قدرت نے جو نظام معاشرتی زندگی کا قائم کیا ہے اس میں ہر واقعے کے عینی شاہدین کی تعداد محدود رکھی ہے۔ یعنی کہیں خدا نخواستہ کوئی حادثہ یا تکلیف دہ معاملہ ہوتا ہے تو عام طور پر اس کے چشم دید گواہوں کی تعداد چند سو سے تجاوز نہیں کر پاتی۔ یہی حال خوشگوار چیزوں کا ہے۔ کسی انسان کو مسرت اور اہتزاز کی معراج پر دیکھنے والے لوگ عملاً وہی ہوں گے جو اس کے آس پاس رہے ہوں۔
انٹرنیٹ اور سماجی واسطوں (social media) کی وجہ سے یہ توازن تہس نہس ہو کر رہ گیا ہے۔ کوئی بھی اچھا برا وقوعہ دنیا کے کسی کونے میں ہو تو پلک جھپکنے میں اس کے مناظر کروڑوں لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ وہ تکلیف جو کسی کرب ناک منظر سے چند دلوں پر وارد ہوتی ہے، ہم نے ترقی کے نام پر کروڑوں روحوں میں بانٹ دی ہے۔ اس کے برعکس خوشی کا معاملہ زیادہ تر یہ نہیں ہوتا۔ لوگ اجنبی لوگوں کو خوش دیکھ کر اتنا خوش نہیں ہوتے جتنا انھیں دکھ میں دیکھ کر دکھ اٹھاتے ہیں۔ بلکہ بعض اوقات غیروں کی خوشی کا الٹا اثر ہوتا ہے اور انسان کے دل میں اپنی بد قسمتی اور حرماں نصیبی کا خیال جڑ پکڑ جاتا ہے۔ اس سے حسد، غصے اور جارحیت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جن کا اظہار ہم صبح و شام انٹرنیٹ پر ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
جب تک ذرائعِ ابلاغ باقاعدہ اداروں یعنی اخبار، ریڈیو اور ٹی وی کی شکل میں رہے، مواد کی ادارت (moderation) کسی نہ کسی حد تک ممکن تھی۔ اب جبکہ سماجی واسطوں نے ہر شخص کو اشاعت و ابلاغ کا اختیار دے دیا ہے، یہ مسئلہ نہایت سنگین صورت اختیار کر گیا ہے۔ بہت بار غیر اختیاری طور پر نظر سے ایسی تکلیف دہ چیزیں گزر جاتی ہیں جن کے ملاحظے کی نہ خواہش تھی، نہ ارادہ اور نہ فائدہ۔ مزاج دیر تک مکدر رہتا ہے۔ جو لوگ ٹیکنالوجی کی ان برکات سے روز و شب اور اہتمام کے ساتھ فیض یاب ہونے کے عادی ہیں، سوچنا چاہیے کہ ان کی طبیعتوں پر اس کے دور رس اثرات کیا مرتب ہوں گے۔
ملاحظہ فرمائیے ایک متعلقہ مضمون: سماجی واسطے اور سماج