اگر کوئی آپ سے محبت کرے تو آپ اس کا شکریہ ادا کریں گے؟
میرا خیال ہے، نہیں۔ شکریہ کرم کا ہوتا ہے۔ مفت کی چیزوں کا۔ سبزی والے نے قیمت کم کر دی۔ راہگیر نے راستہ دے دیا۔ شناسا نے مدد کر دی۔ ان باتوں کا شکریہ ہوتا ہے کیونکہ یہ مفت ہوتی ہیں۔ ہم حق نہیں رکھتے مگر مل جاتی ہیں۔ لہٰذا ہم شکریہ ادا کرتے ہیں۔ خدا کا شکر بھی اسی لیے ہے کہ وہ کرم کرتا ہے۔ مفت دیتا ہے۔ سب کچھ مفت۔ ورنہ ہم تو ایک سانس کی قیمت بھی نہ چکا سکیں۔
مگر محبت مفت کی چیز نہیں۔ آپ کسی سے محبت کرتے ہیں تو کر کے بھول نہیں جاتے۔ دے کے بےنیاز نہیں ہو جاتے۔ راہگیر، سبزی والے، شناسا یا خدا کی طرح۔ بلکہ محبوب آپ کے ساتھ رہتا ہے۔ آپ کے اندر۔ بلکہ کبھی کبھی تو آپ ہی آپ ہو جاتا ہے۔ آپ آئینے میں جھانکتے ہیں تو وہ نظر آتا ہے جس کے دیکھنے کو آنکھیں ترس گئیں۔ بولتے ہیں تو وہ کلام کرتا ہے جس کی باتیں زندگی ہیں۔ تنہا ہوتے ہیں تو وہ ساتھ ہوتا ہے جس ظالم نے تنہا کر دیا۔
پس محبت مفت نہیں ہوتی۔ اس کی قیمت ہوتی ہے۔ شکریہ سے کام نہیں چلتا۔
قرض چکانا پڑتا ہے، حضور۔ قیمت دینی پڑتی ہے۔ اور یہ قیمت۔۔۔ محبت ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، عاشق محبت کرنے والے ہی کا نہیں، محبت چاہنے والے کا بھی نام ہے۔ محبوب اسی کو نہیں کہتے جس سے محبت کی جاتی ہے بلکہ اسے بھی جس کی محبت چاہیے ہوتی ہے۔
آج خیال آیا کہ میں نے لہجہ اور اردو گاہ کے مہربانوں کا ہمیشہ شکریہ ادا کیا ہے۔ تہِ دل سے سہی، مگر کیا محبت کا شکریہ ہوتا ہے؟
افسوس ہوا۔ میں شرمندہ ہوں۔
آپ نے مجھے قرض دیا۔ مجھے چکانا چاہیے۔ آپ نے محبت کی۔ پسند فرمایا۔ مجھے اعتراف کرنا چاہیے کہ آپ بھی مجھے پسند ہیں۔ میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ مجھے بہت عزیز ہیں۔ ایمان سے۔ آپ کی محبت کی قسم!