ہم دو بھائی ہیں۔ آواز سے لوگوں کو ایک پر دوسرے کا دھوکا ہو جاتا ہے۔ مگر یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اچنبھا مجھے اس پر ہوتا ہے کہ ریکارڈ شدہ آوازوں پر ہمیں خود دھوکا ہو جاتا ہے۔ اپنی آواز بھائی کی معلوم ہوتی ہے اور بھائی کی اپنی۔
پھر ایک ہمارے تایا جان ہیں۔ ستر کے قریب عمر ہو گی۔ وہ گھر آئیں تو مسئلہ دوچند ہو جاتا ہے۔ آواز سے کسی کو کچھ پتا نہیں چلتا کہ تینوں میں سے کون بول رہا ہے۔ یہ باتیں یوں یاد آئیں کہ میں نے ابھی دروازے پر تایا جی کی آواز سنی۔ مگر پھر دیکھا کہ چھوٹا بھائی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ آواز ایک جینیاتی اور موروثی شے ہے۔ یہ تاثر بے شک قبول کرتی ہے اور محنت سے بہتر بھی ہو سکتی ہے مگر اپنی اصل میں تقریباً ہمیشہ وہی رہے گی جو ہے۔ پھر میرا خیال یہ بھی ہے کہ آواز بہت کم لوگوں کی بری ہوتی ہے۔ میں اکثر مردوں اور عورتوں کی آواز سے متاثر ہوتا رہتا ہوں۔ مگر زیادہ تر کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بولنے کے ڈھنگ سے کچھ خاص واقف نہیں ہوتے۔ بے ڈھب بول چال آواز کے حسن کو بھی دھندلا دیتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آواز کا نقص ہے۔ نہیں، یہ لہجے کا عیب ہے۔
ہمارے ایک موسیقار دوست کہتے ہیں کہ انسان کا گلا آوارہ ہوتا ہے۔ جنگلی جانور کی طرح۔ موسیقی میں اسے سدھایا جاتا ہے۔ تربیت دی جاتی ہے اور قابو میں لایا جاتا ہے۔ یہی قصہ لہجے کا ہے۔ ہماری گفتگو آوارہ ہوتی ہے۔ لفظ وحشی ہوتے ہیں۔ اتار چڑھاؤ بے اختیار۔ ان سب پر کسی قدر قابو پا لینا اور اپنی مرضی سے استعمال کرنے کے قابل ہو جانا تہذیب کی علامت ہے۔ یہ صلاحیت پیدا ہو جائے تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کی آواز خواہ مخواہ زیادہ خوبصورت معلوم ہونے لگی ہے۔