سجدے ان کو کر رہا ہوں اور کسی کا ڈر نہیں
دل کے کعبے میں مصلی ہے مگر منبر نہیں
ان سے باتیں شعر میں ہونے لگیں تو یہ کھلا
راز بھی بہتر ہے لیکن رمز سے بہتر نہیں
وعظ پانی ہو کے بہہ جاتا ہے پانی میں یہاں
میکدہ ہے شیخ صاحب خالہ جی کا گھر نہیں
خانماں برباد کے خوابوں کا عالم کچھ نہ پوچھ
عرش پر تکیہ ہے جس کا فرش پر بستر نہیں
بزم میں آ کر رقیبوں سے محبت ہو گئی
چیدہ چیدہ لوگ ہیں عشاق کا لشکر نہیں
ہم محبت کے گنہگاروں کے لچھن دیکھنا
پاؤں میں زنجیر ہے پر ہاتھ میں خنجر نہیں
فلسفے سے فقہ تک اور عاشقی سے رقص تک
زندگی کی چوٹ کا کوئی بھی چارہ گر نہیں
شہر میں راحیلؔ مسجد ڈھونڈتے پھرتے ہیں لوگ
ورنہ خود قبلہ بھی دل کے شہر سے باہر نہیں