ایک بولتا ہے تو لفظ پھول بن جاتے ہیں۔ دوسرا منہ کھولتا ہے تو آگ نکلتی ہے۔ ایک سے ملیے تو روح کو ایک گونہ فرحت کا احساس ہوتا ہے۔ دوسرے کا سامنا طبیعت پہ بار ہوتا ہے۔ ایک مسکراتا ہے۔ دوسرا کڑھتا ہے۔ ایک پیارا لگتا ہے۔ دوسرا بھاتا نہیں۔
یہ سب انسانوں کی باتیں ہیں۔ ہماری باتیں ہیں۔ ہمارے مزاجوں کی باتیں ہیں۔
آج میں شیو کمار بٹالوی کا ایک انٹرویو سن رہا تھا۔ فیس بک پر ایک صفحے نے اسے شریک کیا تھا اور لکھا تھا کہ یہ شخص خدا جانے انسان تھا یا اوتار۔ میرے دل پر بڑا اثر ہوا۔ ان کا لکھا ہوا ایک مشہور گیت مائے نی مائے میں نے دوبارہ ڈھونڈ کر سنا۔
شیو کمار صاحب کو دنیا نے بہت محبت دی۔ قدرافزائیاں بھی بہت ہوئیں۔ پھر وہ فوت ہوگئے۔
یقین مانیے یہ کہانی اتنی ہی ہے۔ زیادہ لمبی نہیں۔ انھوں نے کل پینتیس برس کی عمر پائی۔ اس میں یہی کچھ ہو سکتا تھا۔
پھر مجھے کیٹس یاد آیا۔ شیلے یاد آیا۔ مصطفیٰ زیدی یاد آیا۔
اور پھر مجھے ملٹن یاد آیا۔
ملٹن نے عہدِ کہولت میں، یعنی بڑھاپے کے آغاز میں، جنتِ گم گشتہ نامی معریٰ نظم لکھی۔ شروع کی زندگی عام سی گزاری۔ آخری عمر میں عزت سے سرفراز ہوا۔ نابینا بھی ہو گیا۔ اور پھر دنیا سے رخصت ہوا۔
غالبؔ کا بھی یہی قصہ ہے۔
پھر عام لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ ہما شما جیتے ہیں اور جیتے چلے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی سوچتے ہیں کہ ہمیں تو مر جانا چاہیے۔ اکثر دوسروں کے بارے میں بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔ اور پھر ایک دن مرنے کی اخلاقی ذمہ داری بھی پوری کر کے زندگی کے بوجھ سے سبک دوش ہو جاتے ہیں۔
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
دنیا میں یہی تضادات چلتے رہتے ہیں۔ کوئی اچھی زندگی گزارتا ہے۔ کوئی بری۔ کوئی شعر کہتا ہے، کوئی گالیاں بکتا ہے۔ کوئی ہتھیار اٹھاتا ہے، کوئی فاختائیں اڑاتا ہے۔
لیکن کیا؟
آخر میں سب برابر نکلتا ہے۔ مساوات کے دونوں طرف ایک ہی عدد نظر آتا ہے۔ دو مختلف بھیس بنائے ہوئے۔ بہروپیا!
زندگی سے کچھ پانے والا اور زندگی میں کچھ کھونے والا موت کے وقت برابر ہو جاتے ہیں۔ پلاؤ کھائیں گے احباب، فاتحہ ہو گا!
اچھے لوگ بھی مر جاتے ہیں۔ برے بھی زندہ نہیں رہتے۔ یاد آیا۔ میاں محمد بخشؒ نے فرمایا تھا:
دشمن مرے تے خوشی نہ کریے، سجناں وی مر جانا
شیو کمار بٹالوی کتنا نازک سا شخص تھا۔ پھولوں جیسی باتیں۔ ہواؤں جیسا لہجہ۔ تتلیوں جیسی سوچیں۔ وہ بھی چلا گیا۔ دنیا کے مردود بھی چلے جاتے ہیں۔
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی، نہ زیاں تھا نہ سود تھا