یہ آٹھ برس کی بچی۔۔ معصوم سی بھولی بھالی سی کتنی پیاری باتیں کرتی ہے۔ ابھی تک زبان میں طوطلاہٹ ہے۔ بال سلیقے سے جُوڑے میں بندھے ہوے، سرخ رنگ کی فراک جس پر آر کا باریک کام اور ہیروں کی طرح چمکتے ہوے موتی جڑے ہیں۔ جب چلتی ہے تو جھٹکے سے ٹانگیں موڑے بغیر آگے کو قدرے جھک کر تقریباً بھاگتے ہوے چلتی ہے۔ شاید پولیو نے اس کی ٹانگوں میں کوئی نقص ڈال دیا ہے۔ اس کی طرف اٹھنے والی نظروں میں پیار کی بجائے ہمدردی جھلکنے لگتی ہے۔۔
میں منہ پھیر کر ایک جوگی کا روپ دھار لیتا ہوں۔ پیار سے اس معذور بچی کے سر پر ہاتھ پھیرتا ہوں میرا ہاتھ یدِ بیضا بن کر لمحہ بھر کو روشن ہوتا ہے اور وہ بچی دیکھتے ہی دیکھتے ٹھیک ہو جاتی ہے ۔۔ یہ خبر تھوڑی دیر میں ہی ساری بستی میں پھیل جاتی ہے۔
اس چھوٹی سی بستی میں درجن بھر بچے اسی مرض میں مبتلا تھے ان کے والدین دوڑے ہوے آن حاضر ہوے۔ ہر کوئی دکھشنا دینا چاہتا ہے ناریاں جوگی کے پاؤں دھو کر پی رہی ہیں لوگ پھولوں کی مالائیں لا رہے ہیں۔ لاعلاج مریض شفا پا رہے ہیں۔ میں منہ پھیرتا ہوں اور شہری بابو کا روپ دھار کر بھیڑ میں گم ہو جاتا ہوں۔ مڑ کر نہیں دیکھتا کہ وہ بچی میرا شکریہ ادا کر رہی ہے یا نہیں۔
ایک ہوٹل میں چائے پیتا ہوں ٹی وی پر کرکٹ کا میچ دکھایا جا رہا ہے۔۔ پاکستان کے بیٹس مین یکے بعد دیگرے آؤٹ ہو رہے ہیں ساتویں نمبر پر مجھے خود پیڈ کرنے پڑے اب میدان میں پہنچا اور وہ دھواں دار بیٹنگ کی کہ میچ کا پانسا پلٹ دیا۔ وننگ شارٹ کھیلتے ہی میں میدان سے نکل بھاگا اور پھر سے شہری بابو کے روپ میں ہوٹل سے باہر نکلا۔
سگریٹ سلگانے کو ایک دکان پر رکا۔ دکاندار سے حال احوال اور کاروبار کا پوچھا تو اس نے کہا کاروبار کا کیا پوچھتے ہو۔۔ سب ختم ہے۔۔ میگا سٹورز نے چھوٹے کاروباروں کو ہڑپ کر لیا ہے۔ ہر ماہ بیس پچیس ہزار کا نقصان اٹھا رہا ہوں۔ احمقِ اعظم نے تو غریب کے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی ہے۔
میں گہرا کش لیتا ہوں رخ بدلتا ہوں اور خود کو لمبی سی گاڑی میں موجود پاتا ہوں۔ میرے دائیں طرف بھرے ہوے کندھوں والا فوجی افسر مؤدب بیٹھا ہے جس کے ہاتھ میں ڈائری اور قلم ہے اور وہ میری طرف کان لگائے احکامات لکھنے کیلئے مستعد بیٹھا ہے۔ میں نے بڑی لاپرواہی سے اسے کہا یہ میگا سٹورز والوں نے غریب دکانداروں کی زنگی اجیرن کر رکھی ہے۔ ان کا تدارک ضروری ہو گیا ہے۔ حکم جاری کریں کہ چھوٹے دکانداروں کو بھی اسی قیمت پر سامان ملے جس پر میگا سٹورز والوں کو ملتا ہے۔ اگلے ہی لمحے کریانے والے میرے نام کے نعرے لگا رہے ہیں اور میگا سٹورز والوں نے ہڑتال کر رکھی ہے۔ فیکٹریوں کی پیداوار دو گنا اور تعداد دس گنا ہو چکی ہے۔ قرضے اتر چکے ہیں اور ڈالر ایک روپے کا ہو چکا ہے۔
میں گاڑی سے اترتے ہی سیاح کا روپ دھار لیتا ہوں اور اسی بستی میں جا نکلتا ہوں۔ ایک دوست کے گھر پہنچتا ہوں وہ مجھے پہچان کر گھر کے اندر لے جاتا ہے۔ گھر میں نیا نیا رنگ روغن ہوا ہے سلائی کڑھائی کو محلے والیاں بیٹھی ہیں۔ لڑکیاں ڈھولک کی تھاپ پر شادی کے گیت گا رہی ہیں۔ میں ان کے ساتھ مہندی کا گیت گاتا ہوں۔ لڑکیاں میری آواز سے مسحور ہو جاتی ہیں۔ میرا دوست مجھے مردانے میں لے آتا ہے جہاں وہ چائے پیش کرتے ہوے شادی پر اٹھنے والے اخراجات کا رونا روتا ہے اور قرض کی تفصیلات بتاتا ہے۔ میں بڑے بڑے نوٹوں کی چار گڈیاں اسے پکڑا دیتا ہوں۔ اب اس کی بیوی اس کی بیٹیاں جو کھڑکی سے یہ منظر دیکھ لیتی ہیں سچ مچ آنسو بہانے لگتی ہیں۔ میری آنکھوں میں بھی آنسو آجاتے ہیں۔ میں کچھ کہے بنا دروازے سے باہر نکل جاتا ہوں اور نکلتے ہی میرا روپ بدل جاتا ہے اور میں جوگی بن جاتا ہوں، میرا دوست مجھے آوازیں دیتا ہوا میرے پیچھے بھاگتا ہے لیکن میرے بدلے ہوے حلیے سے مجھے جوگی سمجھتا ہے اور اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ جاتا ہے۔ چاروں طرف مجھے ڈھونڈتا ہے اور میں جوگیوں کی سی لاپرواہی سے اسے دیکھتا ہوا اس کے پاس سے گزر جاتا ہوں۔
لیکن اسی لمحے سامنے آتی ہوئی ایک آٹھ نو برس کی بچی مجھ سے ٹکرا جاتی ہے اور گرتے گرتے بچتی ہے
بال سلیقے سے جوڑے میں بندھے ہوے، سرخ رنگ کا فراک جس پر آر کا باریک کام اور ہیروں کی طرح چمکتے ہوے موتی جڑے ہیں۔ جب چلتی ہے تو جھٹکے سے ٹانگیں موڑے بغیر آگے کو قدرے جھک کر تقریباً بھاگتے ہوے چلتی ہے۔ شاید پولیو نے اس کی ٹانگوں میں کوئی نقص ڈال دیا ہے۔
اس سے پہلے کہ میرا ہاتھ یدِ بیضا میں بدلتا، اس نے طوطلی زبان میں مجھ سے کہا "انتل آپ تو نظر نہیں آتا”؟
(انکل ! آپ کو نظر نہیں آتا؟)
اور یوں ہی آگے کو جھکی ہوئی پاؤں پٹختی ہوئی اپنے باپ کے پاس بھاگ گئی۔