ہمارے بچپن میں فلمیں دیکھنا اچھے لوگوں کا مشغلہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب سماجی واسطوں (social media) پر کئی کئی گھنٹے ضائع کر دینے کی نسبت روزانہ ایک فلم دیکھ لینا کہیں زیادہ مفید سرگرمی معلوم ہوتا ہے۔ انقلابات ہیں زمانے کے!
کچھ عرصے سے بدلہ لینا مجھے گھاٹے کا سودا معلوم ہونے لگا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے دیکھا ہے کہ دنیا میں انصاف کا ایک زبردست نظام کام کر رہا ہے۔ آپ جو کرتے ہیں، ایک وقت پر ضرور بالضرور آپ کے سامنے آ جاتا ہے۔ باری تعالیٰ کا ایک نام منتقم ہے۔ یعنی انتقام لینے والا۔ دراصل آدمی اس وقت انتقام پر کمربستہ ہوتا ہے جب اسے لگتا ہے کہ ظالم کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ اس نے بدلہ نہ لیا تو زیادتی کی تلافی نہ ہو سکے گی۔ حالانکہ یہ محض نظر کا دھوکا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم سب ایک زبردست، جابر و قاہر اور علیم و خبیر شہنشہاہ کی سلطنت کی رعایا ہیں۔ وہ شہنشاہ جس کا دعویٖ ہے کہ وہ سب جانتا ہے۔ ظلم کو پسند نہیں کرتا۔ کچھ بھولتا نہیں۔ زبردست انتقام لینے والا ہے۔ اور پھر محض دعویٰ بھی نہیں۔ آدمی دیکھتا ہے کہ تماشا ہر وقت لگا ہوا ہے۔ دھوکا دینے والا نفع نہیں اٹھا رہا مگر تھوڑا۔ ظالم کی رسی نہیں ہے مگر چھوٹی۔ جاہل کی عاقبت کچھ نہیں مگر نقصان۔ اس کے بعد بھی کسی کے دل سے انتقام کا جذبہ فرو نہ ہو تو وہ محض جلد باز ہے۔
عقل کا تقاضا نہ صرف یہ ہے کہ انتقام کو خدا پر چھوڑ دیا جائے بلکہ یہ بھی ہے کہ اپنے آپ کو بھی اس سے بچانے کی کوشش کی جائے۔ اور یہ دوسری بات پہلی سے زیادہ ضروری ہے۔
لَا يُسْاَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُـمْ يُسْاَلُوْنَ (انبیا - 23)
جو کچھ وہ کرتا ہے اس کی پوچھ گچھ نہیں ہوتی اور ان (لوگوں) سے پوچھ گچھ ہوتی ہے۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 25 نومبر 2022ء
- ربط