(ذو قافیتین)
کئی دوا کئی دارو پلا کے چھوڑ دیے
کئی غریب فقط بو سنگھا کے چھوڑ دیے
کہیں جگر کہیں تالو کٹا کے چھوڑ دیے
کبھی قلم کبھی ڈمرو تھما کے چھوڑ دیے
مناظروں میں بھی مدعو کرا کے چھوڑ دیے
مشاعروں کا بھی بھونپو بجا کے چھوڑ دیے
فقط عطا ہی نہ کی عاشقوں کو زلفِ دراز
کئی حسین بھی ابرو منڈا کے چھوڑ دیے
کسی کے دستِ حنائی پہ نصب کیں ٹانگیں
کسی کے حلق میں بازو لگا کے چھوڑ دیے
کہیں خلا میں قلا بازیوں کا بخشا ذوق
کہیں کرائے کے ٹٹو لدا کے چھوڑ دیے
کبھی عرب کبھی انگریز اور کبھی چینی
وطن کے حال پہ اردو پڑھا کے چھوڑ دیے
کسی کو مذہبِ الحاد پر کیا مبعوث
بہت سے فلسفۂ ہو سکھا کے چھوڑ دیے
خدا نے عالمِ ارواح کے سبھی شاہین
ہمارے ملک میں الو بنا کے چھوڑ دیے
غرض دلیل کا راحیلؔ تیل وہ نکلا
معاملات ہی آنسو بہا کے چھوڑ دیے