ہم نے کافی عرصہ پہلے کہیں لکھا تھا کہ کامیاب وہ ہے جس کے نقال کامیاب ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو لہجہ اور اردو گاہ کی کامیابی میں کوئی شبہ نہیں رہتا۔ نام، موضوع، مضمون، رنگ، خط، نقش، طرز، اسلوب۔۔۔ غرض کوئی چیز باقی نہیں رہی جو کوئی نہ کوئی نہ لے اڑا ہو۔
سادہ لوحوں نے ظاہر کی نقل کی۔ کسی نے جوں کا توں لہجہ ہی نام رکھ لیا تو کسی نے ادب گاہ قائم کر کے اپنی تخلیقی قوتوں کے زندہ ہونے کا ثبوت دیا۔ ہوشیار لوگوں نے ہوشیاری سے کام لینے میں ہوشیاری سمجھی۔ بہت سے ناشر فی زمانہ جو کتابیں چھاپ رہے ہیں ان کے سرورق دیکھیے تو آپ ہماری بات سمجھ جائیں گے۔ خطاطوں نے باستثنائے چند اپنی طرز ہی بدل ڈالی۔ پانچ سات برس پہلے اور آج کے شہ پاروں میں فرق آپ کو بھی نظر آتا ہو گا۔ پھر ادیبوں اور دانش وروں کو دیکھا کہ شرم سے ہاتھ دھو کر ہماری تحریروں پر صاف کر لیتے ہیں۔ ادبی جرائد تو خیر وضع کے پابند ہیں مگر بی بی سی تک پر وہ فکر انگیز مضامین کسی اور کے نام سے چھپ گئے جنھیں لوگ اردو گاہ پر چوری شدہ سمجھتے ہیں۔ ٹی وی والوں نے البتہ یہ التزام کیا کہ وڈیو میں لہجہ اور ہمارے نام کو ہوائیوں اور پھلجھڑیوں وغیرہ سے ڈھک دیتے ہیں۔ سنا ہے اس سے خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے۔
یہ باتیں کرنے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ دوست یار ہمیں آئے دن مختلف "متاثرین” کے فن پارے بھیجتے رہتے ہیں۔ آج بھی ایسا ہی ہوا تو سوچا کہ ہمیں کم از کم ان لوگوں کا شکریہ ادا ضرور کر دینا چاہیے جنھوں نے ہمارے ذوق کو اچک کر ان لوگوں تک بھی پہنچا دیا ہے جن تک ہم خود نہیں پہنچ سکتے تھے۔ اگرچہ اس کھینچا تانی میں ذوق کی حالت کبھی کبھی وہ ہو گئی ہے جو اگلے وقتوں میں تانگے والوں کے درمیان پردیسی کی ہوا کرتی تھی مگر پھر بھی۔۔۔ عنایت، کرم، شکریہ، مہربانی!