ایک بوڑھا بازار میں چلا جا رہا ہے۔ ایک طرف سے ایک آدمی لپک کر اس کا بازو پکڑتا ہے اور چلا کر کہتا ہے، "منہ دھو کر نہیں آئے، بزرگو۔ ماں باپ نے تمیز نہیں سکھائی؟”
بڈھا راہگیر ہکا بکا رہ جاتا ہے۔ اسے غصہ تو بہت آتا ہے مگر یہ دیکھ کر پی جاتا ہے کہ ٹوکنے والے کے ساتھ بہت سے لوگ ہیں جو آستینیں چڑھائے خشمگیں نگاہوں سے اسے گھور رہے ہیں۔
اتنے میں ایک عورت سامان کا تھیلا سنبھالے گزرتی ہے۔ لوگوں میں سے ایک آگے بڑھ کر چیختا ہے، "او باجی! کوئی ڈھنگ کا تھیلا نہیں ملا تھا تمھیں؟ چار پیسے زیادہ خرچ کر لیے ہوتے تو اتنی بری نہ لگ رہی ہوتیں۔”
عورت ٹھٹھک کر رک جاتی ہے۔ اس کا منہ سرخ ہو جاتا ہے۔ کچھ کہنا چاہتی ہے مگر ہجوم دیکھ کر گھبرا جاتی ہے۔ لوگ ہنسنے لگتے ہیں۔ "بول، بیبی۔ بول۔ بول نا!”
خاتون سر جھکا کر تیز تیز قدموں سے نکل جاتی ہے۔
ایک خوش پوش نوجوان مسکراتا، گنگناتا، جھومتا جا رہا ہے۔ یکلخت بازار کے در و دیوار ایک کرخت للکار سے گونج اٹھتے ہیں۔
"ابے او گدھے، اوپر والا بٹن تیری ماں بند کرے گی کیا؟ آ جاتے ہیں منہ اٹھا کر بازار میں، سالے!”
گالی سن کر نوجوان کا خون کھول اٹھتا ہے۔ وہ مکا تان کر گالی دینے والے کی طرف لپکتا ہے۔ پورا مجمع نوجوان پر پل پڑتا ہے۔
نوجوان کے کراہنے کی آواز ابھی مدھم نہیں ہوئی کہ دو بچے اٹکھیلیاں کرتے ہوئے منظر پر نمودار ہوتے ہیں۔
کوئی آدمی دھاڑ کر کہتا ہے، "پڑھائی تمھارا باپ کرے گا کیا؟ بڑے آئے مستقبل کے معمار۔”
بچے دہشت زدہ ہو کر بھاگ نکلتے ہیں۔
—
یہ حکایت فرضی ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنی بدتمیزی کوئی نہیں کرتا۔ ورنہ معاشرے والے اسے جنگل میں چھوڑ آئیں۔ لیکن کیسی دلچسپ بات ہے کہ اس سے زیادہ بدتمیزی ہم لوگ کر لیتے ہیں۔ بلکہ اس پر شاباش بھی ملتی ہے۔ سمجھ رہے ہیں نا؟
کپڑے جوتے، رہن سہن، صورت شکل وغیرہ ظاہری معاملات ہیں۔ ہم کسی کی خامی یا کوتاہی دیکھیں تو چشم پوشی کرتے ہیں۔ کم از کم لوگوں کے سامنے مذاق نہیں اڑاتے۔ ایمان، عقیدہ، تعلق باللہ، حبِ رسولؐ باطنی معاملات ہیں۔ کسی کو نظر نہیں آتے سوائے اس کے جس کے دل میں ہوں۔ مگر کیسی جرأت کی بات ہے کہ کوئی بھی کھڑا ہو کر سرِ بازار فیصلہ دے دیتا ہے کہ یہ کافر ہے۔ یہ زندیق ہے۔ یہ مشرک ہے۔ یہ مرتد ہے۔ یہ ملحد ہے۔ اللہ کی پناہ!
جو کام تہذیب کے نام پر نہیں کر سکتے وہ دین کے نام پر کرتے ہیں۔ جس حرکت پر لوگ محلے سے نکال دیں اس کی بنیاد پر جنت میں گھسنا چاہتے ہیں۔ جن باتوں سے انسانوں کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا ان سے خدا کو فریب دینا چاہتے ہیں۔
وَقُلْ لِّعِبَادِىْ يَقُوْلُوا الَّتِىْ هِىَ اَحْسَنُ ۚ اِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَـهُـمْ ۚ اِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِيْنًا رَّبُّكُمْ اَعْلَمُ بِكُمْ ۖ اِنْ يَّشَاْ يَرْحَـمْكُمْ اَوْ اِنْ يَّشَاْ يُعَذِّبْكُمْ ۚ وَمَآ اَرْسَلْنَاكَ عَلَيْـهِـمْ وَكِيْلًا
(بنی اسرائیل: 53-54)اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ (لوگوں سے) ایسی باتیں کہا کریں جو بہت پسندیدہ ہوں۔ کیونکہ شیطان (بری باتوں سے) ان میں فساد ڈلوا دیتا ہے۔ کچھ شک نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ تمھارا پروردگار تم سے خوب واقف ہے۔ اگر چاہے تو تم پر رحم کرے یا اگر چاہے تو تمھیں عذاب دے۔ اور ہم نے تم کو ان پر داروغہ (بنا کر) نہیں بھیجا۔