غیر کے پاس یہ اپنا ہی گماں ہے کہ نہیں
جلوہ گر یار مرا ورنہ کہاں ہے کہ نہیں
مہر ہر ذرہ میں مجھ کو ہی نظر آتا ہے
تم بھی ٹک دیکھو تو صاحب نظراں ہے کہ نہیں
پاسِ ناموس مجھے عشق کا ہے اے بلبل
ورنہ یاں کون سا اندازِ فغاں ہے کہ نہیں
دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں
کچھ علاج ان کا بھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں
جرم ہے اس کی جفا کا کہ وفا کی تقصیر
کوئی تو بولو میاں منہ میں زباں ہے کہ نہیں
پوچھا اک روز میں سوداؔ سے کہ اے آوارہ
تیرے رہنے کا معین بھی مکاں ہے کہ نہیں
یک بیک ہو کے بر آشفتہ لگا یہ کہنے
کچھ تجھے عقل سے بہرہ بھی میاں ہے کہ نہیں
دیکھا میں قصرِ فریدوں کے در اوپر اک شخص
حلقہ زن ہو کے پکارا کوئی یاں ہے کہ نہیں