ان دنوں امریکہ کی ایک عظیم دور بین کا چرچا ہے جس نے خلا میں جا کر کائنات کے کچھ غیر معمولی مظاہر کی تصویر کشی کی ہے۔ ہمارے ہاں کے مذہبی اور غیر مذہبی حلقوں میں اس کے نتائج توقع کے مطابق ظاہر ہوئے ہیں۔ یعنی اربابِ مذہب اسے بڑے زور و شور سے خدا کی سطوت و جلال کا آئینہ قرار دے رہے ہیں اور ملحدوں کے نزدیک واقعہ یہ ہے کہ خدا کی کرسی کہیں دکھائی نہیں دی۔ یہ سب لوگ عموماً اپنی عقل اور علم کے لحاظ سے عوام سے کم یا زیادہ ممتاز ہیں۔ مگر سانحہ یہ ہے کہ ان کا ردِ عمل اپنی نوعیت کے اعتبار سے کم و بیش وہی ہے جو ایسے انکشافات پر کسی بھی اوسط درجے کے ذہن کا ہو سکتا ہے۔
میں ذہانت یا علم کے دعوے یا اس کی تردید کے چکر میں پڑے بغیر چند باتیں آپ کے ملاحظے کے لیے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ان معروضات کی بنیاد فقط مخلصانہ جستجوئے حق اور جذبۂ انصاف پر ہے۔ لہٰذا نہ صرف مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ علمائے مذہب و سائنس کی اکثریت کی رائے کیا ہے بلکہ میری خواہش ہو گی کہ آپ کو بھی نہ پڑے۔ ہاں، اکثریت، اجماع، فہمِ عامہ (common sense)، اختیار و استناد (authority and authenticity) وغیرہ جیسے مغالطہ انگیز حوالوں کی بجائے اگر خالص اور منصفانہ عقلی دلائل اس موقف کے خلاف فراہم ہو جائیں تو انھیں تسلیم نہ کرنا ظلم ہو گا۔
بات یہ ہے، صاحبو، کہ انسان کے علم کی بہت سی حدود ہیں۔ ایک حد جو معلوم و معروف ہے یہ ہے کہ ہمارا علم مقدار کے لحاظ سے بہت زیادہ نہیں ہو سکتا۔ یعنی ہم دنیا کے ہر بھید یا بہت سے بھیدوں سے واقف نہیں ہو سکتے۔ ایک دوسری حد یہ ہے کہ یہ معیار کے لحاظ سے بھی بہت زیادہ نہیں ہو سکتا۔ یعنی علم کی معنویت لامحدود نہیں ہو سکتی۔ یہ حد بڑی دلچسپ ہے اور میں بالفعل اسی پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔
علمائے مذہب اخروی زندگی کے بارے میں غلو کے لیے مشہور ہیں۔ مثلاََ کہا جاتا ہے کہ حوروں کی قد و قامت اتنی ہو گی کہ سال ہا سال کا سفر طے کر کے ان کے ایک عضو سے دوسرے تک پہنچا جائے گا۔ یا گناہگاروں کو ایسے بچھو اور سانپ ڈسیں گے جن کے زہر کا قطرہ بھی زمین پر گر جائے تو کھیت کھلیان بنجر ہو جائیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان مثالوں پر جو لوگ غور کرتے ہیں وہ جلد یا بدیر شعوری یا غیر شعوری سطح پر ان کی معنویت کے منکر ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ محض اس قدر ہے کہ دنیا کے زہریلے ترین ناگ کے ڈسنے سے ہونے والی تکلیف تو قابلِ فہم ہو سکتی ہے مگر لائق سے لائق آدمی کے لیے بھی اس اذیت کا تصور ناممکن ہے جو جہنم کی مذکورہ بالا تمثیل میں بیان کی گئی ہے۔ یا ایک ذی ہوش مرد کے لیے دنیا کی حسین ترین عورت کا لالچ تو کم یا زیادہ معنویت کا حامل ہو سکتا ہے لیکن حور کی مبینہ تصویر سراسر لغو معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس قسم کی مخلوق سے اکتسابِ لذت عقل، تجربے اور تخیل تینوں ہی سے ماورا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے میں علم کی معنویت کی حد سے تعبیر کرتا ہوں۔ اہلِ مذہب کے نزدیک یہ باتیں علم کے درجے پر ضرور ہیں مگر معنویت سے قطعاً عاری ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ ان پر طوعاً و کرہاً ایمان تو رکھتے ہیں مگر ایسی حوروں کے حصول یا ایسے سانپ بچھوؤں سے بچاؤ کا حیلہ کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔
سائنس کی رو سے دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنی آنکھوں سے کچھ خاص قسم کے رنگ ہی دیکھ سکتا ہے۔ یعنی لہروں کے تعدد کے اعتبار سے بہت اونچی اور بہت نیچی روشنی ہماری بصارتوں کے لیے بے معنی ہے۔ گو وہ کائنات میں پائی جاتی ہے اور ہمارے پاس اس کے وجود کے معتد بہ شواہد ہیں مگر ایک انسان کی حیثیت سے ہمارے لیے ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ میری آنکھوں میں چندھیا دینے والی روشنی پڑے یا اچانک اندھیرا چھا جائے تو یہ بلاشبہ ایک اہم معاملہ ہے۔ مگر وہ شعاعیں جن تک میری بصارت کی رسائی نہیں خواہ میرے چہار سو موج در موج ناچا کریں، مجھے پروا نہیں۔
ثابت ہوا کہ انسان کا علم تجربے کا پابند ہے۔ اور انسان کے طور پر زندگی کا تجربہ نہایت محدود ہے۔ ہماری تمام تر خوشیاں اور غم حواسِ خمسہ کے ایک مختصر سے دائرے میں مقید ہیں۔ کھانے سے لذت ملتی ہے۔ چھاؤں میں سکون میسر آتا ہے۔ مجامعت سے سرور حاصل ہوتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ نتیجتاً ہمارے علم کی معنویت بھی ان شہوات سے بے نیاز نہیں۔ یعنی کوئی شے اگر ہماری خوشی غمی سے بلا واسطہ یا بالواسطہ متعلق نہیں تو اس کا علم اور جہل ہمارے لیے یکساں طور پر بے معنیٰ ہو جاتا ہے۔
اس تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ کائنات کی جو محیر العقول تصویر امریکی دور بین کے توسط سے ہمارے سامنے آئی ہے اس کی ہماری زندگی میں عملی طور پر کیا حیثیت ہے۔ زمان و مکان کے وہ تصورات جو کرۂ ارض کی چند دہائیوں پر محیط انسانی زندگی کے لیے اہمیت رکھتے ہیں، یہ تصویر ان سے بہت بڑی ہے۔ اتنی بڑی کہ بصارت کے عضلات تو درکنار، تصور اور تخیل کی طنابیں کھینچ کر بھی نہیں دیکھی جا سکتی۔ اربوں سال پہلے کی کائنات اور کھربوں کوس دور کے حادثات ساٹھ ستر برس کی عام دنیوی زندگی میں اس سے بھی کم معنویت کے حامل ہیں جو مولویانہ جنت کی نو گزی حور کو حاصل ہے۔ ہم ان کہکشاؤں میں گھر نہیں بنا سکتے جو اس تصویر میں دکھائی گئی ہیں۔ ہمیں ان سیاروں سے پانی نہیں مل سکتا۔ ہم روٹی کے لیے اس بے پناہ مادے سے رجوع نہیں کر سکتے۔ ہمیں ان ستاروں سے پری پیکر بیویاں نہیں مل سکتیں۔ ہم بے کراں توانائی کے اس دھارے سے زندگی کے چند بھرپور لمحے کشید نہیں کر سکتے۔ پھر فائدہ؟
انسان کے لیے وہ معنیٰ خیز ہے جو انسان کے ظرف کے مطابق ہے۔ بہت چھوٹی یا بہت بڑی چیزیں تمام گوزِ شتر ہیں خواہ ان میں کتنی ہی عظمتیں اور وقعتیں پائی جاتی ہوں۔ کہتے ہیں کہ کسی مفتوح نے فاتح کی ضیافت میں اس کے سامنے ہیروں کا تھال رکھ دیا۔ فاتح متعجب ہوا تو مفتوح نے پوچھا، "آپ ہیرے نہیں کھاتے؟” فرمایا، "نہیں۔” مفتوح نے ہاتھ جوڑ کر کہا، "پھر یہاں تک تاخت کی کیا ضرورت تھی؟ روٹی تو آپ کے ہاں بھی مل جاتی ہو گی۔”
جیسے آدم کا بیٹا ہیرے نہیں کھا سکتا عین ویسے ہی کائنات کی بےتحاشا وسعتوں سے بھی بہرہ اندوز نہیں ہو سکتا۔ آدمی کے تجربے کی ایک حد ہے اور وہی آدمی کے علم کی حد ہے۔ اس سے آگے ہر چیز حقیر ہے پھر وہ کتنی ہی مہتم بالشان کیوں نہ ہو۔ مجھے کہنے دیجیے کہ کائنات کی وہ طلسماتی تصویر جو امریکی دور بین سے موصول ہوئی ہے، اس پیمانے پر علم سے اصلاً تعلق نہیں رکھتی۔ یہ تصویر مجنوں کا خواب ہو سکتی ہے، دیوانے کی بڑ ہو سکتی ہے، شاعر کا تخیل ہو سکتی ہے مگر عالم کا علم نہیں ہو سکتی۔ انسان کے علم کی ایک فطری حد ہے۔ یہ تصویر اس حد سے باہر ہے۔ بہت باہر۔ اسے علم قرار دینا علم کی اور شاید خود اس کی بھی توہین ہے۔
مگر ٹھہریے۔ میں جانتا ہوں کہ بات یوں سمجھ میں نہیں آئے گی۔ مجھے واضح کرنے دیجیے۔ دیکھیے۔ انسان کے علم اور اس کی حدود کی مثال ایک چراغ کی سی ہے جس کی مدھم روشنی گھور اندھیری رات میں گھر کے چند گوشوں کو دیکھنا اور ان میں چلنا پھرنا ممکن بنا دیتی ہے۔ ہم زندگی کے چند آفاقی مظاہر کو اس روشنی میں تھوڑا بہت دیکھ اور برت سکتے ہیں۔ مثلاً ہم کھاتے پیتے ہیں۔ رشتے نبھاتے ہیں۔ کاروبار کرتے ہیں۔ عمارتیں بناتے ہیں۔ سفر کرتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ مگر کھانا پینا اپنی اصل میں کیا ہے؟ ہمیں اس کی ضرورت کیوں ہے؟ یہ ہمارے بدن میں کیا عمل کرتا ہے اور اس کے نتائج کیا ہوتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ سوال ہیں جہاں چراغ کی روشنی مدھم ہونے لگتی ہے۔ انسان ہر زمانے میں ان کے کچھ نہ کچھ جواب دینے کی کوشش کرتا آیا ہے۔ مگر جوابوں پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔ ان کے جوابوں پر بھی۔ وقس علیٰ ہٰذا۔ چراغ کی روشنی مدھم ہوتی جاتی ہے۔ اندھیرا بڑھتا جاتا ہے۔ اس اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ماری جا سکتی ہیں۔ ان پر کوئی قدغن نہیں۔ ممکن ہے کہ گھپ اندھیرے میں کچھ ہاتھ بھی آ جائے۔ آخر اندھے کے پاؤں تلے بھی تو بٹیر آ ہی جاتی ہے۔ مگر یہ علم نہیں ہے۔ ٹامک ٹوئیاں ہی ہیں۔ ظن ہے۔ قیاس ہے۔ علم اگر کچھ ہے تو وہی ہے جو چراغ کی مدھم روشنی میں ہے۔ ممکن ہے وہ بھی درست نہ ہو۔ چراغوں کے جھٹپٹے میں آدمی سانپ کو رسی اور رسی کو سانپ سمجھ بیٹھتا ہے۔ مگر اندھیرے میں تو سرے سے علم ہی نہیں۔ نہ درست نہ غلط۔
جوہر (atom) کی اتھاہ گہرائیوں سے لے کر کائنات کی بے پناہ پہنائیوں تک جو کچھ چراغ کی روشنی سے باہر ہے، محض ظن ہے۔ ہم نے جوہر کے گرد گھومتے برقیے دیکھے ہیں نہ ہزاروں نوری سالوں کی مسافت پر واقع کہکشائیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ محض تخیلات نہیں؟ واہمے نہیں؟ نظر کے دھوکے نہیں؟
شاید آپ کہیں کہ مثلاً جوہری توانائی کا کامیاب استعمال اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نے جوہر کا تخیل قائم نہیں کیا بلکہ جوہر فی الواقع اسی طرح ہے جیسے ہم نے سمجھا۔ کیونکہ اگر ہم غلط سمجھتے تو اس کا استعمال کبھی نہ کر سکتے۔ میں کہتا ہوں کہ نہیں۔ آپ جوہر کو نہیں سمجھے۔ آپ صرف ایک خاص قسم کی توانائی کے استعمال پر قادر ہو گئے ہیں۔ استعمال سے قطعاً لازم نہیں آتا کہ آپ شے کو سمجھتے بھی ہیں۔ کام میں تو چیزوں کو وہ بھی لا سکتے ہیں جو ان کا علم نہیں رکھتے۔ کہتے ہیں کہ کمھار کو لعل ملا تھا تو اس نے گدھے کے گلے میں ڈال دیا تھا۔ کیا ضمانت ہے آپ کے پاس کہ ہم وہ کمھار نہیں اور جوہری توانائی وہ لعل نہیں؟
سب اندھیرا ہے۔ چراغ کی مدھم روشنی سے باہر سب اندھیرا ہے۔ کائنات کے ہر مظہر کے بارے میں خواہ وہ برقیوں سے بھی چھوٹا ہو یا کہکشاؤں سے بھی بڑا، ہمارا علم محض ظنی ہے۔ ظن میں ترقی پر خوش ہونا دانائی نہیں۔ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار کر کچھ دریافت کر لینا عقل اور علم کا ثبوت نہیں ہو سکتا۔ اتفاق البتہ ہو سکتا ہے۔
صاحبو، انسان کی دنیا بہت چھوٹی ہے۔ چراغ کی لو بہت مدھم ہے۔
فرصتِ زندگی بہت کم ہے
مغتنم ہے یہ دید جو دم ہے
ہم نہیں جانتے کہ کائنات کی اس دیو مالائی تصویر کا کیا مطلب ہے۔ اس کے اسرار وہی ہیں یا نہیں جو ہم سمجھ رہے ہیں؟ اس کے رنگ حقیقی ہیں یا ہماری تحدیدات نے بھر کر ہمیں دکھا دیے ہیں؟ یہ ہے بھی سہی یا محض نظر کا دھوکا ہے؟ وہ نظر کا دھوکا جس سے انسان کی بے بضاعتی محض اس لیے چھٹکارا نہیں پا سکتی کہ اس کے پاس لے دے کے وہی ایک نظر ہے جو دھوکا کھا بیٹھی ہے۔
اب دلِ ناداں سے پوچھیں کوئی راہ
چشمِ بینا کو تو دھوکا ہو گیا
میں کہتا ہوں کہ چراغ کی روشنی سے باہر اور چراغ کے روشنی کے دائرے میں، سب اعتباری ہے۔ یہ توہم کا کارخانہ ہے۔ بس یہ ہے کہ روشنی میں اعتبار کا اعتبار تو ہے۔ اندھیرے میں وہ بھی نہیں ملتا۔ سائنس کی کار گزاریاں اکثر اندھیرے کی ٹامک ٹوئیاں ہیں۔ انھیں کسی نظام کے تحت خیال کرنا بڑی نادانی ہے۔ انسان کا بنایا ہوا ہر نظام عقل کے تابع ہوتا ہے۔ عقل اس کے علم کے تابع ہوتی ہے۔ علم اس کے تجربے کے تابع ہوتا ہے۔ اور تجربہ وہ کارگاہِ ہستی کے ان اندھیرے گوشوں کا قطعاً نہیں رکھتا جہاں سے سائنس یہ گوہر ہائے نایاب ڈھونڈ کر لاتی ہے۔
حاصل یہ کہ علم تجربے میں محصور ہے۔ یقینی نہ سہی مگر دنیا کا علم بہرحال یہی ہے۔ جو تجربے سے باہر ہے وہ علم نہیں۔ خواہ جوہر کا ہو خواہ کہکشاں کا۔ محض ظن ہے۔ سائنس کبھی کبھی ظن کے اندھیروں سے کوئی نمونہ تجربے کی روشنی میں کھینچ لاتی ہے تو اسے ہم مانتے ہیں۔ وہ ہمارے لیے معنیٰ رکھتا ہے۔ جیسے جوہری توانائی ہے کہ ہم جوہر کو نہیں جانتے مگر جوہری توانائی کے شاہد ہیں۔ اسے علم میں شمار کرنا چاہیے۔ مگر یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اس طرح سائنس نے ہمارے علم کو وسعت نہیں دی بلکہ محض ایک غیر معلوم حقیقت کو ہمارے علم کے دائرے میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ ان دونوں باتوں میں وہی فرق ہے جو چراغ کی روشنی بڑھانے اور کسی شے کو اندھیرے سے اٹھا کر روشنی میں رکھ دینے میں ہے۔ سائنس ہمارے تجربے اور علم کی حدود کو وسیع نہیں کرتی۔ وہ وہی ہیں جو ہمیشہ سے چلی آئی ہیں۔ یہ صرف کارخانۂ قدرت کے اندھیرے گوشوں سے کچھ چیزیں اٹھا کر تجربے اور علم کی روشنی میں لے آتی ہے۔ فلکیات کے دور دراز گوشے میں بہت اندھیرا ہے۔ وہاں کھٹ پٹ سے خوش نہیں ہونا چاہیے۔ جب کچھ روشنی میں آیا تب دیکھیں گے۔
زندگی کے چراغ کی مدھم روشنی میں الہامی کتب بڈھے باپ کا شفیق چہرہ ہیں۔ بتاتی ہیں کہ آسمان سات ہیں۔ ستارے ان کی زینت اور تمھارے راہ نما ہیں۔ شہاب ہائے ثاقب دہکتے ہوئے انگارے ہیں جو تمھارے ازلی دشمنوں کو کھدیڑتے ہیں۔ سائنس اندھیرے میں چلا کر کہتی ہے کہ یوں نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ نہیں ہو گا۔ مگر اندھیرے کا بھی تو اعتبار نہیں۔ دائرہ بھر ہی سہی مگر اس روشنی میں شفیق بڈھے کے نصائح جا بجا میرے کام آئے ہیں۔ میں اندھیروں میں بھٹکنے والی پچھل پیری کی چیخوں پر کان کیوں دھروں؟