پراپیگنڈا بڑی دلچسپ چیز ہے۔ ایڈورڈ برنیز اس کا باپ سمجھا جاتا ہے۔ ایک سو سال پہلے خواتین کو تمباکو بیچنے کے لیے اس نے امریکہ میں سگریٹ پیتی ہوئی دوشیزاؤں کے جلوس نکالے اور بڑے لطیف پیرائے میں یہ پیغام دیا کہ تمباکو نوشی عورتوں کے لیے آزادی اور خود مختاری کے مترادف ہے۔ نتیجہ ملاحظہ فرمائیے کہ سات سمندر اور ایک صدی دور آج ہمارے پسماندہ ترین دیہات میں بھی کوئی مُلّا زادہ کسی عورت کو دھواں اڑاتے دیکھ لے تو اسے ضرور بالضرور آوارہ اور بازاری سمجھتا ہے۔ یہ منطق کیسی احمقانہ ہے! لیکن پراپیگنڈا نام ہی حماقت کو منطق بنا دینے کا ہے۔
اب ذرا ادب پر نظر ڈالیے۔ اردو کے اکثر شاعر اور ادیب فی زماننا وہ ہیں جنھیں ایک جملہ قواعد اور املا کی رو سے ٹھیک ٹھیک لکھ دینا بلائے جان ہو جاتا ہے۔ یہ سانحہ شاید کسی اور زبان پر یوں نہیں گزرا۔ کم از کم انگریزی کا تو میں ضامن ہوں۔ قاعدہ یہی ہے کہ آپ پہلے زبان پر عبور حاصل کرتے ہیں اور پھر ادب کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔ مگر اردو میں گنگا الٹی بہتی ہے۔ اور بہتوں کو یہ معقول یا نہایت معقول بھی معلوم ہوتا ہے۔ وجہ؟ یہی کہ حماقت منطق کے سنگھاسن پر پھسکڑا مار کر بیٹھ گئی ہے۔ جو زبان نہیں جانتے وہ بتاتے ہیں کہ ادب زبان کا محتاج نہیں۔ ادبی زبان یوں ہوتی ہے۔ ووں ہوتی ہے۔ ادب اور چیز ہے۔ زبان اور چیز۔ اردو کا یہ مسئلہ ہے۔ وہ مسئلہ ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی ہکلا آپ سے خطابت کے موضوع پر خطاب کر رہا ہو۔ اور یہ تو آپ سمجھتے ہیں کہ مذکورۂ بالا فنِ شریف کا ماہر ہوا تو کر بھی لے گا۔ بلکہ شاید آپ کو اپنی نشست سے کھڑے ہو کر اس کے لیے تالیاں بھی پیٹنی پڑ جائیں!