ذیل کا مقالہ میں نے ۳۱ اکتوبر ۲۰۱۶ء کو نمل یونیورسٹی کے اردو تحقیقی مجلے دریافت میں اشاعت کے لیے روانہ کیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد خبر ملی کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے پاکستان سے شائع ہونے والے سماجی سائنسز کے مجلوں کو روزبروز گرتے ہوئے معیار کے سبب تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گو دریافت کے شمارے اب بھی شائع ہو رہے ہیں لیکن میں نے کچھ انتظار اور زیادہ ناامیدی کے بعد یہ مقالہ اردو گاہ ہی پر شائع کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ ایک سبب تو اس کا یہ ہے کہ اب قومی تحقیقی مجلوں میں چھپنا اصولاً اور عملاً نہ چھپنے کے برابر ہو گیا ہے اور دوسرا یہ کہ ہماری جامعات کی روایت کے مطابق کسی تگڑے "محقق” کے اس مقالے پر ہاتھ صاف کرنے کے امکانات روشن تر ہوتے جا رہے ہیں۔
اردو کا شاید ہی کوئی شاعر ہو گا جو تعلی سے بچ سکا ہو۔ اسے بھی منجملہ ان خصوصیات کے شمار کرنا چاہیے جو ہماری غزل کی روایت کو عالمی ادب سے ممتاز کرتی ہیں۔ استادانِ سخن کی تعلیاں خاص طور پر مشہور ہیں جن میں انھوں نے اپنے اپنے تفوق کو ثابت کرنے میں حتی المقدور کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ مرزا غالبؔ کے ہاں البتہ یہ بات خاصی حیران کن ہے کہ اس میدان میں ان کی تقریباً تمام کاوشیں نہایت محتاط اور معذرت خواہانہ قسم کی واقع ہوئی ہیں۔
تعلی کو عام طور پر ہر شاعر کا، عام اس سے کہ اس میں کس قدر صداقت ہے، حق سمجھا جاتا ہے۔ اساتذہ تو پھر چونکہ اپنے فن کا لوہا منوا چکے ہوتے ہیں اس لیے ان کی خودستائیاں ایک گونہ لطف دیتی ہیں۔ غالبؔ نے بھی اس راہ میں قدم مارا ہے اور ان کے دیوان میں اس قسم کے مضامین کی شرح شاید باستثنائے میرؔ باقی سب سے زیادہ ہی ہو گی۔ مگریہ قدم عموماً اوچھے ہی پڑے ہیں اور ان شعروں میں تعلی کا وہ خالص، تیکھا اور بلند آہنگ لہجہ بوجوہ پیدا نہیں ہو سکاجو ہونا چاہیے تھا۔ دیگر بڑے شعرا کے ہاں اس قسم کے اشعار بڑے صاف، حتمی اور ادعائی قسم کے خیالات پر مبنی واقع ہوئے ہیں۔ چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں:
جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز
تاحشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا
(میر تقی میرؔ) (۱)
سوداؔ کے خیالات میں جھمکے ہے خدائی
جو اپنے تخیل میں یہ چاہے سو وہیں ہو
(مرزا رفیع سوداؔ) (۲)
مومنؔ بخدا سحر بیانی کا جبھی تک
ہر ایک کو دعویٰ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
(مومن خان مومنؔ) (۳)
قسمت ہی سے ناچار ہوں اے ذوقؔ وگرنہ
ہر فن میں ہوں میں طاق مجھے کیا نہیں آتا
(شیخ ابراہیم ذوقؔ)(۴)
یوں دادِ سخن مجھ کو دیتے ہیں عراق و پارس
یہ کافرِ ہندی ہے بے تیغ و سناں خوں ریز
(محمد اقبالؔ) (۵)
ہر وقت پڑھے جاتے ہو کیوں داغؔ کے اشعار
کیا تم کو کوئی اور سخن ور نہیں ملتا
(مرزا خان داغؔ) (۶)
مندرجہ بالا اشعار گو کہ نمونتہً پیش کیے گئے ہیں مگر وسیع تر مطالعے سے بھی یہی نتیجہ برآمد کیا جا سکتا ہے کہ شاعرانہ تعلی دو میں سے کسی ایک صورت پر واقع ہوتی ہے۔ یا تو شاعر اپنا موازنہ دوسروں سے کرتا ہے اور ان سب پر اپنی فضیلت کا اعلان کرتا ہے۔ یا پھر دوسرے سخن وروں کو سرے سے خاطر ہی میں لائے بغیر کسی ایسی خصوصیت کا بیان کیا جاتا ہے جو شاعر کی فوقیت کو ثابت کرتی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اپنی نرگسیت اور مبالغے کے لیے بدنامی کی حد مشہور اردو شاعرمرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کی کوئی بھی تعلی ان دونوں معیارات پر کماحقہٗ پوری نہیں اترتی۔
غالبؔ کی تعلیوں کا بنظرِ غائر مطالعہ کرنے سے گمان ہوتا ہے کہ وہ اپنے اردو کلام کی بابت یا تو تفوق کا دعویٰ نہیں رکھتے تھے یا پھر کم از کم یہ دعویٰ کرنے سے شدید خائف تھے۔ ان کے دیوان میں جہاں جہاں اس مضمون کے اشعار آئے ہیں ان میں کہیں بھی تفضیلِ کل کا ادعا نہیں ملتا۔یا معذرت خواہانہ لہجہ ہے یا طنز اور مضحکے کا سا رنگ ہے۔ ورنہ پھر کچھ ایسا انداز اختیار کیا گیا ہے کہ عظمت غالبؔ کی ذات کی بجائے کسی اور شے سے منسوب ہو کر رہ گئی ہے۔
غالبؔ کی مشہور ترین تعلی غالباً اس شعر کو قرار دیا جا سکتا ہے:
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور(۷)
اس شعر کے مصرعِ اولیٰ کی قرات دو طرح سے ممکن ہے۔ یا تو یوں کہ مفہوم یہ ہو کہ دنیا میں اور بھی بہت سے سخن ور اچھے ہیں۔ یا پھر یوں کہ گویا دنیا میں بہت اچھے سخن ور اور بھی ہیں۔ شعر میں الفاظ کی نشست و برخاست کو دیکھا جائے تو دوسری قرات زیادہ موزوں معلوم ہوتی ہے۔ تاہم ہر دو طرح سے پڑھنے پر کم از کم یہ ضرور طے ہو جاتا ہے کہ سخن وری کے میدان میں شاعر کو غیرمعمولی مسابقت کا سامنا ہے۔
اب اس شعر کو پڑھ کر محض سر دھننے کی بجائے اگر مفہوم کو ذرا گہری نظر سے دیکھا جائے تو تعلی کا طلسم معاً ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ غالبؔ نے قطعاً اپنی فضیلت کا کوئی عنوان قائم نہیں کیا بلکہ دوسرے اچھے یا بہت اچھے سخن وروں کے وجود کو تسلیم کر کے الٹا ایسے کسی دعویٰ کی راہ بھی مسدود کر دی ہے۔ جو کچھ انھوں نے کہا ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ وہ ایک منفرد طرزِ بیان کے حامل ہیں۔ اب یہ بات ظاہر ہے کہ فقط اسلوب کی انفرادیت کسی کے بڑا شاعر یا سب سے بڑا شاعر ہونے کی دلیل نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا شعر میں اس قسم کے کسی دعویٰ کا کوئی قرینہ بھی موجود نہیں۔
یہ انفرادت کا قصہ بھی خوب ہے۔ غالبؔ کو تو اپنے منفرد ہونے کا خیال تھا سو تھا، زمانے نے بھی انھیں بار بار یہی احساس دلانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔پھر جس طریقے سے ان کی اس خصوصیت کا اعتراف کیا گیا وہ اکثر و بیشتر تعمیری کی بجائے تخریبی تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ احساس مریضانہ حد تک ترقی تو کر گیا مگر اس کی سلبی حیثیت کو غالبؔ ختم نہ کر سکے۔ یعنی ان کی انفرادیت ان کی زندگی میں کسی مثبت تبدیلی کی امید پیدا نہ کر سکی۔اب خدا جانے یہ فطرت کا جبر تھا یا انا پرستی کا شاخسانہ کہ انھوں نے اسے اس کی منفی حیثیت ہی میں کافی حد تک قبول بھی کر لیا۔ حالیؔ نے اس ضمن میں ان کے جو اشعار نقل کیے ہیں وہ خاصے معنی خیز ہیں::
’’مرزا نے اس قسم کی نکتہ چینیوں پر اردو اور فارسی دیوان میں جا بجا اشارہ کیا ہے۔ اردو میں ایک جگہ کہتے ہیں:
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنیٰ نہ سہیایک اور اردو غزل کا مطلع ہے:
گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہےیعنی اگر خاموشی سے یہ فائدہ ہے کہ حالِ دل ظاہر نہیں ہوتا تو میں خوش ہوں کہ میرا بولنا بھی خاموشی ہی کا فائدہ دیتا ہے کیونکہ میرا کلام کسی کی سمجھ ہی میں نہیں آتا۔‘‘ (۸)
اس تناظر میں دیکھا جائے تو غالبؔ کی ایک اور مبینہ تعلی بھی تعلی معلوم نہیں ہوتی:
گنجینۂِ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے(۹)
شاعر نے اس شعر میں معنی آفرینی کا دعویٰ تو کیا ہے اور خوب کیا ہے مگر لطف کی بات ہے کہ اس میں فوقیت کا کوئی اشارہ نظر نہیں آتا۔ پس منظر تووہی ہے کہ لوگ ان کے اشعار کو پہلے ہی چیستان قرار دے کر رد کر چکے تھے۔ پھر طلسم کا لفظ بھی خاصا معنی خیز ہے۔ یہ فریب یا چالاکی پر دلالت کرے تو کرے، بزرگی ثابت کرنا اس کے بس کا روگ نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ غالبؔ خود بھی غلط یا صحیح طور پر اس خیال کے کچھ نہ کچھ قائل ہو گئے تھے کہ ان کی نکتہ سنجیاں کھیل تماشے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ عجیب بات ہے کہ دیوان میں بعینہٖ اسی مضمون کا ایک شعر بھی موجود ہے:
ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسدؔ
کھلا کہ فائدہ عرضِ ہنر میں خاک نہیں(۱۰)
معنی آفرینی کی بنیاد پر بڑائی کا دعویٰ کرنا، جو انھوں نے بہرحال نہیں کیا، غالبؔ کے لیے اس تناظر میں بھی ممکن نہ تھا کہ یہ خیال مشرق میں عموماً راجح رہا ہے کہ الفاظ معانی پر فائق ہیں۔ خود ان کے شاگردِ رشید مولوی حالیؔ نے ’’انشا پردازی کا مدار زیادہ تر الفاظ پر ہے نہ معانی پر‘‘ کا عنوان قائم کر کے مقدمہ میں لکھا ہے:
’’ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ شاعری کا مدار جس قدر الفاظ پر ہے اس قدر معانی پر نہیں۔ معانی کیسے ہی بلند اور لطیف ہوں اگر عمدہ الفاظ میں بیان نہ کیے جائیں گے ہرگز دلوں میں گھر نہیں کر سکتے۔ اور ایک مبتذل مضمون پاکیزہ الفاظ میں ادا ہونے سے قابلِ تحسین ہو سکتا ہے۔ لیکن معانی سے یہ سمجھ کر کہ وہ ہر شخص کے ذہن میں موجود ہیں اور ان کے لیے کسی ہنر کے اکتساب کی ضرورت نہیں، بالکل قطعِ نظر کرنا ٹھیک نہیں معلوم ہوتا۔‘‘ (۱۱)
زیرِ بحث شعر سے ملتا جلتا ایک نہایت عمدہ شعر دیوان میں ایسا ہے جس میں غالبؔ نے نسبتاً زیادہ کھل کراپنے خیالات کی وقعت زمانے کو باور کروانے کی کوشش کی ہے:
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالبؔ صریرِ خامہ نوائے سروش ہے(۱۲)
شعر کے محاسن سے بحث نہیں اور نہ یہ محاسن اس شعر کے تعلی ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس لطیف پیرایۂِ اظہار سے جو معانی مستنبط ہوتے ہیں وہ غالبؔ کی فضیلت کا بیان کس حد تک کرتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ دعویٰ اس قدر عمومی اور بے ضرر رنگ میں کیا گیا ہے کہ تقریباً تمام اچھے شعرا اور عمدہ اشعار پر اس کا انطباق آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ یعنی غالبؔ نے دانستہ یا نادانستہ یہ اشارہ کرنے سے گریز کیا ہے کہ نوائے سروش کی یہ کرم فرمائی انھی سے مخصوص ہے۔ مضامین تو تمام شعرا کو سوجھتے ہیں اور غیب ہی سے سوجھتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اس شعر میں الہام سے جو رشتہ ان کا جوڑا گیا ہے وہ صرف غالبؔ کا کمال ہو؟ شعر میں کوئی ضمیر ایسی نہیں لائی گئی جو بالتصریح غالبؔ کی طرف اشارہ کرتی ہو۔
دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ اس شعر سے جو عظمت کسی قدر ثابت بھی ہوتی ہے وہ دراصل غالبؔ کی نہیں بلکہ اس فرشتے کی ہے جس کی نوا صریرِ خامہ میں در آئی ہے۔یعنی عمدہ مضامین کے سلسلے میں کارفرمائی سب کی سب فرشتے کی ہے جو یہ خیالات سجھاتا ہے۔ پھر کمال شاعر سے منسوب کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اگر کھینچ تان کے کر بھی دیا جائے تو اسی شاعر سے کیوں؟
غالبؔ کا یہی محتاط انداز ایک اور غزل کے مقطع میں بھی ظاہر ہوا ہے۔ یہ وہی مشہور غزل ہے جس میں انھوں نے غزل کو تنگ نائے قرار دیا ہے اور اسے اپنے بیان کی وسعت کے لیے ناکافی خیال کیا ہے۔ مقطع میں کہتے ہیں:
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے(۱۳)
اب تک غالبؔ کی پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی روش پر جو روشنی ڈالی جا چکی ہے وہ اس شعر کے تیور بھی بھانپنے کو کافی ہے۔ خاص کا لفظ اتنا بھی خاص نہیں کہ اس شعر کو دوسرے شعرا کی بلند بانگ تعلیوں کے مقابلے پر لا کھڑا کرے۔ کم و بیش اسی رنگ کا ایک اور شعر کچھ یوں ہے:
کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا(۱۴)
فرشتوں سے بھی غالبؔ ایک اور جگہ بھی رجوع لائے ہیں۔ ان کے اس شعر کو بھی عموماً تعلی ہی خیال کیا جاتا ہے:
پاتا ہوں اس سے داد کچھ اپنے کلام کی
روح القدس اگرچہ مرا ہم زباں نہیں(۱۵)
اس میں کلام نہیں کہ اس شعر کی حد تک اپنی عظمت کا خیال ان کے ذہن میں ضرور جاگزیں معلوم ہوتا ہے مگر اصلاً یہ شعر تعلی کا نہیں بلکہ شکایت کا ہے۔ یا کم از کم اتنا ہے کہ ذومعنویت نے ناقدری کے شکوے کا مفہوم تعلی سے کسی قدر زیادہ ہی اس میں سمو دیا ہے۔ ’’کچھ‘‘ کا لفظ اور ہم زبانی کا فقدان اس شعر کو سمجھنے کی کلید ہیں۔
فرماتے ہیں کہ میرے کلام کی داد جو کچھ ملتی ہے روح القدس ہی سے ملتی ہے باوجودیکہ وہ میرا ہم زبان نہیں۔ ’’کچھ‘‘ کے لفظ سے جو حسرت ٹپک رہی ہے وہ بیان میں نہیں آ سکتی۔ یعنی اہلِ زبان اور ابنائے زمان کی طرف سے تو جو قدر افزائیاں ہونی تھیں ہو چکیں، اب روح القدس ہی کی واہ واہ پر گزارا ہے۔ نکتے کی بات یہ ہے کہ وہ شاعر جسے داد کے لیے ایک ایسی ہستی سے رجوع کرنا پڑے جو اس کی ہم زبان ہی نہ ہو، خواہ وہ داد کسی قدر اسے مل بھی جائے، اپنی بزرگی کا دعویٰ کھل کر کبھی نہیں کر سکتا۔
دہلی میں رہتے ہوئے اگر ایک شاعر اہلِ زبان کی بجائے کسی اور سے داد پانے کا دعویٰ کرتا ہے تو یہ تعلی کی بجائے خود پر طنز یا اپنا مضحکہ زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ اس حیلے کی ضرورت شاید غالبؔ کو اس لیے معلوم ہوتی تھی کہ وہ اپنے معترضین کو بتا دینا چاہتے تھے کہ وہ خود بھی اپنے طرزِ کلام کی اونچ نیچ سے خوب واقف ہیں اور یہ رنگ انھوں نے جہالت یا نادانستگی میں نہیں اپنا رکھا۔ کمزور یا عادت کے گرفتار لوگوں میں یہ نفسیاتی حربہ عام نظر آ جاتا ہے کہ وہ اپنی کوتاہیوں کو شعوری قرار دے کر یا ان پر ہنس کر اپنی اہانت کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں۔
زبان و بیان کے لحاظ سے اہلِ زبان نے غالبؔ پر جو اعتراضات کیے ہیں اور ان سے وہ جس قدر متاثر ہوئے ہیں اس کا بیان آزادؔ سے سنیے:
’’اہلِ ظرافت بھی اپنی نوک جھوک سے چوکتے نہ تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ مرزا بھی مشاعرے میں تشریف لے گئے۔ حکیم آغا جان عیشؔ ایک خوش طبع، شگفتہ مزاج شخص تھے۔ غزلِ طرحی میں یہ قطعہ پڑھا:
اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
مزا کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھےکلامِ میرؔ سمجھے اور زبانِ میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھےاسی واسطے اخیر عمر میں نازک خیالی کے طریقے کو بالکل ترک کر دیا تھا۔ چنانچہ دیکھو اخیر کی غزلیں صاف صاف ہیں۔دونوں کی کیفیت جو کچھ ہے معلوم ہو جائے گی۔‘‘ (۱۶)
غالباً یہی احساسِ جرم تھا جس نے غالبؔ سے اس قسم کے اشعار بھی کہلوائے:
کیا بیاں کر کے مرا روئیں گے یار
مگر آشفتہ بیانی میری(۱۷)
یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور(۱۸)
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھاے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا(۱۹)
اپنے پہ کر رہا ہوں قیاس اہلِ دہر کا
سمجھا ہوں دل پذیر متاعِ ہنر کو میں(۲۰)
لکھتا ہوں اسدؔ سوزشِ دل سے سخنِ گرم
تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت(۲۱)
پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے
کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا(۲۲)
کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے(۲۳)
ہوا ہے شہ کا مصاحب، پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے؟(۲۴)
ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا(۲۵)
ان اشعار میں کہیں تو ایک زہرخند کی سی کیفیت نمایاں ہو گئی ہے اور کہیں شدید بے بسی، بے کسی اور ناچاری کا عالم نظر آتا ہے۔ یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ ان تمام اشعار کے پردے میں ہمیں اس غالبؔ کی ایک جھلک ضرور دکھائی دیتی ہے جو اپنی انانیت اور خبطِ عظمت کے لیے جانا جاتا ہے۔ مگر اس پردے کے پیچھے وہ احساسِ جرم کا مارا اتنا سہما ہوا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی نرگسیت پر رحم تو آ سکتا ہے، رشک نہیں۔ بالخصوص آخری شعر کی نسبت حالیؔ کی رائے محلِ نظر ہے۔ وہ اس بات پر نازاں ہیں کہ ان کے استاد نے ’’آسمان کی دشمنی کے کیا خوب اسباب بتائے ہیں اور اپنی دانائی اور ہنر مندی کس خوب صورتی سے ثابت کی ہے۔‘‘ (۲۶)
مگر بات پھر وہی ہے کہ یہ ایک اچھا بلکہ بہت اچھا شعر تو ہے مگر تعلی ایسی نہیں ہوتی۔
ایک غزل کا ذرا منفرد انداز کا مقطع اور اس پر جوشؔ ملسیانی کی رائے ملاحظہ ہو:
’’غالبؔ، مرے کلام میں کیونکر مزا نہ ہو
پیتا ہوں دھو کے خسروِ شیریں سخن کے پانؤخسروِ شیریں سخن کا اشارہ بہادر شاہ ظفرؔ بادشاہِ دہلی کی طرف ہے۔مزا کا ثبوت دینے کے لیے بادشاہ کو شیریں سخن کہا۔ شیریں کلامی کا اثر پائوں میں آیا۔پائوں سے اس پانی میں پہنچا جس سے پائوں دھوئے گئے۔ پانی سے وہ اثر شاعر کے دل و دماغ میںآ گیا اور دل و دماغ سے کلام میں نمایاں ہوا۔ یہ سلسلۂِ فیض کتنا عجیب و غریب ہے!‘‘ (۲۷)
عجیب و غریب کی بات تو خیر ایک طرف رہی، ہمارے لیے اہم یہ ہے کہ اسے بھی تعلی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ فضیلت بہرحال غالبؔ کی نہیں بلکہ سراسر خسروِ شیریں سخن کی ثابت ہوتی ہے۔
بادشاہ سے اسی قسم کی نیاز مندی کا اظہار انھوں نے ایک اور شعر میں بھی کیا ہے:
میں جو گستاخ ہوں آئینِ غزل خوانی میں
یہ بھی تیرا ہی کرم ذوق فزا ہوتا ہے(۲۸)
گو کہ اس شعر میں خود ستائی کا کوئی بھی شائبہ نظر نہیں آتا مگر مصرعِ اولیٰ میں ’’غزل خوانی‘‘ کی ترکیب شاید کچھ الگ ہی معنویت رکھتی ہے۔ غزل خوانی کے لغوی معانی غزل پڑھنے کے ہیں، کہنے کے نہیں۔ وزن کے اعتبار سے تو یہاں غزل سنجی، غزل گوئی وغیرہ جیسے الفاظ لانا غالبؔ کے لیے چنداں مشکل نہ تھا مگر معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مقصود ہی دراصل غزل پڑھنے کے انداز کی ندرت کو واضح کرنا ہے۔ حالیؔ نے ایک واقعہ ایسا بیان کیا ہے جس سے اس گمان کو تقویت ہوتی ہے:
’’وہ اس خیال سے کہ ان کے کلام کی قدر کرنے والے بہت کم تھے اکثر تنگ دل رہتے تھے۔چنانچہ اس بات کی انھوں نے اردو اور فارسی نظم و نثر میں جا بجا شکایت کی ہے۔ ایک روز قلعے سے سیدھے نواب مصطفیٰ خان کے مکان پر آئے اور کہنے لگے کہ آج حضور نے ہماری بڑی قدر دانی فرمائی۔ عید کی مبارک باد میں قصیدہ لکھ کر لے گیا تھا۔ جب میں قصیدہ پڑھ چکا تو ارشاد ہوا،
’مرزا! تم پڑھتے بہت خوب ہو!‘ اس کے بعد نواب صاحب اور مرزا زمانے کی ناقدردانی پر دیر تک افسوس کرتے رہے۔‘‘ (۲۹)
اگر ہمارا یہ قیاس درست ہے کہ غالبؔ بالآخر بادشاہ سے اندازِ غزل خوانی ہی کی داد طلب اور وصول کرنے پر کفایت کر گئے تھے، جیسا کہ اس شعر سے ظاہر ہوتا ہے، تو یہ نہایت افسوس کا مقام ہے۔ ایسے سخن ور کی عزتِ نفس اس قابل رہ ہی کہاں سکتی تھی کہ کسی واشگاف تعلی کی متحمل ہو سکے۔
۱۸۵۵ء میں جب غالبؔ کے دو بڑے حریف یعنی ذوقؔ اور مومنؔ وفات پا چکے ہیں اور وہ بہادر شاہ ظفرؔ کے استاد مقرر ہو گئے ہیں، بادشاہ کے نام ایک منظوم عرضی میں ان کے دیوان کی کامیاب ترین تعلی ملتی ہے:
آج مجھ سا نہیں زمانے میں
شاعرِ نغز گوے و خوش گفتار(۳۰)
اس میں اعتمادِ نفس بھی ہے، مان بھی ہے اور تیقن بھی۔ ان سب کی وجہ شاید یہی رہی ہو کہ غالبؔ کا سماجی رتبہ استادِ شاہ ہونے کے باعث اس درجے پر پہنچ چکا تھا کہ وہ معترضین کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں تھے۔ جہاں تک شاعرانہ رتبے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں دو باتیں بڑی دلچسپ ہیں۔ پہلی تو یہ کہ غالبؔ تمام عمر اپنی نکتہ سنجی اور معنی آفرینی پر نازاں رہے مگر اس شعر میں انھوں نے ایک بالکل مختلف بنا پر اپنے تفوق کو ثابت کیا ہے۔ یعنی نغز گوئی اور خوش گفتاری۔ کیا یہ وہی خصوصیت نہیں تھی جس کی بنیاد پر ذوقؔ نے تاحینِ حیات دہلیؔ اور اہلؔ دہلی پر راج کیا تھا؟ کیا وجہ تھی کہ غالبؔ کو اپنے سب سے بڑے حریف ہی کا سب سے بڑا حربہ اس کی موت کے بعد اپنی بزرگی کے ادعا کے لیے استعمال کرنا پڑا؟ شاید یہ کہ ذوقؔ کی وفات سے دربارِ دہلی کا وہ ذوق نہیں مرا تھا جس کے وہ نمائندہ سمجھے جاتے تھے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس شعر میں بھی غالبؔ اپنے کلی تفوق کا دعویٰ کرنے سے کنی کترا گئے ہیں۔ ایک رخنہ عادتاً یا ضرورتاً اس شعر کی بنت میں انھوں نے ایسا چھوڑ دیا ہے جو ان کی محتاط روی کا پتا دیتا ہے۔ یعنی شعر کے مصرعِ اولیٰ میں ’’آج‘‘ کا لفظ۔ مطلب یہ ہوا کہ آج جب ذوقؔ اور مومنؔ نہیں ہیں، میرؔ نہیں ہیں، ظہوریؔ، بیدلؔ، عرفیؔ وغیرہ نہیں ہیں، لے دے کے ظفرؔ رہ گئے ہیں اور ان کا میں استاد ہوں، تو میرا دعویٰ ہے کہ مجھ سا نغزگو اور خوش گفتار شاعر زمانے میں نہیں۔
اسی قسم کے ایک اور مقطع میں فرماتے ہیں:
ریختے کے تمھی استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا(۳۱)
شعر کا تجزیہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ غالبؔ یہ تو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ استاد شاعر ہیں۔ مگر اس دعویٰ کے ساتھ ہی ایک استثنا بھی پیش کر دیتے ہیں کہ میرؔ بھی استاد تھا۔ بلکہ جو اسلوب مصرعِ ثانی کا ہے اس سے تو یہ معانی بھی متبادر ہوتے ہیں کہ میرؔ زیادہ بڑا استاد تھا۔ اردو شاعری کی تاریخ میں اپنی برتری کا دعویٰ اس محتاط اور معذرت خواہانہ انداز میں شاید ہی کسی نے کیا ہو۔
ایک جگہ انھوں نے اپنا تقابل ظہوریؔ سے بھی کیا ہے:
ہوں ظہوریؔ کے مقابل میں خفائی، غالبؔ
میرے دعویٰ پہ یہ حجت ہے کہ مشہور نہیں(۳۲)
یعنی ہوں تو میں ظہوریؔ کے پائے کا شاعر مگر چونکہ اس کے مقابل ہوں سو مشہور نہیں۔ تضاد کی خوبی واضح ہے۔ اس لیے خود کو ظہوریؔ کے برعکس خفائی قرار دیا ہے۔ تعلی تو اسے کہا جا سکتا ہے مگر جھینپ اور طنز نمایاں ہے۔
ایک اور مقطع ہے:
سخن میں خامۂِ غالبؔ کی آتش افشانی
یقیں ہے ہم کو بھی، لیکن اب اس میں دم کیا ہے(۳۳)
اس شعر کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس میں تفضیل کچھ زیادہ واضح نہیں۔ محض خامے کی آتش افشانی کا بیان ہے۔ نہ اس کے حوالے سے استادی یا بزرگی کا کوئی دعویٰ موجود ہے اور نہ عوام میں شہرت یا کمالِ فن کی جانب کوئی اشارہ ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب یہ شعر کہا گیا ہے تو اس زمانے میں اس آتش افشانی کی قوت اور اثرات میں کمی کا اعتراف کر لیا گیا ہے۔
اسی نوع کا معذرت خواہانہ مقطع ایک اور بھی ہے:
ہو گا کوئی ایسا بھی کہ غالبؔ کو نہ جانے
شاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے(۳۴)
’’شاعر تو وہ اچھا ہے‘‘ کے ٹکڑے میں جس بے نیازی اور ناقدری کا رنگ جھلکتا ہے وہ غالبؔ کی نہیں بلکہ ان کے ہم عصروں کی ہے۔ وہ خود کو بہت اچھا شاعر بھی قرار دے سکتے تھے۔بہت اچھا کی ترکیب بحر میں بھی کھپ سکتی تھی اور امید کی جا سکتی ہے کہ غالبؔ کی خودپرستی بھی ایسا ہی چاہتی ہو گی۔ مگر المیہ یہ ہے کہ اس درجے کا دعویٰ غالبؔ کے لیے کبھی ممکن ہی نہیں رہا۔ پھر مصرعِ ثانی کے دوسرے ٹکڑے میں جو بدنامی کا ذکر انھوں نے کیا ہے وہ بھی خود کو اچھا کہنے کی جسارت کی تلافی معلوم ہوتا ہے۔ شعر کو پڑھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ پہلے مصرع میں غالبؔ نے اپنے معروف ہونے کا جو ذکر کیا ہے اس کی بڑی وجہ ان کی شاعری ہے یا بدنامی۔
متداول دیوان میں اس سلسلے کا ایک ہی شعر اب رہ گیا ہے جس پر تعلی کا گمان گزر سکتا ہے۔ ملاحظہ ہو:
جو یہ کہے کہ ریختہ کیونکہ ہو رشکِ فارسی
گفتۂِ غالبؔ ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ یوں(۳۵)
اس شعر میں ’’جو یہ کہے‘‘ اور ’’پڑھ کے اسے سنا‘‘ کے فقرے شاید اس مناظرانہ اور مناقشانہ کشمکش کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کا غالبؔ عمر بھر شکار رہے۔ انھیں بھی منجملہ ان نفسیاتی اشاروں کے شمار کرنا چاہیے جو شاعرِ موصوف کے سوانح کے ان کی شاعری پر اثرات کی چغلی کھاتے ہیں۔
مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی کہے کہ ریختہ رشکِ فارسی کیسے ہو سکتا ہے تو اسے غالبؔ کے ارشادات پڑھ کے سنا دیے جائیں۔ یہ ’’سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے‘‘ کی قبیل کا شعر معلوم ہوتا ہے۔ گویا موازنہ غالبؔ کا دوسرے شعرا سے نہیں ہے بلکہ دو زبانوں کا آپس میں ہے۔ ان میں سے جو نوعمر اور ناپختہ زبان ہے وہ بھی پختگی کی اس منزل کو پہنچ گئی ہے کہ رشک آنا چاہیے۔ اس احسان کا سہرا غالبؔ نے اپنے سر باندھا ہے۔ تعلی تو یہ ہے اور بری بھی نہیں گو کہ آہنگ کی بلندی اور طمطراق اسی طرح مفقود ہے جیسے غالبؔ کے ہاں ہوا کرتا ہے۔ اس بات کا اندازہ میرؔ کے اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انھوں نے یہی مضمون باندھا ہے:
ریختہ رتبے کو پہونچایا ہوا اس کا ہے
معتقد کون نہیں میرؔ کی استادی کا(۳۶)
سوال یہ ہے کہ غالبؔ کے ہاں اس غیرمعمولی رویے کے اسباب کیا ہیں۔ شاعری کے میدان میں جہاں ہر کس و ناکس ڈینگیں مارتا نظر آتا ہے اور نہ صرف یہ کہ دعوائے بزرگی پر پرسش یا مواخذے کا خوف موجود نہیں بلکہ اسے ہر شاعر کا حق تصور کیا جاتا ہے، وہاں غالبؔ جیسے خودپسند اور مبالغہ آرا دبیر کو کیا شے مانع آئی کہ وہ عمر بھر اپنی یا اپنے کلام کی عظمت کا خیال کھل کر ظاہر نہ کر سکے؟
اس سوال کا یقینی جواب تو ممکن نہیں مگر ان کے سوانح سے جو کچھ مترشح ہوتا ہے اس کی بنیاد پر چار ممکنہ وجوہات قیاس کی جا سکتی ہیں:
۱۔ ابنائے زمان کی جانب سے ناقدری اور تضحیک
۲۔ معاصر ادبی اشرافیہ کی خفگی کا خوف
۳۔ غالبؔ کی اپنی حساسیت اور حمیت
۴۔ فارسی کلام پر بیشتر توجہ
جہاں تک ابنائے زماں کے رویے کا تعلق ہے اس کا اندازہ حالیؔ کے بیان کردہ اس واقعے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو انھوں نے ایک شعر کی خوبی کی ذیل میں نقل کیا ہے:
’’ایک روز مولانا آزردہؔ مرحوم کے روبرو کسی نے یہ شعر پڑھا۔ چونکہ مولانا نہایت صاف اور سریع الفہم اشعار کو پسند کرتے تھے، اس لیے مرزا کا کلام سن کر اکثر الجھتے تھے اور ان کی طرز کو ہمیشہ نام رکھتے تھے۔ مگر اس روز اس شعر کو سن کر وجد کرنے لگے اور متعجب ہو کر پوچھا کہ یہ کس کا شعر ہے؟ کہا گیا کہ مرزا غالبؔ کا۔ چونکہ وہ مرزا کے شعر کی کبھی تعریف نہیں کرتے تھے اور اس روز لاعلمی میں بیساختہ ان کے منہ سے تعریف نکل گئی تھی، غالبؔ کا نام سن کر بطور مزاح کے جیسی کہ ان کی عادت تھی فرمایا،’اس میں مرزا کی کیا تعریف ہے۔ یہ تو خاص ہماری طرز کا شعر ہے۔‘ ‘‘ (۳۷)
ناقدری کی انتہا یہ ہے کہ اگر غلطی سے تعریف کر ہی بیٹھے تو شعر کے حسن کو اپنی طرز کی جانب منسوب کر لیا۔ اور یہ غالبؔ کی زندگی میں کوئی استثنائی واقعہ بھی نہیں۔ ان کے حالات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک معمول کی سی بات تھی۔ مثلاً حالیؔ لکھتے ہیں:
’’ایک دفعہ مولوی عبدالقادر رام پوری نے جو نہایت ظریف الطبع تھے اور جن کو چند روز قلعۂِ ِ دہلی سے تعلق رہا تھا، مرزا سے کسی موقع پر کہا کہ آپ کا ایک اردو شعر سمجھ میں نہیں آتا۔ اور اسی وقت دو مصرعے خود موزوں کر کے مرزا کے سامنے پڑھے۔
پہلے تو روغنِ گل بھینس کے انڈے سے نکال
پھر دوا جتنی ہے کل بھینس کے انڈے سے نکالمرزا سن کر سخت حیران ہوئے اور کہا حاشا یہ میرا شعر نہیں۔ مولوی عبدالقادر نے از راہ مزاح کے کہا میں نے خود ٓپ کے دیوان میں دیکھا ہے اور دیوان ہو تو میں اب دکھا سکتا ہوں۔ آخر مرزا کو معلوم ہوا کہ مجھ پر اس پیرائے میں اعتراض کرتے ہیں اور گویا یہ جتاتے ہیں کہ تمھارے دیوان میں اس قسم کے اشعار ہوتے ہیں۔‘‘ (۳۸)
ان حالات سے جو نتائج غالبؔ کو نکالنے چاہیے تھے اور جو فی الواقع انھوں نے نکالے، وہ ایک شعر میں یوں بیان کیے ہیں:
حسد سزائے کمالِ سخن ہے کیا کیجے
ستم بہائے متاعِ ہنر ہے کیا کہیے(۳۹)
ان حالات میں توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر وہ کھل کر تعلی کرنے کی کوشش بھی کرتے تو وہ عزت افزائی کی بجائے الٹا توہین و تضھیک کا موجب ہو جاتا۔ لہٰذا تعلی سے گریز یا ملفوف اور مشروط انداز میں اپنے کمال کادعویٰ کرنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ شاید تھا ہی نہیں۔
اس وقت کی ادبی اشرافیہ زیادہ تر انھی شعرا پر مشتمل تھی جو دربارِ دہلی سے منسلک تھے۔ بادشاہ ظفرؔ خود بھی اس کا حصہ تھے۔ ان لوگوں سے غالبؔ کے تعلقات کا اندازہ کرنے کے لیے سہرا لکھنے کے واقعے کی اندوہ ناک مثال کافی ہے۔ اس مشہور واقعے کے مطابق غالبؔ کا جرم ایک نسبتاً بے باکانہ تعلی ہی تھی۔ مرزا جواں بخت کی شادی کے موقع پر پر ان کی جانب سے پیش کیے گئے سہرے کا آخری شعر تھا:
ہم سخن فہم ہیں، غالبؔ کے طرف دار نہیں
دیکھیں اس سہرے سے کہہ دے کوئی بڑھ کر سہرا(۴۰)
اب گو کہ اس کے مصرعِ اولیٰ میں بھی غالبؔ نے عادت کے مطابق پیش بندی کی اپنی سی پوری کوشش کی تھی مگر یہ اظہارِ کمال بڑے لوگوں کو سخت ناگوار گزرا۔ ذوقؔ نے ترنت سہرا کہہ کر پیش کیا اور مقطع میں مرزا کو دنداں شکن جواب دیا:
جس کو دعویٰ ہے سخن کا یہ سنا دے اس کو
دیکھ اس طرح سے کہتے ہیں سخن ور سہرا(۴۱)
پھر بات یہیں تک بھی نہیں رہی۔ غالبؔ کو ایک قطعہ در معذرت داخل کرنا پڑا جس کے بعض اشعار خاص طور پر عبرت خیز ہیں:
استادِ شہ سے ہو مجھے پرخاش کا خیال
یہ تاب، یہ مجال، یہ طاقت نہیں مجھے
میں کون؟ اور ریختہ، ہاں اس سے مدعا
جس انبساطِ خاطرِ حضرت نہیں مجھے
مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات
مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے
قسمت بری سہی پہ طبیعت بری نہیں
ہے شکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے
صادق ہوں اپنے قول کا غالبؔ خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے(۴۲)
ایک دوسرے معروف واقعے کے مطابق بہادر شاہ ظفرؔ نے ان کی ایک اور مشروط تعلی کو بھی ہنسی میں اڑا دیا تھا:
یہ مسائلِ تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
اس پر بادشاہ نے فرمایا تھا، ’’بھئی، ہم تو جب بھی ایسا نہ سمجھتے!‘‘ (۴۳)
چونکہ غالبؔ کا زیادہ تر وقت دہلی میں دربار سے تعلق یا اس کی کوششوں میں گزرا اس لیے یہ تصور کرنا دشوار نہیں کہ بے باک اور بلندبانگ تعلی کا خطرہ مول لینا ان کے لیے کس قدر مشکلات پیدا کر سکتا تھا۔ لہٰذا یہ احتیاط اور اجتناب بہت حد تک ان خارجی حالات کی پیداوار کہے جا سکتے ہیں جن کا سامنا غالبؔ کو عمر بھر رہا۔
تیسری وجہ غالبؔ کی حمیت اور داخلیت پسندی کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ چونکہ حالات عمر بھر کسی طور پر بھی ان کے لیے موافق نہیں تھے اور قاطعِ برہان کے سے لسانی قضیے سے لے کر جوئے کی وجہ سے اسیری تک ان پر ابتلائوں اور اہانتوں کے پہاڑ عموماً ٹوٹتے رہے تھے، اس لیے ان کی طبیعت نے اس قسم کی بیباکانہ لاف و گزاف کو گوارا نہیں کیا جو حقائق سے نہ صرف یہ کہ لگا نہ کھاتی ہو بلکہ الٹا تردید کرتی ہو۔ یہ رویہ یقیناً ان کی لاشعور کی گہرائیوں میں اتر گیا تھا کیونکہ اپنی تعلیوں میں جس احتیاط کا التزام انھوں نے کیا ہے وہ شاید شعوری طور پر ممکن ہی نہیں۔
آخری وجہ یہ ہے کہ غالبؔ نے اپنی اردو شاعری کو کبھی درحقیقت باعثِ فخر جانا ہی نہ تھا۔ حالیؔ لکھتے ہیں:
’’قطعِ نظر اس کے وہ اس زمانے کے خیالات کے موافق اردو شاعری کو داخلِ کمالات نہیں سمجھتے تھے بلکہ اس میں اپنی کسرِ شان جانتے تھے۔ چنانچہ ایک فارسی قطعہ میں جس کی نسبت مشہور ہے کہ اس میں شیخ ابراہیم ذوقؔ کی طرف خطاب ہے، کہتے ہیں:
فارسی بیں تا بہ بینی نقش ہائے رنگ رنگ
بگزر از مجموعۂِ اردو کہ بے رنگِ من ستراست میگویم من و از راست سر نتواں کشید
ہر چہ در گفتار فخرِ تست آں ننگِ من ست‘‘(۴۴)
ان اشعار میں انھوں نے اپنے اردو کلام کو صاف طور پر بے رنگ قرار دیا ہے اور دوسرے شعرا کے لیے جو طرزِ سخن باعثِ فخر ہے اسے اپنے لیے عار سمجھا ہے۔
—
حواشی:
۱۔ میر تقی میرؔ، انتخابِ کلامِ میرؔ، مرتبہ مولوی عبدالحق، انجمن ترقئِ اردو ہند، نئی دہلی، ۱۹۸۰ء، ص۴۳
۲۔ مرزا محمد رفیع سوداؔ، انتخابِ سوداؔ، مرتبہ رشید حسن خاں، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی، ۲۰۰۴ئء، ص ۳۷۱
۳۔ مومن خان مومنؔ، انتخابِ کلامِ مومن، مرتبہ سعد اللہ شاہ، خزینۂِ علم و ادب، لاہور، ۲۰۰۰ء، ص۲۷
۴۔ شیخ ابراہیم ذوقؔ، دیوانِ ذوقؔ، مرتبہ محمد حسین آزادؔ، محبوب المطابع، دہلی، ۱۹۳۲ء، ص ۵۹
۵۔ محمد اقبالؔ، بالِ جبریل، ایجوکیشنل بک ہائوس، علی گڑھ، ۱۹۷۵ء،، ص۲۷
۶۔ مرزا خان داغؔ، انتخابِ کلامِ داغؔ، مرتبہ بیگم ممتاز میرزا، اردو اکادمی، دہلی، ۱۹۹۲ء، ص ۳۹
۷۔ اسد اللہ خان غالبؔ، دیوانِ غالبؔ، مرتبہ حامد علی خان، الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب، لاہور، ۱۹۹۵ء، ص ۵۱
۸۔ الطاف حسین حالیؔ، یادگارِ غالبؔ، اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، ۱۹۸۶ء، ص ۱۰۲
۹۔ اسد اللہ خان غالبؔ، دیوانِ غالبؔ، مرتبہ حامد علی خان، الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب، لاہور، ۱۹۹۵ء، ص ۴۱ٍ۱
۱۰۔ ایضاً، ص ۹۳
۱۱۔ الطاف حسین حالیؔ، مقدمہ شعر و شاعری، کشمیر کتاب گھر، لاہور، ۱۹۷۴ء، ص ۵۲
۱۲۔ اسد اللہ خان غالبؔ، دیوانِ غالبؔ، مرتبہ حامد علی خان، الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب، لاہور، ۱۹۹۵ء، ص ۱۳۸
۱۳۔ ایضاً، ص ۸۸۱
۱۴۔ ایضاً، ص ۲۴
۱۵۔ ایضاً، ص ۷۴
۱۶۔ محمد حسین آزادؔ، آبِ حیات، خزینہ علم و ادب، لاہور، ۲۰۰۱ء، ص۴۴۲
۱۷۔ اسد اللہ خان غالبؔ، دیوانِ غالبؔ، مرتبہ حامد علی خان، الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب، لاہور، ۱۹۹۵ء، ص ۱۵۰
۱۸۔ ایضاً، ص ۵۱
۱۹۔ ایضاً، ص ۱
۲۰۔ ایضاً، ص ۸۱
۲۱۔ ایضاً، ص ۴۱
۲۲۔ ایضاً، ص ۳۸
۲۳۔ ایضاً، ص ۱۲۰
۲۴۔ ایضاً، ص ۱۴۶
۲۵۔ ایضاً، ص ۳۶
۲۶۔ الطاف حسین حالیؔ، یادگارِ غالبؔ، اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، ۱۹۸۶ء، ص ۱۲۶
۲۷۔ جوشؔ ملسیانی، دیوانِ غالبؔ مع شرح، آتما رام اینڈ سنز، دہلی، ۱۹۵۸ء، ص ۲۲۹
۲۸۔ اسد اللہ خان غالبؔ، دیوانِ غالبؔ، مرتبہ حامد علی خان، الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب، لاہور، ۱۹۹۵ء، ص ۱۴۵
۲۹۔ الطاف حسین حالیؔ، یادگارِ غالبؔ، اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، ۱۹۸۶ء، ص ۸۱
۳۰۔ اسد اللہ خان غالبؔ، دیوانِ غالبؔ، مرتبہ حامد علی خان، الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب، لاہور، ۱۹۹۵ء، ص ۲۵۱
۳۱۔ اسد اللہ خان غالبؔ، دیوانِ غالبؔ، مرتبہ حامد علی خان، الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب، لاہور، ۱۹۹۵ء، ص ۳۱
۳۲۔ اسد اللہ خان غالبؔ، دیوانِ غالبؔ، مرتبہ حامد علی خان، الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب، لاہور، ۱۹۹۵ء، ص ۱۵۰
۳۳۔ ایضاً، ص ۱۷۶
۳۴۔ ایضاً، ص ۱۸۶
۳۵۔ ایضاً، ص ۹۵
۳۶۔ میر تقی میرؔ، انتخابِ کلامِ میرؔ، مرتبہ مولوی عبدالحق، انجمن ترقئِ اردو ہند، نئی دہلی، ۱۹۸۰ء، ص۴۳
۳۷۔ الطاف حسین حالیؔ، یادگارِ غالبؔ، اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، ۱۹۸۶ء، ص ۱۳۳
۳۸۔ ایضاً، ص ۱۰۱
۳۹۔ اسد اللہ خان غالبؔ، دیوانِ غالبؔ، مرتبہ حامد علی خان، الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب، لاہور، ۱۹۹۵ء، ص ۱۶۳
۴۰۔ ایضاً، ص ۲۰۹
۴۱۔ محمد حسین آزادؔ، آبِ حیات، خزینہ علم و ادب، لاہور، ۲۰۰۱ء، ص۴۴۹
۴۲۔ اسد اللہ خان غالبؔ، دیوانِ غالبؔ، مرتبہ حامد علی خان، الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب، لاہور، ۱۹۹۵ء، ص ۲۱۰
۴۳۔ الطاف حسین حالیؔ، یادگارِ غالبؔ، اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، ۱۹۸۶ء، ص ۱۲۶
۴۴۔ ایضاً، ص ۱۰۶