وہ لاکھ بتاتا ہے جتاتا ہے کہ میں ہوں
میری تو سمجھ میں یہی آتا ہے کہ میں ہوں
کہنے کو تو وہ مجھ کو دکھاتا ہے کہ میں ہوں
جلووں کا ہر آئینہ بتاتا ہے کہ میں ہوں
اللہ ری یہ مستئِ پندار کہ یوں بھی
اپنے کو کوئی یاد دلاتا ہے کہ میں ہوں
ایسا ہے کہ عاشق کا وجود آپ عدم ہے
ہوتا بھی اگر ہے تو چھپاتا ہے کہ میں ہوں
تو اپنے چراغاں کی کہیں اور سے لے داد
مجھ کو تو یہی خواب ستاتا ہے کہ میں ہوں
تو نے تو خدائی میں کوئی کسر نہ چھوڑی
انسان کبھی بھول ہی جاتا ہے کہ میں ہوں
راحیلؔ اسے سامنے پاؤں تو نہ دیکھوں
دیکھوں تو سہی دیکھ بھی پاتا ہے کہ میں ہوں