میں دیکھتا ہوں کہ لوگ منفی سوچوں سے باہر اس لیے نہیں نکل پاتے کیونکہ وہ پہچانتے ہی نہیں کہ منفی سوچیں ہیں کیا۔ وہ اپنے تئیں کسی بات پر غور و فکر میں محو رہتے ہیں اور نہیں جانتے کہ کب منفیت کا ریلا انھیں بہا کر لے گیا۔ میں اس شخص کا احسان مانتا ہوں جس نے مجھے بتایا کہ منفی سوچ درحقیقت کیا ہے۔ انسان ہوں۔ روزانہ کی بنیاد پر مجھے بھی ایسے خیالات آتے ہیں جنھیں مثبت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مگر زیادہ تر مجھے بروقت احساس ہو جاتا ہے اور میں ان کے اثر سے فوراً نکلنے کی تدبیر کرتا ہوں۔
منفی سوچ وہ ہے جو آپ کے اندر کوئی خوشگوار تاثر نہیں پیدا کرتی۔ کر ہی نہیں سکتی۔ یہ آسان سا نکتہ اس کی سب سے بڑی پہچان ہے۔ غصہ، نفرت، حسد، خوف وغیرہ سب ایسی ہی چیزیں ہیں۔ ہمیں شاید لگتا ہو کہ ان کا ہدف کوئی اور شخص یا شے ہے مگر فی الحقیقت ان کا نشانہ ہم خود ہوتے ہیں۔ ان خیالات کے بہاؤ میں ہم بالکل اچھا محسوس نہیں کرتے۔ ہمارے اندر ایک ایسی تکلیف یا گھٹن پیدا ہو جاتی ہے جس کے سبب ہمارے بدن میں تناؤ جنم لیتا ہے، دل کی دھڑکن اوپر نیچے ہونے لگتی ہے، چہرے کے تاثرات متغیر ہو جاتے ہیں۔ اس وقت کوئی بھی شخص ہمیں دیکھتا ہے تو پہچان لیتا ہے کہ ہم معمول کی حالت پر نہیں۔ آئینہ دیکھنے کا اتفاق ہو تو ہم خود بھی حیران رہ جاتے ہیں۔ یہ عجیب و غریب کیفیت ہمارے اندر محض ایک منفی خیال سے پیدا ہوتی ہے۔ اندازہ کیجیے کہ جو لوگ مسلسل یہ شغل کرتے ہیں ان کی روح اور بدن پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہوں گے۔ میں نے لوگوں کو سوچوں سے مرتے دیکھا ہے۔ زیادہ کیا کہوں؟
جب ہم یہ باور کر لیتے ہیں کہ ہر وہ خیال جس سے ہمیں کم یا زیادہ تکلیف پہنچے، منفی ہے تو مسئلہ کافی حد تک حل ہو جاتا ہے۔ تکلیف کا احساس سب سے بڑی خطرے کی گھنٹی ہے۔ انسان کبھی جانتے بوجھتے تکلیف برداشت نہیں کرنا چاہتا۔ اس لیے یہ باتیں سمجھ لینے سے ہمارے اندر گویا ایک پیمانہ مقرر ہو جاتا ہے کہ تکلیف دہ سوچ ٹھیک نہیں۔ جب بھی کوئی منفی خیال ذہن سے ٹکراتا ہے تو تکلیف پہنچتی ہے اور تکلیف پہنچتے ہی خطرے کی گھنٹی بجتی ہے اور منفیت کا سارا طلسم تارِ عنکبوت کی طرح ٹوٹ کر رہ جاتا ہے۔ اس لیے یہ پہچان اچھی طرح سوچ سمجھ کر ذہن نشین کر لینی چاہیے۔
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ منفی سوچیں ضروری ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس قسم کے دلائل دیتے ہیں جو بظاہر حقیقت پسندانہ مگر بباطن فریب خوردگی اور بد اعتقادی پر دلالت کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہا جاتا ہے کسی خطرے سے منہ موڑنا دانائی نہیں۔ اس پر غور کرنا ضروری ہے۔ یا فلاں مسئلہ سنجیدہ توجہ کا متقاضی ہے۔ اس کی سنگینی کا ادراک ہونا چاہیے۔ وغیرہ وغیرہ۔ میں کہتا ہوں کہ یہ محض ایمان کی کمزوری ہے۔ اور یہی نہیں، اس حقیقت پسندی کے پردے میں انسانی ذہن کا سب سے بڑا فریب چھپا ہوا ہے۔ زندگی عقل سے نہیں گزاری جاتی۔ ورنہ نادان اور بے وقوف لوگوں کو دانا اور عاقل کھا پی کر ختم کر دیتے۔ زندگی پر تفکر و تدبر کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے جبکہ ایک کتا بھی زندگی گزار کر ہی رخصت ہوتا ہے۔ ہم موت سے بچ نہیں سکتے جو زندگی کو لاحق سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اگر ایمان رکھتے ہیں تو جانتے ہیں کہ ہر ہونی انہونی مقرر ہے۔ پھر یہ فریب کھانا کہ منفی خیالات بڑے حقیقت پسندانہ ہوتے ہیں، اپنے ساتھ دیدہ و دانستہ ظلم ہے۔
میں نہیں کہتا کہ انسان ذہن سے کام نہ لے۔ مگر یہ کام مثبت طور پر بھی لیا جا سکتا ہے۔ بدترین حالات میں بھی امید، محبت اور حوصلے کا دامن تھاما جا سکتا ہے۔ اور سچ پوچھیے تو انسان کا شرف یہی ہے۔ منفی خیالات سے چھٹکارا حاصل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ خیالات ہی سے چھٹکارا حاصل کر لیں۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ آپ کو کبھی منفی سوچیں نہ ستائیں۔ کرنے کا کام محض اس قدر ہے کہ جہاں ممکن ہو خود کو بے جا اذیت دینے کی بجائے ذہنی، جسمانی اور جذباتی صحت کا راستہ اختیار کیا جائے۔ میں نے دیکھا ہے اور آپ بھی دیکھیں گے کہ ایسا ذہن رفتہ رفتہ چیزوں کو بہتر طور پر سمجھنے اور مسائل سے زیادہ اچھے طور پر نمٹنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ منفیت ایک غلیظ گڑھا ہے۔ اس میں سے صرف ناامیدی، خوف، کرب، شدت اور بے بسی کے زہریلے بچھو نکلتے ہیں۔ مثبت خیالات آسمان کی کھلی فضاؤں کی طرح ہیں جن میں قوسِ قزح کے رنگ بکھرتے ہیں، بلند پرواز پرندوں کی ڈاریں نکلتی ہیں، شبنم اور بارش کی طراوت نصیب ہوتی ہے، سورج کی چمکیلی روشنی آنکھیں خیرہ کرتی ہے، ستاروں کی ٹھنڈک سکون بخشتی ہے، خوشبوئیں اڑ اڑ کر پہنچتی ہیں اور تازہ ہواؤں کے جھونکے آتے جاتے ہیں۔ ہمیں واقعی حقیقت پسندی سے کام لینا چاہیے اور گڑھے سے نکل کر آسمان پر نظریں گاڑ دینی چاہئیں جب کہ وہ ہمارا انتظار کر رہا ہے۔