کسے کل کے وعدے پہ بہلا رہے ہو
ہمیں آج دکھ ہے کہ تم جا رہے ہو
نظر آنے والے تو تھے ہی نہیں تم
مجھے ہر جگہ کیوں نظر آ رہے ہو
نشہ مجھ سے پوچھے کوئی گفتگو کا
سمجھتا نہیں ہوں کہ کہہ کیا رہے ہو
بڑی دیر پچھتاؤ گے اب تو شاید
بڑی دیر کے بعد پچھتا رہے ہو
کریدو نہ پھر زخم پوچھو نہ کچھ بھی
کوئی دن تو تم بھی مسیحا رہے ہو
نہ ہو گی نہ شکوے کا موقع ملے گا
ملاقات کا وعدہ فرما رہے ہو
یہی تو ہے راحیلؔ منزل جنوں کی
پتا کھو رہے ہو خبر پا رہے ہو