ان کی آنکھوں میں ڈال کر آنکھیں
ان کو دیکھا اجال کر آنکھیں
کر تو وقفِ جمال کر آنکھیں
ورنہ رکھ دے نکال کر آنکھیں
دل کے سجدوں کو دے دیے محراب
دستِ قدرت نے ڈھال کر آنکھیں
آنسوؤں کی شراب سستی تھی
پی گیا غم کھنگال کر آنکھیں
ہائے میں کس کا اعتبار کروں
کہیے کہیے سنبھال کر آنکھیں
ایک درخواست کرنے لگتی ہیں
ایک درخواست ٹال کر آنکھیں
چاہتی ہیں کہ میں سلجھ جاؤں
الجھنیں پال پال کر آنکھیں
قصۂ طور یاد ہے راحیلؔ
دیکھنا دیکھ بھال کر آنکھیں