انسان کو اپنا اختیار تب معلوم ہوتا ہے جب وہ اپنے اندر جھانکتا ہے۔اور بےاختیاری تب معلوم ہوتی ہے جب باہر دیکھتا ہے۔
میں کہتا ہوں کہ اس کائنات کا ایک خدا ہے۔ ایک شخص ناک سکیڑ کر کہتا ہے، نہیں۔ تم ایک احمقانہ واہمے کا شکار ہو۔ مجھے غصہ آ جاتا ہے۔ کس لیے؟
اس لیے کہ خدا جھٹلایا گیا؟ نہیں۔ بلکہ اس لیے کہ میں جھٹلایا گیا۔
سمجھنا چاہیے کہ جو ہے سو ہے۔ اور جو نہیں ہے سو نہیں ہے۔ کسی کے نہ ماننے سے موجود معدوم نہیں ہو جاتا اور کسی کے مان لینے سے معدوم موجود نہیں ہو جاتا۔ اگر خدا ہے تو اسے کسی کے اقرار یا انکار کی کیا پروا ہو سکتی ہے؟ ایک حقیر سی مکھی کو تو اس سے فرق پڑتا نہیں کہ کوئی اسے تسلیم کرتا ہے یا نہیں۔ خدا کو کیسے پڑ سکتا ہے؟
ہاں، البتہ میری اپنی ذات کو فرق پڑتا ہے۔ اور بہت پڑتا ہے۔ جھٹلانے والے نے میرا تصور جھٹلا دیا۔ میری بات رد کر دی۔ میرے ایمان کا انکار کر دیا۔ میری توہین کر دی۔ میرا تصور، میری بات، میرا ایمان، میری آبرو اس کی تصدیق کے محتاج تھے۔ وہ اس نے نہیں کی۔ مجھے اس لیے غصہ آتا ہے۔
وَقَالَ مُوۡسٰٓى اِنۡ تَكۡفُرُوۡۤا اَنۡـتُمۡ وَمَنۡ فِى الۡاَرۡضِ جَمِيۡعًا ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ لَـغَنِىٌّ حَمِيۡدٌ ۞
(سورۂ ابراهيم - آیت 8)
اور موسیٰ نے کہا کہ اگر تم انکار کرو اور وہ سب بھی جو زمین میں ہیں تو بھی اللہ بے نیاز اور حمد کے لائق ہے۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 27 دسمبر 2021ء
- ربط