تعصب کا معاملہ عجیب ہے۔ میں اگر کہوں کہ آپ متعصب ہیں تو ممکن ہے کہ آپ یہی الزام مجھ پر رکھ دیں۔ اس صورت میں فیصلہ کسی تیسرے شخص کو کرنا پڑے گا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تیسرا شخص اگر آپ کی رائے کو درست قرار دیتا ہے تو میں اسے بھی متعصب سمجھوں گا۔
ایک صورت اور ہو سکتی ہے۔ یعنی یہ کہ میں اور آپ ایک دوسرے پر رائے زنی کی بجائے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ آیا ہم واقعی تعصب کا شکار ہیں۔ لیکن یہ راستہ بھی بند گلی ہے۔ اگر میں واقعی متعصب ہوں تو مجھے اپنا تعصب کبھی نظر نہیں آ سکتا۔
بعض لوگ ایک اور راہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ اکثریت کو غیر متعصب فرض کر لیتے ہیں اور جس کی رائے اکثریت کی رائے کے خلاف ہو اسے غلط قرار دیتے ہیں۔ جمہوریت میں یہ رویہ عام ہے۔ اس میں نقص ہے کہ چونکہ اکثریت بھی انسانوں ہی کی ہے اس لیے وہ زیادہ ہونے کے باوجود غلط ہو سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ایک شخص صرف اس لیے غلط ہو کہ وہ اکیلا ہے۔
تو پھر کیا کرنا چاہیے؟
مسیح علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ تعصب کا پھل کبھی انصاف کے پھل جیسا نہیں ہو سکتا۔ متعصب شخص کی رائے اسے غلط اور غیر حقیقی باتوں کا قائل کر دیتی ہے جن کا اسے آخرِ کار نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اس لیے ذاتی طور پر ہمیں یہ دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کسی معاملے میں ہماری رائے یا رویہ کیا نتائج پیدا کرتا ہے۔ اگر پھل مجموعی طور پر اچھا ہے تو اچھی بات ہے۔ ورنہ خود کو منانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ شاید ہم نے ٹھوکر کھائی ہے۔
لیکن یہ تجزیہ اور فیصلہ صرف ذاتی سطح پر ہو سکتا ہے۔ وہ بھی کسی حد تک۔ معاشرے کی سطح پر ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم دوسروں پر تعصب کا الزام لگانے سے گریز کریں۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ متعصب کو اپنا تعصب نظر نہیں آتا۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ جو ہمیں متعصب نظر آ رہا ہے اس کی بجائے ہم خود تعصب کے مجرم ہوں۔