ہاتھ جس کام میں ڈالیں بَرَکَت ہوتی ہے
یہ ہمارے ہی رقیبوں کی صِفَت ہوتی ہے
آپ سودا گری آسان سمجھتے ہوں گے
حسن والوں کو رعایات کی لت ہوتی ہے
مٹھی بھر قبر کی مٹی کے سوا کیا دو گے
خاک ہی خاک نشینوں کی دِیَت ہوتی ہے
ایسے زندان کو زندانِ وفا کہتے ہیں
بیڑی ہوتی ہے نہ پیروں میں سکت ہوتی ہے
اس کی عریانئِ مطلق کی تمنا ہے ہمیں
جس کا پردہ بھی تجلی کی پَرَت ہوتی ہے
نوکری میں جو ملے ہیں مجھے مالک وہ دیکھ
کسی بیوپار میں کب اتنی بچت ہوتی ہے
ہائے ہم کیوں ترے کوچے کو پکاریں جنت
اس طرح کی تو فقیہوں کی لُغت ہوتی ہے
کس رفو گر سے ہے نسبت ترے دل کو راحیلؔ
تیرے شعروں کی جدا سب سے بُنت ہوتی ہے