زمانہ ایک طرف اور جناب ایک طرف
یہی ہے حشر تو رکھیے حساب ایک طرف
ادھر بھی ذوقِ تماشا ادھر بھی حسرتِ دید
اٹھی وہ آنکھ جو سرکا نقاب ایک طرف
سنا ہے نام اسی کا بہشت رکھا ہے
سنا ہے شیخ نے رکھ دی شراب ایک طرف
گلی وہی ہے مگر پھر پھرا کے پہنچے گا
گیا ہے آج بھی خانہ خراب ایک طرف
قیامت ایک ہی سکہ ہے جس کے دو رخ ہیں
نقاب ایک طرف اور شباب ایک طرف
سماج آنکھ تو رکھتا ہے دل نہیں رکھتا
حضور اٹھائیے ہو کر حجاب ایک طرف
نماز پڑھ گئے ہیں میکدے میں شاید شیخ
پڑے تھے سجدے میں عزت مآب ایک طرف
وہ پوچھتے ہیں کہ راحیلؔ کون صاحب ہیں
سوال ایک طرف ہر جواب ایک طرف