جس کسی کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا اسے زندگی میں کسی نہ کسی پہلو سے سخت مجبور پایا ہے۔ کچھ نہ کچھ ضرور ایسا ہے کہ وہ اس کے لیے جس قدر محنت کرتا ہے، تدبیریں لڑاتا ہے، دعائیں اور دوائیں کرتا ہے، سب اکارت جاتا ہے۔ قدرت اس کے ہر حیلے کا توڑ کر کے اسے ایسے بےبس کر دیتی ہے جیسے کسی سورما کی مٹھی میں کوئی چوزہ ہوتا ہے۔
لیکن تعجب ہے کہ پھر بھی ہم کسی اور کو بےبس پاتے ہیں تو بڑی دیدہ دلیری اور دریدہ دہنی سے کہتے ہیں کہ محنت کرو۔ زور لگاؤ۔ ذہن لڑاؤ۔ کوشش کرو۔ کہتے بھی کہاں ہیں، باقاعدہ دق کرتے ہیں۔ برا بھلا کہتے ہیں۔ الزام لگاتے ہیں۔ اذیت دیتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ کوئی شخص اولاد سے، صحت سے، رزق سے، عزت سے، عقل سے، عادت سے، کسی شے سے مجبور ہو تو اس غریب پر جبر کرنا گویا زنجیر سے بندھے ہوئے آدمی کو مارنا ہے کہ وہ چلتا پھرتا کیوں نہیں۔ ایسے وقت میں ہمیں اپنے حال پر نگاہ کرنی چاہیے، عبرت پکڑنی چاہیے اور خدا سے مغفرت کا طالب ہونا چاہیے۔ مجبور کو مجبور پر ظلم کرنا زیبا نہیں اگر وہ شعور رکھتا ہو۔ بےشک اختیار اور قدرت سب خدا ہی کو ہے۔ ہم کچھ بھی طاقت نہیں رکھتے مگر وہ جو وہ ہمیں بخش دے۔