارے بادشاہ کا ثانی آج تک نہ کوئی ہوا ہے نہ ہوگا۔ پس اب بہتر یہ ہے کہ اس جنگل اور پہاڑ میں رہ کر کیا کرو گے؟ ہمارے بادشاہ کے یہاں چلو۔ اور تمھارے بادشاہ کی وہی مثل ہے کہ جہاں روکھ نہیں تہاں ارنڈھی رُوکھ ہے۔ اگر ہمارے ملک میں کبھی تم آؤ اور اُس کی بڑائی اور آبادی اور بادشاہ کے عدل و انصاف کو دیکھو تو دنگ رہ جاؤ اور بہت محظوظ ہو۔ پس اب بہتر یہ ہے کہ اس جنگل اور پہاڑ کو چھوڑو اور ہمارے بادشاہ کے یہاں چلو۔ اس گفت گو کے سنتے ہی وے چیں ابرو ہوئے اور رشک کی آگ میں جلنے لگے اور عداوت پر کمر باندھی؛ جیسا کہ داناؤں نے کہا ہے کہ سانپ کے منہ میں شربت اور احمقوں کو نصیحت کڑوی لگتی ہے۔ اور ان باتوں سے مجھے کمال پشیمانی حاصل ہوئی، جیسا کہ بعضے پرند جانور ایک بندر کو نصیحت کر کے پشیمان ہوئے”۔ قاز نے کہا: ‘‘اسے بیان کرو، وہ کیوں کر ہے؟” وہ بولا۔
نقل ایک بندر اور پرندوں کی
کسی پہاڑ تلی میں ایک نالے پر بڑا سا درخت پاکڑ کا تھا۔ اُس کی ٹہنیوں پر بھانت بھانت کے جانور گھونسلے بنا کر رہا کرتے۔ ایک دن ہر چہار طرف گھٹا اُمڈی اور بجلی چمکنے لگی اور مینھ جھماجھم برسنے لگا۔ جاڑے کا ایّام تھا، سردی سے دانت پر دانت لگے باجنے۔ اتنے میں ایک بندر کانپتا ہوا اُس درخت کے نیچے آیا۔ اُن جانوروں نے اُس کی یہ حالت دیکھ اپنے دل میں ترس کھا کر کہا کہ اے بندر! دیکھ تو ہم کیا ایک مُشت پر ہیں۔ اس جُثّے پر کس کس محنت و مشقت سے ایک ایک تنکا گھاس کا چن لاتے ہیں اور اپنے گھونسلے بناتے ہیں؛ تب برسات کے موسم میں فراغت سے اپنے بچوں کو لے کر سکھ سے رہتے ہیں۔ اور حق تعالیٰ نے تجھ کو ایسا جانور قوی بنایا ہے اور ہاتھ پاؤں دیے ہیں، تجھ سے اتنا کام نہیں ہو سکتا کہ اپنے واسطے کوئی جگہ ایسی بنا رکھے کہ بارش میں پانی کی بوچھار سے اور ہوا کے جھٹکے اور جاڑے کے صدمے سے محفوظ رہے؟ بندر نے جب یہ سنا، درخت کی بلندی پر نظر کی اور کہا: ‘‘سبحان اللہ تم سکھ سے رہو اور ہم دکھ میں”۔ جب مینھ کھلا، بندر نے اُس درخت پر چڑھ کر جتنے کھوندھے اُن کے تھے، سب اُجاڑ ڈالے اور بچے نیچے گرا دیے۔
اے بادشاہ! بے وقوف کو بات بتانی اپنے اوپر اذیت اٹھانی ہے۔ میں نے اُن کے بھلے کو نصیحت کی تھی، وے سمجھے کہ ہمارے بادشاہ کی اہانت کرتا ہے؛ چاہتے تھے کہ مجھ کو پکڑ کر ماریں، میں اپنی عقل کے زور اور خداوند کے اقبال سے بچ نکلا تھا، لیکن اتنی بات جو میرے منہ سے نکل گئی کہ ہمارا بادشاہ کہتا ہے: ‘‘ہدہد کو کس نے بادشاہ کیا؟” یہ بات سن کر وہ غصے ہوئے اور لات مکی کرنے لگے۔ میں نے بھی اپنی جواں مردی سے دو چار کو ٹھونکا۔
قاز نے کہا: ‘‘اے نادان! عقل مند کو ہر ایک کام میں تحمل کرنا بہتر ہے۔ جیسا کہ شرم و حیا عورت کا زیور ہے، ویسا ہی تحمل مرد کی آرائش ہے”۔ بگلا بولا: ‘‘خداوند! جب جورو اور خصم باہم لڑتے ہیں، نہ عورت شرم کرتی ہے، نہ مرد تحمل”۔ قاز نے کہا: ‘‘اے بگلے! دانا وہ ہے کہ سمجھ کر کسی کام میں ہاتھ ڈالے اور جو کوئی اکیلا ہو کر زور آوروں کے ساتھ لڑتا ہے، فضیحت اور رسوا ہوتا ہے۔ اگر تو اپنی زبان نہ کھولتا تو اتنی خفّت نہ اٹھاتا جیسا کہ اپنی بے عقلی سے اُس گدھے نے مار کھائی اور رسوا ہوا”۔ بگلے نے پوچھا کہ اُس کا قصہ کیوں کر ہے؟ قاز کہنے لگا۔
نقل پارس ناتھ دھوبی اور اُس کے گدھے اور ہرن کی
میں نے سنا ہے، دیبا پور شہر میں ایک پارس ناتھ دھوبی تھا۔ قضا کار اُس کے گدھے کی پیٹھ پر یوں ہیں ایک زخم سا نمود ہوا۔ کوّوں نے چونچیں ایسی ماریں کہ گدھا نپٹ مجروح ہو گیا؛ یہاں تک کہ کھانا پینا چھٹ گیا اور نہایت دبلا ہو گیا۔ دھوبی نے دیکھا کہ دو تین روز جو اور اس کی پیٹھ کھلی رہتی ہے تو کوّے اسے مار ڈالیں گے۔ دھوبن سے کہا: ‘‘کوئی کپڑا ہو تو دے، اس کے گھاؤ کو چھپاؤں”۔ وہ بولی کہ شیر کا چھالا مدت سے ہمارے گھر میں یوں ہیں پڑا ہے، کہو تو نکال دوں، اُسے اس کی کمر پر ڈال دو۔ دھوبی نے خوش ہو کر گدھے کی پیٹھ پر گھاؤ کی حفاظت کے لیے باندھ دیا؛ ووں ہیں اُس کی شکل شیر کی سی دکھائی دینے لگی۔ تب وہ گدھا گھر سے نکل کر کھیتوں میں چر چگ کر کھانے لگا۔ لوگوں نے جب اُس کی شیر کی سی صورت دیکھی، جانا کہ یہ شیر ہے۔ گھر چھوڑ چھوڑ بھاگنے لگے۔ گدھے نے جو کسانوں کے کھیتوں کو رکھوالوں سے سُونا پایا تو چند روز خوب سا کھا کر موٹا تازہ ہوا۔
اتفاقاً ایک روز کسی کھیت میں ایک ہرن چرتا تھا۔ اُس نے جانا کہ یہ شیر ہے، وہ بھاگنے لگا۔ گدھے نے اس سے کہا: ‘‘تو ڈر مت، میں شیر نہیں ہوں۔ ارادہ میرا یہ ہے کہ تجھ سے دوستی کروں”۔ ہرن نے بھی دریافت کیا کہ واقعی یہ شیر نہیں گدھا ہے۔ خیر دونوں میں دوستی ہوئی۔ ایک ہی جگہ شب و روز رہنے لگے۔ فراغت سے بے روک ٹوک لوگوں کی کھیتیاں کھایا کریں، کھلے بندوں جہاں چاہیں سیر کیا کریں۔ قضا کار ایک دن کہیں چرتے چرتے وے دونوں ایسے کھیت میں جا نکلے کہ وہ نہایت تر و تازہ اور سبز ہو رہا تھا اور ایک کسان بھی اُس کی رکھوالی کے واسطے وہاں بیٹھا تھا۔ اُس نے اُس گدھے کو شیر کی شباہت میں دیکھا تو اُس نے جانا کہ یہ باگھ ہے۔ اُس کے ڈر سے کھیت کے پیغار میں جا چھپا۔ یے دونوں خاطر جمع سے اُس کھیت میں چرنے لگے۔ یکایک گدھا وہاں خوش ہو کر رینکنے لگا۔ ہرن نے یہ مکروہ آواز اُ س کی سن کر اپنا چرنا چھوڑ کے اُدھر کان رکھا۔ گدھے نے پوچھا: ‘‘یار! تو کس واسطے چرنا چھوڑ کر چپکا کھڑا رہا؟” اُس نے جواب دیا کہ تم میرے احوال کو کیا پوچھتے ہو، اپنے کام میں لگے رہو۔ گدھے نے اپنے سر کی قسم دی کہ بھائی! سچ کہو، مجھ سے کون سی حرکت بے جا ہوئی کہ وہ تمھاری پریشانی کا موجب ہوئی؟
ہرن بولا: ‘‘اے یار! تیری خوش الحانی نے میرے دل کو مُرنڈا کر ڈالا۔ ایک عشق کی سی حالت میری آنکھوں کے آگے پھر گئی۔ کیا ہی تو اُس وقت خوش الحانی سے گایا کہ تیر عشق کا میرے جگر میں ترازو ہو گیا”۔ گدھا بولا کہ بھائی! مجھے اب تک مطلق معلوم نہ تھا کہ تمھیں بھی علم موسیقی سے کمال بہرہ ہے، نہیں تو میں تمھیں اکثر سنایا کرتا۔ خیر جو ہوا سو ہوا، آئندہ ایسا نہ ہوگا۔ میں تمھیں ہر وقت سنایا کروں گا۔ سنتے ہو یار! میں دنیا میں بہت پھرا ہوں پر اپنے اس علم کا گاہک کسی کو میں نے نہ پایا جو اُس کو اپنا ہنر دکھاؤں۔ پھر ہرن قسم دے کر پوچھنے لگا کہ سچ بتا تیرا اُستاد کون ہے؟ گدھے نے کہا کہ میں اوائل میں اکثر ایک ندی کے کنارے جایا کرتا تھا۔ وہاں بہت سے مینڈک راگ کے چرچے میں رہا کرتے تھے۔ میں نے یہ سوز بڑی محنت سے سیکھا ہے۔ یہ بات سن کر وہ بہت ہنسا اور کہا: ‘‘کیوں نہ ہو۔ جب تم ایسے بزرگوں کی خدمت میں رہے، تب ایسے صاحب کمال ہوئے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ یہاں سے گھر پہنچ کر خاطر جمع سے میں سنوں گا”۔ گدھے نے کہا: ‘‘بھائی! جو تم متوجہ ہو کر گھر میں سنو گے تو میں دل کھول کر گاؤں گا اور اچھے اچھے دُھرپد سناؤں گا۔ بالفعل اگر کہو تو آہستے آہستے تمھارے سامھنے کچھ گاؤں؟”
ہرن نے جواب دیا کہ اے یار! اگر تو اُس وقت گاوے گا تو اپنی پردہ دری آپ ہی کرے گا۔ وہ بولا: ‘‘گانے والے کو تو جاں کَندنی ہے اور سُننے والے کو راحت۔ تو سنے گا میں گاؤں گا، اس میں کیا بُرائی ہے”۔ ہرن نے پھر صریحاً کہا کہ اُس وقت بولنا تیرے حق میں خوب نہیں۔ اسے کچھ عقل تو نہ تھی کہ اشارہ کنایہ سمجھے بلکہ وہ گدھا اپنی حماقت سے یہ سمجھا کہ اگر میں نہ بولوں تو یہ جانے گا کہ جھوٹھا ہے۔ اپنے منہ کو کھول کر بڑے زور شور سے رینکنے لگا۔ ہرن اُس کی مصاحبت سے متنفر ہو کر بھاگا۔ کسان جو چپکا خندق میں چھپا ہوا تھا، اُس کی آواز سن کر نہایت خوش ہوا اور جانا کہ یہ گدھا ہے۔ ایک لٹھ لے کر دوڑا اور پھر پھرا کر پانچ چار ہاتھ ایسے مارے کہ اُس کا سر پھٹ گیا، کھوپڑی چور ہو گئی۔
پھر قاز نے کہا: ‘‘اے بگلے! اسی واسطے میں نے تجھ سے کہا کہ انسان کو لازم ہے کہ ہر وقت اپنی زبان قابو میں رکھے اور بات بے ہودہ نہ کہے۔ اب سچ کہہ کہ تیرے اور ہدہد کے نوکروں کے درمیان اور کیا کیا باتیں ہوئیں؟” تب بگلے نے عرض کی: ‘‘جہاں پناہ! میں نے جتنی آپ کی خوبی اور شجاعت اور سخاوت بیان کی، اُنھوں نے ویسی آپ کی اہانت اور نامردی اور دنائت ظاہر کی اور کہا کہ سواے ہدہد کے کوئی دوسرا بادشاہ روے زمین میں نہیں”۔ قاز نے کہا: ‘‘ان احمقوں کی وہ مثل ہے جیسا گدھا اور سور اپنے عجب و غرور سے کسی کو اپنے سامھنے چیز نہیں سمجھتا، مگر مست ہاتھی جب اُس کے سامھنے آ جائے، تب اُس کی بڑائی اور مٹائی دیکھ کر وہ گدھا اپنی بزرگی بھول جائے۔ جیسا کہ ایک کمینہ کسی بزرگ کی خدمت میں رہے اور وہ درجہ اُس کا اپنی بد ذاتی سے نہ سمجھے”۔ بگلے نے عرض کی: ‘‘جہاں پناہ! غلام نے بھی اُن کی باتوں کا یہ جواب خوب دُکھا کر دیا کہ اب زمین کے تختے پر ایسا کون ہے جو میرے خداوندِ نعمت کی برابری کرے؟ تب اُس کے لوگوں نے کہا کہ تو جو ایسی بے دھڑک شوخی کی باتیں کرتا ہے، یہ گفتگو تجھے نہیں پھبتی۔ مثل ہے کہ چھوٹا منہ بڑی بات۔ اگر تو اس بات چیت سے باز رہے تو تیرے واسطے بہتر ہے، نہیں تو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھ۔ میں نے اُن کو کہا کہ میں لڑکا نہیں جو تمھاری ایسی دھمکی سے ڈروں۔ پھر بولے کہ سچ کہہ تو ہماری ولایت میں کیوں آیا ہے؟ میں نے کہا: اس واسطے آیا ہوں کہ تمھارے شہر کو دیکھ کر اپنے شاہ کو جا خبر کروں اور اُس کو تمھارے ملک پر چڑھا لاؤں۔ یے باتیں میری سن کر غصے سے جل گئے اور سب کے سب خفا ہوئے۔ اور سب نے مل کر میرے تئیں بہت سا مارا اور اپنے بادشاہ کے پاس پکڑ لے گئے۔ اُس نے پوچھا: اس سفید پوش کو تم کہاں سے پکڑ لائے؟ اُنھوں نے کہا: خداوند! یہ بڑا کُھٹ پچرا اور فتنہ انگیز ہے۔ پھر پوچھا: یہ رہنے والا کس ولایت کا ہے اور یہاں کیوں آیا ہے؟ اُنھوں نے عرض کی کہ خداوند! یہ قاز کے ملک میں رہتا ہے اور اُس نے اس شہر کا بھید لینے کے واسطے بھیجا ہے۔ اُس کا ارادہ ہم کو اس کی گفتگو سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کی ولایت کو بھی لیا چاہتا ہے۔ ہدہد نے کہا: پوچھو تو اُس حرام خور شریر سے کہ تیرے بادشاہ کا کیا ارادہ ہے اور تجھے یہاں اُس نے کیوں بھیجا ہے؟
غلام نے عرض کی کہ حضرت! میرے خداوند نعمت کا کئی برس سے ارادۂ دلی یہی ہے کہ تمھارے ملک پر چڑھیں اور تم سے آ کر لڑیں، لیکن جو راہ باٹ سے واقف نہیں ہیں اس لیے اب تک توقف ہوا، سو اب میرے تئیں لشکر کے اُترنے کی جگہ تلاش کرنے کو بھیجا ہے اور بندہ اُن کے ملازموں میں سے ایک ادنیٰ ملازم ہے۔ اور یہ آپ نے سنا ہوگا کہ اگر بکری ہمارے بادشاہ کا آسرا لے تو کسو شیر کا مقدور نہیں کہ اُس کی طرف دیکھے۔ اتنے میں کرگس نے جو وزیر اعظم ہدہد کا تھا، آ کر مجھ سے پوچھا کہ تیرے بادشاہ کا وزیر کون ہے؟ میں نے کہا: سرخاب۔ کرگس نے کہا: البتہ ایسے بادشاہ کا ایسا ہی وزیر چاہیے کہ ہم شہری ہو۔ جیسا حکماؤں نے کہا ہے: اگر کوئی وزیر اپنا کرے تو اُس کو لازم ہے، پہلے دریافت کرے کہ بزرگ زادہ اور عالم بے طمع اور ہم شہری اور صاحب ہمت ہو اور خدا کا خوف بھی دن رات اپنے دل میں رکھتا ہو۔ اُس مجلس میں جو ایک توتا دانا نام تھا، اتنے میں اُس نے آگے بڑھ کر اپنے بادشاہ ہدہد سے عرض کی کہ ملک قاز کا شامل صوبجات بادشاہی کے ہے۔ چند روز سے قاز از راہ سرکشی کے بغی ہو، اپنے تصرف میں لایا ہے۔ اگر اُس پر کچھ فوج تعین فرمائیے تو اقبال بادشاہی سے ہاتھ آنا اُس ملک کا نہایت سہل ہے۔ یہ بات سُن کر میرے تئیں ہنسی آئی اور میں نے کہا: اے بادشاہ ؎
جو باتوں میں سب کام ہوتا میسر
نظامی قدم اپنا رکھتا فلک پر
اگر صرف اس توتے کے کہنے سے وہ ملک تمھارا ہو گیا تو ہم بھی کہتے ہیں کہ یہ شہر ہمارا ہے۔ توتے نے کہا: اے بگلے! بر محل جو ایک حجام جھوٹھ بولا تو اُسے فائدہ ہوا۔ تو جو بے موقع جھوٹھ کہتا ہے، تجھے کیا نفع؟ میں نے پوچھا: اس حجام کو کیا فائدہ ہوا اور اس کا قصہ کیونکر ہے؟
نقل ایک حجام اور اس کی فاحشہ جورو کی
میں نے سنا ہے کہ کسی شہر میں ایک حجام رہتا تھا۔ اس کی جورو نہایت خوب صورت تھی لیکن بڑی فاحشہ۔ شب و روز بدکاری میں مشغول رہتی اور خاوند کے کہنے کو ہرگز خاطر میں نہ لاتی اور اپنی بد چال سے باز نہ آتی۔ ہرچند اس نے نصیحت بہت کی پر اس کے دل پر کچھ تاثیر نہ کی۔ جب دیکھا کہ قابو میں نہ رہی، تب اپنے گھر سے لاچار ہو کر نکلا اور کسی گاؤں میں جا پہنچا اور اس کے سردار سے ملازمت کی۔ اس نے پوچھا: ‘‘تو کون ہے اور تیرا نام کیا ہے اور یہاں کس ارادے سے آیا ہے؟” اس نے کہا: ‘‘غریب پرور! ذات کا میں حجام ہوں۔ نام میرا پرگوتم ہے۔ اپنے گھر سے نوکری کے ارادے سے نکلا ہوں لیکن اب یہ چاہتا ہوں کہ اگر آپ پروانگی دیں تو تمھارے گاؤں میں رہوں”۔ اس نے کہا: ‘‘خوب ہوا جو تو نے مجھ سے ملاقات کی۔ مجھ کو بھی ایک حجام درکار تھا۔ اب تو میرے پاس یہاں رہا کر، جس میں تیری پرورش ہوگی سو فکر میں کروں گا”۔ حجام نے کہا: ‘‘حضرت! اس غلام کے رکھنے میں ایک قباحت ہے، جو اس پر نظر نہ کیجیے تو حضور میں رہے”۔ اس نے پوچھا: ‘‘وہ کیا ہے؟” کہا: ‘‘خداواند! جورو اس شخص کی بدکارہ ہے۔ مردوں کے انثیین مل ڈالتی ہے”۔ اس بات سے وہ متعجب ہو کر پوچھنے لگا کہ یہ نا معقول حرکت اس سے کیونکر سرزد ہوتی ہے؟ حجام نے کہا کہ وہ عورت نہایت حسین ہے۔ اچھی پوشاک پہن کر دروازے پر کھڑی ہوتی ہے اور ہر ایک مرد کو اپنے حسن پر لبھاتی ہے۔ جو کوئی اس کی طرف رغبت کرتا ہے، اسے وہ اپنے گھر میں لے جاتی ہے۔ جب وہ مرد مشغول ہوتا ہے، تب وہ عورت چالاک اس کی آنکھ بچا کر اپنا مطلب حاصل کر لیتی ہے”۔
وہ یہ سن کر بہت خوش ہوا کیونکہ وہ بھی اس مرض میں اپنی عورت کے ہاتھ سے گرفتار تھا۔ کہنے لگا کہ اس شہر میں بعضے بعضے بدبخت اور حرام زادے رہتے ہیں، بیگانی عورتوں پر نظر رکھتے ہیں۔ جو تو اپنے قبیلے کو یہاں لا رکھے تو اس کے سبب ان بد ذاتوں کی یہاں سے جڑ کٹ جاوے۔ حجام نے قبول کیا، تب اس رئیس نے کچھ روپے راہ خرچ اسے دے کر رخصت کیا۔ وہ اپنی عورت کو لایا اور اس گاؤں میں رہنے لگا۔ جب گھر سے نکلتا، تب ہر ایک مرد سے اپنی رنڈی کی خصلت بیان کیا کرتا اور جب گھر میں آتا تو عورت سے کہا کرتا کہ اے نیک بخت! ہم کس ملک میں آئے اور یہ عجب طرح کا گاؤں ہے کہ یہاں کے مرد خوجے ہیں۔
بعد کئی روز کے اس عورت نے پھر اپنے قدیم شیوے پر کمر باندھی۔ بعضے جوان جو اس خیال میں رہتے تھے، سو آپس میں کہنے لگے کہ حجام کی رنڈی نے شکار کے لیے جال بچھایا ہے۔ نائی نے جو کہا تھا سو سچ نظر آتا ہے۔ ایک ان میں جو سب سے دانا تھا، کہنے لگا کہ یارو! خبردار کبھی اس رنڈی کے پاس نہ جانا کہ وہ آدمیوں کو اس ڈھب سے مار ڈالتی ہے۔ ان میں سے ایک نے کہا: ‘‘اس بات میں مجھے تو صرف شرارت حجام کی معلوم ہوتی ہے۔ ایسی حسین عورت کو جو چھوڑو گے تو قیامت تک اس کی حسرت دل میں رہ جائے گی”۔ اس کی بات سن کر سب کہا کہ یہ سچ ہے۔ لیکن اس کو پہلے تو ہی جا کر آزما۔ وہ بولا: ‘‘بہت بہتر، کیا مضائقہ۔ پہلے میں ہی جاوں گا، پر ایک کام کرو کہ لنبی سی رسی کا ایک سرا میری کمر میں باندھو اور دوسرا سرا تم اپنے ہاتھ میں لے کر باہر کھڑے رہو۔ میں اس کے پاس جاؤں گا۔ اگر معاملہ بے ڈول دیکھوں گا تو غل مچاؤں گا۔ تم جلدی سے مجھ کو کھینچ لیجو”۔ جب دن گیا اور رات آئی، تب انھوں نے اس جوان کی کمر میں ایک مضبوط ڈوری باندھ کر کہا کہ تو اب بے دھڑک چلا جا۔ ہم یہاں کھڑے ہیں۔ جب وہ گھر میں گیا اور بعد اختلاط کے اس سے مشغول ہوا، تب اس عورت نے اپنے دل میں یہ خیال کرکے ہاتھ دوڑایا کہ دیکھوں تو جو میرے شوہر نے کہا تھا سو جھوٹ ہے کہ سچ۔ اس کا ہاتھ لگتے ہی جوان اچھلا اور غل مچانے لگا کہ یارو! جلد کھینچو، نہیں تو جان میری مفت گئی۔ اس کا شور سنتے ہی یاروں نے باہر سے دھر گھسیٹا۔ وہ جوان گھسٹتا اور دیواروں کی ٹکریں کھاتا ہوا حواس باختہ باہر پہنچا۔ یاروں نے دیکھا کہ ہاتھ پاؤں میں سخت چوٹ آئی اور بدن کی کھال زمین کی رگڑ سے اڑ گئی اور سر سے لہو جاری ہے۔ ایسی حالت اس کی دیکھ کر بہت ڈرے اور گھبرائے اور پوچھنے لگے کہ کہو کیا حالت تم پر گذری؟ وہ بولا کہ جو حجام نے کہا تھا سو جھوٹھ نہیں۔ کوئی دن کی زندگی باقی تھی جو اس کے ہاتھ سے سلامت بچ نکلا، اس عیش و عشرت سے میں در گذرا۔ جلد مجھ کو میرے گھر پہنچاؤ۔ یاروں نے اس کی بغلوں میں ہاتھ دے کر اس کے گھر پہنچا دیا۔
اس کا باپ اپنے بیٹے کی یہ حالت دیکھ کر پوچھنے لگا کہ اس کا یہ کیا حال ہے؟ یاروں نے کہا کہ ہم سب ایک شکار کے پیچھے دوڑے تھے، اس کے ٹھوکر لگی گر پڑا۔ چوٹ آگئی۔ ہم لاچار ہیں، اس میں کچھ ہمارا قصور نہیں۔ اس حجام نے بھی کسی طرح اس روداد سے واقف ہو کر صبح کے وقت اس جوان کے گھر گیا اور آئینہ دکھلایا۔ اس کے باپ نے کہا: ‘‘خوب ہوا جو تو بن بلائے آیا، والّا میں ابھی تجھ کو بلوایا چاہتا تھا۔ میرا لڑکا کل کسی شکار کے پیچھے دوڑا تھا، بڑی ٹھوکر کھائی۔ اس کے ہاتھ پاؤں اور سر میں سخت چوٹ آئی ہے۔ جتنے روپے درکار ہوں لیجیے اور اس کی دوا جلد کیجیے”۔ اس نے اس کے باپ سے خاطر خواہ روپے لیے اور اسے کچھ دوا دے کر اپنے گھر چلا آیا۔ بعد اس واردات کے اس کی عورت تائبہ ہوئی اور وے دونوں تمام عمر خوش و خرم آپس میں رہے۔
پھر توتا بولا: ‘‘اے بگلے! تجھ کو اتنا جھوٹھ بولنے سے کیا حاصل؟ تو نہیں جانتا کہ جھوٹھی باتیں ایمان کو کھوتی ہیں۔ معاذ اللہ! جس کو جھوٹھ بولنے کی عادت ہو، اُس کی بات پر کوئی اعتماد نہیں کرتا اور اُس کے کام کو کوئی سچ نہیں جانتا”۔ میں نے کہا کہ سچ اور جھوٹھ بولنا میرا تب تجھے معلوم ہوگا کہ میرے اور تیرے بادشاہ کے درمیان جب لڑائی ہوگی۔ خاطر جمع رکھو۔ چند روز میں تمھاری بزرگی بھی معلوم ہوجاتی ہے، ہاتھ کنگن کو آرسی کیا”۔
یہ بات سن کر ہدہد ہنسا اور کہنے لگا کہ جا تو اپنے بادشاہ کو خبر کر کہ سامان لڑائی کا تیار کرے۔ میں نے کہا کہ حضرت! بادشاہ میری بات کو ہرگز باور نہ کرے گا۔ اگر تم کو کچھ لڑائی کی تاب و طاقت اور ارادہ ہے تو ایک ایلچی کے ہاتھ پیغام بھجوا دیجیے۔ ہدہد نے توتے کی طرف دیکھ کر کہا کہ یہ کیا بکتا ہے؟ اُس نے عرض کی کہ خداوند! یہ جو بات کہتا ہے سو معقول کہتا ہے۔ آپ کا دھیان اور طرف ہے۔ تب ہدہد نے فرمایا کہ ہمارے یہاں قابل ایلچی گری کے کون ہے؟ دریافت کرو۔
کرگس وزیر نے عرض کی کہ جہاں پناہ! ایسے شخص کو بھیجیے کہ جس میں علم اور رسائی، حلم اور بے طمعی، صلاحیت اور ایمان داری، جرات اور دلیری، خلق اور دانائی یہ سب وصف پائے جاویں اور جس بادشاہ کے رو برو جاوے، خوف اپنی جان کا نہ کرے اور سمجھ بوجھ کر جواب سوال کرے۔ ہدہد نے کہا کہ اُس کام میں سواے تیرے میری خاطر جمع کسی سے نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ تو جا اور جواب سوال کر آ۔ کرگس بولا: ‘‘غریب نواز! بندہ آگے ہی عرض کر چکا ہے کہ ایلچی اُس شخص کو کیجیے جو دلاور، صاحب شعور، خوش تقریر ہو اور گفتگو کا سلیقہ بھی درست۔ اور ہر ایک زبان میں مہارت رکھتا ہو اور بے ہودہ گوئی نہ کرے۔ اور ایسی بات نہ کہے کہ جس میں اپنے خاوند کی سبکی ہو۔ اور بادشاہ کے کام میں اپنی جان کا صرفہ نہ کرے۔ یہ باتیں توتے میں پائی جاتی ہیں۔ اس کام کے لائق یہی ہے، اسی کو بھیجا چاہیے”۔
یہ بات سن کر سب حاضران مجلس نے بھی پسند کی کہ واقعی سواے اُس کے کوئی ایسا نہیں کہ جس میں یے سب صفتیں ہوویں۔ تب ہدہد نے توتے سے کہا: ‘‘تو بگلے کے ساتھ قاز کے پاس جا اور کہہ کہ تو جو اتنی شکوہ کرتا ہے اور اپنے تئیں بادشاہوں میں گنتا ہے، کیا میرا ڈر تیرے جی میں مطلق نہ رہا اور اپنے تئیں اتنا بھولا کہ ہمسری کا دعویٰ کرنے لگا؟ اگر اپنا بھلا چاہتا ہے تو شاہ ہدہد کی خدمت میں حاضر ہو اور عذر خواہی کر، یا کچھ تحفہ تحائف پیش کش کے طریق سے بھجوا، نہیں تو ہاتھی اور گھوڑوں کے پاؤں تلے روندا جائے گا اور ملک تیرا ویران ہو جائے گا”۔ توتے نے عرض کی کہ میں نے بادشاہ کا حکم سر کے زور قبول کیا لیکن ایسے کم ظرف کے ساتھ جانا ہرگز مناسب نہیں؛ جیسا کہ اُس ہنس نے کوّے کی رفاقت میں اپنی جان دی، میں بھی وہی صورت اپنی دیکھوں گا۔ ہدہد نے کہا کہ اُس کا قصہ کیوں کر ہے؟ توتا بولا۔
نقل ایک مسافر اور ہنس اور کوے کی
اُجین شہر کے رستے میں ندی کنارے ایک بڑا سا درخت گولر کا تھا۔ اس کی ڈالیوں پر ہنس اور کوا دونوں بیٹھے تھے۔ اتفاقاً ایک مرد مسافر تیر کمان لیے ہوئے مارے دھوپ کے اُس کے تلے آ بیٹھا۔ راہ کی ماندگی سے اُس کی ٹھنڈی چھاؤں میں بے اختیار سو گیا۔ جب آفتاب سر پر آیا اور دھوپ پتوں سے چھن کر اُس کے منہ پر پڑی، تب ہنس نے اُس پر ترس کھا کر کوے سے کہا: ‘‘اس بٹوہی کے منہ کو دھوپ لگتی ہے، تو اپنے پر پھیلا کر اُس ٹہنی پر جا بیٹھ کہ جہاں سے دھوپ اُس کے منہ پر پڑتی ہے، کیوں کہ راہ کا تھکا ماندہ آیا ہے، ٹک آرام کر لے”۔ کوے نے کہا: ‘‘اگرچہ یہ کام ثواب کا ہے پر مجھے درکار نہیں جو میں اپنے اُوپر اتنی محنت و مشقت اٹھاؤں۔ یہ ثواب تو ہی لے”۔ ہنس اُس کے فریب کو نہ سمجھا، وہیں اُس ڈالی پر مسافر کے منہ پر چھاؤں کر بیٹھ رہا۔
اتفاقاً وہ مسافر منہ کھولے ہوئے سوتا تھا۔ وہ حرام خور شریر کوا اُس کے منہ میں پیخال کر کے وہاں سے ایک الگ ٹہنی پر جا بیٹھا۔ گرم گرم پیخال جو اُس راہ گیر کے منہ میں گری تو چونک پڑا۔ اوپر ہنس کو دیکھ کر غصے سے کہنے لگا کہ یہ اسی کا کام ہے۔ جلدی سے چلا کمان پر چڑھا کر ایسا تیر مارا کہ چھاتی سے دو سار پھوٹ گیا۔
پھر توتے نے کہا: ‘‘اے خداوند! کمینے کی صحبت خدا کسی بندے کو نصیب نہ کرے کیوں کہ بزرگوں نے کہا ہے ؎
بدوں کے ساتھ تُو کم بیٹھ کیوں کہ صحبت بد
اگرچہ پاک ہے تو تو بھی وہ پلید کرے
چنانچہ جلوۂ خورشید ہے جہاں کے بیچ
پر ایک لکّۂ ابر اُس کو ناپدید کرے
اور اس بات کو ہر ایک سے کہتا ہوں کہ بد کی صحبت سے اپنے تئیں بچائے رکھے اور سچ ہے کہ برے کی رفاقت سے کچھ بھلائی نہیں ہوتی”۔ ہدہد نے کہا کہ اے توتے! میں تجھے نہیں کہتا کہ تو بگلے کے ساتھ رہا کر جو حال تیرا اُس ہنس اور کوے کا سا ہووے۔ تجھ کو بہت دن اُس کی صحبت میں رہنا نہ پڑے گا۔ تھوڑے دن کے لیے ضرور ہے کہ اُس کے ساتھ رہے۔ توتے نے کہا: ‘‘خداوند! آپ چند روز کے واسطے کہتے ہیں، وہ صوفی بے چارہ ایک شب کی صحبت میں رسوا اور فضیحت ہو گیا”۔ ہدہد نے پوچھا کہ اُس کا قصہ کیوں کر ہے؟ توتے نے کہا۔
نقل ایک کمینے اور صوفی اور اہیرنی کی
سنا ہے کہ ایک کمینہ بد اصل کہیں راہ میں چلا جاتا تھا۔ اتفاقاً ایک صوفی سے ملاقات ہوئی۔ اُس نے پوچھا کہ اے یار! تو کہاں جاتا ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ گجرات اور وہاں سے اُجین جاؤں گا۔ کہا: ‘‘کہو تو میں تمھارے ساتھ چلوں۔ مجھے بھی وہاں جانا ہے”۔ یہ بولا: ‘‘میرے سر آنکھوں پر، ان شاء اللہ تعالیٰ بخیر و خوبی تجھے منزل مقصود کو پہنچا دوں گا”۔ صوفی کچھ راہ خرچ لے کر اُس کے ساتھ ہو لیا۔ جب آفتاب کا گِردا مغرب کے تنور میں لگا اور شب نے اپنے چہرے پر تاریکی کی چادر تانی، وے دونوں ایک گاؤں میں جا کر کسی بنیے کی دکان میں اُتر پڑے۔ اتنے میں کوئی اہیرنی دھینڈی سر پر لیے ہوئے آ نکلی اور اُن دونوں سے کہنے لگی کہ میرا گھر یہاں سے پلے پر ہے۔ اگر تمھاری مرضی ہو تو میں بھی رات کی رات رہ جاؤں؟ وے بولے کہ بہت اچھا، کچھ مضائقہ نہیں، جگہ ڈھیر ہے۔ اپنی دہی کی ہانڈی ہمارے پاس رکھ دے، تو ادھر سو رہ۔ یہاں کتے بہت ہیں، ایسا نہ ہو کہ تیرا دہی کھا جاویں۔ اہیرن تو ہانڈی اُنھیں سونپ کر آپ سو رہی۔ کمینے نے آدھی رات کو اُٹھ کر ہانڈی کا دہی چٹ کیا اور تھوڑا سا صوفی کے ہاتھ منہ میں لگا کر چپ چاپ سو رہا۔ صبح کو یے تینوں اٹھے اور اہیرنی نے دیکھا کہ ہانڈی میں دہی نہیں۔ لگی اپنا سر پیٹنے اور دونوں کا منہ دیکھنے۔ جب خوب دھیان کیا تو دیکھا صوفی کا ہاتھ اور منہ دہی سے بھرا ہے۔ کچھ پوچھا نہ گچھا، اُٹھتے ہی صوفی کی ڈاڑھی پکڑ کر لگی خوب لتیانے اور غل مچانے کہ تو نے ہی میرا دہی کھایا ہے، اور ہانڈی کو پھوڑ اُس کا گھیرا گلے میں ڈال دیا اور بازار میں لا کھڑا کیا۔
اگر میں بگلے کے ساتھ جاؤں گا تو میرا بھی ویسا ہی حال ہوگا۔ تب میں بولا: ‘‘اے توتے! کتنی مثلیں گزرانے گا اور کیا کیا عذر لاوے گا۔ کچھ اندیشہ نہ کر، میرے ساتھ چل۔ میں غلاموں کی طرح تیری خدمت کرتا چلوں گا، تو نے آج تک مجھے نہیں پہچانا”۔ توتے نے کہا: ‘‘تیری بھل منسی اور خوبی اسی سے معلوم ہوتی ہے کہ تو دو بادشاہوں میں قضیہ کروایا چاہتا ہے۔ اور تو جو مجھے اپنے ساتھ چلنے کو کہتا ہے، اگر میں تیرے ساتھ چلوں تو میرا حال بھی اُس کمھار کا سا ہوگا۔ میں نے کہا کہ وہ نقل کیوں کر ہے؟ توتا بولا۔
نقل نروتم کمھار اور اُس کی جورو بدکارہ کی
میں نے سنا ہے کہ بداؤں شہر میں نروتم نامی کمھار رہتا تھا اور جورو اُس کی بدکارہ تھی۔ لوگوں سے ہمیشہ لڑا کرتی۔ اُس کے ماں باپ، بہن بھائی آٹھوں پہر سمجھایا کرتے کہ بیٹا! تیری جورو کے لچھن بہت برے ہیں۔ وہ مورکھ ہرگز ان کے کہنے کو باور نہ کرتا۔
اتفاقاً ایک دن اُس نے اپنی عورت سے کہا کہ میں تیرے باپ کے گاؤں جاتا ہوں، تین دن میں آؤں گا، تو گھر سے چوکس رہنا۔ ایسا نہ ہو کہیں چور آ پڑیں۔ اُس نے ایک ٹھنڈی سی سانس بھر کر سر جھکا دیا اور رو رو کر کہنے لگی کہ تم تین روز کے آنے کا اقرار کرتے ہو اور مجھے تمھاری جدائی میں تین روز تین برس کے برابر ہیں۔ اُس کو روتا دیکھ کر وہ بھی آنکھوں میں آنسو بھر لایا اور عاجزی سے کہنے لگا کہ مجھ کو تو اپنے پاس ہی جانیو۔ میں جب تک تجھ کو نہ دیکھوں گا دانا پانی مجھے خوش نہ آوے گا۔ یوں اُسے سمجھا بجھا کر چلا گیا۔ کوس چار ایک پر جا کر یہ خیال اُس نے اپنے جی میں کیا کہ کمھاری کو میں روتا چھوڑ آیا ہوں، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے تئیں میری جدائی کے خنجر سے جوہر کرے۔ اور دل میں کہنے لگا کہ خدا جانے یہاں سے گھر پہنچنے تک میں اسے جیتا پاؤں یا نہ پاؤں۔ یہ سوچتے ہی اُلٹے پیروں پھرا۔
اُس کی جورو نے کیا کیا کہ جب وہ گھر سے نکلا، دن دوپہر ہی ایک کٹ مستے کو کہیں سے لائی اور اپنی کوٹھری میں لے جا کر عیش کرنے لگی۔ پہر ایک رات رہے وہ کمھار پھر آیا۔ کواڑ کے پٹ بھڑے دیکھ کر جانا کہ کوئی غیر مرد اُس کے گھر میں ہے اور اُس کی آہٹ بھی پائی۔ یہ سمجھ کر وہ آہستے آہستے گھر کی ٹٹی کے نیچے ہو کر کسی پلنگ کے تلے گھس گیا۔ کمھاری نے بھی پاؤں کے کھٹکے سے جانا کہ میرا خاوند چارپائی کے نیچے آ کر دبک رہا ہے۔ عین وصل کی حالت میں اپنے یار سے پکار پکار کر کہنے لگی: ‘‘اے مرد! تو نے کہا تھا کہ میں ایمان دار ہوں، ایسا نہ ہو کہ اب بے ایمان ہو جاوے اور تو جانتا ہے کہ جو میں نے تیرے ساتھ شرط کی ہے”۔ یار نے بھی اُس کے اظہار معلوم کیا کہ اُس بات میں کچھ فی ہے اور اُس چارپائی کے نیچے کچھ نہ کچھ ہے، تُو چپکا ہو رہ، دیکھ تو یہ عورت کیا کرتی ہے۔ پھر وہ بولی کہ میں نے تجھ کو کہا تھا کہ میرا خاوند گھر میں نہیں ہے، تو دو تین دن میری حویلی کی نگہبانی کر اور تو نے کہا تھا کہ تُو مجھ کو کیا دے گی؟ میں نے وعدہ کیا تھا کہ اپنے خاوند کے باغ سے ایک گلدستہ خوش بو دار پھولوں کا بنا کر تجھ کو دوں گی۔ لیکن پھر اُسی وقت میں نے اُس اقرار کا انکار کیا اور یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اگر تو کچھ پیسا ٹکا مانگے گا تو ایک دمڑی نہ پائے گا۔ پھر تو نے کہا تھا کہ میں کچھ نہیں چاہتا، بھلا کسی وقت رات کو اپنی پائنتی لیٹ رہنے دینا؛ میں نے اس شرط پر قبول کیا تھا کہ میرے خاوند کی کسی چیز کو ہاتھ نہ لگاوے۔
تب مرد بولا کہ اے نیک بخت! میں ایسا دغاباز بے ایمان نہیں ہوں کہ پرائی چیز پر ہاتھ ڈالوں۔ اور جس کی بات کا ٹھکانا نہیں اُس کے ایمان کا بھی نہیں۔ جیسا تجھے اپنے خاوند کا ڈر ہے، مجھے خدا کا خوف ہے۔ میں نے اس عمر میں بہت سیر کی ہے، پر تجھ سی عورت ستونتی اور دیانت دار کہیں نہیں دیکھی۔ اسی عصمت و پارسائی کے سبب سے تیرا خاوند تجھے چاہتا ہے۔
رنڈی نے کہا: ‘‘تو جو اتنی تعریف میرے صلاح و تقوے کی کرتا ہے، میں کس لائق ہوں؛ پر شب و روز خدا کی درگاہ میں دعا مانگتی ہوں کہ سواے اپنے خاوند کے کسی غیر مرد کا منہ نہ دیکھوں”۔ پھر بولی کہ اے جوان! سچ کہہ۔ یہ چارپائی کیوں ہلتی ہے۔ کیا تو ہلاتا ہے؟ بولا: ‘‘ہاں”۔ وہ بولی: ‘‘کیوں؟” وہ بولا کہ مجھے کسی مرد کے پاؤں کی آہٹ کچھ معلوم ہوتی ہے۔ سو اس لیے ہلاتا ہوں تاکہ وہ جانے کہ چوکیدار جاگتا ہے۔ عورت نے کہا: ‘‘اگر تیرا یہ ارادہ ہے تو خوب زور سے ہلا۔ جو اس کی آواز سن کر چور جو گھر میں آیا ہے، سو بھاگ جاوے”۔ مرد نے ویسا ہی کیا جو رنڈی نے کہا تھا۔ اتنے میں چھپر کھٹ کا ایک پایا ٹوٹ گیا۔ کمھار نے جلدی اپنے ہاتھ کے آسرے پر تھام لیا، گرنے نہ دیا۔ تمام شب وہ سہارا دیے بیٹھا رہا اور یہ دونوں عیش کرتے رہے۔جب صبح ہوئی، گھر والے نے چھپر کھٹ کے نیچے سے نکل کر اُس جوان کو گلے لگا لیا اور کہا: ‘‘اے یار! صد رحمت تجھ کو اور تیرے ماں باپ کو کہ جیسی تو نے میرے مال کی اور گھر بار کی حفاظت کی ویسا ہی خدا تیرے ایمان کا نگاہ بان رہے۔ میں نے تجھ سا صالح اور پرہیزگار کہیں نہیں دیکھا؛ شاید کہ جہان تیرے ہی قدم سے قائم ہے”۔
یہ کہہ کر کچھ روپے بہ طریق نذر اُس کو دیے اور رخصت کیا۔ پھر اپنی جورو کے لگا پاؤں پڑنے اور اُس کی عصمت پر صد آفرین کرنے اور دعائیں دینے اور کہنے کہ جیسی تو نے میری ڈاڑھی کی شرم رکھی، خدا تجھے ویسی ہی جزا دے۔عورت بولی کہ شکر ہے خدا کی درگاہ میں جو اب تک تیری فرماں برداری میں مجھ سے قصور نہیں ہوا اور شب و روز یہی چاہتی ہوں کہ خدا تیرے سامھنے مجھ کو زمین کا پیوند کرے کہ اُسی سے میری دونوں جہاں میں سرخ روئی ہے۔
یہ قصہ تمام کر کے توتے نے مجھ سے کہا کہ جیسا کہ وہ کمھار احمق اپنی عورت کی بدکاری آنکھوں سے دیکھ کر اُس کے مکر و فریب میں آ گیا، میں ویسا بے وقوف نہیں جو تیری میٹھی باتوں پر بھول جاؤں اور جہاں تو لے جاوے چلا جاؤں۔ میں نے کہا: ‘‘وہ کمھار نہایت دانا تھا، اگر تجھ سا نادان ہوتا تو اپنی عورت کا بھید ظاہر کرتا تو رنڈی سمیت اپنے ہم چشموں میں رسوا ہوتا اور وے دونوں عمر بھر ساری خلقت کے انگشت نما رہتے۔ اگر وہ برداشت نہ کرتا تو غصے سے کسی کو مارتا یا آپ مر رہتا”۔
توتا بولا کہ تو مجھ سے کہتا ہے کہ اگر وہ تجھ سا ہوتا تو وہیں خون خرابہ کرتا۔ شکر خدا کا کہ مجھے حق تعالیٰ نے آج تک ہر ایک بری بات سے بچا رکھا ہے اور اب تلک ایک خون بھی میرے ہاتھ سے نہیں ہوا اور تو اتنے خون ناحق روز کرتا ہے کہ میری عقل میں نہیں آتے۔ بھلا یہ تو کہہ، خدا کو کیا منہ دکھاوے گا اور کون سی دلیل اپنے بچانے کے لیے لاوے گا۔ میں نے کہا: ‘‘تو نہیں دیکھتا، میں پانی میں جب پاؤں رکھتا ہوں کیسا ہولے ہولے چلتا ہوں کہ مبادا میرے پاؤں تلے کوئی جی آوے”۔ توتا بولا: ‘‘اے دغا باز! تیرا ہولے چلنا فریب سے خالی نہیں۔ پانی میں تو یوں آہستے آہستے چلتا ہے کہ کسی کو صدمہ نہ پہنچے لیکن جیتی مچھلیوں کو بے تامل نگل جاتا ہے”۔
جب ہدہد نے دیکھا کہ دونوں کی تقریر میں سراسر خلاف ہے اور توجیہ دونوں کی درست ہے، تب خانِ سامان کو فرمایا کہ بگلے کے واسطے سات پارچے کا خلعت جلد لاؤ۔ میرِ سامان نے جلدی سے چوگوشے میں لگا حضور میں لا حاضر کیا۔ بادشاہ نے مجھے خلعت دے او خاطر داری کر رخصت کیا اور کہا: ‘‘تو آگے چل، میں تیرے پیچھے توتے کو بھی قاز کے پاس بھیجتا ہوں”۔ میں دو تین روز کے درمیان حضور میں آ کر حاضر ہوا۔ پھر کھڑے ہو کر ادب سے کہنے لگا: ‘‘پیر و مرشد! آپ غافل کیوں بیٹھے ہیں، لڑائی کی تیاری کیجیے۔ ہدہد جنگ کے ارادے پر فوج لیے آتا ہے، کوئی دن کو یہاں آن پہنچے گا”۔ یہ بات سن کر قاز اور اُس کے وزیر سرخاب نے ہنس دیا اور بگلے سے بہ طور رمز کے کہنے لگے: ‘‘کیا خوب! تو اتنی مدت کے سفر میں یہ تحفہ لایا؟” بگلے نے عرض کی: ‘‘جہاں پناہ! آپ مانیں یا نہ مانیں جو باتیں سچی اور خیر خواہی کی تھیں، سو میں نے خدمت میں گزارش کیں، آگے جو مرضی خداوند کی ہو سو بہتر”۔ بادشاہ نے بگلے سے کہا کہ جتنے تمھارے بھائی بند ہیں سبھوں کو جمع کر کے ہمارے پاس لاؤ، ہم اُن کو نوکر رکھیں گے۔
یہ بات سن کر بگلا بہت خوش ہوا اور قاز سے رخصت لے کر گھر آیا اور اپنے سب بھائیوں کو اور برادری کے لوگوں کو جمع کرنے لگا۔ تب سرخاب نے قاز سے عرض کی کہ خداوند! ایسے بد باطن فریبی کو سرکار میں دخیل کرنا مناسب نہیں ہے۔ قاز نے سرخاب کی بات کا جواب نہ دیا اور یہ کہا: ‘‘ایسا ماجرا ہم نے اپنے بزرگوں سے کبھی نہیں سنا تھا، سو اُس کی زبانی سنا، شاید یہ بات سچ ہو۔ اب تو ایسی فکر کر کہ دشمن غالب نہ ہو سکے”۔ سرخاب نے کہا کہ جہاں پناہ! اس مشورے کے لیے خلوت ضرور ہے کیوں کہ اگر کوئی صلاح داناؤں کی مجلس میں کرے، گو کہ آواز اُس کی اُن کے کان تک نہ پہنچے، تو بھی وے اُس کے ہوٹھوں کی حرکات اور ہاتھوں کے ہلنے اور سر کی جنبش سے صاف معلوم کر جاتے ہیں۔ پس ایسی جگہ چاہیے کہ جہاں کوئی نہ دیکھے اور وہاں کے بیٹھنے کی کسی پر اطلاع بھی نہ ہو۔ مثل ہے کہ ‘‘دیوار ہم گوش دارد”۔
آخرش بادشاہ اور وزیر دونوں خلوت میں گئے۔ تب سرخاب کہنے لگا کہ میرے خیال میں یہ آتا ہے کہ بگلے کو ہدہد کے یہاں صلح کے لیے بھیجیے۔ لڑائی خوب نہیں کیوں کہ جنگ دو سر دارد، خدا جانے فتح کس کی ہو۔ قاز نے یہ اُس کی مصلحت پسند نہ کی؛ تب عرض کی کہ اول دو چار عقل مندوں کو ہدہد کے ملک میں جاسوسی کے لیے روانہ کیجیے تاکہ اُس کے لشکر کی تعداد اور روز روز کا احوال دریافت کر کے حضور میں بہ طور خفیہ نویسی کے پہنچایا کریں۔ کیوں کہ بادشاہ کو لازم ہے کہ جب کوئی فکر لاحق ہو تو اُس کا جلد تدارک کرے اور ہرگز اس سے غافل نہ رہے۔ اور جاسوسوں کے عیال اطفال کو بہ خوبی نظر بند رکھے کہ وے اُس ملک کے لوگوں سے مل نہ جاویں۔ اور اپنے لڑکے بالوں کو مخفی بھی نہ لے جا سکیں اور تم سے بغاوت نہ کریں۔
قاز نے کہا: ‘‘تیری دانست میں لائق جاسوسی کے کون ہے؟” سرخاب بولا کہ پیلک۔ لیکن پہلے اُس سے مچلکا اور قسم لے لیجیے کہ یہ بات (کہ جس کے واسطے ہم تم کو بھیجتے ہیں) کسو سے نہ کہیو۔ اگر وہ بات کِسو پر کھلے گی تو بڑی سزا تم کو دی جائے گی کیوں کہ افشاے راز میں بڑی بڑی قباحتیں ہیں۔ تمام ملک میں فساد برپا ہوگا اور کام بھی خاطر خواہ انجام نہ پاوے گا۔ بات بگڑ جائے گی، پھر اُس کا سنوارنا نہایت مشکل ہوگا۔
تب قاز نے پیلک کو بلوایا اور جس طرح سے کہ سرخاب نے کہا تھا، اسے قسم کھلا، مچلکا لے، خلعت اور پان دے جاسوسی کے لیے بھجوایا اور زبانی بھی فرمایا کہ میں دیکھوں تو کیسی خیر خواہی سرکار کی کرتا ہے۔ بعد دو تین روز کے کلنگ کوتوال نے بادشاہ کے سامھنے آ کر عرض کی کہ جہاں پناہ! ہدہد جو خشکی کا بادشاہ ہے، اُس کی طرف سے ایلچی ہو کر ایک توتا آیا ہے اور اُس کے ساتھ دو چار رفیق بھی ہیں۔ سو ڈِہوڑی پر حاضر ہیں۔ اگر حکم ہو تو رُوبرو آویں۔ یہ سن کر قاز نے سرخاب کی طرف دیکھا۔ اس نے عرض کی کہ بالفعل حکم کیجیے، جہاں بہت لونا پانی اور ہوا زبون ہو، تہاں اس کے رہنے کو جگہ مقرر کریں۔ جو توتا چند روز اپنے رفیقوں کے ساتھ وہاں رہ کر معلوم کرے کہ یہ جگہ اچھی نہیں، پانی یہاں لگتا ہے، ہوا بری ہے، جو کوئی یہاں رہتا ہے سو اذیت پاتا ہے۔ تب یہ احوال اپنے بادشاہ کو وہ لکھ کر بھیجے گا کہ اس شہر کی آب و ہوا نہایت مخالف ہے۔ جو کوئی یہاں آوے گا سو اپنی جان دے جاوے گا؛ اس خوف سے یقین ہے کہ ہدہد ادھر کا قصد نہ کرے گا۔ اور یہ بھی گھبرا کر خود بخود رخصت چاہے گا۔
قاز نے بھی اُس کے کہنے سے ایسی جگہ مقرر کی، جو کوئی وہاں کے پانی کی ایک بوند پیوے اور اُس جگہ کی ہوا کھاوے، تو مفت اپنی بھلی چنگی جان گنواوے۔ پھر قاز نے فرمایا: ‘‘تو جو کہتا ہے کہ لڑنا خوب نہیں، صلح بہتر ہے کیوں کہ اس میں ایک فکر اور اُس میں ہزار اندیشے، اور انجام اس کا معلوم نہیں کیا ہو؟ یہ بات غلط؛ کس لیے کہ میرے پاس فوج بہت ہے اور خزانہ بے شمار۔ خدا کے فضل سے مجھے یقین ہے کہ میری فتح ہوگی۔ تو صلح کی بات ہرگز زبان سے مت نکال بلکہ خدا سے یہ دعا مانگ کہ میری فتح ہو”۔
سرخاب بولا کہ پیر و مرشد! یہ لازم نہیں کہ بہت فوج اور خزانہ ہونے سے فتح ہو۔ اگر خداوند سے کسی نے اس مقدمے میں بہ صورت ترغیب کے کہا ہو، محض غلط ہے کیوں کہ آپ کے لشکر کے لوگوں نے لڑائی کا منہ اور جنگ کا میدان نہیں دیکھا، اس واسطے لڑائی کے نام سے بہت خوش ہوتے ہیں۔ جب کہ دشمن کی فوج کے سنمکھ ہوں گے، تب دیکھیو کہ ان کے پاؤں ٹھہرتے ہیں کہ نہیں۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ مخالف کو دیکھتے ہی بھاگیں گے بلکہ روکے سے بھی نہ رکیں گے کیونکہ انھوں نے آج تک کہیں لڑائی بھڑائی نہیں کی اور اپنے اپنے گھروں میں فراغت سے رہا کیے ہیں اور آرام طلب ہو رہے ہیں۔ اس واسطے میں منع کرتا ہوں کہ آپ ہرگز لڑائی کا قصد نہ کیجیے اور صلح کرنی بہت خوب ہے۔ اور بہت ایسے ہیں کہ گھر میں لاف زنی کیا کرتے ہیں، وقت پر کام نہیں آتے اور لڑائی کے میدان سے جلد بھاگتے ہیں۔ اگر تم کو لڑائی ہی کا ارادہ ہے تو جنھوں نے لڑائیاں دیکھیں ہیں اُن کو سردار کیا چاہیے، نہ ان کو جو ڈرے ہوئے ہوں۔ چنانچہ مشہور ہے کہ ڈرنے والے نہیں لڑتے مگر ناچاری سے۔ جو لوگ آزمودہ کار اور جنگ دیدہ ہیں اُن کو سالار فوج کیا چاہیے۔ اور مجھے بگلے کے فحواے کلام سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہدہد آج کل مع فوج تمھارے ملک میں لڑائی کے لیے پہنچتا ہے۔ بالفعل صلاح وقت یہی ہے کہ کچھ تدبیر اس کی ابھی سے ہو رہے۔ اُس وقت کچھ نہ ہو سکے گی۔ اس میں غفلت نہ کیجیے۔ کہتے ہیں کہ دشمن جب تک دور ہے، اس سے احتراز کیا چاہیے، جب نزدیک آ پہنچے تو جنگ کرنا ضروری ہے۔ اور یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہدہد کی فوج آپ کے لشکر سے بہت ہے۔ کچھ ایسی فکر ہو جس سے یہ ملک ہمارے قبضے میں رہے اور اس کا کچھ اندیشہ نہ کیا چاہیے، کس واسطے کہ فتح خدا داد ہے۔
قاز نے کہا ‘‘اس کو بھی تم سوچو کہ کس حکمت سے شہر ہمارا سلامت رہے”۔ اُس نے عرض کی کہ یہ توتا جو ایلچی ہو کر آیا ہے، اب اس کو اذیت میں رکھنا مناسب نہیں بلکہ حضور میں بلوا کر ایسی میٹھی باتیں کیجیے کہ وہ خوش رہے اور مکان بھی اُس کے واسطے اچھا سا تجویز کیجیے کہ کسی طرح سے تکلیف نہ پاوے۔ پھر داناؤں کی صلاح سے ایک کوٹ بنوائیے۔ قاز نے پوچھا کہ کوٹ کے بنوانے میں تو کیا فائدہ سمجھا ہے؟ کہا کہ قلعہ سرداروں کو ضرور ہے کیوں کہ برے وقت میں اگر کوئی سردار پان سَے سوار سے اپنے قلعے میں رہے اور دس ہزار سوار دشمن کے اس کو محاصرہ کر لیویں تو چند روز اس کو کچھ اندیشہ نہیں۔ اس عرصے میں کچھ نہ کچھ صورت رفاہیت کی ہو جاتی ہے۔ اگر مخالف کی سپاہ پلٹ جاوے اور کوئی آ کر یہ بات کہے کہ دشمن کی فوج بھاگی جاتی ہے، ہرگز اس کے کہنے سے اُس کا پیچھا نہ کیجیے۔ اس میں اکثر لوگوں نے دغا کھائی ہے۔ اور عقل مندوں نے کہا ہے کہ جس کا لشکر بہت نہ ہو، اس کو چاہیے کہ شہر پناہ میں رہے۔ اگر شہر پناہ نہ ہو بنا لیوے اور دیواریں اس کی چاروں طرف سے بلند ہوں اور خندق گہری اور چوڑی ہو اور ہتھیار جتنے چاہیں اس میں موجود رہیں اور دانے پانی کا بھی ذخیرہ موجود رکھے۔ جب ایسا بندوبست آگے سے ہو رہے تو یک بیک کسی حریف کا قدم نہیں پڑ سکتا۔
قاز نے سرخاب سے کہا کہ اس کام کے واسطے میں کس کو مقرر کروں کہ جس سے یہ کام اتمام ہو؟ سرخاب بولا: ‘‘اگر شتابی کام کرنا منظور ہو تو ایسے کو کہیے کہ جس پر اپنا اعتماد ہو۔ سو ویسا شخص اس سرکار میں سواے کلنگ کوتوال کے دوسرا مجھے نظر نہیں آتا”۔ تب اُس کو اُسی وقت بلایا اور وہ حضور میں حاضر ہوا۔ اُس کے حق میں بہت سی سرفرازی کر کے فرمایا کہ اے کلنگ! سرخاب کے کہنے کے موافق جلد ایک بڑا سا مضبوط قلعہ تیار کر۔ اُس نے آداب بجا لا کر عرض کی کہ جہاں پناہ! غلام نے اس سے چند روز آگے ہی کوٹ تیار کرا رکھا ہے اور ذخیرہ غلے کا اور اسباب لڑائی کا جتنا کچھ چاہیے، سب اُس میں موجود کر رکھا ہے۔ یہ بات سن کر قاز بہت خوش ہوا اور قلعہ دیکھنے کو گیا۔ دیکھ کر نہایت پسند کیا اور خاطر جمع ہوئی اور اس کے حق میں بہت سی بخشش اور انعام ہوا۔
بعد کتنے دنوں کے ایک روز کلنگ نے قاز کے روبرو جا کر عرض کی کہ خداوند! میگھ برن نام کوا اپنی برادری سمیت دروازے پر حاضر امیدوار قدم بوسی کا ہے اور یہ عرض کرتا ہے کہ میں آپ کا نام سن کر نوکری کے لیے بہت دور کا چلا ہوا سنگل دیپ سے آتا ہوں۔ اگر مرضی مبارک ہو تو واسطے ملازمت کے حاضر ہو؟ قاز نے کہا: ‘‘بہت اچھا، اسے نوکر رکھا چاہیے”۔ سرخاب بولا کہ جو حکم ہوا سو بجا ہے لیکن بندے کو یہ ڈر ہے کہ مبادا یہ کوا بھیجا ہوا کہیں بادشاہ ہدہد کا نہ ہو۔ واِلا بڑی خرابی کرے گا۔ اگر اس کو آپ نوکر رکھیں گے تو راے مدن پال سارنگ کی سی مثل ہوگی جو حاکم ترکستان کا تھا۔ قاز نے پوچھا: ‘‘وہ قصہ کیوں کر ہے؟” کہا۔
نقل راے مدن پال سارنگ کی
یوں کہتے ہیں کہ راے مدن پال نے کسی وقت میں اپنی ساری فوج اور بڑے بڑے پہاڑ سے ہاتھی لے کر ایک قلعے کو محاصرہ کیا اور چھ مہینے تک لڑتا رہا۔ ہر چند لینے کا قصد کیا پر لے نہ سکا۔ ناچار ہو کر ایک دن مینا کرن اُس کے وزیر نے (جو بڑا دانا تھا) کہا کہ حضرت! لشکر مفت مارا گیا اور کچھ فائدہ نہ ہوا۔ اب ایسی حکمت کیا چاہیے کہ فوج ہلاک نہ ہو اور قلعہ بھی تھوڑے دنوں میں ہاتھ آوے۔ راے نے کہا: ‘‘اگر تیری تدبیر اور حکمت سے لشکر ضائع نہ ہو اور قلعہ جلد ہاتھ آوے تو اُس کی قلعہ داری اور دولت تجھے بخشوں”۔ وزیر نے خوش ہو کر تین شخصوں کو بلوایا۔ ایک سائیس، دوسرا مہاوت، تیسرا باورچی۔ اُن تینوں کو کئی طرح سے جاسوسی اور فریب کے ڈھب سکھائے اور بہت سا انعام اکرام دے کر اُس قلعے میں دغابازی کے لیے بھیجا۔ وے تینوں فقیرانہ لباس بنا کر کسی حیلے سے اُس کوٹ میں گئے۔
چند روز وہاں رہ کر وہ لباس تبدیل کر کے اپنے اپنے پیشے کی نوکری وہاں کے راجا کی سرکار میں کر کے ہر ایک اپنے اپنے کام میں جان و دل سے ہمیشہ سرگرم اور چست و چالاک رہنے لگا۔ جب اُن کی خدمت اور چالاکی ہر ایک کام میں وہاں کے سرداروں نے دیکھی، تب ایک کو اُن میں سے سرکاری میر مطبخ اور دوسرے کو اصطبل کا داروغہ کروایا اور تیسرے کو فیل خانے کی داروغگی دلائی۔ اُن کی طرف سے ہر ایک سردار کی یہاں تک خاطر جمع ہوئی کہ آپس میں کہنے لگے کہ ہمارے راجا کی سرکار میں ان تینوں کے برابر محنتی اور خیرخواہ اور کوئی نہیں۔جب انھوں نے دیکھا کہ ہم سے یہاں کے لوگوں کی خاطر جمع ہوئی، تب آپس میں ایک نرالے مکان میں اکٹھے ہو کر کہنے لگے کہ وزیر نے جس کام کو ہمیں یہاں بھیجا ہے، اب اسے اس ڈھب سے کیا چاہیے کہ آدمیوں اور گھوڑوں اور ہاتھیوں کو پرسوں شب کے تئیں زہر کھلائیے اور یہاں سے نکل چلیے۔ تب اصطبل کے داروغے نے سارے گھوڑوں کو مہیلے کے ساتھ زہر کھلایا اور میر مطبخ نے تمام کھانے میں زہر ملایا اور فیل خانے کے داروغے نے بھی سارے ہاتھیوں کو راتب میں زہر دلوایا۔ جنھوں نے وہ زہر ملا کھانا اور دانا اور راتب کھایا، سب کے سب وہیں مر رہے۔ غرض اس طرح اپنا کام کر، تینوں نے ایک ساتھ قلعے سے باہر نکل کر اپنے لشکر میں آ، وزیر کو خبر کی کہ جس کام کے لیے آپ نے ہمیں بھیجا تھا، سو ہم اس کام کو تمام کر آئے ہیں۔
وزیر نے جا کر بادشاہ سے عرض کی کہ خداوند! آپ کے اقبال سے غلام کی تدبیر نے اس کام کو انجام تک پہنچایا۔ تب بادشاہ یہ خوش خبری سنتے ہی اپنی فوج سمیت بے خلش مخالف کے گڑھ میں داخل ہوا اور دشمن کا سارا لشکر تین آدمیوں کی سعی سے مارا گیا۔ دیکھیے حضرت! بیگانے آدمی کو اپنے کام میں دخل دینا ایسا زبوں ہے۔
قاز نے کہا: ‘‘بھلا کیا مضائقہ۔ اُس کوے کو ایک بار حضور میں لاؤ۔ اگر میں اسے قیافے کی رو سے زیرک و دانا دیکھوں گا تو اس کو نوکر رکھوں گا اور اس کے لائق کام سپرد کروں گا اور نہیں تو رخصت کیا جائے گا”۔ سرخاب نے جو مزاج قاز کا کوے کی طرف مائل دیکھا تو اس کو اپنے ساتھ حضور میں لایا اور بادشاہ کے قدموں میں ڈلوایا۔ قاز نے جب اسے امتحان کی رو سے دیکھا اور اس کی گفتگو سنی تو بہت محظوظ ہوا اور لائق رفاقت کے جان کر اپنا رفیق کیا۔
ایک روز سرخاب نے عرض کی: ‘‘پیر مرشد! قلعہ خاطر خواہ بن چکا ہے اور اسباب لڑائی کا بھی جتنا چاہیے سب موجود ہو چکا۔ اب توتے کو رخصت کیجیے۔ یہاں رہنا اس کا خوب نہیں کیوں کہ اگر یہ زیادہ رہے گا تو یہاں کے تمام احوال سے واقف ہوگا اور اپنے بادشاہ سے مفصل بیان کرے گا”۔ سرخاب کی یہ صلاح قاز کو نہایت پسند آئی اور بار عام کا حکم کیا۔ جتنے آبی جانور تھے اپنی اپنی جگہ پر مجلس میں دربار کے وقت برابر برابر ہاتھ باندھ کر آن کھڑے ہوئے۔ اتنے میں حکم ہوا کہ ہدہد کے ایلچی کو بلاؤ۔ لوگ دوڑے اور اس کو حاضر کیا۔ اس نے ادب سے کھڑے ہو کر دور سے مجرا کر کے عرض کی کہ خداوند! اگر حکم ہو تو اپنے بادشاہ کا پیغام حضور میں عرض کروں۔ قاز نے اشارہ کیا کہ ہوں۔ توتا بھاری آواز سے کہنے لگا کہ غلام کے شاہنشاہ نے فرمایا ہے کہ اگر قاز کو اپنی جان اور ملک و مال عزیز ہے تو اپنے گلے میں کلھاڑی ڈال کر جلد میرے قدموں پر آ گرے اور عاجزی سے اپنی تقصیر معاف کرواوے، واِلاّ اپنے واسطے جگہ رہنے کی دوسری ٹھہراوے۔ حضرت سلامت! ہمارے بادشاہ کی لڑائی کی فوج اب تلک تمھاری سرحد سے دور ہے۔ آپ کے حق میں بہتر یہ ہے کہ کچھ ہاتھی اور اونٹ اور گھوڑے اور کچھ روپے اور اشرفیاں اور جواہرات بہ طور پیش کش کے جلد روانہ کیجیے کہ میرے بادشاہ کی اطاعت تمھارے واسطے سراسر فائدہ ہے۔ اگر یہ کیجیے تو شاید تمہارے حال پر ہمارا بادشاہ مہربان ہو اور تمھارے ملک کو خاک سیاہ نہ کرے۔
جب قاز نے توتے کی زبان سے یہ باتیں سنیں، غصے سے آگ ہو گیا اور فرمایا: ‘‘کوئی ہے کہ اس بے امتیاز کے بال و پر اکھاڑکر حضور سے دور کرے؟” کوا جو دست بستہ کھڑا تھا، بولا کہ اگر غلام کو حکم ہو تو اس بے ادب کی واقعی خدمت بجا لاوے کہ پھر کوئی ایلچی کسی بادشاہ کے حضور ایسی گستاخی نہ کرے۔ اس میں سرخاب نے کہا کہ ایلچی کو مارنا شاہان عالی مقدار کے آداب سے بعید اور موجب بدنامی کا ہے اور دانا کہیں گے کہ سرخاب وزیر سفید ڈاڑھی کا حضور میں حاضر تھا، ایسی نالائق حرکت کیوں ہونے دی؟ کیا اتنا نہیں جانتا تھا کہ ایلچی کو زوال نہیں۔ خدا نہ خواستہ یہ بات ہوگی تو کسی بادشاہ کے یہاں سے ایلچی پھر کبھی نہ آوے گا۔ اور بزرگوں نے کہا ہے کہ جس مجلس میں کوئی بوڑھا نہ رہے تو یقین ہے کہ کچھ نہ کچھ کام وہاں بگڑتا ہے اور اس کو مجلس نہیں کہتے۔ جہاں پناہ! میں جھوٹھ نہیں عرض کرتا ہوں کہ آج تک کسی بادشاہ نے ایلچی پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ ہر چند وہ گستاخی کرے پر اسے ہرگز بادشاہ خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔ اور توتا سا ایلچی کم پیدا ہوتا ہے۔ اگر اس کو قتل کریں گے تو آئندہ پچتاویں گے۔آخر سرخاب وزیر کے کہنے سے قاز بادشاہ کا دل ملائم ہوا اور اس کو خلعت اور بیڑا مرحمت کر کے رخصت کیا۔ بعد کتنےایک دنوں کے وہ اپنے بادشاہ کے پاس جا پہنچا۔ اس نے پوچھا کہ اے توتے! وہاں سے تو کیا کام کر لایا؟ اور تجھ سے کیا کیاجواب و سوال درمیان آئے؟ اور ملک اس کا کیسا ہے؟ اور تجھ کو رخصت کس طرح کیا؟
اس نے عرض کی: ‘‘جہاں پناہ! کچھ نہ پوچھیے، لڑائی کی تیاری کیجیے۔ اور میں نے جواب و سوال دلیری سے مانند مردوں کے کیا اور اس سلطنت کے رعب سے ہرگز نہیں دبا۔ جو آپ کا پیغام تھا سو سر مجلس قاز کو پہنچایا۔ اور ملک جو قاز کے قبضے میں ہے، اس کی تعریف مجھ سے ہو نہیں سکتی۔ میری دانست میں تو بہشت پر فوقیت رکھتا ہے۔ جب میں وہاں پہنچا تو مجھے ایک زبوں جگہ میں نظر بند رکھا۔ اور اس نے بڑی محنت سے ایک قلعہ بنوایا ہے اور لڑائی کا بہت سامان اس میں جمع کروایا ہے، لیکن جس وقت خداوند کی فوج اس ملک کے لینے کو چڑھے گی تو یقین ہے پہلے ہی ہلّے میں وہ حصار فتح ہوگا اور ملک اس کا مفت میں ہاتھ آوے گا۔
تب کرگس وزیر نے دل میں خیال کیا کہ شاید یہ توتا وہاں سے رسوا ہو کر آیا ہے۔ اس سے پوچھا کہ میں نے یوں سنا ہے کہ قاز نے تیری بڑی مدارات اور خاطر داری کی اور طرح طرح کے کھانے تیرے واسطے بھجوایا کرتا تھا۔ تونے نے جواب دیا: ‘‘اے وزیر! یہ بات سراسر غلط ہے۔ سواے بدی کے کچھ مجھ سے اس نے نیکی نہ کی۔ میں نے یہ غنیمت جانا کہ اس نے مجھے جیتا چھوڑا”۔ یہ سنتے ہدہد کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا۔ اسی خفگی کی حالت میں حکم کیا کہ ابھی میرا خیمہ باہر نکلے۔کرگس نے عرض کی کہ بادشاہوں کو اتنی جلدی نہ چاہیے کہ اس میں کام بگڑتا ہے، کچھ سنورتا نہیں۔ مناسب یہ ہے کہ آج سب اُمراؤں اور رسالہ داروں کو صلاح کے واسطے حضور میں بلائیے اور ان سے یہ بات کہیے کہ بھائیو! ایک مشکل در پیش آئی ہے، کچھ ایسی نیک صلاح کیجیے کہ وہ مشکل آسان ہو۔
سب نے سن کر پوچھا کہ وہ کیا ہے؟ فرمایا کہ قاز نے ہمارے ایلچی سے نہایت بد سلوکی کی اور قلعہ بنا کر لڑنے کو مستعد ہوا ہے۔ سو میں یہ چاہتا ہوں کہ اس کا کوٹ اور ملک میرے ہاتھ آوے۔ سبھوں نے متفق ہو کر عرض کی: ‘‘جہاں پناہ! ہم کو جو فرماؤ سو ہم ایک پاؤں پر حاضر ہیں۔ اگر ہماری صلاح لیجیے تو قاز سے لڑائی کیجیے، کیوں کہ خداوند کی بھلائی اور سبھیتا ہم کو جنگ ہی میں نظر آتا ہے۔ اور اس اندیشے کو ہرگز خاطر مبارک میں دخل نہ دیجیے اور کچی پکی بات پر بھی کسی کی کان نہ رکھیے۔ فتح شکست اختیار خدا کے ہے۔ تب ہدہد بولا کہ توتے نے قاز کے ملک کی بہت سی تعریف کی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ جھوٹ نہ ہوگی۔ یہ کہہ کر ان کو حکم کیا کہ اپنی اپنی فوج رسالوں کو جلد تیار کرو۔ اورنجومیوں کو بلووایں جو اپنی پوتھیوں کو دیکھ کر لڑائی کی نیک ساعت ٹھہراویں۔
وزیر نے عرض کی: ‘‘جو آپ نے حکم کیا سو بجا ہے اور سب کو قبول لیکن غلام کی بالفعل صلاح یہ ہے کہ چند روز اپنی جگہ سے حرکت نہ کیجیے کہ لشکر تمام و کمال جمع ہو۔ ایک دانا سردار کے ساتھ دو ہزار سوار جلد روانہ کیجیے کہ جہاں کہیں راہ میں بہت پانی ہو وہاں جا کر رہیں، تا فوج قاز کی ادھر گزارہ نہ کر سکے، اور قاز کے لشکر کی خبر ہر روز حضور میں پہنچایا کریں”۔ہدہد نے کہا: ‘‘اے وزیر! اپنی گویائی کی کمان اپنے ہاتھ سے پھینک کر اپنی عقل کی میان سے تیز تلوار میرے ہاتھ دے کہ مخالفوں کے سروں کو بے دریغ کاٹوں”۔ وزیر نے کہا: ‘‘جو کچھ ارشاد ہو سو اس کے موافق میں بجا لاؤں گا لیکن جو باتیں میں نے اپنے بزرگوں سے سنی ہیں، اگر حکم ہو تو عرض کروں؟” فرمایا: ‘‘کہہ”۔
کرگس بولا: ‘‘یوں سنا ہے کہ جب کوئی بادشاہ کسی لڑائی پر جاوے تو اس کو لازم ہے کہ پہلے اپنی سپاہ کو انعام و اکرام اور میٹھی باتوں سے خوش کرے؛ کس واسطے کہ سپاہ کی خوشی میں دولت خواہی اور بھلائی سرکار کی ہے۔ اور جب کوچ کرے، جہاں کنارہ دریا کا یا جنگل یا پہاڑ دیکھے، وہاں غافل نہ رہے اور بڑی خبرداری و ہشیاری سے اس جگہ مقام کرے۔ اور بڑے بڑے امرا اپنے پاس اور اچھے اچھے تیر انداز اور گُل چلے اچوک اور نیزہ باز اور نئے نئے پہلوان جوان ہنر مندوں کو مسلح کر کے دہنے بائیں، اور آتش کے پرکالے برقنداز چالاک سپاہیوں کو آگے پیچھے رکھے۔ اور خزانے کے اوپر مضبوط لوگوں کو محافظت کے لیے متعین کرے؛ کس واسطے کہ اگر فوج مخالف میں سے کوئی خزانے پر آپڑے تو اس کے جواب دہ رہیں۔ اور جو کوئی لشکر میں سے بیمار ہو جاوے یا لنگڑا یا بوڑھا یا لڑکا ہو، اپنے ساتھ رکھے اور ان کے احوال سے غافل نہ رہے۔ اور اسی طرح بادشاہ اور وزیر مع فوج منزل بہ منزل جاویں اور جس جگہ کہ مقام کریں، اگر وہاں کسی نوع کا کچھ خوف و خطرہ معلوم ہو تو اپنے لشکر کے چاروں طرف خار بندی بہ طور حصار کے کریں۔ اور تیر اندازوں، پہلوانوں، سپاہیوں کو اس کوٹ کے آس پاس واسطے چوکی پہرے کے بٹھاویں اور بادشاہ آپ اپنے خاص صاحبوں کے ساتھ بیچ میں رہے اور خزانہ اپنے قریب رکھے۔ اور فیلان جنگی تیار رکھے تاکہ لڑائی کے وقت کام آویں۔ اور امراؤں کو کوٹ میں اپنے پاس رہنے کو جگہ دیوے۔ اور ہاتھیوں پر ہودے اور انباڑیاں، اور گھوڑوں پرزین اور پاکھریں کسوائے رکھے۔ زرہ پوش جوانوں کو دروازوں پر بٹھلا کر کہہ دیوے کہ ساری رات اپنی اپنی باری جاگتے رہیں۔ اگرچہ فوج اور چوکی پہرے کی طرف سے خاطر جمع ہو پر بادشاہ کو لازم ہے کہ اپنی ہشیاری اور نگہ بانی آپ کرے۔ اور اپنی فوج سے تین کوس آگے دشمن کے لشکر کی طرف چالاک سواروں کو بھیجے کہ چلتے پھرتے، جاگتے، کھانستے، کھنکارتے آنکھوں میں ساری رات کاٹیں۔ اور جب روز روشن ہو تب ڈنکے اور دمامے کا حکم فرماوے کہ اس کی آواز سن کر دشمن کا دل دھڑکنے لگے۔ جب بگانے ملک کی سرحد میں پہنچے تو اپنی سپاہ کو طلب تنخواہ دیوے، کیوں کہ یہ ممکن نہیں کہ بادشاہ کے کام میں سپاہی خالی ہاتھ محنت اور جان فشانی کریں اور لڑائی میں اپنے سر کٹواویں۔ سب کوئی خدا کے بندے ہیں۔ جب ان کو اور ان کے لڑکے بالوں کو کھانے پینے سے فراغت اور آسودگی حاصل ہو تو البتہ کام آویں گے۔
جب بادشاہ لڑائی پر چڑھے تو چاہیے کہ بندوبست فوج کا قرینے سے کرے۔ سب سے اگاڑی توپ خانہ چنے اور اس کے پیچھے توپ خانہ دستی اور اس کے پیچھے بادشاہ کی قور میں امرا فیل نشین، اور اس کے پیچھے سواروں کا غول اور ان کے پیچھے کچھ جنگی ہاتھی، اور دہنی طرف بان دار اور ہتھ نالیں اور پہلوانان جنگ آزمودہ، اور بائیں النگ تیر انداز اور شتر نالیں اور جوان لڑائیاں دیکھے ہوئے۔ اور کچھ سپاہی ایسی جگہ میں چھپا رکھیں کہ کسو پر معلوم نہ ہو اور اپنی گھات میں لگے رہیں کہ وقت پر کام آویں۔ جب دشمن کی طرف سے زیادتی دیکھیں تب دونوں طرف سے اپنی فوج کی تکبیر کہتے ہوئے آگے بڑھیں اور مخالف پر حملہ کریں۔ اور قاضی و خطیب لشکر میں واسطے نماز پڑھانے کے موجود رہیں۔ اور جو کوئی جان بازی کرے یا زخمی ہووے اس کے حق میں بادشاہ مہربانی اور موافق حال اس کے تسلی اور بخشش کرے اور انعام اور اکرام عطا کرے۔ جب جانے کہ فوج حریف کی سپاہیوں کی تن دہی سے پسپا نہیں ہوتی، تب حکم کرے کہ سب فیلان جنگی اور تمام فوج ایک دل ہو کر یکایک حملہ کریں۔ ہاتھی ایک بارگی ان پر ہولیں کہ سر دشمنوں کا ان کے پاؤں کے نیچے روندا جاوے۔
غریب پرور! اگر اپنی فوج میدان میں اور دشمن کی جنگل میں ہو تو ہرگز ہاتھی اور سواروں کو اس میں جانے نہ دیجیے اور حکم کیجیے کہ سب سردار اور سپاہی اُتارے ہو ہتھیار پکڑیں اور ایسی جاں فشانی کریں کہ جس سے حریفوں کی بیخ کنی ہو جاوے۔ اور جو کوئی ندی یا گہری جھیل بیچ میں دونوں لشکروں کے آ پڑی ہو تو کشتیوں پر فوج کو چڑھا کر ایسی تدبیر سے لڑاویں کہ دشمن بے شمار مارے جاویں اور ان کے سروں کا چبوترہ بندھ جاوے۔
اگر قاز کا لشکر ندی میں یا میدان میں نہ لڑے اور قلعہ پکڑے، اپنے لشکر کے سرداروں کو حکم دو کہ اُس کے ملک میں جہاں غلہ پاویں لوٹ لیویں، جو لوٹ سے زیادہ ہو تو پھونک دیویں۔ تالابوں کا پانی کاٹ دیں، کھیتیاں گھوڑوں کو کھلا دیں۔ باغات کو لٹوا دیں۔ گھاس کی ٹالیں، لکڑیوں کے ڈھیر جلوا دیں اور جس جس چیز سے ان کو فائدہ ہو، اس کو آگ دے دیویں۔ اور جس جگہ تالاب یا جھیل وغیرہ ہو اس کے گرد لشکر رکھیں کہ پانی بند ہونے سے وے عاجز ہوویں۔
اور دوسری عرض یہ ہے کہ جب لشکر پر دشمن کے خداے تعالی آپ کو فتح دیوے تو مناسب ہے کہ فوج کو اپنی مخالف کی لوٹ اور پیچھا کرنے سے باز رکھیں؛ کس واسطے کہ جس وقت تمام سپاہی روپے کی طمع اور نا فہمی سے اپنی دلیری جتانے کے لیے تم کو چھوڑ کر اس طرف متوجہ ہوویں تو تم میدان میں اکیلے رہ جاؤ گے؛ خدا نہ کرے کہیں قاز نے ہشیاری سے فوج پوشیدہ رکھی ہو، کیوں کہ مدبر بادشاہ دور اندیشی سے کچھ لوگ مخفی رکھتے ہیں کہ بر وقت کام آویں۔ وہ تمھیں تنہا پا کر آ پڑے اور گرفتار کر لے جاوے۔ فتح ہو کر شکست ہووے گی اور سلطنت خاک میں مل جاوے گی۔ پھر خانہ زادوں سے بغیر خاوند کے کچھ تدبیر نہ بن پڑے گی اور فوج مفت برباد ہو جائے گی”۔
بادشاہ نے کہا: ‘‘اے کرگس وزیر! تو نے بہت کچھ کہا، اب اتنا کہنا کچھ ضرور نہیں۔ تو میرا وزیر ہے، میرے پاس رہے گا۔ جو تو جانتا ہے اور اپنے بزرگوں سے سنا ہے، لڑائی میں اس کے موافق کیجو”۔ دونوں اسی گفتگو میں تھے کہ قاز کو ہدہد کے سوار ہونے کی یہ خبر پہنچی کہ وہ نیک ساعت میں اپنے مقام سے ساری سپاہ لے کر سوار ہوا۔ اور پیلک جاسوسوں کے سردار نے بھی (جو بھیجا ہوا قاز کا تھا) اپنی برادری میں سے ایک جاسوس کو دوڑا کر اس کی زبانی یہ پیغام کہلا بھیجا کہ حضرت! غافل کیا بیٹھے ہیں! ہدہد تاج دار ساتھ لشکر بے شمار کے جنگ کے ارادے گنگا کنارے آ پڑا ہے۔ آپ بھی بہت ہشیار اور خبردار رہیں گے۔ کیوں کہ کرگس وزیر ہدہد کا مجھے نہایت عقل مند نظر آتا ہے، اور اس کے فحواے کلام سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کسی کو جاسوسی کے واسطے تمھارے قلعے میں بھیجا ہے۔ یہ بات سنتے ہی سرخاب بولا کہ اے بادشاہ! غلام نے آگے ہی غرض کی تھی کہ کوا ہدہد کا بھیجا ہوا ہے، سواے اس کے کوئی دوسرا نہ ہوگا۔ قاز نے کہا: ‘‘جو تو کہتا ہے سو ایسی بات کم ہوتی ہے۔ اگر کوا ہم سے موافق نہ ہوتا تو توتے کے مارنے کو نہ اٹھتا اور قلعے میں اپنے لڑکے بالوں سمیت نہ آتا”۔ سرخاب نے کہا: ‘‘یہ سچ ہے کہ وہ اپنے لڑ جڑ کو ساتھ لا کر رہ رہا ہے لیکن اس کو یاد رکھیے کہ وہ کبھی نہ کبھی دغا کرے گا”۔
قاز نے جواب دیا: ”اے سرخاب! نئے نوکر کے برابر پرانا چاکر نہیں ہوتا۔ وہ نمک حلال اور کار گزار ہوتا ہے اور ایسا کام کرتا ہے کہ قدیموں سے نہیں ہو سکتا۔ مگر تو نے قصہ بیربل راجپوت کا نہیں سنا جو نیا نوکر ہوا اور اپنے بیٹے کو راجا کے بدل قربان کیا”۔ سرخاب نے پوچھا: ‘‘وہ قصہ کیوں کر ہے؟” قاز نے کہا۔
نقل راے منڈوک اور بیربل راجپوت کی
میں نے یوں سنا ہے کہ ایک دن راے منڈوک راج کے تخت پر بیٹھا تھا۔ حجام نے آکر خبر کی کہ ایک شخص بیربل نام راجپوت ڈھال تلوار باندھے دروازے پر کھڑا امیدوار مجرے کا ہے۔ راے نےاشارت کی: ‘‘بلاؤ”۔ تب اس نے بہ موجب حکم حضور میں لا کر قدم بوسی کا مشرف کروایا۔ راجا نے پوچھا: ‘‘تو کون ہے، کہاں سے آیا؟” بولا: ‘‘سپاہی ہوں، آپ کا نام سن کر آیا ہوں”۔ فرمایا کہ تو ہماری نوکری کرے گا؟ عرض کی: “جو میرے واسطے کچھ کام مقرر کیجیے تو البتہ حاضر ہوں تاکہ مجھے بھی یہ معلوم ہو کہ آپ خاوند ہیں، میں نوکر ہوں”۔ پوچھا: ‘‘درماہا کیا لے گا اور کام کیا کرے گا؟” کہا: ‘‘پانسے اشرفیاں روزینہ لوں گا اور آپ کی خدمت میں شب و روز حاضر رہوں گا”۔ کہا: ‘‘تیری رفاقت میں کتنے لوگ ہیں؟” جواب دیا کہ ایک تلوار، دونوں بازو، یہی میرے رفیق ہیں۔ فرمایا کہ ایک آدمی کو اتنا روزینہ نہیں دیا جاتا۔ بیربل سلام کر کے چلا۔
دیوان نے عرض کی: ‘‘خداوند! اس میں کچھ فی ہے۔ ایسے شخص کو نہ چھوڑا چاہیے۔ اگر بہت نہیں تو تھوڑے دنوں کے لیے رکھ کے دیکھیے تو معلوم ہو کہ یہ کیسا ہے اور کیا کچھ نمک حلالی کرتا ہے۔ جو کام کسی سے نہ ہو اگر یہ کرے گا تو رہے گا، نہیں جواب پاوے گا”۔ راے نے دیوان کی بات بہت پسند کی۔ اس کو بلا کر نوکر رکھا اور روزینہ موافق قرار کے دیا۔ اور ایک آدمی پوشیدہ اس کے ساتھ مقرر کیا کہ اس کا احوال مفصل دریافت کر کے ہم سے کہے۔ بیربل اشرفیاں لے رخصت ہو کر اپنے گھر گیا اور اپنی جورو سے کہنے لگا کہ آج میں راے منڈوک کا چاکر ہوا ہوں۔ یہ روزینہ جو آج کا میں نے پایا ہے، سو اس میں سے ایک دن کا خرچ رکھ کر باقی گسیاں کے نام پر بانٹ دے۔ یہ کہہ کر راجا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس آدمی نے اس بات کو سن کر اپنے خاوند سے جا کہا۔ راجا یہ سن کر سخت تعجب میں رہا۔ ہر روز اپنا روزینہ سرکار سے لیتا اور اسی طرح بھوکھوں کو دان کر دیتا اور آٹھ پہر راجا کی چوکی دیا کرتا اور کبھی آپ سے رخصت گھر کی نہ چاہتا۔ یوں ہی چند روز گذرے۔
ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ برسات کے موسم میں ایک شب بادل گرج رہا، بجلی چمک رہی اور مینہ برس رہا تھا۔ اندھیرا ایسا کہ ہاتھ کو ہاتھ نہ سوجھے؛ اسی کٹھن سمے میں بیربل کھڑا چوکی دیتا تھا۔ یکایک آدھی رات کے وقت آواز ایک عورت کے رونے کی جو راے کے کان میں پڑی، نیند سے گھبرا کر چونک اٹھا۔ شمع ہاتھ میں لے گھر کے آنگن میں کھڑے ہو کر پکارنے لگا کہ کوئی ہمارے چوکی داروں سے جاگتا ہے یا نہیں؟
بیربل آداب بجا لایا اور ڈنڈوت کر کے عرض کی کہ غلام حاضر ہے۔ تب پوچھا: ‘‘تو کون ہے؟” جواب دیا کہ میں بیربل نیا نوکر سرکار کا۔ کہا: ‘‘تو اپنے گھر کیوں نہیں گیا؟” بولا کہ میری یہ خو ہے کہ جب کسی کا نوکر ہوا، بغیر اس کے کہے اپنے گھر یا اور کہیں نہیں جاتا۔ دن کو اس کے پاس رہتا ہوں اور رات کو کھڑا چوکی دیا کرتا ہوں۔ شمع جو راجا کے ہاتھ میں تھی، اس کی روشنی سے اس نے دیکھا کہ آنکھوں سے راجا کے آنسو بہتے ہیں۔ حیران ہوا کہ ان کے رونے کا سبب کیا ہے۔ آخرش پوچھا کہ مہاراج! آپ کیوں روتے ہیں؟ راجا نے فرمایا کہ ایک عورت کہیں ایسے درد سے روتی ہے کہ اس کی آواز سوز ناک سے میرے دل میں آگ لگی ہے اور اس کے دھوئیں کے سبب میری آنکھوں سے اشک جاری ہیں۔ بیربل سر اپنا جھکا کر بولا کہ غلام کو کیا حکم ہوتا ہے؟ راجا نے فرمایا کہ تحقیق کرو کہ وہ عورت کہاں ہے اور کس واسطے روتی ہے۔ اگر مفلس ہے تو اتنے روپے دلوا دو کہ باقی عمر کو اس کی کفایت کریں۔ بیربل یہ حکم سن کر جدھر سے وہ آواز آتی تھی ادھر چلا۔ راجا نے دیکھا کہ یہ اکیلا اندھیری رات میں باہر اس کی تلاش کے لیے جاتا ہے، تب خاطر میں یوں گذرا کہ مناسب نہیں یہ تنہا جاوے؛ بہتر یوں ہے میں بھی اس کے پیچھے جاؤں اور دیکھوں یہ کہاں جاتا ہے اور کیا کرتا ہے۔ ہاتھ میں تلوار لے کر پیچھے پیچھے ایسا دبے پاؤں ہو لیا کہ ہرگز اسے خبر نہ ہوئی۔ شہر کے باہر جا کر چاروں طرف دوڑا؛ آخر ایک جگہ کھڑے ہو کر اس کی آواز پر کان لگائے؛ تب اس کی آواز سنی کہ دکھن کی طرف سے آتی ہے، ادھر ہی چلا۔ اور راجا بھی اس کے پیچھے چلا جاتا تھا اور یہ اپنے دل میں کہتاتھا کہ کیا نوکر خیر خواہ ہے کہ اپنے خاوند کے حکم پر کیسی محنت اور جاں فشانی کرتا ہے۔
آخر بیربل کیا دیکھتا ہے کہ ایک عورت خوب صورت زار زار روتی ہے۔ بولا کہ اے ماتا! تو نے اتنا مجھے کس لیے دوڑا مارااور سبب رونے کا تیرے کیا ہے؟ اپنا احوال کہہ۔ عورت نے جواب دیا کہ میں عمر اس ملک کے راجا کی ہوں اور دولت سے اس کی خوب میں نے آرام پایا ہے۔ اب زندگی اس کی آخر ہوئی۔ ایک پہر رات باقی ہے، آفتاب کے نکلتے ہی راجا مرے گا۔ بیربل نے یہ بات سن، آہ کھینچ کر پگڑی اپنی زمین پر دے ماری اور کہا: ‘‘کیا کروں قضا کے تیر کی ڈھال نہیں، اگر کسی آدمی زاد سے کام پڑتا تو میں اپنے حوصلے کے موافق اس کی تدبیر کرتا کہ جس میں راجا زندہ رہتا۔ اور یہ کہا کہ اے عورت! کسی طرح راجا کی جان بچ سکتی ہے؟ وہ بولی کہ اے مرد! اگر تجھ سے ایک کام ہو سکے تو مجھے امید ہے کہ بچے۔ یہ بولا کہ تم کہو، اگر خدا چاہے تو اپنی حتی المقدور محنت اور تدبیر میں قصور نہ کروں گا۔ آگے اختیار خدا کے۔ عورت نے کہا: ‘‘سن اے عزیز! ایک نیا نوکر راجا کی سرکار میں بیربل نام ہے۔ اس کے اکلوتا بیٹا خوب صورت کہ اس میں چھتیس لچھن نیک بختی کے موجود ہیں؛ اگر تو اس بچے کا سر کاٹ کر منگلا دیبی کے آگے رکھے اور یہ کام تجھ سے سورج نکلنے کے آگے سر انجام ہو تو یقین ہے کہ راجا کی جان بچے گی اور سو برس عمر اس کی زیادہ بڑھے گی۔
یہ بات کہہ کر وہ عورت تو نظر سے غائب ہو گئی۔ راجا جو اس کے پیچھے کھڑا تھا، یے سب باتیں اپنے کانوں سنیں۔
بیربل وہاں سے جلد دوڑ کر اپنے گھر آیا اور عورت کو اپنی جگا کر سب کیفیت جو گذری تھی، سو کہی۔ اس نے سن کر یہ جواب دیا کہ اگر میرے بیٹے کے سر دینے سے راجا کی جان بچے تو خوش نصیبی ہماری کمال ہے؛ کس واسطے کہ ہم اس کا نمک اس ہی دن کے لیے کھاتے ہیں کہ کٹھن وقت میں کام آویں اور کہا: ‘‘اے بیربل! جلدی کر، مبادا رات تمام ہو جائے”۔ اگرچہ خاوند کی موافق مرضی کے یہ بات کہتی تھی لیکن مہر مادری سے ایک دم میں اتنا روئی کہ سارا بدن اپنا اور لڑکے کا بھیگ گیا۔ بیربل اس کی یہ حالت دیکھ کر لڑکے کو جلد لے گیا اور منگلا دیبی کے دھرے میں جا کر اس کو نہلایا اور لڑکے سے ذبح کرنے کی اجازت چاہی۔ وہ بھی راضی ہوا کہ مجھ کو راجا کے بدلے جو تو بل دیتا ہے تو اچھا ہے۔ اس کام میں پوچھنا کیا ضرور ہے، جلدی کر۔ بیربل نے جب یہ اس سے سنا کہ لڑکا بھی فدا ہونے پر خاوند کے حاضر ہے اور حق نعمت کا اس کی ادا کیا چاہتا ہے، تب اس کو گود میں لے کر ذبح کیا اور کہا: ‘‘شکر ہے خدا کا کہ میرے فرزند نے جان دینے میں کچھ خوف نہ کیا”۔ سر نیچے کر رہ گیا اور اپنے دل سے کہا کہ حق خاوند کا اپنی گردن سے میں نے ادا کیا اور میرا یہی ایک فرزند تھا کہ جان اس کی میری آنکھوں کے آگے تلوار کے نیچے نکلی۔ اگر میں اس کا اب غم کروں تو کیا فائدہ۔ بہتر یہ ہے کہ بیٹے کے پیچھے میں بھی جاؤں۔ بعد اس کے اپنا سر بھی اسی تلوار سے کاٹا۔
عورت اس کی (جو اس وقت پیچھے لگی ساتھ چلی آئی تھی اور دور سے چھپی یہ ماجرا دیکھتی تھی) بیٹے کا ذبح کرنا دیکھ کر بے ہوش ہو گئی۔ بعد تھوڑی ایک دیر کے جو ہوش میں آئی تو کیا دیکھتی ہے کہ دریا میں لہو کے سر بیٹے اور خاوند کا پانی کے بلبلے کی طرح ترتا پھرتا ہے۔ اس کو دیکھ کر کچھ ان نے اپنے دل میں فکر نہ کی اور سر اپنا خاوند اور بیٹے کے پاؤں پر رکھ اسی تلوار سے کاٹا۔ راجا دور سے یہ حال دیکھ کر ان تینوں سر کٹوں کے نزدیک آیا اور ایسا رویا کہ آنکھوں سے اس کے اتنے آنسو جاری ہوئے کہ اس جگہ ایک سیلاب ہو گیا اور دیکھا کہ اس سیلاب میں دیبی معہ بت خانہ ڈوبنے پر ہے۔ تب راجا نے اپنے دل میں کہا کہ ان تینوں نے میری جان کی خاطر اپنے سر فدا کیے، اگر میں ایسی حالت دیکھ کر جیوں تو میرے برابر دوسرا کوئی سنگ دل نہ ہوگا۔ جلد بت خانے میں آن کر ان تینوں کے پاؤں چوم کر یہ شعر پڑھا ؎
خدمت شائستہ ہو سکتی نہیں کیا کیجیے
سر تو کیا ہے جو کروں پاے عزیزاں پر نثار
اور چاہا کہ سر اپنا عورت کے پاؤں پر رکھ کر تلوار سے کاٹے؛ اتنے میں دیبی نے حاضر ہو کر ہاتھ راجا کا پکڑا اور کہا کہ بیربل نے نمک حلالی کی ہے، تجھے لازم نہیں کہ تو اپنا سر دیوے۔ راجا نے کہا: ‘‘جو ایسے نمک حلال نوکر کے لیے اپنا سر نہ دوں تو زندگی بے لطف ہے”۔ دیبی یہ سن کر بہت خوش ہوئی اور بولی کہ میں تجھ سے نہایت راضی ہوئی۔ جو کچھ تو چاہے سو مانگ کہ میں خدا سے تیرے واسطے مانگوں۔ راجا کو بولا کہ خدا کے فضل سے میرے یہاں سب چیز موجود ہے، کسی بات کی کمی نہیں۔ اگر تجھے کچھ قوت ہے تو خدا سے یہ دعا مانگ کہ یے تینوں جی اٹھیں۔ یہ سن کر دیبی دعا کرتے ہی نظر سے غائب ہوئی؛ ووں ہیں وے تینوں اٹھ کھڑے ہوئے۔ راجا وہاں سے چھپ کر اپنے مکان میں آ بیٹھا اور کیا دیکھتا ہے کہ بیربل تروار ہاتھ میں لیے پیچھے سے آن پہنچا۔ راجا نے غصے سے کہا: ‘‘اے بیربل! جس کام کے لیے تجھے بھیجا تھا، کیا غضب ہوا کہ تو نے اس کا جواب بھی نہ دیا؟” بیربل بولا کہ ایک عورت میدان میں روتی تھی، جوں مجھے دیکھا، وہیں اٹھ کے چھپ گئی۔ میں نے وہاں ادھر ادھر پھر کر بہتیرا پکارا، پر اس نے مجھے جواب نہ دیا۔ کچھ معلوم نہ ہوا، وہ کہاں چلی گئی۔ راے یہ بات سن کر آنکھوں میں آنسو بھر لایا اور کہا: ‘‘جو شرطیں سخاوت اور شجاعت اور جان بازی کی بادشاہوں اور راجاؤں میں چاہئیں سو میں نے سب تجھ میں پائیں۔ میری زبان نہیں جو تیرا وصف بیان کروں۔ اور جو کچھ نیکیوں اور خوبیوں سے رات کو بہ چشم خود دیکھا تھا سو سب اپنے مصاحبوں سے کہا اور بیربل کو گلے لگا کر خلعت دیا اور روپے بہت سے بہ طریق انعام کے بخشے اور اپنے ملک کی حکومت میں اس کو شریک کیا۔
پھر قاز بولا: ‘‘اے سرخاب! بیربل نیا نوکر تھا۔ دیکھ تو ان نے کیسا کام کیا”۔ یہ بات سن کر سرخاب نے جانا کہ کوے کے ساتھ دل سے موافقت رکھتا ہے، اس واسطے بات اپنی مختصر کی اور کہا: ‘‘اے قاز! وزیر وہ ہے کہ سواے راستی کے بات نہ کہے اور خوشامد نہ کرے۔ اگرچہ بادشاہ نے اس کی عزت کی ہے لیکن وہ سخت کمینہ اور بد اطوار ہے”۔ قاز نے کہا: ‘‘جو وہ بد ہے تو اپنے لیے بدی کرے گا”۔ تب سرخاب بولا: ‘‘جو کوئی اپنے واسطے بد ہو تو اس سے بے گانے کو بھی چاہیے کہ دڑتا رہے۔ شاید آپ نے قصہ کرنا باد فروش کا (کہ جس نے اپنے ہم سایوں کو بہت سا دکھ دیا تھا) نہیں سنا”۔ قاز نے پوچھا: ‘‘وہ قصہ کیوں کر ہے؟” سرخاب نے کہا۔
نقل کرنا بھاٹ اور برہمنوں کی
کہتے ہیں کہ بداؤں شہر میں کرنا نام ایک بھات برہمنوں کے پڑوس میں رہتا تھا۔ ہمیشہ عمر و زید کے سے جھگڑا کیا کرتا۔ جب دیکھتا کہ اب مدعی کے ہاتھ سے بچ نہیں سکتا، تب بھاگ جاتا۔ کوتوال اس شہر کا جو اسے گھر میں نہ پاتا تو ان بے چارے برہمن پڑوسیوں کو مشکیں چڑھا کے پکڑ لے جاتا۔ کچہری میں بٹھا کر دس کے رو برو ذلیل کیا کرتا۔ وے لاچار ہو کر کچھ بہ طور گھوس کے کوتوال کو دے کر چھوٹ آتے۔ اسی طرح اس کے ہاتھ سے اکثر اذیت پایا کرتے اور ایک مدت تک اس کے ہاتھوں وے غریب دکھ پاتے رہے۔ ایک برس ایسا اتفاق ہوا کہ گرمی کے موسم میں کوؤں کا پانی سوکھ گیا۔ برہمن آپس میں صلاح کر کے ایک نیا کوا کھودنے لگے۔ اتنے میں وہ بھاٹ بھی ان کے پاس آ کر کہنے لگا کہ مجھے بھی اس کے کھودنے میں شریک کرو تاکہ مجھ پر بھی اس کوے کا پانی حلال ہو۔ سب نے جانا کہ شاید اس کے دل میں خدا نے نیکی ڈالی اور بدی سے باز رکھا۔ سبھوں نے راضی ہو کر اذن کھودنے کا دیا۔ وہ تو ایک بد ذات تھا۔ نام کے واسطے ذرا ہاتھ لگا کر چل کھڑا ہوا۔ جب کنواں تیار ہوا اور ہر ایک آدمی اس کا پانی پینے لگا، تب باد فروش آیا اور سب ہم سایوں کو یہ قسم دی کہ جب لگ اس کے پانی کا حساب مجھے نہ سمجھاؤ، تب تک نہ پیو۔ انھوں نے جواب دیا کہ تیرا حصہ قلیل ہے، اپنا جدا کر لے۔ ہم اپنے حصے کی طرف بھر لیا کریں گے۔ یہ بولا: ‘‘تم اپنے حصے کے مختار ہو۔ میں اپنے حصے کی طرف کنویں میں زہر ڈالوں گا”۔ برہمنوں نے دیکھا کہ اس حرام زادے سے یہ دور نہیں؛ اس کے بدلے اس کو کچھ روپے دیے اور پیچھا چھڑایا۔ برہمنوں کے دیے ہوئے روپے جب کھا چکا، تب دیکھا کہ اور کچھ حیلہ تو نہیں بن پڑتا؛ اس میں ایک روز ہوا زور سے چلتی تھی، اپنے گھر کے آنگن میں کھڑے ہو پکار کر کہنے لگا کہ اے پڑوسیو! تم کو خبر کرتا ہوں کہ میرے گھر میں سانپ، بچھو، چوہے، مکڑیاں بہت جمع ہوئی ہیں۔ اس لیے چاہتا ہوں کہ اپنے گھر کو پھونک دوں۔ تم خبردار ہو جاؤ، کیوں کہ پھر کوئی نہ کہے کہ بھاٹ نے اپنے ہمسایوں کو جلا دیا۔ سب پڑوسی اپنے اپنے گھر سے آ کر اس کے پاؤں پڑے اور کہا کہ اے بھلے آدمی! تجھ سا ہمسایہ ہم کہاں پائیں گے کہ آگ لگانے سے پہلے ہم کو خبر کی۔ اب ہم تجھے کچھ روپے دیتے ہیں؛ تو ایسی فکر کر کہ جس میں سانپ، بچھو، چوہے، مکڑیاں بغیر گھر جلائے کے نکل جاویں۔ چنانچہ آپس میں بہری کر کے اس کو کچھ دیا۔ پھر باہم بیٹھ کے کہنے لگے کہ یارو! ایسا نقشہ نظر آتا ہے کہ کسی نہ کسی دن یہ بھاٹ ہم سب کو پھونک دے گا، یا کسو سخت خرابی میں ڈالے گا۔ اگر اسے ہم کچھ کڑی بات کہیں گے تو یہ اپنا پیٹ مارے گا۔ آخر کام کوتوال سے پڑے گا اور وہ ہم کو دولت مند جان کر بنا کے لوٹے گا۔ بہتر یہی ہے کہ اس جگہ کو چھوڑ دیں، کسی اور گاؤں میں جا رہیں۔ جب سب کی صلاح یہ ٹھہری تو سب کے سب برہمن راتوں رات ایسے بھاگے کہ پو پھٹتے پھٹتے دس بارہ کوس نکل گئے، اس خطرے سے کہیں وہ بد ذات بھاٹ پیچھا نہ کرے۔
یے سب باتیں کر کے پھر سرخاب نے کہا کہ اس حرام زادے نے پڑوسیوں کو ایذا دی اور وے سب بھلے آدمی اس کے ڈر سے جلا وطن ہوئے۔ تب قاز نے کہا: ‘‘اے سرخاب! تیری حالت اُس بڑھئی کی سی ہوئی”۔ سرخاب نے پوچھا کہ اس کا قصہ کیوں کر ہے؟ قاز بولا۔
نقل نرند بڑھئی اور گورکھ ناتھ جوگی کی
یوں سنا ہے کہ نرند نام ایک بڑھئی تھا۔ جنگل سے لکڑیاں سر پر لاتا، کٹھرے، چراغ دان، چمچے، کھڑاؤں، بیلن، پٹرے بنا کر بیچا کرتا اور ان کی قیمت سے اپنی گزران کیا کرتا۔ ایک دن اس نے جنگل میں جا کر اخروٹ کے درخت پر جڑ سے ایک دو ہاتھ اوپر جا کلھاڑی ماری۔ کلھاڑی کے مارتے ہی اس میں سے ایک جوگی نکل کر بولا: ‘‘اے بڑھئی! گورکھ ناتھ میرا نام ہے۔ میں نے خدا کی راہ میں بہت محنت کی ہے۔ جو کچھ میری زبان سے نکلتا ہے خدا کے حکم سے وہی ہوتا ہے۔ تو درخت کے کاٹنے سے ہاتھ اٹھا اور جو تجھے چاہیے مجھ سے مانگ”۔ یہ سن کر درود گر نے فکرمند ہو کر کہا: ‘‘بن سوچے بچارے کیا مانگوں۔ ہاں اتنا چاہتا ہوں کہ اپنے گھر جا کر جو میری زبان سے تین بچن نکلیں، سو ہی ہوں”۔ جوگی بولا: ‘‘جا۔ بھگوان پورن کرے گا”۔ درود گر خالی ہاتھ گھر میں آیا۔ اس کی جورو نے پوچھا: ‘‘باہر سے تو کیا لایا؟ وہ غصے ہو کر زبان فحش سے بولا: ‘‘دیکھتی نہیں خالی ہاتھ آیا ہوں، لایا ہوں کیا فَلانا”۔
یہ بات اس کے منہ سے نکلتے ہی کیا دیکھتا ہے کہ سارے گھر میں ہر ایک طرف جدھر آنکھ اٹھا کر دیکھے قلندروں کے سے سونٹے لٹکتے نظر آنے لگے۔ جس جگہ ہاتھ ڈالتا، سواے اس کے اور کچھ ہاتھ میں نہ آتا تھا اور جو ایک کو اٹھا کر پھینکتا تو اس کے بدلے دس پیدا ہوتے۔ بڑھئی بولا: ‘‘زہے طالع میرے! جو کچھ میں کہوں گا سب پورن ہوگا”۔ یہ حالت اس کی جورو دیکھ کر بہت خوش ہوئی کہ بخت نے میرے یاوری کی جو میرا خاوند صاحب کرامت ہوا۔ اور بڑھئی اپنے دل میں کہنے لگا کہ جوگی نے مجھے کہا تھا کہ تین باتیں قبول ہوں گیں، سو اس میں سے ایک یہ تھی جو گذری۔ اب دوسری سے اس علت کو دفع کروں اور تیسری سے جو چاہوں گا سو پاؤں گا۔ پکار کر کہا: ‘‘اے بھگوان! یہ بلا میرے گھر سے سب کی سب دور ہو۔ کہتے ہیں اس کی دعا مقبول ہوئی۔ پر یہ خرابی ہوئی جو دیکھتا ہے اپنے ستر کو تو کچھ علامت مردی کی مطلق باقی نہ رہی۔ خفگی سے جھنجھلا کے ڈاڑھی اپنی اکھاڑنے لگا۔ اور تیسری بات جو باقی تھی سو اس سے اپنی مردی کا پھر نشان پایا اور شکر خدا کا بجا لایا۔
قاز نے اس قصے کو تمام کرکے یوں کہا: ‘‘اے سرخاب! جس طرح وہ بڑھئی کنگال کا کنگال رہا، اس کوے کے نکلنے سے وہی نوبت میرے پیش آوے گی۔ کیوں کہ ایک تو کوا اپنے یاروں کے جتھے سمیت چلا جائے گا اور دوسرے پھر کوئی ہدہد کے لشکر سے ادھر آنے کا قصد نہ کرے گا، تیسرے سب پر یہ یقین ہوگا کہ قاز سپاہ سے کچھ کام نہیں رکھتا۔ جس طرح یہ کوا رہے، پڑا رہنے دو”۔ اسے سن کر سرخاب بھی ناچار ہو کے چپ رہ گیا۔
پھر قاز بولا کہ اے وزیر! کچھ دشمن کے ٹالنے کی فکر کرو کہ وہ نزدیک آ پہنچا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اس سے غافل رہو۔ سرخاب بولا کہ جاسوسوں کی زبانی یوں سنا ہے کہ کرگس وزیر ہدہد کا بڑا عقل مند ہے، وہ ہر گز لڑنے نہ دے گا۔ اگر ایسے وزیر دانا کی بات نہ سنے گا اور پھر لڑائی کو آوے گا تو معلوم کیجیو کہ سخت نادان ہے اور لشکر اپنا برباد کرے گا۔ اور یہ مثل مشہور ہے جو سردار ہو کر بخیل، نالائق، ڈرپوکنا، غافل، بد زبان، جھوٹا ہو اور فوج اس سے بے دل ہو تو وہ جلد خراب ہو جاتا ہے۔ اے بادشاہ! اب تک ہدہد کے لشکر نے قلعے کو تمھارے نہیں گھیرا، چاہیے کہ کلنگ کوتوال کو بلا کر حکم کرو کہ جلد جا کر وہ راہ کہ جدھر سے اس کی فوج کے آنے کا ڈر ہے، بند کرے اور جس جگہ جنگل اور گہرا پانی ہو، اپنا لشکر وہاں موجود رکھے۔ اور جب دشمن کی فوج راہ کی تھکی ماندی، بھوکی پیاسی جہاں آ کر پڑے، اس پر چڑھ دوڑے۔ یا جس وقت کہ لشکر مخالف کا جنگل اور پہاڑ کی گھاٹی میں چلے یا ندی پر اتارا کرنے لگے، جا گرے۔ یا اس حال میں کہ ساری رات ان کو جاگتے گذری ہو، بے شک صبح ہوتے نیند غلبہ کرے گی اور سب کوئی ہتھیار بدن سے کھول کر بے فکر سوئیں گے، اپنا مطلب حاصل کرے۔ ایسے وقتوں میں عقل مندوں نے اپنا کام کیا ہے۔ جب قاز نے سرخاب سے یہ تدبیر سنی، کلنگ کو اس کے لوگوں سمیت بلایا اور کئی سرداروں کو اس کے ساتھ مقرر کر کے جو سرخاب نے کہا تھا، سو ان سے کہا۔
کلنگ اپنی جمعیت لے کر گیا اور ہدہد سے جاتے ہی مقابلہ ہو گیا اور ایسی لڑائی ہوئی کہ مخالفوں کی فوج سے یہاں تک لاش پر لاش گری کہ ان سے چبوترہ بندھ گیا۔ تب ہدہد نہایت بے حواس ہو کر کرگس وزیر سے کہنے لگا کہ تو نیک ذات ہے اور پایہ وزارت کا رکھتا ہے۔ لشکر میرا سب مارا گیا اور تجھ کو کچھ فکر نہیں۔ بھلا مجھ سے تیرے حق میں کیا کوتاہی ہوئی کہ ایسی صلاح نہیں دیتا کہ جس سے ملک قاز کا میرے ہاتھ آوے۔ بالفعل یہ جو کچھ کہا میں نے اس سے تو قطع نظر مگر اس سخت مشکل میں پڑا ہوں کہ جتنی فوج میری دشمن کے ہاتھ سے باقی رہ گئی ہے، اپنے ملک تک کیوں کر جیتی جا پہنچے گی؟ یہ سن کر کرگس بولا: ‘‘اے بادشاہ! بزرگوں نے کہا ہے کہ اُمرا اور وزرا اور بادشاہوں کو اتنی خصلتیں نہ چاہئیں کہ یے ان کے واسطے سخت معیوب ہیں اور ضرر رکھتی ہیں: ایک تو شراب کا پینا، دوسرے دن رات عورتوں کے ساتھ اختلاط کرنا، تیسرے اکثر اوقات شکار کھیلنا، چوتھے قمار بازی، پانچویں وزیر کی نصیحت کو نہ سننا۔ خداوند! میں نے اس سے آگے عرض کی تھی پر آپ نے میری صلاح کا موتی اپنے کان میں نہ رکھا۔ اب یہاں سے پھر جانا نہایت سبکی ہے۔ اس کی صلاح میں نہیں دے سکتا کیوں کہ آئین سلطنت یوں ہے کہ جو بادشاہ اپنے ملک سے دوسرے کے ملک پر بہ ارادۂ مہم چڑھ جاوے تو بے فتح یا صلح کے خالی نہیں پھرتا، جو پھرے تو سخت زبونی اور جگ ہنسائی ہے”۔
ہدہد بولا کہ ہمارے بہت پہلوان لڑائی میں کھیت آئے اور اکثر قید ہو گئے۔ اب اتنی فوج سے کیوں کر فتح ہوگی؟ کرگس نے کہا: ‘‘حضرت! ایسی فکرِ ضعیف کو خاطر مبارک میں دخل نہ دیجیے۔ میں دو تین روز میں اگر دشمن کے قلعے کو لے کر فتح کا نقارہ نہ بجاؤں تو مرد نہ کہلاؤں۔ قریب ہے کہ مخالف کا لشکر اپنے قلعے کی راہ پکڑے گا اور دانا پانی بھی اس کا چاروں طرف سے بند کیا جاوے گا”۔ قاز کے جاسوسوں نے یہ بات سنتے ہی دوڑ کر جا کہا: ‘‘پیر مرشد! آپ کیا بے فکر بیٹھے ہیں۔ یقین جانیے کہ ہدہد آج کل میں آپ کے گڑھ کو آ لپٹے گا”۔ قاز نے یہ سن کر وزیر سے کہا: ‘‘لشکر کی موجودات لو اور ایک ایک سپاہی کو انعام دو۔ چنانچہ داناؤں نے بھی کہا ہے کہ بے جا دس کوڑیاں نہ کھووے اور کام کے وقت دس ہزار روپیوں کو بھی ان سے کمتر جانے۔ اور جو کوئی ایسے وقت داد دہش میں سپاہ سے بخل کرے تو مال اور ملک اپنا برباد دیوے۔ اور جو کوئی سخاوت اپنا شیوہ اختیار کرے تو اپنے دشمنوں کے سر پاؤں تلے ملے اور زنجیر دوستی کی اپنی فوج کے پاؤں میں ڈالے۔ جو نوکر اپنے خاوند سے راضی ہو تو اسے چھور کر کہیں نہ جاوے اور تیر و تلوار سے بھی کبھی منہ نہ موڑے۔ ہدہد کا کرگس وزیر صاحبِ تدبیر ہے اور ان نے اس کی بات سے کبھو منہ نہیں پھیرا۔ اگر وہ اس کا کہا نہ مانتا تو تمام لشکر تین تیرہ ہو جاتا۔ لیکن وزیر آزمودہ کار ہے اس واسطے فوج نہ بھاگی، میدان میں قائم رہی۔ جس نے لڑکے اور کمینے اور عورت کی بات کو سنا وہ دریا میں غم کے ڈوبا”۔
قاز اور سرخاب انھیں باتوں کے کہنے سننے میں تھے کہ کوے نے آکر تسلیم کی اور فریب سے کہا کہ ہدہد کے لشکر نے گرد قلعے کا گھیر لیا۔ قاز نے پوچھا کہ تخمیناً فوج اس کی کتنی ہوگی؟ زاغ بولا کہ بارش کے سبب اس کے لشکر کا کچھ حساب نہیں ہو سکتا اور سوار و پیادے صف بہ صف زرہ پوش ہر جگہ زمین پر ایسے پھیل رہے ہیں جس طرح آسمان پر کالی گھٹا چھا جاتی ہے۔ اور بھیڑ اس کی چیونٹیوں کی مانند یوں کھنڈ رہی ہے کہ جس کی سیاہی سے ساری زمین کالی ہو رہی ہے۔ اور شلّک ایسی ہو رہی ہے کہ گویا پانی کے بدلے آگ برستی ہے۔ اور ہاتھی اس طرح شور کرتے ہیں جیسے بادل گرجتے ہیں۔
قاز یہ بات سن کر بہت فکر مند ہوا؛ تب کوا پھر بولا: ‘‘اگر حضرت کا حکم پاؤں تو کوٹ سے باہر جاؤں اور ہدہد سے تلواروں لڑوں؟” سرخاب وزیر نے کہا: ‘‘ہر گز ایسا نہ کیا چاہیے۔ اگر لڑائی باہر ہو تو قلعے سے کیا فائدہ۔ پھر یہ کس کام آوے گا، کیوں کہ جو کمھیر پانی سے باہر نکلے تو اسے ایک گیدڑ مار سکتا ہے۔ خیر اگر ہدہد تمام اپنی فوج لے کر لڑنے کو تیار ہوا ہے تو تم بھی اپنا لشکر تیار کر بھیجو تاکہ دونوں فوجیں آپس میں لڑیں اور تم اپنی فوج کی پشت پر رہو کہ اس کو ڈھارس رہے۔ سپاہی اپنی نیک نامی اور نمک حلالی کے واسطے سب متفق ہو کر دشمن پر حملہ کریں۔ قاز نے یہ سن کر لڑاکے جنگی سوار اور دل چلے پیادے اور بڑے بڑے مست ہاتھی مخالف کے مقابل کھڑے کیے کہ جن کے پاؤں کی گرد سے ان کی آنکھیں اندھی ہوتی تھیں اور شور سے لوگوں کے اور آواز سے دمامے کی کان ساتوں آسمان کے بہرے ہوتے تھے۔ اور زمین سے فلک تک گویا خیمہ غبار کا کھڑا ہوا تھا۔ اور ہدہد کی فوج کے مقابل اپنا ڈیرہ کر کے سردار اور سپاہیوں کو بلا کر کہا کہ آج ایسی جاں فشانی کیجیے اور لڑائی لیجیے کہ پہاڑ پر خون کی ندیاں بہیں۔ تب قاز نے چاہا کہ لڑنے کے واسطے جاوے۔ سرخاب نے بادشاہ کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر کہا کہ قلعے کی حرمت رکھا چاہیے۔
ہدہد نے جب لشکر قاز کا دیکھا تو حیران رہا اور کرگس کی طرف دیکھ کر کہا کہ تو کہتا تھا کہ میں دو ایک دن میں قلعہ لوں گا۔ قاز تو ایسی جمعیت رکھتا ہے کہ ہماری فوج سے زیادہ ہے۔ کرگس وزیر بولا: ‘‘اے بادشاہ! غریب کے گھر میں یکایک کوئی جا نہیں سکتا۔ یہ اونچا قلعہ اور لشکر انبوہ ہے۔ اس میں فکر کرنی ضرور ہے کہ قلعہ لینے میں حکمت چاہیے۔ پہلے اس کی تدبیر یہ ہے کہ جس روز ہوا سخت مخالف کے رخ پر کی ہو اس دن آندھی کے لپیٹ میں دو تین ہزار بان مار کر اس دھواں دھار میں گڑھ کو آگ لگا، پیچھے اس کے حملہ کرے۔ دوسرے مورچہ بندی کیجیے کہ مدعی طاقت آگے بڑھنے کی نہ پاوے گا۔ تیسرے چار طرف قلعے کے اس طرح سے محاصرہ کیجیے کہ کوئی آمد و شد نہ کر سکے؛ تب دشمن محاصرے میں تنگ ہوگا۔ اور اس کے سواے اور بھی تدبیریں ہیں لیکن ان تینوں میں سے جو پسند آوے”۔
ہدہد نے کہا: ‘‘اے کرگس! حریف کا لشکر دیکھ کر حواس میرے گم ہوئے اور کچھ ہوش مجھ میں نہ رہا۔ اس وقت ایسی صلاح دے کہ جس سے ہماری فتح ہو اور مخالف کی شکست”۔ کرگس بولا کہ آج تو شام ہوئی، کل صبح جو کرنا ہوگا سو کروں گا۔ یہ کہہ کر تمام شب تدبیر میں رہا کہ کسی صورت سے دشمن کو توڑیے اور قلعے کو لیجیے۔ آخرش کئی ایک جاسوس (کہ بہت ہوشیار اور چالاک تھے اور ان پر نہایت اعتماد رکھتا تھا) بلا کر کہا کہ یہ وقت تمھاری نمک حلالی کا ہے، چاہیے کہ بھیس اپنا بدل کر قلعے میں جاؤ اور وہاں کی سن گن لو اور دیکھو، ان کے یہاں کیا تردد ہو رہا ہے اور کون کس فکر میں ہے، اور دروازے قلعے کے کون کون سے کس کس کے اہتمام میں ہیں۔ اور اتنا معلوم کرو، کس طرف غفلت اور کس کا مورچہ ہلکا ہے، اور کس دروازے سے ہم قلعے کے اندر جا سکیں گے۔ یے سب باتیں خوب دریافت کر کے ہم کو جلد خبر پہنچاؤ۔ تب جاسوس کرگس وزیر کے موافق حکم اپنا لباس کووں کا سا بنا کر رات کے اندھیرے میں کوٹ کی طرف چلے اور کووں کے ساتھ مل کر قلعے میں گئے اور ہر طرف کوچہ و بازار میں اور امراؤں کے خیموں کے آس پاس پھرنے لگے۔ خوب تجسس جو کیا تو کوے کے مورچے میں غفلت بہت اور لوگ تھوڑے پائے۔
یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور تھوری سی رات رہتے جدھر سے قلعے میں پیٹھے تھے ادھر ہی سے باہر نکلے اور دوڑ کر یہ خوش خبری کرگس کو جا پہنچائی۔ وہ اسے سن کر اپنے کپڑوں میں پھولا نہ سمایا۔ فی الحال اپنی فوج کو تیار کر کے کہا کہ چار گھڑی کے تڑکے چپ چاپ چیونٹی کی چال اس طرح قلعے کی طرف چلا چاہیے کہ کوئی کانوں کان نہ سنے اور جاسوسوں کو آگے دھرے ہوئے پیچھے پیچھے چلے چلیے۔ جب کہ دروازہ قریب رہے، تب کسی چیز کا اڑتلا پکڑ ٹھہر رہیے۔ جس دم کوٹ کا دروازہ کھلے، اسی دم اس کے اندر پیٹھ جائیے۔ خدا چاہے تو قلعہ ہاتھ آ جاوے گا۔ یہ صلاح ہدہد کے گوش گزار کر کے عرض کی کہ میں تو ادھر جاتا ہوں۔ جب میرے ہرکارے حضور میں ظاہر کریں تو فی الفور حضرت تمام لشکر کو لے کر واسطے تقویت کے غلام کی پشت پر پہنچیں۔ اگر خداوند اس میں غفلت کریں گے تو دشمن مجھے تھوڑی جمعیت کے ساتھ دیکھ کر ہر طرف سے گھیر لے گا۔
ہدہد یہ اس کی تدبیر سن کر بہت خوش ہوا اور اسے رخصت کیا۔ پھر سب سرداروں کو بلا کر وزیر کی صلاح کے موافق حکم کیا کہ اپنے اپنے خیموں میں مسلّح تیار رہیں۔ جس وقت میں سوار ہوؤں، اسی وقت سب سوار ہوں۔ جدھر میری سواری جائے، ادھر ہی چپ چاپ سب کے سب چلیں، ہر گز اس میں کوئی کاہلی نہ کرے۔ انھوں نے یہ حکم سن کر سب سپاہ سے کہہ دیا کہ اپنے اپنے ڈیروں میں کمر بستہ مستعد رہو۔
جب کرگس وزیر کے جاسوسوں نے بادشاہ ہدہد کو خبر کی کہ خداوند! آپ اسی وقت سوار ہو جیے تو بہت مبارک ہے۔ تب ہدہد بادشاہ اپنی ساری فوج سمیت جاسوسوں کو ساتھ لے کر جس راہ سے کرگس گیا تھا، روانہ ہوا اور کرگس نے منہ اندھیرے کوے کے دروازے کی طرف سے قلعے میں پیٹھ کر ہزاروں بان کی شلک کر کے اسی دھواں دھار میں یکایک حلّہ کر دیا اور ہدہد بھی تمام لشکر لے کر کُمک کو اس کے پشت پر پہنچا۔ لڑائی ہونے لگی۔ جس وقت آفتاب مشرق کے پہاڑ سے مانند ملک الموت کے آسمان کے نیلے گھوڑے پر سوار ہو نکلا اور آپس میں ایک کو ایک پہچاننے لگا، دونوں لشکر کی موت کا بازار گرم ہوا اور ایسی تلوار چلی کہ دونوں طرف سے لاشوں کا ستھراؤ ہو گیا۔ ہر کوچے بازار میں قلعے کے خون اس طرح بہنے لگا کہ جیسے آسمان سے ابر نے خون کی ندیاں بہائیں اور سر سپاہیوں کے لوہو میں پانی کے سے بلبلے نظر آتے تھے۔ شلّک کے دھوئیں سے گویا ایک اور ہی آسمان چھا گیا۔
اور عین لڑائی میں کوے بد باطن نے لوگ اپنے جمع کر کے قلعے کے اندر آگ لگا دی اور اپنے رفیقوں سمیت قلعے سے باہر شور کرتا ہوا نکلا۔ اور بھیڑ میں ہدہد کی جو لوگ اس کی خبرداری کر رہے تھے، ان سے کہنے لگا کہ قلعے میں آگے لگی اور ساری سپاہ قاز کی متفرق ہوئی؛ اب کوئی دم میں قلعہ بھی فتح ہو جاتا ہے۔
القصہ اُس کے درمیان ایسی لڑائی ہوئی کہ طرفین کے بہت سردار اور سپاہی کام آئے۔ آخر غلبہ ہدہد کی فوج کا ہوا اور قاز کی سپاہ ہر طرف پریشان ہوئی اور تھوڑے سے لوگ قاز کے پاس رہ گئے۔ قاز نے جانا کہ اب قدرت لڑنے کی میں اپنے میں نہیں پاتا اور فوج کا بھی رخ پھر گیا اور صدمے سے لڑائی کے کسی کو پھر حریف سے مقابلے کی تاب و طاقت باقی نہ رہی۔ ناچار ہو کر کلنگ کو بلایا اور کہا: ‘‘اے کوتوال! میں نے خوب معلوم کیا ہے کہ طالع میرے پھر گئے اور مجھ کو اتنی امید نہیں کہ یہاں سے اب پھر کر سلامت جا سکوں گا۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ تو نوکر نمک حلال ہے۔ کسی طرح خیر و عافیت سے اپنی جان لے کر نکل جا؛ لیکن یہاں سرخاب سے پہلے صلاح لے، پھر وہاں جا کر میرے بڑے بیٹے کو اس ملک کا بادشاہ کر کہ ہمارے گھر میں سلطنت قائم رہے۔ اور میں جانتا ہوں کہ سواے تیرے اتنا بڑا کام کسو سے ہرگز نہ ہو سکے گا”۔ کلنگ بولا: ‘‘اے بادشاہ! تم یہ بات اپنی زبان مبارک سے نہ نکالو، اس کے سننے سے میری چھاتی پھٹتی ہے۔ جب تلک جان میرے تن میں ہے، تب تک کسی کی طاقت ایسی نہیں کہ تم پر آ کر حملہ کرے۔ میں تم سے ولی نعمت کو اکیلا چھوڑ کر کدھر جاؤں۔ سرخ روئی میری اسی میں ہے کہ میرا سر آپ کے قدموں کے نیچے گرے اور یہی میری عین سعادت ہے”۔ بادشاہ نے کہا: ‘‘اے کلنگ! میں جو تجھ کو کہتا ہوں سو کر۔ تیرے سواے میرا ایسا کوئی خیر خواہ اور کارگزار دوسرا نہیں”۔ کلنگ اپنے دل میں سمجھا کہ خداوند اپنی مہربانی سے مجھ کو لڑائی کے میدان سے نکالا چاہتے ہیں، اور یہ شرط نمک حلالی کی نہیں کہ بادشاہ کو میدان میں اکیلا چھوڑ کر میں چلا جاؤں۔ مناسب یوں ہے کہ کسی حیلے جہاں پناہ کو اس خیال سے باز رکھوں۔
یہ فکر کر کے کہا: ‘‘پیر مرشد! اگر میں اپنے لوگوں کو چھوڑ کر جاؤں تو خلق مجھ کو نامرد کہے گی کہ اس گاڑھ میں اور ایسے برے وقت میں بادشاہ اور اپنے یاروں کو جی کی نامردی سے چھوڑ کر چلا گیا، میری اس میں رسوائی ہوگی۔ جب تک جیتا ہوں کہیں نہ جاؤں گا۔ یہ بات قاز نے سن کر سرخاب سے کہا کہ کلنگ کی وہ صورت ہے جیسے پانی اور کیچڑ آپس میں بے نفاق محبت رکھتے ہیں۔ جب تلک پانی کیچڑ کے اوپر ہے تب تک ہمیشہ وہ اُس کے نیچے ہے، جس وقت پانی اُس کے اوپر سے خشک ہو جاوے، تب وہ گارا اُس کی جدائی سے چھاتی پھٹ کر رہ جاتا ہے۔اسی گفتگو میں تھے کہ ناگاہ خُروس ہدہد کی طرف سے بجلی کی طرح کڑک کر پہنچا اور آتے ہی قاز پر تلوار چلائی۔ کلنگ نے اُس وار کو اپنے پر لے کر نیزہ اُس کی چھاتی پر مارا۔ ان نے اُس کی انی کی چوٹ کو رد کر کے پھر کلنگ پر حربہ کیا اور آپس میں اُن دونوں سے ایسی لڑائی ہونے لگی کہ شور زمین سے آسمان تک پہنچا۔ آخر کلنگ خروس کے ہاتھ سے مارا پڑا۔ تب بادشاہ بہت رویا اور اُس کی مغفرت خدا سے چاہی اور آپ وہاں سے کشتی میں سوار ہو بھاگ کر اپنے وطن کو صحیح سلامت پہنچا۔ اور ہدہد قاز کے بھاگنے کی خبر سن کر نہایت خوش ہوا اور اس فتح کو غنیمت جان کر خدا کا شکر کیا۔ اور نقارے فتح کے اور شادیانے خوشی کے بجوائے اور کہنے لگا کہ جیسی مردانگی اور نمک حلالی کلنگ نے کی، ایسی کم کسو سے ہوتی ہے اور اُس کو بڑا ثواب ملے گا؛ کس واسطے کہ جو کوئی خاوند کے حقِ نمک پر جان اپنی فدا کرے تو رتبہ اُس کا آخرت میں غازیوں کا ہوگا اور جنت میں حور و قصور اُس کو نصیب ہوں گے۔ اور جو کوئی کلنگ کا سا کام کرے گا وہی جواں مرد اور سپہ سالار ہوگا۔جب یہ حکایت تمام ہوئی، تب بشن سرما برہمن کہنے لگا: ‘‘اے راجا کے بیٹو! جو کوئی اس نقل کو اپنے من کے کانوں اور ہیے کی آنکھوں سے سنے اور دیکھے تو وہ بڑا سیانا اور گن ونت ہووے اور بیریوں کے سروں کو بدھ کے کھانڈے سے کاٹ گراوے”۔
اس حکایت کے سننے سے راجا کے بیٹے بہت خوش ہوئے اور پوچھا ‘‘اے برہمن! چوتھی حکایت ملاپ کی دشمنی سے پہلے یا لڑائی کے پیچھے ہو، کیوں کر ہے؟”
وہ کہنے لگا کہ یوں سنا ہے کہ قاز بادشاہ اور سرخاب وزیر لشکر سے اپنے پراگندہ تھے۔ قاز نے سرخاب سے پوچھا کہ تو کچھ جانتا ہے کہ قلعے سے آگ کیوں کر اُٹھی؟ سرخاب نے جواب دیا: ‘‘اے بادشاہ! کوّا ہمیشہ فوج کے ساتھ رہتا تھا۔ یہ کام اُسی کا ہے، اور میں نے اس سے آگے ہی التماس کیا تھا کہ کوّے کو جگہ نہ دیا چاہیے”۔ قاز نے کہا: ‘‘نہ یہ خطا تیری عقل کی ہے، نہ دوس کوّے کا بلکہ قصور اپنے طالعوں کا ہے؛ جو کچھ کہ خواہشِ خدا ہو وہی ہوا چاہیے”۔
سرخاب نے کہا کہ جو کوئی دوست کی نصیحت نہ سنے، اُس کی وہی حالت ہوگی جیسے کچھوے کی ہوئی۔ قاز نے پوچھا: ‘‘وہ قصہ کیوں کر ہے؟”
چوتھا باب
نقل دو قاز اور کچھوے اور مچھوے کی
سرخاب نے کہا: ‘‘جالندھر کے دیس میں پد نام ایک ندی ہے۔ دو قاز وہاں برسوں سے رہتے تھے اور ایک کچھوا بھی اُسی ندی میں رہتا تھا اور اُس سے قازوں سے بڑی دوستی تھی۔ چاند نام ایک مچھوا اُس کے کنارے یوں کہتا چلا جاتا تھا کہ کل اس میں جال ڈال کے سب مچھلیاں پکڑوں گا۔ مچھوے کی بات کچھوا اور دونوں قاز سن کر بہت ڈرے اور آپس میں صلاح کرنے لگے کہ اب کیا کیا چاہیے کہ اُس کے ہاتھوں سے کسی طرح جی بچے۔ قاز بولے کہ آج دن بھر دیکھ لو کہ ماہی گیر سچ بول گیا ہے کہ جھوٹ۔ کچھوا بولا: ‘‘سنو یارو! اپنے کہے پر اگر وہ کل یہاں آن پہنچا، تم تو پرند ہو، اُڑ جاؤ گے اور میں اپنے میں اتنی طاقت نہیں دیکھتا جو اُس کے ہاتھوں سے بچوں۔ جیسا کہ بنیے کی جورو نے اپنے تئیں اور غلام کو مکر سے بچایا”۔قازوں نے پوچھا کہ وہ قصہ کیوں کر ہے؟
نقل ایک کچھوے اور بنیائن اور غلام کی
کچھوا بولا کہ ایک کچھوے کو کوئی شکاری پکڑے لیے جاتا تھا۔ کسی بنیے کے لڑکے نے اپنے کھیلنے کے لیے اُسے مول لے لیا۔ دن کو اُس کے ساتھ کھیلا کرتا اور رات کو اُس کی ماں اُسے پانی کے گھڑے میں بند کر دیتی۔ اسی طرح جب کئی دن گذرے، ایک روز کیا ہوا کہ بنیے کی عورت شہوت کی ماتی اپنے غلام کا منہ چومنے لگی۔ اتفاقاً بنیا اُس روز بے وقت دکان سے اپنے گھر میں آ نکلا اور نظر بنیے کی بنیائن پر جا پڑی۔ وہ سمجھی کہ میرا بھید اب اس پر کھل گیا۔ جلدی سے خاوند کے پاس دوڑی آئی اور غصے سے کہنے لگی کہ اس موے غلام نے چھ ماشے کافور جو گھر میں رکھا ہوا تھا، سو چرا کر سب کھا لیا۔ اس کے منہ سے بُو آتی ہے۔ غلام رو کر کہنے لگا کہ مہاراج! اگر میں نے کھایا ہو تو مہا پاپی ہوں، پر یہ رنڈی جھوٹھ موٹھ مجھے دوکھ لگاتی ہے۔ جس گھر میں ایسی جھوٹھی استری ہو اُس میں کوئی غریب کیوں کر رہنے پائے گا؛ تب بنیے نے بھی غلام کا منہ سونگھا، پر اُس کی بُو باس نہ پائی۔ تب جھنجھلا کر عورت سے کہنے لگا کہ تو نے سارا کافور اپنے پِتا کے گھر بھجوا دیا اور غلام کو طوفان لگایا۔ وہ یہ سنتے ہی چڑچڑا اٹھی۔ وہ گھڑا کہ جس میں کچھوا تھا، دریا کی طرف سر پر رکھ کر لے چلی۔ اس میں مہاجن دل میں سوچا کہ تیہے کے مارے ندی میں ڈوبنے نہ چلی ہو۔ اُس کے پیچھے یہ بھی لپکا۔ ندی کے کنارے تک پہنچتے پہنچتے جا لیا اور اس کے ہاتھ پاؤں پڑ کر منانے لگا کہ مجھ سے چوک ہوئی، جانے دے اور اُسے کھینچ کر گھر کی طرف لانے لگا۔ وہ غصے سے ہاتھ جھٹک کر اپنے تئیں چھڑانے لگی۔ اُس کھینچا کھینچی میں سر پر سے گھڑا گر کر پھوٹ گیا اور کچھوا پانی میں چھوٹ گیا۔
یارو! اگر آج اتنی یاری کرو کہ مجھے یہاں سے کسی اور ندی میں لے پہنچاؤ تو میں بچتا ہوں۔ قازوں نے کہا: ‘‘تیرا جانا خشکی میں اچھا نہیں”۔ کچھوا بولا: ‘‘اگر تم مجھ کو نہ لے جاؤ گے تو میں اپنے پاؤں سے جاؤں گا”۔ یہ سن کر قاز فکر مند ہوئے اور کہا: ‘‘تمھاری حالت اُس بگلے کی سی ہوگی”۔ کچھوے نے پوچھا: ‘‘وہ قصہ کیوں کر ہے؟”
نقل ایک سانپ اور بگلے کی
قاز بولے کہ بھاگ رتی ندی کے کنارے پر ایک درخت تھا اور اُس کے نیچے کسی جانور کا ایک بل تھا۔ اُس میں ایک سانپ رہتا تھا۔ ہر روز سوراخ سے نکل کر وہاں پھرا کرتا، جو کچھ کھانے کی چیز پاتا سو کھا لیتا، اُس درخت کے رہنے والوں کو اذیت نہ دیتا۔ اس میں ایک بگلے نے اُس پر گھونسلا بنا کر بچے دیے۔ یہ اُسے اندیشہ ہوا کہ کسی دن یہ سانپ ہمارےبچوں کو کھا جائے گا۔ ایسی تدبیر کیا چاہیے، کسی طرح یہ مارا جاوے اور بچے ہمارے محفوظ رہیں۔ ایک بگلا جو اُن میں بوڑھا بڑا تھا، سو بولا کہ یارو! ایک نیولا آج میں نے اسی درخت کے نیچے پھرتے دیکھا ہے۔ تم ایک کام کرو کہ ندی سے اپنے اپنے منہ میں ایک ایک مچھلی پکڑ لاؤ اور اس درخت کے تلے ڈال دو۔ مجھے یقین ہے کہ وہ نیولا اُن کے کھانے کے لیے آوے گا اور سانپ بھی اپنے سوراخ سے نکلے گا۔ اُن دونوں کی آپس میں عداوت قلبی ہے۔ دونوں لڑیں گے، اغلب کہ سانپ نیولے کے ہاتھ سے مارا جائے گا۔
بگلوں نے موافق اُس کی صلاح کے ندی سے مچھلیاں نکال کر درخت کے نیچے ڈال دیں اور آپ اُس کی ٹہنیوں پر چپکے ہو بیٹھ رہے؛ اس انتظار میں کہ اُن دونوں میں لڑائی ہو اور ہم تماشا دیکھیں کہ کون کس کے ہاتھ سے مارا جاتا ہے؟ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ نیولا کہیں سے آ نکلا اور مچھلیوں کو چن چن کر کھانے لگا۔ سانپ بھی مچھلیوں کی طمع سے نکلا پر نیولے کو دیکھ ایک جھاڑی تلے دبک رہا، اس ارادے سے کہ نیولا سرکے تو میں اُن میں سے لوں۔اتفاقاً نیولے کی نظر اُس پر جا پڑی اور وہیں جھپٹا۔ دونوں کی لڑائی ہونے لگی۔ آخرش نیولے نے اُسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ پھر سر اٹھا کے جو اوپر دیکھا تو سفید بگلے چمکتے نظر آئے۔ جانا کہ اس درخت پر بھی مچھلیاں ہیں۔ اوپر چڑھ گیا۔ بگلے تو اُڑ گئے، گھونسلوں میں جو بچے تھے، اُنہیں چٹ کر گیا اور کھوندھے ان کے اُجاڑ دیے۔
قاز بولے: ‘‘اے یار! مرد وہ ہے کہ پہلے اپنے واسطے جگہ نئی ٹہرا لے، تب اپنے قدیم گھر کو چھوڑے۔ یہ بس باس تیرا سب جگہ سے بہتر ہے”۔ کچھوے نے جواب دیا: ‘‘دوستو! تم ہمیشہ اس راہ سے آتے جاتے ہو۔ کبھی مجھ سے کوئی خطا نہیں ہوئی۔ ناحق مجھ کو کیوں ڈراتے ہو”۔ قازوں نے بہت سا سمجھایا لیکن اُس نے اُن کی نصیحت نہ مانی۔ تب انھوں نے لاچار ہو کر کہا: ‘‘لے تو اب ایک کام کر۔ اس لکڑی کو بیچ سے منہ میں پکڑ، اگر تجھے کوئی گالی بھی دیوے تو ہرگز نہ بولیو”۔ اُس نے کہا: ‘‘گالی کیا، جو مجھے کوئی مارے گا، تو بھی دم نہ ماروں گا”۔ اس قول و قرار پر اُس لکڑی کے سرے دونوں قاز منہ سے پکڑ کر لے اڑے۔ جب ایک گاؤں کے برابر پہنچے، تب وہاں کے لوگ تماشا دیکھنے لگے۔ اُن میں سے ایک لڑکا بولا کہ اگر یہ کچھوا گرتا اور میرے ہاتھ آتا تو اسے بھون کھاتا۔ دوسرے نے کہا: ‘‘جو میں اسے پاؤں تو پکا کھاؤں”۔ کچھوے کو ان باتوں کی برداشت نہ ہوئی، نہایت خفگی سے بولا ‘‘خاک کھاؤ”۔ بولنے کے ساتھ ہی زمین پر آ رہا۔ لڑکوں نے دوڑ کر پکڑ لیا اور بہت فضیحت کیا۔
پھر سرخاب نے کہا: ‘‘اے بادشاہ! جو کوئی اپنے رفیق کا کہا نہ سنے تو اس کے آگے ایسا ہی دن آتا ہے”۔ اسی بات چیت میں تھے جو کلنگ کے بھائی نے آکر سلام کیا اور کہا: ‘‘غلام نے آگے کہلا بھیجا تھا کہ قلعے کے اندر کوا ہدہد کا بھیجا ہوا ہے اور اُس نے اُس کو خلعت دیا ہے اور جو ملک لیا سو اُس کے لڑکوں کے نام مقرر کیا، لیکن کرگس وزیر اُس کا اس بات سے راضی نہ ہوا بلکہ اُس نے عرض کی کہ حضرت! یہ ملک کوے کو نہ دیا چاہیے کیوں کہ میں اُسے بے وفا جانتا ہوں۔ ہدہد نے جواب دیا: ‘‘جو نوکر نمک حلالی کرے، اُس کے حق میں مہربانی کرنی ضرور ہے کہ پھر دوسرے وقت خاوند کا کام دل و جان سے کرے”۔ کرکس نے کہا: ‘‘حضرت! کوا کم ذات بد آئین ہے، جو کوئی اس کے حق میں نیکی کرے گا، وہ دیکھے گا جو بوڑھے جوگی نے دیکھا”۔ ہدہد نے پوچھا کہ وہ نقل کیوں کر ہے؟ کرگس نے کہا۔
نقل ایک جوگی اور چوہے کے بچے کی
یوں بیان کرتے ہیں کہ کنارے پر دریا سندھ کے ایک جوگی کا دِہرا تھا۔ ایک روز وہ اُس کے دروازے پر بیٹھا جپ کرتا تھا کہ ایک کوا چوہے کا بچہ اپنے جنگل میں لیے اُڑا جاتا تھا۔ قضا کار وہ اُس کے پنجوں سے کسی طرح چھوٹ کر زمین پر گر پڑا۔ اُس نے اُسے از راہ شفقت زمین سے اُٹھایا اور موذی کے چنگل سے چھڑایا اور اُس کا جی بچایا اور ایسی اُلفت سے اُسے پالا پوسا کہ وہ بڑا ہوا۔ ایک روز اُس پر کہیی بلی جھپٹی۔ جوگی نے کسی طرح بہ ہزار خرابی اُس کے منہ بھی بچایا۔ پھر اپنے دل میں یہ ٹھانا کہ اس چوہے کو بلی بنایا چاہیے تاکہ اور بلیوں سے بچے۔ دعا کرتے ہی ترت چوہے سے بلی ہو گئی اور کتوں سے لگی ڈرنے؛ تب فقیر نے اُسے کتا بنایا۔ پھر اُس کے جی میں یوں آیا کہ اسے شیر بناؤں کہ ہر ایک درند کی گزند سے محفوظ رہے۔ آخر اُس کی دعا سے وہ شیر ہوا۔ دن کو وہ جنگل میں شکار کے لیے نکل جاتا، رات کو آکر جوگی کی چوکی دیا کرتا۔ جو لوگ اُس کے دیکھنے کے لیے آتے، سو آپس میں یوں چرچا کرتے کہ پہلے یہ چوہا تھا، فقیر کی دعا سے بلی ہوا، پھر کتا ہوا؛ تس پیچھے باگھ بنا۔ اُس نے یہ بات سن کر اپنے دل میں فکر کی کہ جیسا میں پہلے تھا، ویسا ہی یہ جوگی مجھے بنا ڈالے تو میں اس کا کیا کر سکوں گا۔ بہتر یہ ہے کہ اسے مار ڈالوں تو سب آفتوں سے نچنت رہوں۔ یہی خیال خاطر میں لا کر وہیں جوگی کو مار کر اس کا لہو پیا اور اپنے بدن پر بھی لگایا۔
پھر کرگس نے ہدہد سے کہا: ‘‘اگر یہ ملک تم کوّے کو دو گے تو تمھاری حالت جوگی کی سی ہوگی”۔ ہدہد نے اُسےجواب دیا: ”جو میں اس ملک کا لالچ کروں تو میرا احوال بھی اُس بگلے کا سا ہوگا”۔ کرگس نے پوچھا کہ حضرت وہ قصہ کیوں کر ہے؟
نقل ایک بوڑھے بگلے اور مچھلیوں کی
ہدہد کہنے لگا کہ ہندوستان میں ایک بڑی جھیل ہے، نام اُس کا گرمتی۔ لیکن گرمی کے ایام میں اس میں پانی کم رہتا ہے۔ ایک دن اُس کے کنارے پر ایک ایسا بوڑھا بگلا جو اتنی طاقت اُس میں نہ تھی کہ دوسری جھیل میں جا سکے، آیا اور ماتم زدوں کی طرح فریب سے صورت بنا کے سر بازو کے پروں میں ڈال بیٹھا۔ ایک کینکڑے نے اُسے اس طرح سے بیٹھا دیکھ کر پوچھا کہ آج میں تمھیں نہایت مغموم دیکھتا ہوں، اس کا کیا سبب ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے کل اپنے دوست سے یوں سنا ہے کہ کل اس جھیل کی ساری مچھلیاں جلیے مار لے جائیں گے۔ میں اس شش و پنج میں بیٹھا ہوں کہ میرا حال کیا ہوگا، کیوں کہ اس جھیل کی مچھلیوں پر میری روزی موقوف ہے۔ اُن کے مارے جانے پر مجھے غذا کہاں سے ملے گی اور میں اپنی باقی عمر کیوں کر کاٹوں گا۔ کینکڑے نے یہ سن کر اُن مچھلیوں کو جا خبر کی۔ وے سنتے ہی گھبرا کے سب کی سب رونے لگیں اور اُسی کے ہاتھ یہ پیغام بگلے کو کہلا بھیجا کہ شکاریوں کے ہاتھ سے ہمارے بچنے کی کیا تدیبر ہے؟ بگلا بولا کہ میری دانست میں نیک صلاح یہ ہے کہ تم ایک ایک مچھلی کو مجھے لا کر سپرد کرو۔ میں اُسے اپنی چونچ میں لے کر دوسری جھیل میں (جو یہاں سے کوس دو ایک پر ہوگی اور پانی بھی اُس میں ہے) چھوڑ چھوڑ آؤں گا۔ اُس نے اُس کی صلاح کے موافق کیا۔ جتنی مچھلیاں اُس میں تھیں، ایک ایک کر کے سب کی سب اُسے پہنچائیں۔ وہ اُنہیں ایک ایک کر اس حکمت سے کسو گوشے میں لے جاتا اور کھا آتا۔ کینکڑا اکیلا رہ گیا، تب اُس نے بگلے سے کہا: ‘‘آپ نے بڑی محنت اور کام ثواب کا کیا، اس کا اجر خدا سے پاؤ گے”۔ پھر بگلے نے کہا: ‘‘اب میرا جی یہ چاہتا ہے کہ جہاں میں نے سب مچھلیوں کو پہنچایا ہے، وہاں تم کو بھی لے پہنچاؤں، تب میری خاطر جمع ہو”۔ وہ بولا کہ آب کو تصدیع ہوگی۔ میں اپنے پاؤں جاؤں گا کیوں کہ میرے پاؤں میں آہستے آہستے کوس آدھ کوس چلنے کی طاقت ہے۔ یہ بولا: ‘‘یار! میں جانتا ہوں کہ پاؤں چلنے سے تمھیں تکلیف ہوگی اور تمھاری اذیت میرے نامۂ اعمال میں لکھی جائے گی۔ بہتر یہ ہے کہ تم میری پیٹھ پر چڑھ بیٹھو تو میں تم کو اس بلاے ناگہانی سے بچاؤں”۔
آخرش وہ بعد اُس رد و بدل کے راضی ہوا، تب اُس نے پیٹھ پر بٹھا کر وہاں لا اُتارا جہاں مچھلیوں کو کھایا کرتا تھا۔ کینکڑے نے جو دیکھا کہ سواے خشکی وہاں پانی کا نام و نشان نہیں مگر مچھلیوں کے سروں کی ہڈیاں پڑی ہوئیں وہاں دکھائی دیں۔ دل میں ڈر کر بگلے سے کہا کہ تو نے سب مچھلیاں یہاں لا کر کھائیں ہیں۔ اب کیا مجھے بھی کھایا چاہتا ہے؟ اُس بات کے ساتھ ہی اُچھل کر بگلے کا سر اپنے منہ میں پکڑ لیا۔ اُس نے بہتیرا زور کیا کہ اپنا سر اُس کے منہ سے چھڑاوے، پر کچھ فائدہ نہ ہوا بلکہ وہیں مر کے رہ گیا۔
پھر کرگس نے ہدہد سے عرض کی کہ میں یہ مصلحت نہیں دیتا کہ آپ ملک کوّے کو دیں۔ اُس نے کہا: ‘‘اگر کوّے کے قبضے میں یہ ملک ہوگا تو مال و متاع کی کچھ کمی اور غلّے کا بھی قحط نہ ہوگا اور میں اپنے ملک میں فراغت سے عیش و عشرت کروں گا”۔ کرگس نے جواب دیا کہ پیر و مرشد! ایسے خیال اور اس اندیشے سے آپ کی حالت اُس نعل بند کی سی ہوگی۔
ہدہد نہ پوچھا کہ اُس کی داستان کیوں کر ہے؟ کرگس کہنے لگا۔
نقل شادی نام ایک بنیے اور دلوالی نعل بند کی
یوں کہتے ہیں کہ شادی نام ایک بنیے نے بازار سے گھڑا بھر کڑوا تیل خریدا اور وہاں کھڑا ہو پکارنے لگا کہ جو کوئی محنتی اسے میری دکان تک پہنچاوے تو ایک ٹکا اُسے مزدوری دوں گا۔ دلوالی نام ایک نعل بند وہاں کھڑا تھا؛ وہ گھڑا اپنے سر پر اٹھا کر اُس کی دکان کی طرف لے چلا اور چلتے ہوئے یہ دل میں منصوبہ کرنے لگا کہ اُس ٹکے کی مرغی لوں گا، وہ بیس انڈے دے گی، پھر بائیس دن کے بعد بیس بچے نکالے گی۔ جب وے بڑے ہوں گے، ان کو بیچ کر بکری خریدوں گا۔ اُس کے کچ بچ سے گائے، پھر اُس سے گھوڑی، گھوڑی سے اونٹنی، پھر ہتنی مول لوں گا۔ جب اُس سوداگری سے بہت دولت ہاتھ آئے، تب چار بیاہ کروں گا؛ ہر ایک جورو سے چار چار بیٹے تولد ہوں گے۔ جب وے جوان ہو کر شہزادوں کی طرح تازی گھوڑوں پر سوار ہو کر شکار کا ارادہ کریں گے تو میں اُن کے جلو میں چلوں گا تاکہ اور لوگ اُن کی تعظیم و تکریم کریں۔ اس بے ہودہ خیال میں گھڑے کا دھیان جاتا رہا؛ وہ سر سے زمین پر گر کر پھوٹ گیا اور سارا تیل بہہ گیا۔ تب بنیے نے اُس کے سر کے بال پکڑ کر ایسا لتیایا کہ اُسے وہ مار عمر بھر نہ بھولے گی۔ مثل ہے کہ غریب آدمی سے کیا ہو سکے۔
تب ہدہد بولا کہ اگر میں ملک کی طمع کروں اور اُسے نہ دوں تو مجھے بھی ویسا ہی فائدہ ہوگا جیسا کہ اُس نعل بند کو ہوا۔ پھر اُس نے کرگس سے پوچھا: ‘‘بھلا اب کیا کیا چاہیے؟” اُس نے کہا: ‘‘خداوند! آپ ذرا کوّے کو بلا کر پوچھیں تو سہی کہ اُس نے قاز کے ساتھ کیا حرکت کی کہ اُس کے گھر میں ایک مدت تک رہا اور عین لڑائی کے وقت اُس کے قلعے میں آگ لگا دی؛ چنانچہ اسی واسطے اُس کی لڑائی بگڑ گئی اور ملک اُس کا تباہ ہو گیا”۔ تب ہدہد نے اُس کو بلا کر پوچھا کہ اے میگھ برن! تو نے قاز کے ساتھ ایسی زبوں حرکت کیوں کی؟ اُس نے تو کچھ تیرے ساتھ برائی نہیں کی تھی۔ دنیا میں نیکی کا بدلہ یہی ہے جو تُو نے اُس کے ساتھ کیا؟ کوّے نے جواب دیا کہ حضرت! غلام نے آپ کا نمک کھایا تھا، اس واسطے نمک حلالی کی۔ نہیں تو قاز کی خوبیوں میں کچھ شبہ نہیں۔ خدا ترس، عقل مند، عادل مثل نوشیرواں کے ہے اور کبھی اُس سے کسو کو ایذا نہیں پہنچی۔ اُس کے اوصاف سے میری زبان قاصر ہے کیوں کہ میری بات ہر ایک امر میں سنا کیا اور اپنے وزیر کی صلاح پر کام نہ کیا، جیسے کہ مرد ملتانی نے رندوں کے کہنے پر عمل کیا۔ ہدہد نے پوچھا کہ وہ کیوں کر ہے؟ کوّا بولا۔
نقل ایک ملتانی اور رندوں کی
یوں سنا ہے کہ ایک مرد ملتانی بازار سے بکری خرید کے اُس کی رسّی ہاتھ میں پکڑے ہوئے اپنے گھر لیے آتا تھا۔ جب نزدیک گاؤں کے پہنچا، کئی ایک رند ایک جگہ کھڑے تھے۔ آپس میں صلاح کی کہ اُس آدمی سے کسی چھل بل سے بکری اُڑایا چاہیے۔ سب نے ایک دل اور ایک زبان ہو کر بندش باندھی اور تین چار جگہ جدا جدا راہ میں بیٹھے۔ اُن میں سے پہلے ایک نے اس سے ملاقات کی اور کہا کہ اے بھائی! یہ نجس کتا تو نے کہاں پایا؟ اُن نے جواب دیا کہ یہ کتا ہے کہ بکری؟ میں اسے بازار سے مول لیے آتا ہوں۔ لیکن دل میں کچھ شک پڑا۔ منہ پھیر کر بکری کی طرف دیکھا۔ معلوم کیا کہ بکری ہے۔ تب کاندھے پر رکھ لے چلا۔ تھوڑی دور بڑھا تھا کہ دوسرے سے ملاقات ہوئی۔ وہ بولا: ‘‘اے ملتانی! اس کو کاندھے پر رکھ کر لے جاتا ہے، اگر یہ مُوتے تو کپڑے تیرے ناپاک ہوں گے”۔ ملتانی نے اپنے دل میں سوچا کہ آگے ایک کتا کہہ چکا ہے، دوسرا بھی ناپاک کہتا ہے۔ کاندھے سے اُتار کر پھر ڈُریا لیا۔ تھوڑی دور آگے چلا تھا کہ ایک بوڑھا درخت کے نیچے سے بول اٹھا کہ اے مرد! تو دیوانہ ہے کہ آنکھوں کی جوت ہی گھٹ گئی ہے کہ کتا سا ناپاک جانور ہاتھ میں پکڑے لیے جاتا ہے۔ یے سب باتیں سن کر تب تو یقین ہوا کہ شاید کچھ عقل میں یا بینائی میں خلل ہوا ہے کہ کتے کو بکری جان کر مول لے جاتا ہوں۔ کچھ اندیشہ نہ کیا، بکری کی رسی ہاتھ سے چھوڑ دی اور آپ کپڑوں سمیت ندی میں جا کود پڑا۔ نہا دھو گھر کی راہ پکڑی اور بکری اُن رندوں نے لے جا کر شوق سے چٹ کی۔
ہدہد نے پھر کوّے سے کہا کہ تو نے قاز سے وہ حرکت بد کی کہ کسی نے کسو کے ساتھ ایسی کم کی ہوگی۔ کوّا بولا: ‘‘اے بادشاہ! عقل مند اپنے مطلب کے لیے دشمن کو وقت پر ملا لیتے ہیں۔ جب غرض اپنی حاصل ہو چکتی ہے تو اُس کو ٹھکانے لگا دیتے ہیں۔ مگر آپ نے قصہ مینڈک اور سانپ کا نہیں سنا”۔ ہدہد نے پوچھا: ‘‘وہ کس طرح ہے؟” کوّے نے کہا۔
نقل ایک سانپ اور مینڈکوں کے بادشاہ کی
ایک پرانا سانپ کہ اُس میں چلنے پھرنے کی طاقت نہ رہی تھی، ایک جھیل کے کنارے پر آہستے آہستے آ کر غمگین ہو بیٹھا۔ تب مینڈکوں کے بادشاہ نے پوچھا: ‘‘اے سانپ! تجھے کیا ہوا ہے جو اتنا دل گیر ہے؟” اُس نے جواب دیا کہ تجھے پرائی کیا پڑی، تو اپنی نبیڑ۔ مینڈک بولا: ‘‘اے سانپ! نا خوش کیوں ہوتا ہے۔ اگر کچھ تیری چیز پانی میں گری پڑی ہو تو کہہ۔ میں اپنے لشکر کو حکم کروں کہ بجنس اُس چیز کو ڈھونڈ لاوے”۔
اُس نے کہا: ‘‘اے مینڈک! اُس شہر میں ایک برہمن کا لڑکا بہت خوب صورت تھا۔ اُس کو میں نے کاٹا۔ باپ نے اُس کے درد سے کھانا پینا سب چھوڑ دیا۔ اُس کے بھائی نے اُس کو سمجھا بجھا کر کھلا پلا یوں اُسے نصیحت کی کہ بھائی! صبر کیجیے، سب کی یہی راہ ہے؛ چنانچہ کسی شاعر نے کہا ہے ؎
مت پوچھو رفتگاں کو کیدھر تھے اور کہاں تھیں
شاہان نام ور اور دلہنیں جو نوجواں تھیں
تب برہمن یہ کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا کہ اے دوستو! میں اس گاؤں میں نہ رہوں گا، کس واسطے کہ یہی ایک لڑکا میرا تھا سو خدا کی راہ میں گیا۔ اب مجھے بستی سے کیا کام؟ میں بن باسی ہوں گا۔ تب انھوں نے کہا: ‘‘اے بھائی! کوئی ڈاڑھی منڈانے اور جامہ پھاڑ کر جنگل میں جا رہنے سے سادھ نہیں ہوتا مگر جس کی کرنی اچھی ہو”۔
سو اے مینڈک! میں نے اسی وقت خواب دیکھا کہ ایک مرد بوڑھا نہایت بزرگ صورت مجھ سے یوں کہتا ہے کہ اے سانپ! تو نے اُس غریب لڑکے بمھنیٹے کو ناحق کاٹا؛ کل قیامت کو تیری پیٹھ پر مینڈک سوار ہوں گے اور اسی عذاب میں ہمیشہ خدا تجھے گرفتار رکھے گا۔ اگر اُس عذاب سے تو اپنا چھٹکارا چاہے تو کنارے جھیل کے جہاں مینڈک بہت سے ہوں، وہاں جا کر ان کے سردار کو اپنی گردن پر سوار کر کے لیے پھرا کر۔ مینڈک یہ بات سنتے ہی نہایت خوش ہو کر اپنے دل میں کہنے لگا کہ خدا نے مجھے مفت یہ گھوڑا دیا۔ شاید میرے طالعوں کی مدد سے ایسی سواری ملی۔ اُسی وقت سانپ کی پیٹھ پر چڑھ بیٹھا اور کہا کہ فلانی جگہ میرا دشمن ہے۔ اگر تو تصدیع کر کے مجھے وہاں تک لے چلے تو میں اسے ماروں۔ سانپ نے یہ بات مانی؛ تب سب مینڈکوں کو اپنی جلو میں آگے رکھ لے چلا۔ جب اُس تالاب کو چھوڑ کر آگے بڑھے، سانپ نے جانا کہ اب یہ بھاگ کر اُس تالاب تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ کسی بہانے سے اپنے تئیں زمین پر گرا دیا۔ مینڈکوں کے سردار نے پوچھا کہ تو کیوں گر پڑا۔ اُس نے کہا کہ تیری فوج کو دیکھ کر مجھے بھوک لگی ہے۔ وہ بولا کہ میرے لشکر سے دو چار مینڈکوں کو کھا لے۔ سانپ نے کہا: ‘‘اے بادشاہ! لشکر کم ہونے سے تجھ کو برا لگے گا”۔ وہ بولا کہ تیرے کھانے سے میری فوج کم نہ ہوگی۔ سانپ ہر روز دو تین مینڈک کھانے لگا۔ تھوڑے دنوں میں سب کو نگل گیا، اکیلا بادشاہ رہا۔ سانپ نے پوچھا: ‘‘اے بادشاہ! آج میں کیا کھاؤں؟ مجھے بھوک لگی ہے”۔ مینڈک نے کہا: ‘‘اے سانپ! کسی تالاب یا جھیل کے کنارے چل کے اپنا پیٹ بھر لے”۔ تب اُس نے کہا: ‘‘تمھارے سارے لشکر نے میرے پیٹ میں چھاؤنی کی ہے۔ بادشاہ کا لشکر سے جدا رہنا خوب نہیں۔ جو اپنی فوج کے ساتھ آپ بھی اُس چھاؤنی میں داخل ہوں تو بہت بہتر ہے”۔ تب وہ اپنی موت سمجھ کر چپ ہو رہا۔ سانپ نے اپنے شہ سوار کو زمین پر پٹک کر کئی کوڑے دُم کے مارے اور کھا گیا، جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے ؎
گردن بندگی نت خم ہے درِ فرمان پر
گوے سر اپنا فدا کیوں نہ کرے چوگان پر
کوا بولا: ‘‘اے ہدہد بادشاہ! جو کوئی دشمن کی بات پر فریب کھاتا ہے، اُس کے آگے ایسا ہی دن آتا ہے۔ اب آپ کو ملاپ کرنا قاز کے ساتھ ضرور ہے”۔ ہدہد نے کہا: ‘‘اے کوّے! اُس کے بھائی بند، نوکر چاکر لڑائی میں میرے ہاتھ سے بہت مارے گئے ہیں اور ملک اُس کا لے لیا ہے، میں غالب ہوا ہوں۔ اب اُس کو چاہیے کہ اپنے گلے میں پٹکا ڈال کر میرے پاس آوے اور میری اطاعت اختیار کرے؛ تب البتہ ادھر سے بھی اُس کے حق میں مہربانی ہوگی”۔
انھیں باتوں میں تھے کہ ایک جاسوس پہنچ کر آداب بجا لایا اور عرض کی کہ پیر مرشد! غافل کیا بیٹھے ہیں۔ مہابل کلنگ منہ بولا بھائی سرخاب کا جو وزیر ہے قاز بادشاہ کا، بہت فوج لے کر آپ کے ملک پر چڑھا چلا آتا ہے۔ اگر وہ لشکر کبھو یہاں آیا تو تمھارے دیس کو ویران اور رعیت کو تباہ کرے گا۔اس میں ہدہد نے وزیر سے کہا کہ میں سو کوس کی دوڑ ماروں گا اور اپنے ملک کو پشت پر دے کر اُس کی ولایت کو تہ و بالا کروں گا۔ کرگس نے ہنس کر کہا: ‘‘زہے تدبیر اے بادشاہ! مردوں کو جو کام کرنا منظور ہوتا ہے، پہلے اسے کر کے تب زبان سے نکالتے ہیں۔ اور ایک بارگی حریفوں سے الجھ پڑنا مصلحت سے دور ہے۔ اگر آپ لڑائی کے ارادے طرف کلنگ کی متوجہ ہوویں اور قاز لشکر کی پچھاڑی چڑھ دوڑے تو دو طرف کی لڑائی سے آپ عہدہ برا نہ ہو سکیں گے اور ویسی ندامت اٹھائیں گے جیسی اُس برہمن نے اٹھائی”۔ ہدہد نے پوچھا: ‘‘کیسی؟” کرگس بولا۔
نقل ایک برہمن اور نیولے کی
میں نے یوں سنا ہے کہ کسی برہمن نے ایک نیولا پالا تھا۔ کیا ہوا کہ اُس کے گھر میں ایک دن پانچ سات کہیں سے مہمان آ گئے۔ اُس میں وہ باہمن اشنان کے لیے ندی پر گیا۔ برہمنی سخت حیران ہوئی کہ اگر لڑکے کی خبر لوں تو مہمانوں کی خدمت سے محروم رہوں اور وے بے دل ہوں گے، اور جو اُن کے پاس حاضر رہوں تو لڑکا اکیلا رہتا ہے۔ یہ فکر کر کے نیولے کو لڑکے کے پاس محافظت کے لیے چھوڑ کر مہمانوں کے کام کاج میں جا لگی۔ اُس کے جانے پر تھوڑی دیر کے پیچھے ایک سانپ اُس لڑکے کے پاس ڈسنے کو پہنچا۔ نیولے نے دیکھتے ہی جھپٹ کر سانپ کو مار کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور اُسی لہو بھرے منہ سے گھر سے باھر نکالا۔ برہمن نہائے ہوئے، بٹلوہی ہاتھ میں، انگوچھا کاندھے پر دھرے چلا آتا تھا۔ اُس کی نگاہ نیولے پر پڑی۔ اُس کا منہ لہو لہان دیکھ کر اُسے گمان ہوا کہ یہ نیولا میرے لڑکے کو مار کر اُس کا لہو پی کر آیا ہے۔ یہ خیال اپنے دل میں ٹھہرا کر اُسے مار ڈالا۔ گھر میں آن کر کیا دیکھتا ہے کہ لڑکا سہی سلامت ہے اور ایک سانپ اُس کے نزدیک موا ٹکڑے ٹکڑے ہوا پڑا ہے۔ یہ حالت دیکھ کر اُس نے بہت افسوس کیا اور ایسا رویا کہ روتے روتے بیمار ہو گیا۔
پھر کرگس نے کہا: ‘‘اے بادشاہ! بے اندیشے کام کرنے کا پھل آخر پشیمانی ہے”۔ ہدہد نے کہا: ‘‘اے وزیر! کسی کو بھیج دے کہ قاز سے صلح کر آوے”۔ وہ بولا کہ میرے سواے اور کسو کے جانے سے ہرگز ملاپ نہ ہوگا۔ ہدہد نے جواب دیا: ‘‘جو بہتر ہو سو کیا چاہیے”۔ وہ اُس کے حکم سے قاز کے پاس گیا اور ادب سے مجرا کرکے قدموں پر گر پڑا۔ قاز اُس سے بغل گیر ہوا اور چھاتی سے لگا لیا اور بہت سی خاطر داری کی۔ جب آپس میں باتیں ہونے لگیں، تب قاز نے کہا: ‘‘اے کرگس! خوب ہوا کہ تو آیا، نہیں تو لشکر مہابل کلنگ کا تیرے بادشاہ کے ملک میں پہنچ کے خراب کرتا اور میرا ملک اور قلعہ جو تمھارے ہاتھ آیا ہے، صرف اُس کوّے کی بد ذاتی اور حرام زدگی سے و اِلَا کیا دخل تھا۔ اُس مُفسد کے مکر و فریب سے میں نہایت رنجیدہ خاطر ہوں”۔ کرگس نے عرض کی کہ حضرت! جب تک زمین و آسمان کو قیام ہے، دشمن کی دوستی اور قول و فعل پر ہرگز اعتبار اور عمل نہ کیجیے۔ میں اپنے بادشاہ کو ہر طرح کا نشیب و فراز سمجھا کر صلح کے ڈھب پر لایا ہوں۔
قاز بادشاہ نے اُس کی اُس گفتگو سے بہت راضی اور خوش دل ہو کر اُسے بھاری خلعت دیا۔ کرگس نہایت خوش و خرم ہوا اور جو اُس کے دل میں اندیشہ اور دغدغہ تھا سو قاز کی مہربانی سے جاتا رہا اور کہا: ‘‘اے بادشاہ! جس نے مہمان کی حرمت کی، اُس نے گویا اپنے بزرگ کی خدمت کی”۔ قاز نے کہا: ‘‘اے کرگس! تو نے کچھ دریافت کیا کہ ہدہد نے کس لیے تجھ کو صلح کے واسطے بھیجا ہے؟” وہ یہ بات سن کر چپ رہا؛ تب اُس نے پھر کہا کہ میں یوں جانتا ہوں کہ تجھے مہابل کلنگ کی دہشت سے صلح کے لیے بھیجا ہے کیوں کہ لشکر اُس کا بہت ہے۔ یہ کہہ کر کرگس کو دوبارہ انعام دیا اور اُس کے ساتھ کئی اونٹ جواہر اور کپڑے کے اور کئی مخمل اور اطلس اور کم خواب اور زربفت کے، اور سو گھوڑے تازی اور ترکی ہدہد کے واسطے بہ طریق سوغات دے کر رخصت کیا۔
جب یہ اسباب کرگس اپنے ساتھ لے کر ہدہد کی خدمت میں جا گزرانا، ہدہد بہت خوش ہوا۔ کرگس نے التماس کیا کہ اے بادشاہ! اگر میں نہ جاتا تو سخت قباحت ہوتی۔ لشکر مہابل کلنگ کا تمھارے ملک کو لوٹ لاٹ خراب خستہ کر دیتا۔ بڑی خیر گذری کہ بہت جلد صلح ہو گئی؛ تمھاری فوج خشکی میں کم تھی اور مہابل کلنگ کا لشکر تری میں اس قدر تھا کہ ساری جھیلیں و تمام ندیاں اُن سے ایسی چھا رہی تھیں کہ ایک قطرہ پانی کا جھلکتا نظر نہیں آتا تھا اور لشکر قاز کا اُس کے علاوہ تھا۔ تب توتا بولا: ‘‘یہ بات جھوٹھ ہے۔ اگر حضرت سوار ہوتے تو فوج کی کثرت سے زمین یوں بھر جاتی جیسے کہ آسمان اندھیری رات میں تاروں سے چھا جاتا ہے۔ اُن کی فوجیں اُس لشکر کے مقابل ایسی ہیں جیسے آٹے میں لون”۔ ہدہد بولا: ‘‘اے نادان! لڑنے بھڑنے کا کیا فائدہ؛ خدا نے خیر کی کہ ہماری فتح ہوئی اور بعد اُس کے صلح خاطر خواہ ہوئی۔ قاز نے اطاعت کی، بالفعل نذرانہ ہمارے واسطے بھیجا اور آئندہ نعل بندی قبول کی”۔ غرض ہدہد اور قاز اپنے اپنے ملک کی سلطنت اور بادشاہت پر خاطر جمعی سے قائم ہوئے اور حکم رانی بخوبی کرنے لگے۔
یہ سب قصہ بشن سرما پنڈت نے راجا کے بیٹوں کو سنایا اور اسیس دی۔ تب راجا نے خوش ہو کر اسے بہت سا دان دچھنا اور خلعت و انعام دیا اور بڑی تعظیم و تکریم سے رخصت کیا۔
ختم شد
اراکین مجلس ادبیات عالیہ
اردو کے مخلص، سچے اور بے لوث خادم جنھوں نے اردو ادب عالیہ کی یونی کوڈ سازی میں اپنا تعاون پیش کیا
آصف انظارندوی،کانپور
ابو ذر قوی،لکھنؤ اسامہ احمد ندوی، بھٹکل اسامہ نفیس، لکھنؤ اقبال احمد ندوی،سہرسا الشفاء انعام الحق ندوی، بھٹکل اوشو، مشرقِ وسطیٰ ایس ایس ساگر تفسیر حسین، دہلی ثقلین حیدر، دہلی ثمرین زارا جاسمن، کراچی راشد مرتضیٰ، سیتامڑھی سحر عرف محمل ابراہیم رشیدہ رومی سفیان الحسینی،لکھنؤ سمعان خلیفہ ندوی،بھٹکل سمیع اللہ خاں، کوکن سیما علی شعیب گناترا |
شفیع اللہ خان، بالاپور
شمشاد، سعودی عرب صابرہ امین طلحہ نعمت عاطف علی،سعودی عرب عبد الحمید اطہرندوی، بھٹکل عبد الرحمن، دہلی عبد الرؤوف عبدالصمد چیمہ عبد القادر، بھوپال عبد اللہ نیموی، بیگوسرائے عبد المعید خاں ندوی، ممبئی عبید رضا، پنڈی گھیپ عزیر فلاحی، بھوپال عطاء اللہ سنجری،کیرالا علقمہ فضل الرحیم، دہلی فیصل انس، حیدرآباد فرحت کیانی فرید الحسن، کراچی قرۃ العین اعوان گل یاسمیں، اسکینڈی نیویا
|
لا ایلما
محب علوی، لاہور محمودالرحمن، دیوبند میر عابد علی، میدک محمد عاکف، بھٹکل محمد شاہد خان، لکھنؤ محمد اکرم قاسمی، ناگپور محمد راشد ندوی، امراؤتی وصی اللہ، بہرائچ محمد ندیم ندوی، امراؤتی ملک احمد ندوی، لکھنؤ محمد عامر ندوی، ودیشا محمد ابان، بھٹکل محمد محسن خاں ندوی، کلکتہ محمد زید، بہرائچ محمد اطہرندوی، مالیگاؤں محمد عمر، انگلستان محمد عدنان اکبری نقیبی مومن فرحین مقدس، انگلستان ماہی احمد نور وجدان |