میٹرک میں میرے سب پرچے اچھے ہوئے تھے سوائے طبیعیات کے۔ یہ میرا پسندیدہ ترین مضمون تھا مگر کوئی مار خدا کی ایسی پڑی کہ ایک دو بڑے سوالات غلط کر آیا۔ ابو جان روزانہ واپسی پر کارکردگی کی تفصیلات معلوم کرتے تھے۔ سن کر افسردہ ہو گئے۔ مجھے بھی بہت افسوس تھا۔
کچھ دن میں منہ لٹکائے پھرتا رہا۔ پھر ابو جان نے کہا، "راحیل! اگر ایک کام کرو تو تمھارے طبیعیات کے نمبر اچھے آ سکتے ہیں۔” میں ان کا منہ دیکھتا رہ گیا۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا؟ پرچے ہو گئے تھے۔ عملی امتحان بھی ہو چکا تھا۔ میں بقائمی ہوش و حواس بکواس کر آیا تھا۔ پھر؟
ابو جان نے کہا، "بہن بھائیوں سے نہ لڑا کرو۔ ماں کی بات مانا کرو۔ تمھیں نافرمانیوں اور زیادتیوں کی سزا ملی ہے۔ اچھے بنو۔ اللہ کرم کرے گا۔”
میں نے نمبروں کے لالچ میں وعدہ کر لیا۔ ابو سے کیے گئے وعدے کا مسئلہ یہ تھا کہ نبھانا پڑتا تھا۔ ورنہ جوتے بہت پڑتے تھے۔ پتا مار کر گزارا کرتا رہا۔ سمجھ میں یہ نہیں آتا تھا کہ اللہ یہ کرم کرے گا کیسے۔ سولہ سترہ سال کا دماغ یہ تصور کرنے سے بالکل قاصر تھا کہ پرچہ ہو جانے کے بعد اور ملتان جیسے سخت بورڈ میں ہو جانے کے بعد اللہ میاں کے پاس کیا آپشن بچتا ہے۔
نتیجہ نکلا۔ میرے طبیعیات میں پچاسی نمبر آئے۔ تصور تو میں اب بھی نہیں کر سکتا کہ اللہ میاں نے کیا کیا مگر تسلیم کرتا ہوں کہ جو بھی کیا، کمال کیا۔ الحمدللہ!
ابو جان یہ سبق دینے کے بعد دو تین برس میں رخصت ہو گئے۔ جوتے کا خوف نہ رہا تو وعدے کیا، خدا بھی بھول گیا۔ ایک اور بڑی ضروری بات بھی بھول گئی۔ وہ یہ تھی کہ جوتا صرف باپ کے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ بھولے ہوئے خدا کا ایک نام منتقم بھی ہے۔
اب جبکہ میرا تجربہ اس سے زیادہ ہو چکا ہے جتنی میٹرک میں عمر تھی اور دنیا جہان کا الا بلا پڑھ، سن اور سوچ چکا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ میرے باپ نے سچ کہا تھا اور اس کے کہے کے سوا ہر فلسفہ غلط ہے۔ کم از کم میرے لیے بالکل بےسود ہے۔ بھلائی اسی میں ہے کہ آدمی بھلا آدمی بن کر رہنے کی کوشش کرے۔ ورنہ جوتا صرف باپ کے ہاتھ میں نہیں ہوتا، حضور!