جورِ بے جا کو جو کہتے ہو بجا ہے وہ بھی
دستِ قاتل پہ لہو ہے کہ حنا ہے وہ بھی
لوگ خوش ہیں اسے دے دے کے عبادت کا فریب
وہ مگر خوب سمجھتا ہے خدا ہے وہ بھی
آج بس آج ہے کیا ذکر گذشتہ کل کا
لاکھ سونا سہی مٹی میں دبا ہے وہ بھی
لاکھ مہتاب درخشندہ و تابندہ سہی
ناز بےجا ہے کہ مانگے کی ضیا ہے وہ بھی
مجھ میں پنہاں مرا مونس مرا غمخوار ہی تھا
جانے کیا بات ہے کیوں مجھ سے خفا ہے وہ بھی
تم جسے جبر و ستم قہر و غضب کہتے ہو
اپنے اعمال کی دراصل سزا ہے وہ بھی
چارہ گر بھول گئے ہوں تو بتا دو اعجازؔ
زہر کہتے ہیں جسے ایک دوا ہے وہ بھی