سب فطری عناصر کی تھکن کھینچ رہی ہے
ہر دل کو یہاں تیری لگن کھینچ رہی ہے
ہیں دل پہ عیاں تیرے سبھی ارضی خصائص
اور روح تری رمزِ گگن کھینچ رہی ہے
ہر لہجے پہ حاوی ہے ترا طرزِ تکلم
ہر دیپ کو یاں تیری کرن کھینچ رہی ہے
ہے شخصی خصائل میں ترے نام کا جادو
ہر گُل کو تری بُوئے بدن کھینچ رہی ہے
عارض پہ مچل جاتا ہے جگنو کا کلیجہ
اور آنکھ تری رنگِ چمن کھینچ رہی ہے
ہر ایک سماعت پہ ہے کیا قصدِ تسلط؟
سب کو تری تاثیرِ سخن کھینچ رہی ہے
تجھ شوخ غزل کے تو ہیں مضمون جُدا سے
ناقد کو بھی یہ ندرتِ فن کھینچ رہی ہے
بےشک تری آواز بھی ہے بادِ صبا سی
جو وقت کے سینے سے گھُٹن کھینچ رہی ہے
ہیں نوم گزیدہ بھی مگر خواب ہیں پیارے
ہم لوگوں کو بستر کی شکن کھینچ رہی ہے
اک خار مرے پیر کا ناسور بنا ہے
کُل خونِ جگر جس کی چُبھن کھینچ رہی ہے
کیا حال ہو اس دشت کا رب خیر کرے اب
خبطی کو حیا چشمِ ہرن کھینچ رہی ہے