جان واری ہے جہاں دل بھی تو ہارا ہو گا
اس طرح خلد میں کیا خاک گزارا ہو گا
یہی یاری ہے کہ تو ایک زمانے کا ہے یار
ہم بھی دو چار کے ہو جائیں گوارا ہو گا
ہجر کی رات کوئی کام تو ہوتا نہیں اور
سوچتے ہیں کہ کوئی تجھ سے بھی پیارا ہو گا
محتسب خاک دھرے گا ہمیں میخانے میں
ہم تو ہوں گے ہی وہاں شہر بھی سارا ہو گا
کون کرتا ہے ترے عشق کی تہمت کا دفاع
جس پہ الزام لگے گا اسے یارا ہو گا
سن کے راحیلؔ کے اشعار وہ فرماتے ہیں
نہ سہی کام کا شاعر تو بچارا ہو گا