فلسفیانہ تشکیک شبہ کا نام ہے۔ اور مریضانہ شبہے کا بھی نہیں۔ بلکہ اس احتیاط اور ہوشمندی کا جو بشر کو اس کی خطا پر خطا کرنے سے پیشتر متنبہ کر دینا چاہتی ہے۔ گویا حق کے متلاشیوں کے لیے انتہا درجے کی دیانتداری جو ممکن ہے وہ یہ ہے کہ وہ کسی ادعا پر بلاثبوت یقین نہ کریں۔ بلکہ ہر اس مظہر کو جانچنے اور پرکھنے کی اپنی سی کوشش کریں جو دعویٰ رکھتا ہے یا جس کی نسبت دعویٰ رکھا جاتا ہے کہ وہ ہے۔
اس زاویۂِ نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تشکیک ایک مثبت رویہ ہے جو بظاہر ہر شے کی نفی کے درپے ہونے کے باوجود درحقیقت اس بات کا متمنی ہے کہ اس کی رسائی اعلیٰ ترین حقیقت تک ہو جائے۔ اسے خطا کے امکان اور جھوٹ کے شائبے سے مکمل نجات مل جائے۔ اگر تشکیک یہ مقصد اپنے بطون میں نہاں نہیں رکھتی تو اسے فکری کی بجائے نفسیاتی رویہ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ یعنی جو شخص بغیر کسی مقصد کے ہر شے کی حقیقت پر شک کرنے کا عادی ہے وہ اغلب ہے کہ مدبر نہیں مریض ہے۔
میرا گمان ہے کہ الحاد کی بنیادیں شعوری یا غیرشعوری طور پر ہمیشہ مدبرانہ کی بجائے مریضانہ تشکیک پر استوار ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسل نے تشکیک کو بند گلی قرار دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ملتی جلتی بات بہت پہلے سے ایک حکیم سے منسوب چلی آتی ہے کہ وہم کا علاج لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ کیا مریضانہ تشکیک بھی ایک وہم کا نام ہے؟ اس سوال کا جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔
صحتمندانہ یا مدبرانہ تشکیک جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں حقیقت کی جستجو میں خطا کے امکان کو کم سے کم کرنے کی سعی کا نام ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ایک مقصد سامنے رکھ کر انسان نچلا تو نہیں بیٹھ سکتا۔ اس لیے یہ امکان قیاس ہی سے خارج ہو جاتا ہے کہ مدبرانہ تحقیق کبھی ہر شے کو جھٹلا دینے کے بعد محض انکار ہی پر تکیہ کر کے بیٹھ رہے گی۔ جس بکری کو بھوک ہو وہ چارہ نہ ملنے پر بھی آخری سانس تک سرگرداں رہتی ہے۔ جسے نہ ہو وہ سامنے پا کر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ لہٰذا یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ تشکیک کے قدم کسی منزل پر تھم جانے کے دو ہی مطلب ہو سکتے ہیں۔ یا تو یہ کہ شک کی گنجائش ختم ہو گئی ہے۔ گویا بکری کو چارہ مل گیا ہے۔ یا پھر یہ کہ تشکیک کسی مقصد کے تابع نہیں۔ یعنی بکری بھوکی ہی نہیں۔
اب ہم ذرا اس الحاد کو مدبرانہ تشکیک کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو غالباً مریضانہ واہموں کے سبب پیدا ہوا ہے۔ مدبرانہ تشکیک کا ایک دلچسپ تقاضا یہ بھی ہے کہ متشکک حقیقت کے ساتھ ساتھ اپنے وجود پر بھی سوال اٹھائے۔ یعنی مال کو تولنے سے پہلے ترازو کے ٹھیک ہونے کا یقین کر لیا جائے۔ یہ سوال اول اول متشککین نے مختلف صورتوں میں اٹھایا بھی اور اس کے تابہمقدور حل میں بھی سرگرمی دکھائی مگر بعد کے لوگ وہ آئے جو تدبیر کی بجائے مرض میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ لہٰذا رفتہ رفتہ تشکیک اپنی اصل سے اتنی ہی دور ہو گئی جتنی حقیقت واہمے سے ہوتی ہے۔ بہرحال، سوال دراصل ترازو کا ہے۔
میں خدا کو نہیں مانتا۔ کیوں؟ کیونکہ مجھے اس کا کوئی ثبوت میسر نہیں۔ ثبوت کیا ہے؟ حسیات؟ تعقل؟ وجدان؟ وحی؟ کچھ بھی۔ مجھے خدا کا کوئی بھی ثبوت میسر نہیں۔ لہٰذا میں نہیں سمجھتا کہ اس کائنات کا کوئی خدا ہے۔ نیز مجھے کچھ مناسب توجیہات اس امر کی بھی میسر ہیں کہ خدا کے بغیر کائنات کیونکر وجود میں آ سکتی ہے اور قائم رہ سکتی ہے۔ مجھے کیا پڑی ہے کہ دیوانوں کی طرح خلاؤں میں سجدے کرتا پھروں اور ایک موہوم تصور کے ناقابلِ فہم تقاضوں پر اپنی وہ قیمتی زندگی بسر کر دوں جو مجھے شاید صرف ایک ہی بار ملی ہے؟
بالکل ٹھیک۔
مگر کیا یہ ظلم نہ ہو گا کہ میں مندرجہ بالا بیانات کے بعد یہ طے کر لوں کہ دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے؟ میرے پاس کیا حجت ہے کہ میں بالکل ٹھیک نتیجے پر پہنچا ہوں؟ حسیات؟ تعقل؟ وجدان؟ وحی؟ کچھ بھی؟ کیا میں ابھی بھی وہیں کا وہیں نہیں ہوں جہاں سے چلا تھا؟ یعنی ایک متشکک؟ کیا مجھے ایک متشکک ہی کے طور پر اپنا سفر جاری نہیں رکھنا چاہیے؟ کیا میں واقعی یقینی حقیقت تک پہنچ گیا ہوں جس کے لیے میں نے تشکیک کی راہ پکڑی تھی؟ یا میں حقیقت کی طلب ہی نہ رکھتا تھا اور خود سے جھوٹ بولتا آیا تھا؟
یہ بڑے اہم سوالات ہیں۔
مگر ان سے بھی اہم شاید ایک اور سوال ہے۔ اچھا، بھئی۔ ٹھیک ہے۔ مان لیا۔ مجھے سفر جاری رکھنا چاہیے۔ مگر کدھر کو؟ اب کیا کروں؟ میں کوئی حقیقت تسلیم ہی نہیں کرتا تو شک کس پر کروں؟ بیٹھ نہ رہوں تو چلوں کہاں؟ یہ سب سے اہم سوال ہے۔ ممکن ہے اسی سے ہمیں منزل مل جائے۔ متشکک کو یہ امید تو بہرحال ہر سوال سے رکھنی ہی چاہیے۔
مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ چودہ سو سال پرانی ایک کتاب میں اس سوال کا جواب لکھ رکھا ہے۔ ایک ایسی کتاب جسے اس کے ماننے والے امتدادِ زمانہ سے تقریباٰ بھول کر اس کے لانے والے کے بت بنانے، پوجنے، شیخیاں بگھارنے، جھگڑنے، مارنے اور مرنے وغیرہ پر قانع ہو چکے ہیں۔ اس دفترِ پارینہ میں رہوارِ تشکیک کو اگلی منزل کی راہ دکھائی گئی ہے۔ اس مہلک سوال کا بڑا ہولناک جواب بڑے بےنیازانہ سے انداز میں دے دیا گیا ہے کہ وجودِ باری تعالیٰ سمیت دنیا کے ہر ادعا کے حتمی ہونے کا انکار کر بیٹھنے والے ایک متشکک کو آگے کس چیز پر شک کرنا چاہیے۔ ابھی رہ کیا گیا ہے؟
کتاب کہتی ہے:
قُلْ اَرَاَيْتُـمْ اِنْ اَخَذَ اللّـٰهُ سَـمْعَكُمْ وَاَبْصَارَكُمْ وَخَتَـمَ عَلٰى قُلُوْبِكُمْ مَّنْ اِلٰـهٌ غَيْـرُ اللّـٰهِ يَاْتِيْكُم بِهٖ ۗ اُنْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْاٰيَاتِ ثُـمَّ هُـمْ يَصْدِفُوْنَ
(قرآن – الانعام – 46)
تُو کہہ، دیکھو تو! اگر چھین لے اللہ تمھارے کان اور آنکھیں، اور مُہر کر دے تمھارے دل پر، کون وہ رب ہے اللہ کے سوا، جو تم کو یہ لا دیوے؟ دیکھ، ہم کیسی پھیرتے ہیں باتیں، پھر وہ کنارہ کرتے ہیں۔
کتنی عجیب بات ہے۔
شاید مجھے کچھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کچھ سوچنے کی۔
میں تشکیک کی انتہا پر کھڑا ہوں۔ خدا تک کا عدمثبوت کی بنا پر انکار کر چکا ہوں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ واقعی ایک خدا ہو؟ اور اس نے میری حسیات کو چھین لیا ہو گو میں سمجھتا ہوں کہ میرے کان اور آنکھیں سلامت ہیں؟ اس نے میرے دل پر مہر کر دی ہو گو میں خیال کرتا ہوں کہ میں عاقل ہوں؟ کیا یہ شبہ عقلی طور پر محال ہے؟ نہیں۔ یقیناً نہیں۔ عین ممکن ہے کہ واقعی کوئی خدا ہو اور اس نے اپنے دروازے میری حسیات اور عقل وغیرہ پر بند کر لیے ہوں۔ مگر ایسا کیوں کرے گا وہ؟
یہ جواب تو شاید تبھی ملے جب اس خدا کا سامنا ہو۔ وہ ہو گا تو شاید جواب بھی دے دے گا ورنہ یہ سوال ہی بیکار ہے۔ کارآمد سوال صرف یہ ہے کہ اگر ایک ایسا خدا واقعی موجود ہے جس نے میرے کان اور آنکھیں گویا چھین لیے ہیں کہ میں اسے دیکھ نہ سکوں اور میرے دل پر مہر کر دی ہے کہ میں اس کا گمان تک محو کر بیٹھوں تو اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میرے پاس کیا چارہ ہے؟ یہی اور شاید صرف یہی کہ میں خود اسی سے درخواست کروں کہ اے میرے اور اس کائنات کے خدا، مجھے میری حسیات لوٹا دے کہ میں تجھے دیکھ سکوں۔ میرے دل کی مہر توڑ دے کہ تجھ پر ایمان لے آؤں۔ ہے کوئی اور چارہ؟
اب یہاں ایک اور مسئلہ ہے۔ یہ صرف امکان ہے کہ ایک ایسا خدا موجود ہو جس نے دانستہ خود تک میری رسائی محال کر دی ہو۔ کوئی یقینی امر نہیں ہے۔ تو کہیں ایسا تو نہ ہو گا کہ میں یونہی خلاؤں سے نظر آنے کے تقاضے کرنے لگوں اور رفتہ رفتہ یہ لت خود ایک عارضہ، ایک واہمہ بن جائے جیسا کہ نفسیات ہمیں بتاتی ہے۔ کیا ضمانت ہے کہ میں ایک غیرموجود خدا کو فرض کر کے اس سے نظر آنے کی استدعا کروں تو میرا یہی تعصب اس خدا کو سانچے میں ڈھال کر میرے سامنے نہ لا کھڑا کرے گا؟ یہ بہت خوبصورت کشمکش ہے۔ مگر اس کو بنیاد بنا کر کوئی بھی دیانتدار شخص بہرحال یہ نہیں چاہے گا کہ وہ اپنے پچھلے موقف ہی پر قناعت کر لے کہ خدا ہے ہی نہیں۔ وہ مریضانہ تشکیک کے ساتھ ٹھہرنے کی بجائے مدبرانہ تشکیک کے ساتھ قدم مارنے کو ترجیح دے گا۔
پس چہ باید کرد؟
میں سمجھتا ہوں کہ ہر ٹھیٹ، مدبر اور حقپرست متشکک اس سوال کے کموبیش جواب سے ضرور واقف ہو گا۔ ممکن ہے کہ اس کی صورتیں سب کے ہاں جدا جدا ہوں مگر سب بالغنظر لوگ جانتے ہیں کہ تشکیک کسی نہ کسی طور پر انکار کو امکان کے ساتھ چلانے ہی کا نام ہے۔ آپ محض امکان پر توجہ مرکوز کر کے اپنی نفسیات کو یہ اجازت نہیں دینا چاہیں گے کہ وہ اس امکان کو آرزو کی قوت سے آپ کے سامنے متشکل کر دے۔ مگر آپ یہ بھی یقیناً نہیں چاہیں گے کہ آرزو کی یہی قوت انکارِ محض کی آلۂِ کار بن کر کسی جیتی جاگتی حقیقت کو بھی آپ کی نگاہ سے پوشیدہ کر دے۔ آپ کو اسی صحتمند اور بامقصد تشکیک کے ساتھ آگے بڑھنا ہے جس کے سہارے آپ موجودہ سوال تک پہنچے ہیں۔ ورنہ کیا برا تھا کہ آپ ایک عام آدمی ہی رہتے۔ سفر کی تاب نہ ہو تو اختیار کرنا چہ ضرور؟
نفرت سے خبردار محبت سے خبردار
اوڑھے ہوئے آئیں گی لبادہ دلِ سادہ
تو صاحبو، غور کرنا چاہیے ہم میں سے ہر ایک متشکک کو اس سوال پر اور احتیاط کے ساتھ آواز دینی چاہیے اس خدا کو جس نے خود کو ممکنہ طور پر ہماری نگاہ سے پوشیدہ کر رکھا ہے اور ہوشیار رہنا چاہیے اس مغالطے سے کہ ہم اپنے کسی واہمے یا تعصب کو خدا کا جواب یا عدمجواب سمجھ بیٹھیں۔ اگر تشکیک کی یہ اگلی منزل واقعی منزل ہے تو خدا ایک ہوشمند، دیانتدار اور حقجُو نفس کی اس دستک پر اپنا دروازہ ضرور کھول دے گا۔
پس میں تم سے کہتا ہوں مانگو تو تمھیں دیا جائے گا۔ ڈھونڈو تو پاؤ گے۔ دروازہ کھٹکھٹاؤ تو تمھارے واسطے کھولا جائے گا۔ کیونکہ جو کوئی مانگتا ہے اسے ملتا ہے اور جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے اور جو کھٹکھٹاتا ہے اس کے واسطے کھولا جائے گا۔
(لوقا کی انجیل – باب 11 – آیات 9، 10)
وَالَّـذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّـهُـمْ سُبُلَنَا ۚ وَاِنَّ اللّـٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ
(قرآن – العنکبوت – آیت 69)
اور جنھوں نے محنت کی ہمارے واسطے، ہم سُجھا دیں گے ان کو اپنی راہیں۔ اور بےشک اللہ ساتھ ہے نیکی والوں کے۔