میں نے کوئی شخص ایسا نہیں دیکھا جس نے گالی دی ہو اور پھر کھائی نہ ہو۔ معلوم ہوا کہ فکر اپنی نہیں، دوسروں کی عزت کی کرنی چاہیے۔
کیفیات
راحیلؔ فاروق
فہرست
انسان کو اپنا اختیار تب معلوم ہوتا ہے جب وہ اپنے اندر جھانکتا ہے۔اور بےاختیاری تب معلوم ہوتی ہے جب باہر دیکھتا ہے۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 10 جون 2022ء
- ربط
پرانی بات ہے۔ ہمارے ہاں ایک خاتون نے لڑکیوں کو انگریزی بول چال سکھانے کا سلسلہ شروع کیا۔ کسی نکتے پر بات ہوئی تو میں نے ان سے کہا کہ یہ تو آپ نے اپنی طالبات کو غلط بتایا ہے۔ بولیں، مجھے پتا نہیں تھا۔ میں نے کہا، تو آپ کو کہہ دینا چاہیے تھا کہ مجھے نہیں معلوم۔ پتا کر کے بتاؤں گی۔
وہ کچھ حیران ہوئیں، کچھ خفا۔ کہنے لگیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں استاد ہوں۔
بعض اوقات ہمیں یہ وہم ہو جاتا ہے کہ دوسرے ہمیں بہت عالم سمجھتے ہیں۔ لہٰذا ہر بات کا جواب ہم خواہ مخواہ خود پر فرض کر لیتے ہیں۔ یہاں تک تو پھر بھی ٹھیک ہے۔ قہر تب ہوتا ہے جب دوسروں کو بالکل گدھا بھی سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ سادہ سی حقیقت بعض لوگوں کی سمجھ میں عمر بھر نہیں آتی کہ کوئی بشر عالمِ مطلق ہو سکتا ہے نہ جاہلِ مطلق۔ کسی کے پاس مکمل علم نہیں اور ہر کسی کے پاس تھوڑا بہت علم ہے۔ غالباً اسی لیے باری تعالیٰ نے ہمیں جو دعا سکھائی ہے وہ یہ ہے کہ اے میرے پروردگار، میرے علم میں اضافہ فرما۔ یہ نہیں کہ مجھے علم عطا فرما۔
اب اساتذہ شکوہ کرتے ہیں کہ انٹرنیٹ نے طلبہ کو بگاڑ دیا ہے۔ کہیں چوک جائیں تو فوراً فون نکال کر منہ پر مارتے ہیں کہ آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ یہ رویہ بےشک نہایت غلط بلکہ گستاخانہ ہے۔ طلبہ کو ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ مگر میں خود استاد ہونے کے ناتے کہتا ہوں کہ اساتذہ اپنی جگہ بہت بڑے مجرم ہیں۔ وہ اپنے تئیں عالمِ کل سمجھتے ہیں اور شاگردوں کو ایک دم کاٹھ کے الو۔ یہ کوئی جرم نہیں کہ استاد کو کسی بات کا پتا نہ ہو۔ مگر یہ سخت جرم ہے کہ وہ پتا نہ ہونے کے باوجود اینڈی بینڈی باتیں کر کے طلبہ کو گمراہ کرے۔
اللہ میرے بزرگوں پر کروڑوں رحمتیں نازل کرے۔ والدِ مرحوم کہا کرتے تھے کہ گنواروں کا بچہ بھی کوئی صحیح بات کرے تو اسے تسلیم کرو۔ اور صرف کہتے نہیں تھے، اس اصول پر سختی سے کاربند بھی تھے۔ میرے محسن، میرے استاد، حاجی رب نواز صاحب مد ظلہٗ ہمیں میٹرک میں پڑھاتے تھے۔ بارہا ایسا ہوا کہ کسی سوال کے جواب میں فرمایا، مجھے علم نہیں۔ کل بتاؤں گا۔ پھر اگلے روز پڑھ کر، کھنگال کر، چھان پھٹک کر آئے اور بتایا۔ خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را!
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 7 جون 2022ء
- ربط
یا آدمی شراب نہ پیے یا عدمؔ کے سے شعر بھی کہے!
میں مے کدے کی راہ سے ہو کر نکل گیا
ورنہ سفر حیات کا کافی طویل تھا
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 6 جون 2022ء
- ربط
یوٹیوب پر چینل خریدنے اور بیچنے کا چلن عام ہے۔ سمجھ دار لوگ تو لہجہ جیسا چینل خریدنے کی خواہش نہیں کر سکتے مگر آخر دنیا میں بھولے بھالے بھی پائے جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک آدمی نے بولی لگائی تو ہم نے کہا، "خرید کر کیا کریں گے آپ؟ ویسے چلا سکیں گے جیسے ہم چلا رہے ہیں؟ کیا لگتا ہے آپ کو کہ صرف لہجہ نام ہونے کی وجہ سے لوگ آپ کی وڈیوز میں دلچسپی لیتے رہیں گے؟"
بھولے آدمی کی سمجھ میں بات آ گئی۔
یہی حال ڈاڑھی، ٹوپی، نماز، روزہ وغیرہ کا ہے۔ بہت سے لوگ خیال کرتے ہیں کہ پارسائی کے یہ لوازمات پورے کر کے وہ جو چاہے کرتے پھریں، دین دار کہلائیں گے۔ یہ نہیں جانتے کہ نماز پڑھ کر جھوٹ بولنے سے جھوٹ پر اعتبار نہیں آتا۔ نماز کا اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ ڈاڑھی رکھ کر ظلم کرنے سے ظلم عدل نہیں ہو جاتا۔ ڈاڑھی ظلم کی علامت بن جاتی ہے۔
جاننا چاہیے کہ دین پر کسی اعتراض کی وجہ خود دین نہیں۔ ہر انگلی دین داروں کی وجہ سے اٹھائی جاتی ہے۔ اور وہ ایسے فرض شناس ہیں کہ اسے کاٹ ڈالنے کو دین کی حفاظت سمجھتے ہیں۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 30 مئی 2022ء
- ربط
سراغِ یار میپرسم بہر کس میرسم اما
بخود آہستہ میگویم خدایا بیخبر باشد- وحید قزوینی
جس تک پہنچتا ہوں اس سے محبوب کا پتا پوچھتا ہوں۔ لیکن خود سے چپکے چپکے کہتا ہوں کہ اللہ، اسے پتا نہ ہو۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 30 مئی 2022ء
- ربط
میرے ایک دوست تحریکِ انصاف کے زبردست حامی ہیں۔ یعنی باقاعدہ جاں نثار۔ بازار میں دکان کرتے ہیں۔ کچھ دن پہلے میں نے ان سے پوچھا، "آپ دکان داروں سے واقف ہیں۔ سو میں سے کتنے لوگ ہوں گے جو ناجائز منافع نہیں لیتے؟ گاہک سے دھوکا نہیں کرتے؟"
ان کا جواب میری توقع سے زیادہ سخت تھا۔ کہنے لگے، "ایک بھی نہیں۔ ہزار میں کوئی ہو تو ہو۔"
میں نے پوچھا، "ان لوگوں کے ساتھ نیا پاکستان بنا کر آپ کیا کریں گے؟"
ہنس پڑے۔
صاحبو، ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر بھی بس ہنس پڑا کرو۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 24 مئی 2022ء
- ربط
ہمارے بچپن میں فلمیں دیکھنا اچھے لوگوں کا مشغلہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب سماجی واسطوں (social media) پر کئی کئی گھنٹے ضائع کر دینے کی نسبت روزانہ ایک فلم دیکھ لینا کہیں زیادہ مفید سرگرمی معلوم ہوتا ہے۔ انقلابات ہیں زمانے کے!
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 22 مئی 2022ء
- ربط
حسنِ ظن کا یہ عالم ہے کہ اچھی اردو بولنے والے کو پاکستانی ہندوستانی سمجھتے ہیں اور ہندوستانی پاکستانی!
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 20 مئی 2022ء
- ربط
سسی پنوں ہمارے خطے کی ایک معروف رومانوی داستان ہے۔ سسی کا تعلق بھنبھور (سندھ) سے تھا۔ میر پنوں خان کیچ (مکران، بلوچستان) کا شہزادہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ پنوں کی تلاش میں سسی صحراؤں کی خاک چھانتے چھانتے مر گئی تھی۔ اس کی قبر کا خیالی نقشہ جھنگ کے ایک شاعر نے کھینچا ہے اور دیکھیے کہ کس خوبی سے محبوب کی گلیوں کو جنت کے برابر ثابت کر دیا ہے۔
بیٹھی قبر دے وچ بہاریاں دیوے نکیرین تھئے حیران اے
گستاخ میت تیکوں کہیں نئیں دسیا کر شرم اے ہور جہان اے
وے میں سمجھیا کیچ دے کوچے ہن اج اپڑ گئیاں مکران اے
ککھ چنڑنن خان دے ویہڑے دے ایہہ ریاض میرا ایمان اے
ترجمہ: نکیرین پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ سسی قبر میں بیٹھی جھاڑو دے رہی ہے۔ کہا، اے گستاخ میت! کچھ شرم کر۔ تجھے کسی نے بتایا نہیں کہ یہ دوسرا جہان ہے؟ سسی کہنے لگی، میں سمجھی شاید یہ کیچ کی گلیاں ہیں اور میں مکران پہنچ گئی ہوں۔ اے ریاضؔ (شاعر کا تخلص)، میرے لیے تو پنوں کے صحن سے تنکے چننا ہی ایمان ہے۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 13 مئی 2022ء
- ربط
بچوں کی معصومیت، نوجوانوں کے تقویٰ اور بوڑھوں کے زہد پر یقین کیا جا سکتا ہے مگر ادھیڑ عمروں کی پارسائی سے ہوشیار رہنا چاہیے۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 10 مئی 2022ء
- ربط
جس کسی کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا اسے زندگی میں کسی نہ کسی پہلو سے سخت مجبور پایا ہے۔ کچھ نہ کچھ ضرور ایسا ہے کہ وہ اس کے لیے جس قدر محنت کرتا ہے، تدبیریں لڑاتا ہے، دعائیں اور دوائیں کرتا ہے، سب اکارت جاتا ہے۔ قدرت اس کے ہر حیلے کا توڑ کر کے اسے ایسے بےبس کر دیتی ہے جیسے کسی سورما کی مٹھی میں کوئی چوزہ ہوتا ہے۔
لیکن تعجب ہے کہ پھر بھی ہم کسی اور کو بےبس پاتے ہیں تو بڑی دیدہ دلیری اور دریدہ دہنی سے کہتے ہیں کہ محنت کرو۔ زور لگاؤ۔ ذہن لڑاؤ۔ کوشش کرو۔ کہتے بھی کہاں ہیں، باقاعدہ دق کرتے ہیں۔ برا بھلا کہتے ہیں۔ الزام لگاتے ہیں۔ اذیت دیتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ کوئی شخص اولاد سے، صحت سے، رزق سے، عزت سے، عقل سے، عادت سے، کسی شے سے مجبور ہو تو اس غریب پر جبر کرنا گویا زنجیر سے بندھے ہوئے آدمی کو مارنا ہے کہ وہ چلتا پھرتا کیوں نہیں۔ ایسے وقت میں ہمیں اپنے حال پر نگاہ کرنی چاہیے، عبرت پکڑنی چاہیے اور خدا سے مغفرت کا طالب ہونا چاہیے۔ مجبور کو مجبور پر ظلم کرنا زیبا نہیں اگر وہ شعور رکھتا ہو۔ بےشک اختیار اور قدرت سب خدا ہی کو ہے۔ ہم کچھ بھی طاقت نہیں رکھتے مگر وہ جو وہ ہمیں بخش دے۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 30 اپریل 2022ء
- ربط
راحیلؔ فاروق
پنجاب (پاکستان) سے تعلق رکھنے والے اردو ادیب۔
کیفیات
چھوٹی چھوٹی باتیں۔ جذبات، کیفیات، احساسات اور خیالات۔ سماجی واسطوں پر دیے جانے والے سٹیٹس (status) کی طرح!
آپ کے لیے
سیاست سے کسی قدر دلچسپی عمران خان کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ اس شخص کے خلوص اور دیانت کا خیال اب بھی دل میں قائم ہے مگر سوچتا ہوں کہ سیاست کم از کم ہمارے ملک میں شرفا کا کام نہیں۔ ماؤں بہنوں اور بہو بیٹیوں تک کی عزت داؤ پر لگوانے کا یارا ہو تو آدمی انتخاب لڑے۔ کمینوں کے ساتھ کمینہ اور سفلوں کے ساتھ سفلہ ہو جانے کا ذوق پایا ہو تو پارلیمان میں آئے۔ اپنی اور دوسروں کی آبرو پانی کر سکے تو تقریریں اور جلسے کرے۔ مکاری اور چالبازی میں یدِ طولیٰ رکھے تو کرسی پر بیٹھے۔ اور بےشک عمران خان نے یہ سب کیا ہے۔
مشہور قصہ ہے کہ غالبؔ نوکری کے لیے انگریز افسر کے ہاں گئے تھے۔ جب وہ ان کے نوکر ہونے کے خیال سے استقبال کو نہ آیا تو یہ کہہ کر پلٹ آئے کہ گورنمنٹ کی ملازمت باعثِ زیادتئ اعزاز سمجھتا ہوں نہ یہ کہ بزرگوں کے اعزاز کو بھی گنوا بیٹھوں۔
میں ہرگز نہیں کہتا کہ ایسے غیرت مند اور وضع دار جی صرف اگلے وقتوں میں پائے جاتے تھے۔ شریف النفس اور کریم الطبع لوگ ہر زمانے میں ہوتے ہیں۔ آج بھی ہیں۔ بس سیاست نہیں کرتے۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 9 اپریل 2022ء
- ربط
پاکستان میں ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے لیے کم از کم عمر 18 سال ہے۔ یہ ریاستِ پاکستان کا قانون ہے۔
ریاست کچھ تعلیمی ادارے بھی چلاتی ہے۔ تقریباً ہر سرکاری سکول میں طلبہ کی موٹر سائیکلوں کے لیے جگہ مختص کی جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان اداروں میں پڑھنے والے بچوں کی عمر الا ماشاءاللہ سولہ سترہ برس سے زیادہ نہیں ہوتی۔
میں کچھ دن سے سوچ رہا ہوں کہ ریاست آخر چاہتی کیا ہے؟ بچے موٹر سائیکل چلائیں یا نہ چلائیں؟
طلبہ قانون کی دھجیاں اڑا کر سکول پہنچتے ہیں۔ ریاست انھیں تعلیم سے پہلے پارکنگ فراہم کرتی ہے۔ پھر سرکاری استاد انھیں مفید شہری وغیرہ بنانے کے لیے اچھی اچھی باتیں پڑھاتے ہیں۔ بچے دوبارہ موٹر سائیکل اٹھاتے ہیں اور ایک پہیے پر چلاتے ہوئے ہوا ہو جاتے ہیں۔ انھیں عام طور پر ٹریفک پولیس کے اہلکار بھی نہیں روکتے۔ ہاں، جب یہ میری آپ کی عمر کو پہنچ جائیں تو کبھی کبھی لائسنس نہ ہونے پر ان کا چالان ہو جاتا ہے۔ خیر، وہ تو ہونے پر بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن کیا آپ کچھ سمجھ پائے ہیں کہ ریاست دراصل چاہتی کیا ہے؟
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 4 نومبر 2022ء
- ربط
دروازے کو کسی نے ایسے دھڑدھڑایا جیسے اندر گھسنے کی کوشش کر رہا ہو۔ میں باہر گیا تو ایک آدمی تھا۔
چوکیداری کے پیسے لینے ہیں۔
کس چیز کی چوکیداری، بھائی؟
جو آپ گاڑی کھڑی کرتے ہیں۔
وہ تو اب ہم وہاں کھڑی نہیں کرتے۔
اچھا، بتانا تو تھا۔
میں نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا۔
گاڑی کا پتا ہی نہیں ہے تو چوکیداری کس چیز کی کرتے ہو؟
اب آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی باری اس کی تھی۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 5 ستمبر 2023ء
- ربط
پراپیگنڈا بڑی دلچسپ چیز ہے۔ ایڈورڈ برنیز اس کا باپ سمجھا جاتا ہے۔ ایک سو سال پہلے خواتین کو تمباکو بیچنے کے لیے اس نے امریکہ میں سگریٹ پیتی ہوئی دوشیزاؤں کے جلوس نکالے اور بڑے لطیف پیرائے میں یہ پیغام دیا کہ تمباکو نوشی عورتوں کے لیے آزادی اور خود مختاری کے مترادف ہے۔ نتیجہ ملاحظہ فرمائیے کہ سات سمندر اور ایک صدی دور آج ہمارے پسماندہ ترین دیہات میں بھی کوئی مُلّا زادہ کسی عورت کو دھواں اڑاتے دیکھ لے تو اسے ضرور بالضرور آوارہ اور بازاری سمجھتا ہے۔ یہ منطق کیسی احمقانہ ہے! لیکن پراپیگنڈا نام ہی حماقت کو منطق بنا دینے کا ہے۔
اب ذرا ادب پر نظر ڈالیے۔ اردو کے اکثر شاعر اور ادیب فی زماننا وہ ہیں جنھیں ایک جملہ قواعد اور املا کی رو سے ٹھیک ٹھیک لکھ دینا بلائے جان ہو جاتا ہے۔ یہ سانحہ شاید کسی اور زبان پر یوں نہیں گزرا۔ کم از کم انگریزی کا تو میں ضامن ہوں۔ قاعدہ یہی ہے کہ آپ پہلے زبان پر عبور حاصل کرتے ہیں اور پھر ادب کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔ مگر اردو میں گنگا الٹی بہتی ہے۔ اور بہتوں کو یہ معقول یا نہایت معقول بھی معلوم ہوتا ہے۔ وجہ؟ یہی کہ حماقت منطق کے سنگھاسن پر پھسکڑا مار کر بیٹھ گئی ہے۔ جو زبان نہیں جانتے وہ بتاتے ہیں کہ ادب زبان کا محتاج نہیں۔ ادبی زبان یوں ہوتی ہے۔ ووں ہوتی ہے۔ ادب اور چیز ہے۔ زبان اور چیز۔ اردو کا یہ مسئلہ ہے۔ وہ مسئلہ ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی ہکلا آپ سے خطابت کے موضوع پر خطاب کر رہا ہو۔ اور یہ تو آپ سمجھتے ہیں کہ مذکورۂ بالا فنِ شریف کا ماہر ہوا تو کر بھی لے گا۔ بلکہ شاید آپ کو اپنی نشست سے کھڑے ہو کر اس کے لیے تالیاں بھی پیٹنی پڑ جائیں!
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 27 اپریل 2022ء
- ربط
کہتے ہیں کہ نیوٹن نے اپنی بلی کی آمد و رفت کے لیے کمرے کے دروازے میں سوراخ کروا دیا تھا تاکہ تجربات کے دوران میں لاڈلی کی خاطر بار بار اٹھنا نہ پڑے۔ کچھ عرصے کے بعد معلوم ہوا کہ بلی ماں بن گئی ہے تو اس نے بلونگڑوں کے لیے بھی ایک چھوٹا سا سوراخ کھدوا دیا۔
عظیم سائنسدان یہ دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا کہ وہ سب کے سب بڑے سوراخ میں سے گزر رہے تھے۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 12 فروری 2022ء
- ربط