کعبے کا شوق ہے نہ صنم خانہ چاہیے
جانانہ چاہیے درِ جانانہ چاہیے
ساغر کی آرزو ہے نہ پیمانہ چاہیے
بس اک نگاہِ مرشدِ مے خانہ چاہیے
حاضر ہیں میرے جیب و گریباں کی دھجیاں
اب اور کیا تجھے دلِ دیوانہ چاہیے
عاشق نہ ہو تو حسن کا گھر بے چراغ ہے
لیلیٰ کو قیس شمع کو پروانہ چاہیے
پروردۂ کرم سے تو زیبا نہیں حجاب
مجھ خانہ زادِ حسن سے پردا نہ چاہیے
شکوہ ہے کفر اہلِ محبت کے واسطے
ہر اک جفائے دوست پہ شکرانہ چاہیے
بادہ کشوں کو دیتے ہیں ساغر یہ پوچھ کر
کس کو زکوٰۃِ نرگسِ مستانہ چاہیے
بیدمؔ نمازِ عشق یہی ہے خدا گواہ
ہر دم تصورِ رخِ جانانہ چاہیے