عشق کا شاخسانہ وہ خود ہیں
تیر خود ہیں نشانہ وہ خود ہیں
ناقہ خود تازیانہ وہ خود ہیں
خود ہیں منزل روانہ وہ خود ہیں
بزم خود ہیں فسانہ وہ خود ہیں
شمع خود ہیں زبانہ وہ خود ہیں
نوحہ و شادیانہ وہ خود ہیں
ساز خود ہیں ترانہ وہ خود ہیں
خواب میں ہوں خزانہ وہ خود ہیں
میں ہوں خود آشنا نہ وہ خود ہیں
کس بہانے سے زندگی واروں
زندگی کا بہانہ وہ خود ہیں
حسن خود میں کہاں سماتا ہے
بےخودی میں یگانہ وہ خود ہیں
میں انھیں ڈھونڈتا پھرا ناحق
تکیہ و آستانہ وہ خود ہیں
ہم تو صیاد جانتے تھے انھیں
قفس و آشیانہ وہ خود ہیں
اک تڑپ جاودانہ دل میں ہے
یہ تڑپ جاودانہ وہ خود ہیں
جن کا ہم انتخاب ہیں راحیلؔ
انتخابِ زمانہ وہ خود ہیں