دو ہزار آٹھ نو کی بات ہے کہ یارِ عزیز نیر مصطفیٰ نے ایک فلم کا ڈول ڈالا تھا۔ کچرا گھر میں گلاب۔ کہانی خود لکھی، ہدایات خود دیں، چندہ خود اکٹھا کیا۔ ہم سے صرف اتنا کہا کہ اداکاری کرو اور پیسے مت مانگنا۔ بلکہ جتنے ہیں دے کر کرو۔ ایسے ہی کسی استحصال زدہ فنکار کے دل سے آہ نکلی ہو گی جو عرش تک پہنچی اور فلم کو بھی اپنے ساتھ ہی لے گئی۔
خبرِ تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
سراجؔ اورنگ آبادی کا یہ مشہور مصرع غالباً میری واحد "پرفارمنس” ہے جو قدرت نے عبرت کی غرض سے باقی رہنے دی۔