اس محرم میں بہت غور و خوض کرنے کے بعد آخر میں نتیجے پر پہنچ گیا ہوں۔۔۔
بات یہ ہے کہ آدمی شیعہ
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
اس محرم میں بہت غور و خوض کرنے کے بعد آخر میں نتیجے پر پہنچ گیا ہوں۔۔۔
بات یہ ہے کہ آدمی شیعہ
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
میرے اقارب میں ایک خاتون اکثر بیمار رہا کرتی تھیں۔ کبھی سر درد کی شکایت تو کبھی کمر دکھنے کی۔ کبھی متلی کا رونا تو کبھی دم گھٹنے کا۔ دوا دارو کی ہر ممکن کوشش کے باوجود آرام نہ آتا تھا۔ ایک دن میں نے ان سے کہا، کوئی گناہ تو آپ کا ایسا ہے جس کی یہ سزا آپ کو مل رہی ہے۔ آپ اپنے معاملات پر غور کریں۔ وہ غلطی تلاش کریں جو آپ کر رہی ہیں یا کر چکی ہیں، توبہ کریں اور اللہ سے اس کی معافی مانگیں۔ شاید نجات ہو جائے۔ مجھے تعجب ہوا کہ خاتون نے اس مشورے کا بہت برا مانا اور سخت احتجاج کیا۔
تاہم اگلی ملاقات میں ان کی طبیعت کافی بہتر تھی۔ اور اس کے بعد آج تک کم از کم میں نے انھیں کبھی بیمار نہیں دیکھا۔
ان دنوں جو بھی کتاب چھپتی ہے اس کے تعارف میں لکھنے والے یہ ضرور لکھتے ہیں کہ ایک ہی نشست میں ختم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ میں حیران ہوں کہ اردو مصنفین پر صحیفے نازل ہونے لگے ہیں یا کتابیں دو دو صفحوں کی چھپ رہی ہیں۔ میں نے سعدی کی گلستان پڑھی ہے۔ ہیسے کا سدھارتھ پڑھا ہے۔ غالب کا دیوان پڑھا ہے۔ خدا کا قرآن پڑھا ہے۔ ایسا تو کبھی نہیں ہوا۔ ہاں، البتہ بچپن میں عمرو عیار اور ٹارزن کی کہانیاں وغیرہ نگل جانے کو جی چاہتا تھا۔ کیونکہ وہ بچپن تھا۔
آپ پچپن میں ایسی باتیں کرتے ہیں۔ حد ہوتی ہے، بھئی!
ادب سے تعلق کو ڈیڑھ دہائی سے اوپر کا عرصہ ہو چلا۔ اس دوران میں قسم قسم کے ہزار ہا لوگوں سے واسطہ رہا ہے۔ ان میں شاعر بھی تھے، ادیب بھی، ادب کے طلبہ بھی، ناقد بھی، اساتذہ بھی، سیدھے سادے پڑھنے والے بھی۔ لیکن عجیب بات ہے کہ جن شخصیات کے ذوق نے مجھے سب سے متاثر کیا ان کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہے۔ وہ خواتین نہیں جو ادب کے منظر نامے پر شاعرہ، ناقدہ یا ادیبہ کی حیثیت سے نمایاں ہیں۔ بلکہ وہ جو خاموش قاری ہیں۔ گھروں میں بیٹھی کتابیں پڑھا کرتی ہیں۔ یا بعض ایسی جو استاد ہیں۔ بچوں کو پڑھاتی ہیں۔ یا پھر خاص طور پر وہ جنھیں رسمی تعلیم کا موقع نہیں ملا اور انھوں نے اس محرومی کی کسر خود پڑھ پڑھ کر نکال دی۔
یہ سچ ہے کہ ان کا مزاج عموماً تحقیقی نہیں ہوتا مگر وجدانی اور ذوقی سطح پر میں نے اکثر خواتین کو مردوں سے بہت بلند پایا ہے۔ عربی، فارسی، پنجابی، اردو اور انگریزی ادبیات میں تبحر کے وہ نظارے دیکھے ہیں کہ یقین نہیں آیا کہ یہ کوئی عورت ہے۔ حافظہ خواتین کا مشہور ہے۔ بلامبالغہ ہزاروں کی تعداد میں برمحل اشعار، اقتباسات اور حکایات مردوں میں آج کل شاید ہی کسی کو مستحضر ہوں مگر یہ خیر سے سوتے میں بھی سنا سکتی ہیں۔ پھر بعض جو شوقیہ شعر کہتی ہیں وہ ایسے سادہ، پراثر اور تر ہیں کہ آدمیوں کے منہ سے نہیں سنے۔ زبان کی باریکیوں سے واقف بےشک کم دیکھی ہیں مگر مطالعۂ ادب اور شعر فہمی میں ایک سے بڑھ کر ایک۔ ارتکاز کی قوت بھی شاید عورتوں کو مردوں سے زیادہ ودیعت ہوئی ہے۔ گہرا مطالعہ اس کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا مرد جہاں محض نظر ڈال کر گزر جاتے ہیں یہ وہاں ڈوب کر رہ جاتی ہیں۔ ایک ایک سطر قلب و روح پر نقش ہوتی جاتی ہے اور پھر تمام عمر اس کا پرتو نظر آتا رہتا ہے۔
اگر آپ ٹی وی، اخبارات اور انٹرنیٹ پر چھائے ہوئے تجزیہ کاروں، دانش وروں، صحافیوں اور ماہرین کے سال بھر کے ارشادات اکٹھے کر کے ان کا تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ یہ سو میں سے ستر اسی باتیں غلط کہتے ہیں۔ نہ ان کے ذرائع باوثوق ہیں، نہ ان کی سمجھ افلاطونی ہے اور نہ ان کی دیانت معتبر ہے۔ اس کے بعد اگر آپ کسی چائے والے کی باتوں پر غور کریں تو شاید آپ کو تعجب ہو کہ دس میں سے چار چھ باتیں اس غریب کی ٹھیک ہی ہوتی ہیں۔
کسی دانشمند نے اربابِ ریاست کو عوام کے بارے میں مشورہ دیا تھا کہ تم ان سے زیادہ عقلمند نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا اپنی توانائیاں انھیں بے وقوف بنانے پر صرف کرو۔ ریاستیں اس مقصد کے لیے ذرائعِ ابلاغ کا استعمال کرتی آئی ہیں۔ مگر ذرائعِ ابلاغ جب عوام پر قابو پا لیتے ہیں تو پھر ریاست ہی کے نہیں، خود اپنے مفادات کے لیے بھی الو بنانا شروع کر دیتے ہیں۔
ہمارے اردگرد بہت سے لوگ ایسے دیوانے ہو گئے ہیں کہ تین تین چار چار گھنٹے ٹی وی پر بد زبان، کج فہم اور نیم خواندہ لوگوں کے مناظرے دیکھتے رہتے ہیں۔ یا اخبارات میں اور سماجی واسطوں پر جھوٹوں کے کالم اور تجزیے محض اس لیے پڑھا کرتے ہیں کہ سبز باغ دیکھنے کا نشہ پورا ہو سکے۔ ممکن ہے میرا علم ناقص ہو مگر میری نظر سے کوئی ملکی دانشور یا تجزیہ کار ایسا نہیں گزرا جس کی پیشگوئیاں پچاس فیصد بھی سچ نکلی ہوں۔ اور اگر کوئی بطلِ جلیل ایسا ہو بھی تو میں اس پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہوں گا۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے۔ آپ کو ایک حکایت سناتا ہوں۔ آپ سمجھ جائیں گے۔
ایک گنوار سے کسی نے پوچھا، تمھاری گدھی گابھن تھی۔ سناؤ، گدھا ہوا یا گدھی؟ وہ ٹکر ٹکر اسے دیکھنے لگا۔ پوچھنے والے نے کہا، کیا ہوا؟ گنوار بولا، تمھیں کیسے پتا چلا کہ انھی دونوں میں سے ایک ہو گا؟
بینگن مجھے کچھ خاص پسند نہیں۔ اگر آپ کو اچھے لگتے ہیں تو معافی چاہتا ہوں مگر مجھے ان کی مہک بڑی عجیب محسوس ہوتی ہے۔ جب بھی کھاتا ہوں لگتا ہے کہ بارود کھا رہا ہوں۔ دیر تک منہ میں ذائقہ رہتا ہے اور بات کرتے ہوئے بھی دل کانپتا ہے کہ پٹاخا ہی نہ بج جائے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ سالم بینگن غور سے دیکھنے پر ہو بہو دستی بم معلوم ہوتا ہے؟
تھوڑا عرصہ پہلے تک میرا خیال تھا کہ میں بہت بدزبان ہوں۔ اور یہ کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا۔ زبان گویا منہ کی پٹاری میں ایک پھنکارتا ہوا ناگ تھی جو بےقابو ہو کر خود سپیرے کے ہاتھ سے نکل جاتی تھی۔ بڑی دعاؤں اور ریاضتوں کے بعد کمبخت کو کسی قدر رام کرنے میں کامیاب ہوا۔ اب دیکھتا ہوں تو اردگرد عالم ہی اور ہو چلا ہے۔ اچھے خاصے مہذب لوگ جن سے موازنے کر کے میں خود کو شرم دلایا کرتا تھا، روزہ توڑ کر اتنی گندی گندی باتوں پر اتر آئے ہیں کہ مجھے توبہ پر شرم آنے لگی ہے۔ لہٰذا ایک مصرع حسبِ حال لکھتا ہوں۔ تھوڑی سی بدتمیزی بطورِ نمونہ لف ہے۔ معاف کیجیے گا!
میں ہوا کافر تو وہ کنجر مسلماں ہو گیا
ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر طلبہ جن موضوعات سے سب سے زیادہ متنفر ہوتے ہیں ان میں تحقیقی طریقۂ کار سرِ فہرست ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس شخص کو تحقیقی طریقۂ کار سے دلچسپی نہیں وہ محقق ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن قدرت کے کرشمے اور اللہ کی مرضی ہے کہ تقریباً ہر مضمون میں ہمارے علما، اساتذہ اور طلبہ کی اسی نوے فیصد تعداد ان "محققین" پر مشتمل ہے جن کی طبائع تحقیق سے بالکل مناسبت نہیں رکھتیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے جہاز اڑانے کے لیے وہ ہوا باز تعینات کیے جائیں جنھیں اونچائی سے نفرت ہو۔
حق تو یہ ہے کہ اچھے شاعروں کو برداشت کرنا بھی آسان کام نہیں ہوتا۔ برے شاعر تو پھر برے ہیں!
انگریزی تنقید غیر شاعر کو شاعر بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ اور اردو تنقید شاعر کو غیر شاعر بنانے کی!
اکثر لوگ اکثر کام صرف اس لیے کرتے ہیں کہ اکثر لوگ کرتے ہیں۔
پنجاب (پاکستان) سے تعلق رکھنے والے اردو ادیب۔
چھوٹی چھوٹی باتیں۔ جذبات، کیفیات، احساسات اور خیالات۔ سماجی واسطوں پر دیے جانے والے سٹیٹس (status) کی طرح!
سیاست پر اظہارِ خیال بیکار ہے۔ بڑے بڑے تجزیوں اور پیشگوئیوں کے مقابل ہمیں آج بھی یہی لگتا ہے کہ عوام بدعنوان موروثی سیاست دانوں کو کبھی دوبارہ موقع نہیں دینے کے۔ ہر چہ بادا باد!
قُلْ لَّآ اَجِدُ فِىْ مَآ اُوْحِىَ اِلَىَّ مُحَرَّمًا عَلٰى طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٝٓ اِلَّآ اَنْ يَّكُـوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْـمَ خِنزِيْرٍ فَاِنَّهٝ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْـرِ اللّـٰهِ بِهٖ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْـرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ (انعام: 145)
کہہ دو کہ میں اس وحی میں جو مجھے پہنچی ہے کسی چیز کو کھانے والے پر حرام نہیں پاتا جو اسے کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون یا سور کا گوشت کہ وہ ناپاک ہے یا وہ ناجائز ذبیحہ جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے، پھر جو بھوک سے بے اختیار ہوجائے ایسی حالت میں کہ نہ بغاوت کرنے والا اور نہ حد سے گزرنے والا ہو تو تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔
حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کہی ہوئی بات کو کہتے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبرِ پاکؐ کو حکم دیا ہے کہ وہ کہیں کہ ان تک جو وحی پہنچی ہے اس کی رو سے مردار، خون، سؤر یا غیر اللہ کے ذبیحے کے سوا کوئی شے کھانے والوں پر حرام نہیں۔ الخ۔ مگر کتنی دلچسپ بات ہے کہ احادیث کے کسی مجموعے میں اس مضمون کی ایک بھی حدیث نہیں ملتی!
گویا احادیث کی رو سے کوئی ثبوت نہیں کہ رسولِ مصطفیٰؐ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر عمل کیا ہو۔ نعوذ باللہ، معاذ اللہ۔ الٹا جو روایات حلت و حرمت پر ملتی ہیں وہ اللہ کے دیے ہوئے اس حکم کے یکسر خلاف ہیں۔ ثم معاذ اللہ!
اللہ عزوجل نے قرآنِ مجید میں بالتصریح فرمایا ہے کہ رحمت اللعالمینؐ اپنی خواہش یا مرضی سے کچھ نہیں کہتے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اللہ ایک بات کہنے کا حکم دے اور وہ ہمارے نبیؐ کبھی کسی سے نہ کہیں اور جس بات کا اشارہ تک قرآن میں نہ ملے اس پر تواتر سے احادیث مل جائیں؟
فتنہ کی ایک شکل یہ ہے کہ موچی زخم سینے شروع کر دے، لوہار سونا کوٹنے لگے، کمھار استاد بن جائے، بنیا فلسفی ہو جائے۔۔۔
نظامِ قدرت و معاشرت ہر کسے را بہرِ کارے ساختند کے اصول پر قائم ہے۔ موسیقار کا کام ٹھٹھیرا نہیں کر سکتا اور بڑھئی نائی کی جگہ نہیں لے سکتا۔ دنیا کی عظیم ترین حکمتیں چھوٹی چھوٹی حکایات میں رکھ دی گئی ہیں۔ اس قسم کی ایک حکایت ہم نے بچپن میں پڑھی تھی۔ سبق کچھ یوں تھا:
جس کا کام اسی کو ساجے
اور کرے تو ٹھینگا باجے
اب دیکھتے ہیں تو انٹرنیٹ اور سماجی واسطوں کی دنیا میں ہر طرف ٹھینگا باج رہا ہے۔ فضائی حادثوں پر درزی اظہارِ خیال کر رہے ہیں اور سیاست کے رموز دندان سازوں کے ہاں زیرِ بحث ہیں۔ صحافی ادب میں نام پیدا کرنے کے متمنی ہیں اور عالمی جنگیں حکیموں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ حاصل یہ کہ کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا۔
انسان ہونے اور اسی معاشرے کا فرد ہونے کے ناتے یہ غلطی مجھ سے بھی بہت بار ہوئی ہے۔ مگر پے در پے منہ کی کھانے کے بعد اب معلوم ہوتا ہے کہ ہر موضوع پر چونچ کھولنا کچھ ایسا فرض نہ تھا۔ بلکہ شاید اکثر معاملات میں نہ کھولنا فرض تھا۔ اپنی اوقات پہچان لینے ہی میں عافیت ہے۔ کسی دل جلے کا شعر ہے:
تم شہر میں رہنا کہ مضافات میں رہنا
اوقات بڑی چیز ہے اوقات میں رہنا
سب مجرم کے درپے ہیں۔ حیرت ہے کہ قانون بھی اس کے والدین سے نہیں پوچھنا چاہتا کہ بزرگو، خدا نے آپ کو ایک موم کا گڈا دیا تھا۔ آپ نے اسے سنگین درندہ کیسے اور کیوں بنا دیا؟
ہماری رائے میں ہر مجرم کے والدین کو کم از کم برابر کی سزا ہونی چاہیے۔ وہ دراصل جرم کے ماں باپ ہیں۔
ہر انسان محبت کے لائق ہے۔ غور سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک شانِ محبوبی ہر جان کو ایسی عطا ہوئی ہے کہ کسی کو نہیں ملی۔ مگر دنیا کا امتحان یہی ہے کہ ہر انسان سے محبت کرنے کی طاقت کسی انسان کو نہیں دی گئی۔
اردو گاہ کے مندرجات لفظاً یا معناً اکثر کتب، جرائد، مقالات اور مضامین وغیرہ میں بلاحوالہ نقل کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ کسی مراسلے کی اصلیت و اولیت کی بابت تردد کا شکار ہیں تو براہِ کرم اس کی تاریخِ اشاعت ملاحظہ فرمائیے۔ توثیق کے لیے web.archive.org سے بھی رجوع لایا جا سکتا ہے۔