پرانے لکھنؤ کی ایک جھلک
گو قدامت کے اعتبار سے دہلی کا پایہ بلند ہے، مگر شاہی میں لکھنؤ پر بھی ایک ایسا رنگ آیا ہے جس کا نظیر چشم فلک نے کم دیکھا ہے۔ دہلی کے نصیب جاگے کہ اُس میں پھر ایسا جشن ہمایوں ہوا۔ کبھی کسی تقریب پر لکھنؤ کو بھی یاد کیا جائے تو کیا عجب ہے، سردست اپنے خیال کو گذشتہ صدی کے اوائل کی طرف لے جائیے اور ایک عالی خاندان انگریزی خاتون کے چشم دید حالات اس کی ایک سہیلی کی زبانی سنیے۔ ہائے ہائے کیا کیا لوگ تھے اور کیا کیا صورتیں تھیں جو خاک میں مل گئیں! جہاں آج لکھنؤ کا سب سے خوبصورت پارک ہے، وہیں کسی زمانہ میں محلات شاہی تھے اور ان میں آئے دن وہ دھوم دھام اور جلوس نظر آتے تھے، جن میں سے ایک کا بیان درج کیا جاتا ہے۔ آج وہاں سبز سبز گھاس ، سرخ سرخ سڑکیں، چھوٹے چھوٹے خوشنما پودے اور کہیں کہیں لالہ و گل بہار دے رہے ہیں، مگر:
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں! اکتوبر 1828ء
میری ایک معزز دوست جو آج کل لکھنؤ میں مقیم ہیں، بادشاہ کے جشن تخت نشینی کی کیفیت اس طرح لکھتی ہیں : اٹھارہ اکتوبر کو بادشاہ کی تخت نشینی کی سالگرہ تھی اور میں بھی اس مبارک رسم میں شریک ہوئی تھی۔ اس تقریب کے اختتام کے بعد ہم سب بادشاہ کی والدہ کے محل میں گئے، جہاں تمام بیگمات اور شہزادیاں آج مدعو تھیں۔ کہاریاں ہمارا تام جھام اٹھا کر محل میں لے گئیں، دروازہ کے قریب اُردا بیگیوں اور مغلانیوں کی ایک چھوٹی سی پلٹن مردانہ لباس پہنے، ہاتھوں میں سونے اور چاندی کے عصا لیے ہماری تعظیم کے لیے صف بستہ کھڑی ہوئی تھی۔ بادشاہ بیگم صاحبہ (نصیر الدین حیدر کی والدہ) بہت سادہ پوشاک پہنے تھیں اور کسی قسم کا زیور بھی ان کے بدن پر نہ تھا۔ شاہ متوفی کی ایک اور بیگم جو بہت کم سن اور خوبصورت تھی ان کے پاس بیٹھی ہوئی تھی، مگر اس کا لباس بھی بہت سادہ تھا؛ کیونکہ یہاں کے دستور کے مطابق بیوہ عورتیں مکلف پوشاک اور زیورات سے احتراز کرتی ہیں۔ بادشاہِ حال کی بیگمات نہایت قیمتی اور نفیس پوشاکیں زیب بدن کیے ہوئے تھیں اور بیش بہا جڑا ؤ زیورات سے لدی ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک بیگم بالخصوص ایسی حسین تھیں کہ میں نے اپنی یاد میں ہندوستان یا انگلستان میں کہیں ان سے زیادہ خوبصورت عورت نہیں دیکھی۔ بادشاہ آج کل ان پر بہت فریفتہ ہیں اور ان کی شادی بھی حال ہی میں ہوئی ہے۔ ان کا سن قریب بارہ 12 برس کے ہوگا، ہاتھ پاؤں بہت چھوٹے چھوٹے اور نازک ہیں،اعضا کے تناسب کے علاوہ نقشہ ایسا سڈول ہے کہ میں نے اس سے زیادہ دلآویز اور دلکش چہرہ کبھی نہیں دیکھا اور ان کو دیکھ کر میرا خیال بار بار مور شاعر کی مشہور ہیرواِن “لالہ رخ” کی طرف جاتا تھا۔ ان کی حرکات اور طرز نشست سے غایت درجہ کی مسکینی، حیا پروری اور حجاب مترشح تھا۔ پوشاک سرخ کمخواب کی تھی اور بال بال میں موتی پروئے ہوئے تھے۔ زلفیں شانوں پر بکھری ہوئی تھیں اور پیشانی پر ایک چھوٹا سا جھومر آویزاں تھا جس میں بڑے بڑے موتی اور زمرد جڑے ہوئے تھے۔ کانوں میں بہت سی بالیاں تھیں جن میں بے شمار زمرد، لعل و موتی جڑے ہوئے تھے۔ گلے میں متعدد موتیوں کی مالاؤں کے علاوہ ہار اور کنٹھے تھے جو اُن کے حسن کو دوبالا کرتے تھے۔ نتھ میں دو بڑے بڑے موتی اور ان کے بیچ میں ایک بیش قیمت زمرد آویزاں تھا۔
پشواز اس قدر بھاری تھی کہ کئی پیش خدمتیں اسے سنبھالے ہوئے تھیں۔ جس کونچ پر یہ بیگم صاحبہ متمکن تھیں، اس کے گرد کئی خواصیں اس غرض سے استادہ تھیں کہ دوپٹہ کو درست کرتی رہیں، کیونکہ ذرا سی حرکت سے موتی کمخواب کے بھاری دوپٹہ میں الجھ جاتے تھے۔ اِن سے اور بیگمات بہت حسد کرتی ہیں، جس کا سبب یہ ہے کہ بادشاہ اور ان کی والدہ دونوں اِن پر ازبس مہربان ہیں۔ بادشاہ نے انھیں “نواب تاج محل بیگم” کا خطاب عنایت کیا ہے، اور اس میں شک نہیں کہ خود نور جہاں بھی اس سے زیادہ حسین اور جمیل نہ ہوگی۔
ایک اور نئی بیاہی ہوئی بیگم بھی ان کے قریب ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ یہ ایک انگریزی سودا گر کی بیٹی ہے، اس کی شکل صورت بہت معمولی ہے مگر یہاں کی مستورات اسے بہت خوبصورت تصور کرتی ہیں۔ اس کی پوشاک تاج محل کی پوشاک سے بھی زیادہ پر تکلف تھی اور اس کی پیشانی پر بھی ایک بہت بیش قیمت مرصّع جھومر الماس کا تھا۔ اس زیور کی شکل ہلال سے بہت مشابہت رکھتی ہے([1])۔ یہ بیگم خاص تعلیم یافتہ ہے، یعنی اپنی مادری زبان انگریزی کے علاوہ اردو فارسی بھی اچھی طرح لکھ پڑھ لیتی ہے؛ لیکن جب ہم نے اس سے انگریزی میں ہم کلام ہونا چاہا تو اس نے جواب دیا کہ میں اب انگریزی بھول گئی ہوں۔ سنا جاتا ہے کہ بادشاہ اس سے انگریزی پڑھتے ہیں۔ تاج محل سے شادی ہونے سے پیشتر بادشاہ اسے نہیں چاہتے تھے۔ باوجودیکہ یہ دونوں بیگمیں برابر ایک ہی کونچ پر بیٹھی ہوئی تھیں، جوشِ رقابت ان دونوں میں اس درجہ بڑھا ہوا ہے کہ مطلقاً آپس میں بول چال نہیں ہوئی۔ نواب ملکہ زمانی بیگم جو صاحب اولاد ہونے کی وجہ سے بہت اقتدار رکھتی ہیں، اس صحبت میں شریک نہ تھیں۔ ہم خود ان کے محل میں ملاقات کے لیے گئے۔ خاندان مغلیہ کی شاہزادی جس سے کہ شاہ متوفی نے بادشاہ حال کی بچپن میں شادی کی تھی، اپنے محل میں نظر بند ہے۔ بادشاہ ان سے بہت کشیدہ خاطر بھی سنا جاتا ہے کہ ان کے حسن و جمال کو ان میں سے کوئی بیگم نہیں پہنچتی۔
نواب وزیر اودھ کے بادشاہ ہونے کی اصلی کیفیت یہ ہے کہ نواب سعادت علی خاں کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے مرزا غازی الدین حیدر نے اپنے نائب آغا میر کے صلاح و مشورہ سے شاہ دہلی کی اطاعت سے انحراف کیا اور سرکار انگلشیہ کی اجازت لے کر اپنی قلمرو میں سونے اور چاندی کا سکہ اپنے نام سے جاری کیا۔ غازی الدین حیدر کے دراصل کوئی لڑکا نہ تھا، صرف ایک بیٹی تھی جو اپنے چچا زاد بھائی سے منسوب ہوئی۔ اُس کے لڑکے کا نام محسن الدولہ ہے اور وہی دراصل اصلی وارث تاج و تخت ہے۔ بادشاہ نے بجائے اس کے کہ اپنے نواسے کو اپنا جانشین مقرر کرتے، یہ ظاہر کیا کہ نصیرالدین حیدر جو ایک حرم کا لڑکا تھا ان کا اصلی لڑکا ہے۔ یہ شخص آج کل بادشاہ ہے، انگریزی حکام اس کے حسب و نسب سے اچھی طرح واقف ہیں۔ شاہ حال کی وفات پر جانشینی کا ضرور تنازع ہوگا، کیونکہ بجائے اصلی وارث فریدوں بخت مناجان کے ایک لڑکے کو جسے کیوان جاہ کا خطاب دیا ہے وارث مقرر کرنا چاہتا ہے۔ نواب منتظم الدولہ حکیم مہدی علی خاں آج کل وزیر اعظم ہیں۔ حاضری کے وقت بھی ان کے ہاتھ میں تسبیح تھی۔ حاضری کے بعد بادشاہ کا پیچوان نواب کے سامنے لایاگیا، یہ بڑی بھاری عزت تصور کی جاتی ہے کیونکہ رعایا میں سے کوئی شخص بادشاہ کے سامنے حقہ نہیں پی سکتا۔ حاضری کے بعد بادشاہ دوسرے کمرے میں گئے، یہاں پر رزیڈنٹ نےحسب دستور بادشاہ کی دستار اتار کر تاج شاہی ان کے سر پر رکھا اور بادشاہ تخت پر جلوس فرما ہوئے۔
آج تاریخ جلوس کی سالگرہ ہے۔ کیوان جاہ بڑا لڑکا جس کی عمر چودہ برس کی ہے، ایک بد شکل نیچ قوم کا لڑکا معلوم ہوتا ہے، اس کے حرکات و سکنات سے بھی کم اصل ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ اس نے سب سے پہلے بادشاہ کو نذر دی اور چار پانچ خلعت، رقوم، جواہر، مرصع تلوار، ڈھال اور خچر، ہاتھی، پالکی وغیرہ اسے عنایت ہوئے۔ اس کے بعد فریدوں بخت جو ایک شکیل تیز طبع ہونہار لڑکا معلوم ہوتا ہے نذر لے کر گیا، اس کو بھی اسی طرح کا سامان خلعت میں مرحمت ہوا۔ اب نواب حکیم مہدی پیش ہوئے، دستار مع سر پنچ مرصع شال وخلعت عطا ہوا، انھوں نے نہایت ادب سے جھک کر تسلیمات عرض کی۔ جب محسن الدولہ وارث حقیقی نذر دینے کے لیے آگے بڑھے تو بادشاہ کا چہرہ مکدر معلوم ہوتا تھا اور اس کے چہرہ پر افسوس اور رنج کی علامت نمایاں تھی۔ محسن الدولہ بہت وجیہ خوبصورت جوان ہے اور نہایت ذکی اور تیز فہم ہے۔ مجھے یہ امر بہت ناگوار معلوم ہوا کہ اصلی وارث ایک نامنصفانہ رواج کی پابندی کے سبب سے غیرمستحق شخص کو نذر دے اور اپنا بادشاہ تسلیم کرے۔ اور اس رسم کے اختتام کے وقت جواہرات کی بوچھاڑ ہوئی، رزیڈنٹ کی اور میری آستین پر چند جواہر آپڑے تھے، میں نے رزیڈنٹ کو آستین جھٹکتے ہوئے دیکھ کر اس کی تقلید کی اور جواہرات زمین پر پھینک دیے؛ شاہی خواصوں نے سب جواہرات سمیٹ کر باہم تقسیم کرلیے۔ اس بوچھاڑ میں زمرد، پکھراج، نیلم اور ہیرے تھے۔ کیسی قیمتی اور تعجب خیز بخشش ہے۔
دربارِ لکھنؤ کی ایک جھلک
شاہ موصوف الصدر کے محلات تو صدہا تھے مگر ان میں سے چند خصوصیت کے ساتھ ذکر کے قابل ہیں۔
1) نواب سلطان بہو صاحبہ۔ یہ ملکہ خوش صفات صاحب عالم مرزا سلیمان شکوہ خلف سوئمی حضرت شاہ عالم ثانی بادشاہِ ہند کی دختر نیک اختر اور حضرت اکبر شاہ ثانی کی حقیقی بھتیجی تھیں۔ ان کے والد بزرگوار دہلی سے آصف الدولہ وزیر الممالک کے عہد میں لکھنؤ آئے اور یہیں اقامت پذیر ہوئے۔ نواب آصف الدولہ، سعادت علی خاں مرحوم اور غازی الدین حیدر یکے بعد دیگرے مسند نشین وِسادۂ وزارت ہوئے اور شاہزادہ موصوف الصدر بڑے اعزاز و احترام سے لکھنؤ میں رونق افروز رہے۔ عیدین پر نواب وزیر بلحاظ اپنے منصبِ آبائی بروقت سواری خواص میں مورچھل ہاتھ میں لے کر بیٹھتے تھے اور دربار میں نذر دیتے تھے۔ جب مارکوئیس ہیسٹنگز کی تحریک سے غازی الدین حیدر نے خطاب شاہی اختیار کیا، صاحب عالم کو نہایت ناگوار گزرامگر مصلحت وقت سمجھ کر خاموشی اختیار کی اور ملاقات سے اجتناب کیا۔ کچھ عرصہ بعد شاہِ زمن غازی الدین حیدر نے اپنے ولی عہد نصیرالدین حیدر کی شادی کا پیغام صاحب عالم کے پاس بھیجا، یہاں سے بصد اکراہ انکارِ کلّی ہونے پر نواب وزیر الممالک نے بعض محلات و رفیق الدولہ و گلزار علی خاں وغیرہ مصاحبینِ صاحب عالم کو طمع دنیاوی دے کر وہ سبز باغ دکھایا کہ نوازش محل محبوبۂ صاحب عالم نے اس اہم کام کا بیڑا اٹھایا اور کئی ماہ کی کوشش کے بعد صاحب عالم کو اس امر پر راضی کردیا۔ چنانچہ 18٢5ء میں بہ تجمل و احتشامِ شاہانہ سلطان بہو کی شادی مرزا نصیر الدین حیدر سے ہوگئی اور شاہِ اودھ کی دلی مراد بر آئی۔ شاہزادی کا مہر پانچ کروڑ مقرر ہوا اور ان کے والد کے لیے جو پیشتر سے چھ ہزار روپیہ ماہوار برائے میوہ خوری مقرر تھا، اس میں چھ ہزار اور اضافہ کا اقرار ہوا؛ مگر بعد مطلب براری ایفائے وعدہ نہ ہوا اور انجام کار صاحب عالم کو جون 1828ء میں بدرجۂ مجبوری لکھنؤ کی اقامت ترک کرکے آگرہ میں سکونت اختیار کرنی پڑی۔ مشہور ہے کہ اس شاہزادی کو اپنے باپ کی بے بسی اور سوتیلی والدہ کی خود غرضانہ کارروائی کا ایسا سخت صدمہ ہوا کہ اس نے اپنی تمام زندگی یاد خدا میں بسر کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا اور شادی کے بعد کبھی اپنے شوہر نصیرالدین حیدر کو اپنی استراحت گاہ میں قدم رکھنے نہ دیا، کیونکہ وہ اس کو بہ سبب نقصِ حسب و نسب قابل نہیں سمجھتی تھیں۔ انھیں اسباب سے ان کے ساتھ ہمیشہ نہایت برا سلوک خود بادشاہ اور ان کے اہالیانِ خاندان کی طرف سے ہوتا رہا۔ شروع شروع میں اخراجات محل کےلیے صرف بیس روپیہ یومیہ مقرر تھا، بعد ازاں ہزار روپیہ ماہوار مقرر ہوا۔ یہ اپنے محل میں بطور قیدی کے نظر بند رہتی تھیں اور دیگر بیگمات اور اپنے عزیزوں سے ملنے کی ان کومطلق اجازت نہ تھی۔ پیش خدمتیں اور ملازم جو آپ کے میکے سے ان کے ہمراہ آئے تھے، یکے بعد دیگرے ذلیل و خوار کرکے نکالے گئے۔ رزیڈنٹ لکھنؤ کی بیوی نے مسٹر فینی پارکس سے 1830ء میں بیان کیا تھا کہ “سلطان کی بہو ایسی حسین عورت ہے کہ میں نے اپنی تمام زندگی میں اس سے زیادہ حسینہ و جمیلہ نہیں دیکھی”۔ 1830ء میں ان کا سن 16 یا 17 برس کا تھا اور شادی کو پانچ برس گزرے تھے۔ فینی پارکس لکھتی ہیں کہ چونکہ میں نے ان کی بہن کو دیکھا ہے، اس لیے میری رائے ہے کہ رزیڈنٹ کی بیوی کا خیال مبالغہ پر مبنی نہیں۔ تاریخ اودھ میں صرف ایک موقع پر ان کا ذکر اور آیا ہے، نصیرالدین حیدر کے انتقال کے بعد جب بادشاہ بیگم صاحبہ زوجہ غازی الدین حیدر نے فریدوں بخت منّا جان مصنوعی فرزند شاہ مرحوم کو مسند نشین کرنا چاہا تو اس کے دعوے کی تقویت اور استحکام کےلیے سلطان بہو کی امداد چاہی؛ چنانچہ ان کو محل سے کشاں کشاں اپنے ہمراہ لے کر بارہ دری میں جہاں شاہی تخت تھا، لے گئیں اور فریدوں بخت کو ان کی موجودگی میں تخت نشین کردیا۔ مگر دو ہی ساعت بعد سپاہ باغی کو جو بادشاہ بیگم صاحبہ کے ساتھ تھی، نواب نصیر الدین شاہ متوفی کے چچا نے باعانت رزیڈنٹ بارہ دری سے نکال کر بخطاب محمد علی شاہ تخت سلطنت پر جلوس فرمایا۔ بعد انتزاع سلطنت سلطان بہو صاحبہ کربلائے معلیٰ چلی گئیں اور وہیں کچھ عرصہ بعد انتقال کیا۔
٢) نواب ملکہ زمانیہ : اصلی نام اور حسب و نسب کی نسبت تاریخ سے صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ کسی ادنی طبقہ سے تھیں، سن بلوغ پر پہنچ کر رمضانی چرکٹے سے شادی ہوئی مگر دونوں میں نا اتفاقی رہی۔ انھیں ایام میں کچھ عرصہ ایک سرا میں دانہ پیس کر ایام گزاری کی، یہیں ان کا لڑکا مسمی ٹلوا پیدا ہوا۔ بعد ازاں مرزا جواد علی بیگ کی محل سرا میں 8؍ آنہ ماہوار پر ماما گری اختیار کی، یہیں ایک لڑکی بھی ہوئی۔ اُسی زمانہ میں مرزا ولی عہد نصیر الدین حیدر کے محل میں فریدوں بخت منّا جان پیدا ہوئے جن کےلیے انّا کی تلاش ہوئی، خوش قسمتی سے انھیں یہ ملازمت مل گئی اور یہی وسیلۂ عروج ہوا۔ اس وقت ان کی عمر چالیس سال کے قریب تھی، رنگ سیاہ، بدن فربہ اور بہت بھدّا تھا، لیکن تھوڑے ہی عرصہ میں اپنی چرب زبانی اور ہوشیاری سے انھوں نے بھولے بھالے ولی عہد کو موہ لیا اور یہ اقتدار حاصل کیا کہ داخلِ محلات ہوئی۔ غازی الدین حیدر کے انتقال پر جب مرزا ولی عہد بادشاہ ہوئے تو حسبِ قراردادِ سابق انھیں خطاب ملکہ زمانی عطا کیا اور ان کے بیٹے ٹلوا کو جو بروقت ملازمت شاہی تین برس کا ہوچکا تھا، بادشاہ نے اپنا بیٹا اور ولی عہد بنایا اور خطاب کیوان جاہ عنایت کیا۔ اسی طرح اس کی شیر خوار بہن نواب سلطان عالیہ کے لقب سے مشہور ہوئی اور اس کا شمار شاہزادیوں میں ہوا۔ نواب فتح علی خاں، وارث علی خاں دو بھائی بنارس سے پریشان ہو کر آئے، وہ نواب ملکہ زمانی کے بھائی مشہور ہوئے۔ پرگنہ ہڑپہ پروا چھ لاکھ کے محاصل کا، جاگیر میں ملا اور خزانہ شاہی سے چھ لاکھ سالانہ برائے اخراجاتِ محل مقرر ہوا۔ علاوہ ازیں جواہرات و پشمینہ و دیگر سامانِ امارت لکھو کھا روپیہ کا عنایت کیا اور دس ہزار ماہوار ان کا اور چار ہزار نواب سلطان عالیہ کا وثیقہ معرفت سرکار انگریزی مقرر فرمایا۔ نواب سلطان عالیہ کی شادی نواب نصیر الدولہ (جو بعد میں محمد علی شاہ ہوئے) کے پوتے نواب ناصر الدولہ اصغر علی خاں کے بیٹے نواب ممتاز الدولہ سے بہ شکوہ شاہانہ عمل میں آئی۔ ملکہ زمانی کا یہ دور دورہ ہوا کہ ایک روز تمام اقربائے شاہی حکم بادشاہ سے انھیں نذر دینے آئے۔ طوعاً کرہاً نذر دی، نواب نصیر الدولہ کی جب نوبت آئی، آنکھوں سے مسلسل اشک جاری تھے، قدرت خدا کو دیکھتے تھے۔ پھر اسی خدا نے یہ دن دکھایا کہ خود بادشاہ ہوئے، ملکہ زمانیہ کو سمدھن سمجھ کر باربار بلایا مگر یہ بھی بڑی نکتہ فہم تھیں، ہمیشہ عذرِ علالت کہلا بھیجا۔ سیر چشمی، سخاوت، خوش نیتی اور عالی حوصلگی میں بے مثل تھیں اور تمام بیگمات پر فوق رکھتی تھیں۔
٣) نواب مخدرۂ علیا: والٹر سوداگر کی بیٹی تھیں، بخش علی خاں ان کے باپ مشہور ہوئے۔ میاں گنج رسول آباد اوناؤ چھ لاکھ کی جاگیر ملی۔ بخش علی خاں بخطاب نواب ناظم جاگیر و داروغۂ ڈیوڑھی ہوئے۔ سرکار شاہی سے مواجب بیش قرار کے علاوہ ٦ ہزار ماہوار کا وثیقہ معرفت سرکار انگریزی مقرر ہوا۔
٤) نواب خورشید محل: جن کا بعد میں تاج محل خطاب ہوا، حسن پور بندھوا کی رہنے والی تھیں۔ حسن و جمال میں اکثر بیگمات پر فوق رکھتی تھیں، بادشاہ کی نظر عنایت ان پر بہت تھی اور اکثر مے نوشی کی محفل انھیں کے محل میں ہوا کرتی تھی۔ جب داخل محل ہوئیں، مرزا حسین بیگ جو سواروں میں ملازم تھے ان کے باپ مشہور ہوئے۔ نواب گنج جاگیر میں ملا اور ٦ ہزار کا وثیقہ معرفت سرکار انگریزی مقرر ہوا۔ عملداریٔ سرکار میں کربلا جا کر انتقال کیا۔
[1]۔ یہ بیگم دراصل ایک انگریزی افسر کی بیٹی ایک دوغلی عورت کے بطن سے ہے، بعد میں اس کی ماں نے ایک دولت مند مہاجن سے تعلق پیدا کرلیا۔ اس کے ایک اور بہن بھی ہے۔ یہ دونوں بہنیں جب اپنی ماں کے پاس رہتی تھیں تو اپنے گزارہ کے لیے دولت مند شرفا کے گھوڑوں کے زین پوش کاڑھا کرتی تھیں۔ شکل صورت دونوں کی واجبی تھی لیکن ان میں سے ایک نے اپنی تصویر بادشاہ کو بھیجی، جس نے فریفتہ ہو کر اس سے شادی کرلی۔ پھر تو روپیہ کی ریل پیل ہوگئی اور اس نئی بیگم نے اپنے سوتیلے باپ یعنی اس مہاجن کو خزانچی مقرر کرلیا اور اپنی ماں اور بہن کی خاطر خواہ پنشن مقرر کردی۔