سقراط سے ایک بڑا جامع و مانع مقولہ منسوب ہے۔ کہتا ہے:
اپنے آپ کو جان۔
پھر ایک روایت اسلام میں بھی اسی طرز کی چلی آتی ہے۔
من عرف نفسه فقد عرف ربّه
جس نے اپنے آپ کو جان لیا اس نے خدا کو جان لیا۔
انسان کی خودی میں خدا اور خدائی دونوں کا پرتَو موجود ہے۔ یہ حضرتِ انسان پر ہے کہ وہ اس خدا کو یزداں کا مثیل بناتا ہے یا اہرمن کا نظیر۔ اس خدائی میں بہشت تشکیل دیتا ہے یا دوزخ تعمیر کرتا ہے۔
آدم میں پھونکا ہوا خدا کا سانس خدا ہی جانے کیسا شرف ہے، کیسی فضیلت ہے کہ روئے زمین پر ہر فساد، ہر فتنہ اسی سانس سے قوت پکڑتا ہے۔ شاید یہی سانس وہ بھاری ذمہداری تھی جس کی نسبت قرآن ذکر کرتا ہے کہ اس کا طوق اس ظلوم و جہول نے اپنے گلے میں ڈال لیا جبکہ پہاڑ اس سے ڈر گئے تھے۔ جنت اور جہنم کی تخلیق سے بڑی ذمہداری اور کیا ہو سکتی ہے؟ خالق کے کام مخلوق پر ڈالے جائیں تو فساد کیونکر نہ پیدا ہو؟
خدا کا یہ سانس کھنکتی ہوئی مٹی کے اس حقیر ٹھیکرے کو ٹہوکے دیتا رہتا ہے کہ وہ بھی خدا ہی کی طرح اپنی ذات کے ادعا میں سرگرم رہے۔ اسے بھی لگتا ہے کہ وہ ایک چھپا ہوا خزانہ ہے جسے اپنے ظہور کے لیے کمازکم ایک کائنات تو تخلیق کرنی ہی چاہیے۔ خدا کی کائنات میں ابنائے آدم کی اکثریت محض اسی سرگرمی میں مدتِ عمر بسر کرتی ہے۔ ایک کائنات کی تخلیق میں جس کا خدا مٹی کا ایک ٹھیکرا ہو۔ چھوٹی کائنات یا بڑی کائنات۔ کیا فرق پڑتا ہے؟
کسان سمجھتا ہے کہ وہ دنیا کا انداتا ہے۔ تاجر خیال کرتا ہے کہ وہ تمدن کی رگوں میں دوڑنے والا خون ہے۔ طبیب کو زعم ہے کہ وہ مسیحا ہے۔ فنکار کا گمان ہے کہ حسن اس کی داشتہ ہے۔ جرنیل کو گھمنڈ ہے کہ ملت کی بقا کی کنجی اس کی مٹھی میں دبی ہوئی ہے۔ مُلّا فرماتا ہے کہ دو جہان کے بھید کوئی پوچھے تو اس سے پوچھے۔ اہلِ حرفہ کی دانست میں انسانیت کو حیوانیت سے ممتاز کرنے والے وہ ہیں۔ یہ خدا ہیں اور یہ خدائیاں ہیں۔ چھوٹی یا بڑی۔
سادہ لفظوں میں اس تماشے کو انا کا کھیل کہتے ہیں۔ انا کمبخت وہ شعبدہگر ہے کہ اس کے بہروپ گنے نہیں جاتے۔ دنیا داری سے لے کر خداترسی تک کیا ہے جس کالبادہ اس نے نہ اوڑھا ہو۔ لیکن کیا کیجیے کہ بہروپیا آخر بہروپیا ہی ہوتا ہے۔ اپنی اصل دکھا جاتا ہے۔ پکڑا ہی جاتا ہے۔ انا کے سوانگ بھی کھل ہی جاتے ہیں۔
انسان کی انا کے انگنت حیلوں میں سے ایک بڑا دلچسپ حیلہ وہ ہے جس میں یہ بظاہر اپنی نفی کر کے کسی اور کی پرستش میں فنا ہو جاتی ہے۔ کوئی دانشور انسانیت کے وعظ کے لیے خود کو وقف کر دے گا۔ کوئی سپاہی مادرِ وطن کے گن گانے لگے گا۔ کوئی سائنسدان کائنات کی بیکرانی پہ حال کھیلتا دکھائی دے گا۔ کوئی ایمان والا عشقِ رسولؐ کا نعرہ بلند کر دے گا۔ کوئی نقاد میرؔ و غالبؔ کے آگے مجرے بجا لائے گا۔
خبردار!
ہوشیار!
کائنات تخلیق ہو رہی ہے۔۔۔
وہ کائنات جس کا خدا ایک دانشور ہے۔ ایک سپاہی ہے۔ ایک سائنسدان ہے۔ ایک ایمان والا ہے۔ ایک نقاد ہے۔
شاید آپ ان کے اخلاص، عجز، اعترافِ کمال، نیازمندی، محبت، عشق، وغیرہ وغیرہ کو دیکھ کر یہ گمان نہ کر سکیں۔بہروپیے کی کامیابی بھی تو یہی ہے کہ اسے کوئی بہروپیا نہ جانے۔ دانشور سمجھے، مجاہد سمجھے، علم کا پیاسا سمجھے، مومن سمجھے، ادبفہم سمجھے!
مگر کبھی کبھی شک پڑتا ہے۔
عشقِ رسولؐ کے نعرے لگانے والا اس عشق کے بہانے اپنے ایمان کی رفعت دکھانا چاہتا ہے۔ کائنات کی بیکرانی کے گن گانے والا کائنات کی ہیبتناک وسعت کے ساتھ اپنے علم کی دھاک بھی لگے ہاتھوں بٹھا رہا ہے۔ میرؔ و غالبؔ کا دیوانہ یہ ثابت کرنے کا خواہاں ہے کہ اس کا ادبی فہم ہرگز ہرگز معمولی نہیں۔ سپاہی حبِ وطن کے نام پر اپنے کردار اور شجاعت کا دادخواہ ہے۔ دانشور انسانیتپرستی کی اوٹ سے اپنی دردمندی کی حمدوثنا سننے کا متمنی ہے۔
ہوشیار!
کوئی یہ دعویٰ نہ کرے کہ وہ ہمارے سائنسدان سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ کوئی ہمارے نقاد سے ادبا و شعرا کے رتبے کی نسبت اختلاف کی جرأت نہ کرے۔ کوئی ہمارے مسلمان کو درس نہ دے کہ عشقِ رسولؐ کے تقاضے کیا ہیں۔ کوئی ہمارے دانشور سے بہتر نہیں جانتا کہ انسانیت کی فلاح کس شے میں ہے۔ ہمارے سپاہی کے علاوہ کوئی مائی کا لال دھرتی پر حق نہ جمائے۔
خبردار!
ان کائناتوں کے حقوق محفوظ ہیں۔ ان خداؤں کے نام جو آپ کو محض پرستار نظر آتے ہیں۔