ڈیمانڈ اور سپلائی کا اصول
بخدمت جناب ایڈیٹر صاحب “معارف”!
جناب من! میں نے اردو لٹریچر کے “نَفَسِ واپسیں” کے عنوان سے حال میں ایک مضمون لکھا تھا جس سے بعض حلقوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ “پرستارانِ شبلی”کے مقابلہ میں دراصل اس سے انجمن اردو کی تنقیص مد نظر تھی،لیکن واقعی بات یہ نہیں ہے۔ میں نے انجمن کو اس کی اہم ذمہ داریوں کے لحاظ سے ٹوکا تھا یعنی توقعات زیادہ ہوتی ہیں تو فروگذاشت کسی حیثیت سے ہو مایوس کن ہوتی ہے۔
انجمن جو کچھ کر رہی ہے میں اسے قوم کی عام بے التفاتی کے لحاظ سے بہت قابل قدر سمجھتا ہوں، اسی طرح مجھ کو دار الاشاعت لکھنؤ سے پوری ہمدردی ہے جو انجمن کے کارناموں کی مقدار کے ساتھ اس کی صفات کو بھی گراں وزن کر رہا ہے اور گو ایک غیر ذمہ دار جنس لطیف نے ظفر الملک سے ایک موقع پر کیفیت نہیں بلکہ جواب طلب کیا تھا لیکن یہ بڑی ناشکری ہوگی اگر ترقی اردو کے آلۂ محرک (لِور) سے ایک منٹ کے لیے قطع نظر کی جائے؛ تاہم میں نہیں مانتا کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ قدرتی طور پر ہماری ضروریات کے مطابق ہے۔
ملک کی کسی تعلیم یافتہ جماعت نے کبھی اس پر غور نہیں کیا کہ ہر چیز ایک نظام طبعی رکھتی ہے اور اردو زبان بھی اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ کانفرنس ہو یا انجمن ترقی اردو، زبان کا مسئلہ کبھی اس حیثیت سے پیش نظر نہیں رہا، یہاں تک کہ ان لائق ادب افراد نے (جن کے دل و دماغ کے نتائج آج اردو کا بہترین سرمایۂ ادب ہیں) منفرداً یا متفقاً کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ لٹر یچر کی فطری ضروریات کے لحاظ سے کون کون سے کام ہیں جن پر ترتیباً سب سے پہلے توجہ ہونی چاہیے اور دراصل ترقی اردو کے نظام ترکیبی کا اقتضائے طبعی کیا ہے۔
یہ ایک کھلا ہوا راز ہے کہ ملک میں جہاں تک مختلف اصناف سخن کا تعلق ہے، لٹریچر کا ذخیرہ بڑھ رہا ہے لیکن کیا یہ انتشارِ عمل کسی قاعدہ کلیہ کی تحت میں ہے یا ہم اس سے کسی حقیقی فوائد کے متوقع ہو سکتے ہیں؟
میں نے اسی خیال سے پروفیسر براؤن آف کیمبرج کو جو آج کل کے مستشرقین یورپ میں ایک زبردست شخصیت رکھتے ہیں اور جن کو مشرقی لٹریچر سے خاص دلچسپی ہے لکھ کر دریافت کیا، ممدوح کی رائے کے مطابق ہم کو ترقی زبان کے لیے سب سے پہلے تالیفاتِ ذیل مرتب کرنی ہوں گی:
(١) جامع اللغات اردو
(٢) محاورات
(٣) لغات الاصطلاحات
(٤) لغات فارسی (جہاں تک اردو کی تکمیل کا تعلق ہے)
(٥) لغات عربی (بہ ترتیب جدید)
(٦) ادب الاساتذہ (12 ضخیم جلدوں میں)
(٧) جامع القواعد اردو
(٨) عقلیات (یعنی فلسفہ اور سائنس کی ہر شاخ پر ایک مستقل کتاب)
(٩) اردو انسائیکلوپیڈیا (جو بظاہر علوم اعصریہ ہوگی)
کسی زبان کو سرمایہ دار اور بااصول کرنے کی یہ قدرتی ترتیب ہے جس سے براؤن کی رائے کے مطابق قطع نظر نہیں ہو سکتی۔ ہم کو محض بے غایۃ رسائل کی اشاعت سے خواہ وہ فی نفسہ مفید بھی ہوں صرف مطبوعات کی تعدادبڑھانی نہیں ہے بلکہ ان وسائل کی تکمیل کے ساتھ جو زبان کی ترقی کے لیے لازم سے ہیں،یہ دیکھنا ہے کہ نا آشنایانِ سخن کو کس طرح زبان کا دلدادہ بنایا جائے۔
اس کے لیے فاضل پروفیسر کی رائے ہے کہ کثرت سے “صالح لٹریچر” کی اشاعت کی جائے۔اسی طرح ضخیم لغات کی ترتیب کے بعد اردو، فارسی اور عربی کی لاکھوں جلدیں “لغات المبتدی” کی حیثیت سے مرتب کی جائیں اور اس کثرت سے شائع کی جائیں کہ بچہ بچہ کے ہاتھوں میں ہوں۔
میرا خیال ہے کہ پروفیسر براؤن کی یہ اسکیم نسبتاً اس قدر ضروری ہے کہ اس کا ذکر آپ کے وقیع پرچہ میں نہ آئے تو لٹریچر کی حق تلفی ہوگی۔
ایم مہدی حسن
کشیم نالہ خدا آسمان نگہدارد
پروفیسر براؤن نے انگلستان میں بیٹھ کر ہندوستان کی ملکی زبان کی نسبت جو کچھ لکھا ہے اصولاً اس کی تسلیم میں کس کو عذر ہو سکتا ہے،لیکن ذرا ان کو عملاً بھی ایک محکوم قوم کی زبان کے مشکلات سے واقفیت حاصل کرنی چاہیے۔ اس زمانہ میں محکوم قوم کی زبان کی ترقی کا مسئلہ عملی حیثیت سے ایسا نہیں ہے کہ صرف ایک دو آدمی یا ایک مجلس کے طے کردینے سے طے ہوجائے۔ وہ زمانہ گذر چکا جب ایک رستم تنہا ماژندران کے سارے دیوستان کو فتح کرسکتا تھا، اب اس کے لیے کلدار توپیں، لا تعداد گولے، بے شمار تربیت یافتہ فوجیں اور غیر محدود سامان چاہیے اور سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ آسمان و زمین کے خزانوں کی کنجیاں ہاتھ میں ہوں۔
ہم کو تصنیفات کی ضرورت ہے، تصنیفات کے لیے سامان طبع کی حاجت اور سامان طبع کے لیے سرمایہ کی ضرورت۔ ہم کو مصنفین چاہئیں لیکن مصنفین کو فراغ چاہیے اور فراغ روپیہ سے ہوسکتا ہے۔ الغرض سب سے اول اور سب سے پہلے مصنفین اور تصنیفات کا سوال نہیں بلکہ سرمایہ اور روپیہ کا سوال ہے، سرمایہ اور روپیہ کیوں کر ہاتھ آ سکتا ہے؟حکومت سے یا قوم سے، موجودہ نظام حکومت کا طرز عمل ایسی امداد کے لیے آمادہ نہیں،اب صرف قومی خزانہ کی طرف ہمارا ہاتھ بڑھ سکتا ہے لیکن حالت یہ ہے کہ قوم اپنے خزانہ کا منہ اسی وقت کھول سکتی ہے جب اس کو روزانہ کاروبار اور اپنی عام زندگی کے لیے ہماری ضرورت محسوس ہو۔
اردو کی ترقی اور تکمیل کے لیے متعدد تجویزیں اب تک پیش ہو چکی ہیں لیکن ہمارے نزدیک یہ اس وقت تک ناقابل عمل ہیں جب تک ملک میں اس کی مانگ اور اس کی قدر دانی کا جذبہ نہ پیدا ہو۔ بہت سے دوستوں نے نیک نیتی سے اردو انسائیکلوپیڈیا کی تجویز کی مخالفت کی اور سنجیدہ دلیلیں پیش کیں؛ چنانچہ سب سے پہلے روپیہ کا سوال پیش آیا، ہم نے کہا ایک دو صاحبانِ ہمت نے بھی ہمارا ساتھ دیا تو بس ہے، لکھنے والوں کی نسبت سوال آیا تو ہم نے ملک کے ارباب قلم کے نام گنا دیے جن میں سے عملاً اکثر کام کرنے کے لیے تیار تھے، لیکن جب یہ سوال آیا کہ اس کی کتنی جلدیں چھپیں گی اور کتنے لوگ اس کی خریداری کو آمادہ ہوں گے، اس وقت ہم نے شائقین کی فہرست پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ مشکل سے سو دو سو نسخے فروخت ہو سکتے ہیں۔ “سیرت نبوی” جس کے غلغلہ سے ہندوستان کا گوشہ گوشہ گونج اٹھا ہے اور ہمارے احباب کا بیان ہے کہ ملک نہایت بے چینی سے اس کا منتظر ہے،اس وقت تک اس کے دفتر میں خریداروں کے صرف ٣٠٠ نام رجسٹرڈ ہوئے ہیں؛ پھر اردوکے لیے کوئی کس برتے پر کسی بڑے کام کی ہمت کرے۔
استاذ مرحوم نے شعر العجم جب لکھی تھی تو خیال تھا کہ ہندوستان کو شاعری سے ایک فطری لگاؤ ہے اور خصوصاً فارسی شاعری تو اب تک کالجوں میں زندہ ہے، لیکن آپ کو معلوم ہے اس کے ٥٠٠ نسخے پورے پانچ برس میں بکے۔ انجمن ترقی اردو اپنے مطبوعات کا پشتارہ باندھے تمام ملک کا چکر لگا رہی ہے تاہم اس کی سالانہ روداد میں مطبوعات کی خریداری اور آمدنی کی قابل افسوس تعداد نظر آتی ہے۔ دارالمصنفین کا بھی یہی حال ہے۔
بیس تیس برس میں کیا سے کیا ہو گیا۔ المامون ١٨٨٩ء میں پہلی دفعہ چھپی تھی، مولانائے مرحوم فرماتے تھے کہ صرف تین مہینے میں پہلا ایڈیشن ختم ہوگیا تھا۔ سر سید کی تصنیفات جو تمام تر عربی سے ماخوذ، عربی عبارتوں اور دقیق اور مشکل بحثوں سے بھری ہوتی تھیں،لوگ برابر پڑھتے تھے۔ بات یہ تھی کہ اس زمانے تک ملک میں انگریزی کا پورا رواج نہ تھا، عربی اور فارسی زبان زندہ تھیں، جدید تعلیم نے دماغوں کو صرف تفریحی مشاغل کا آشیانہ جس طرح آج بنا رکھا ہے اس وقت تک نہ تھا، اس لیے ایک حالت قائم تھی۔ انگریزی تعلیم جیسے جیسے پھیلتی گئی، اردوجس کا تانا بانا سارا عربی اور فارسی سے ہے ان کے لیے نا قابلِ فہم ہوتی گئی؛ آج ان کے ہاتھ میں اگر تفسیر احمدی یا النظر فی بعض مسائل الامام الغزالی دے دی جائے تو شاید اس کی چند سطریں بھی وہ صحیح نہ پڑھ سکیں، حالانکہ سر سید کا طرز تحریر نہایت صاف،شستہ اور سہل ہے۔
جدید تعلیم نے ہماری زبان میں جو مایہ ناز افراد پیدا کیے، وہ وہی تھے جن کو کم و بیش اپنے مشرقی علوم پر اطلاع تھی۔ سید محمود، سید علی بلگرامی، سید حسین بلگرامی یہ نام ہمارے ملک اور زبان کے لیے معیار فخر ہیں لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو انگریزی کی اعلی تعلیم کے ساتھ اپنے مشرقی علوم میں مُتَبَحِر ہیں۔ ان سے نیچے اتر کر مولوی عزیز مرزا، خواجہ غلام الثقلین مرحوم وامثالہم کے مغربی فضل و کمال کے چہرہ پر اصلی آب و رنگ مشرقی علوم و السنہ کی واقفیت کا تھا۔ اس وقت بھی جو لوگ موجود ہیں اور جن کو ہم جدید تعلیم کا بہترین نمونہ سمجھتے ہیں وہ مشرقیات سے بے بہرہ نہیں ہیں۔
یہ حالت کچھ مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، ہندوؤں کا بھی یہی حال ہے۔ دکن کے ہندوؤں میں جدید تعلیم کے تخم نے جو قابل عظمت اشخاص پیدا کیے ہیں ان میں کوئی ایسا نہیں ہے جو سنسکرت سے بے بہرہ ہو؛ جسٹس راناڈے، مسٹر گوکھلے، ڈاکٹر بھنڈارکر،مسٹر تلک مشرق و مغرب کے پیوند نے ان کے نخلِ کمال کو بار آور کیا ہے۔ بنگالیوں کا بھی یہی حال ہے اور یہی ان کی ملکی زبان کی ترقی کا راز ہے۔ البتہ ہمارے صوبہ میں ہندو نوجوانوں کی حالت مسلمان نوجوانوں سے ممتاز نہیں ہے۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ حالت ہے کہ ہمارے انگریزی خواں دوست اردو اخبارات اور تصنیفات کو ہاتھ تک لگانا جرم سمجھتے ہیں۔ ترجمہ کے لیے انگریزی کی دو سطریں دیجیے تو یہ کہہ کر مغرورانہ انداز سے کاغذ میز پر رکھ دیں گے کہ “بڑی مشکل ہے کہ اس کے لیے اردو میں الفاظ نہیں”، اردو میں الفاظ نہیں یا آپ کی نظر میں وسعت نہیں۔ اصل یہ ہے کہ کچھ تو اس تعلیم کا یہ اثر ہے کہ غور و فکر، دقت بینی اور نکتہ رسی کی قوت نوجوانوں سے مفقود ہو جاتی ہے اور اس لیے علمی دلچسپی اور مذاقِ سلیم سے بے بہرہ رہتے ہیں اور زیادہ تر یہ ہے کہ ایک مدت تک اجنبی زبان اور بیگانہ خیالات پڑھتے پڑھتے اور سنتے سنتے اپنی مادری زبان سے قدرۃً ان کو بُعد ہوجاتا ہے اور چار جملے بھی غیر ضروری انگریزی الفاظ کی آمیزش کے بغیر نہیں لکھ سکتے بلکہ اپنی مادری زبان سے ان کو ایک گونہ نفرت سی ہے اور اس میں لکھنا پڑھنا اپنے لیے عار سمجھتے ہیں۔ جب تک یہ حالت قائم ہے زبان کی ترقی کی کوشش بے سود ہے۔
لکھنؤ کے تاریخی افسانے اور دلّی کے مذہبی چٹکلے ممکن ہے کہ ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جاتے ہوں لیکن مستند، متین اور صالح لٹریچر کی مانگ ملک میں مطلق نہیں ہے اس لیے وہ پیدا بھی نہیں ہوسکتا۔ قدرت صرف اسی چیز کو پیدا کرتی ہے جس کی طلب اور تلاش ہو۔ اگر مصنوعی طریقے سے ایسی چیزیں پیدا بھی ہوں گی تو زندہ نہ رہیں گی۔ چنانچہ کلکتہ کے اردو کالج (١٨٠٠ء) سے جوکتابیں نکلیں، چند کہانیوں کو چھوڑ کر جن کا نام شاید آپ نے سنا ہو اس کی کسی علمی اور مفید تصنیف کا نام آپ نے سنا ہے؟ حالانکہ اردو زبان کی سب سے پہلی قواعد کی کتاب صرفِ اردو یہیں لکھی گئی۔ اردو سوسائٹی دلی (١٨٤٠ء) کی تصنیفات آپ کی نظر سے گذری ہیں، حالانکہ علم الاقتصاد (پولٹیکل اکانمی) کی پہلی کتاب اسی سوسائٹی کی طرف سے شائع ہوئی ہے۔ اردو سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ کا نام سر سید کے تعلق سے زبانوں پر آتا ہو لیکن اس کی چالیس فیصد مطبوعات علمی کے نام آپ کو معلوم ہیں اور آپ کے کتب خانے میں اس کا سلسلہ موجود ہے؟ حالانکہ زراعت اور علم البرق اور دیگر علوم طبعی و تاریخی کی جدید الضرب سکے پہلے اسی ٹکسال میں ڈھلے۔انجمن پنجاب تو آپ کے ہوش میں قائم ہوئی ہوگی، ١٨٨٥ء میں جدید علم النفس پر اردو میں سب سے پہلے وہیں سے ایک مستقل تصنیف ترجمہ ہوکر شائع ہوئی آپ جانتے ہیں۔
اس وقت ملک میں جو اخبار اور رسالے نکل رہے ہیں ان کے خریداروں کا جائزہ لیجیے تو معلوم ہو جائے کہ ان میں انگریزی تعلیم یافتوں کا کتنا کم عنصر شامل ہے اور پھر ہمارا مغرور صوبہ تو اس دوڑ میں سب سے پیچھے ہے۔ تعجب ہوگا کہ تقریباً ہندوستان کے ہر اردو اخبار اور رسالے کی خریداری وہاں زیادہ نہیں ہے جہاں وہ زبان بولی جاتی ہے بلکہ وہاں ہے جہاں ابھی لوگ اس کو سمجھ رہے ہیں۔ زیادہ تر خریدار کہاں سے ہاتھ آئیں گے متوسط، مدراس، حیدرآباد،گجرات، سندھ اور رنگون وغیرہ سے، اس کا سبب صرف یہ ہے کہ ان ممالک کے مسلمانوں میں اب تک انگریزی تعلیم عام نہیں ہوئی ہے اور ابھی تک علم و اطلاع کا ذریعہ وہاں اردو ہی ہے۔
مصر میں ہندوستان سے عام تعلیم نسبتاً کم ہے لیکن چونکہ تعلیم کی زبان عربی ہے اس لیے وہاں جدید عربی لٹریچر ہمارے ہاں سے زیادہ وقیع اور بہتر ہوگیا۔ حیدرآباد میں اردو یونیورسٹی قائم ہو رہی ہے، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہاں چند روز میں اردو زبان علمی تصنیفات سے مالا مال ہو جائے گی۔ چنانچہ ابھی سے وہاں ایسے صیغے قائم ہو رہے ہیں جو انگریزی خیالات اور مغربی علوم کو اپنی زبان میں منتقل کر سکیں اور اردو ذریعۂ تعلیم ہونے کے باعث یہ کتابیں تمام ملک میں پھیل جائیں گی۔ اس کا قیاس صرف ایک واقعہ سے کر سکتے ہیں، شعر العجم جس کی نسبت میں نے پہلے کہا کہ اس کے ٥٠٠ نسخے پانچ ہی برس میں نکلے، دو برس سے اس کی کچھ جلدیں لاہور کے مشرقی صیغہ نے اپنے نصاب میں داخل کرلی ہیں، نتیجہ یہ ہوا کہ شعر العجم کا ایک ایک نسخہ اشرفی کے مول بک رہا ہے اور اس کے طبع ثانی جگہ جگہ انتظام ہو رہا ہے۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ اردو زبان کی بیسیوں تاریخی اور مذہبی کتابیں گھر گھر پھیلی ہیں اور ہمیشہ لوگ ان کو خریدتے اور پڑھتے ہیں لیکن ہم عرض کریں گے کہ یہ علم پرستی کا نتیجہ نہیں بلکہ ہماری سلف پرستی اور مذہب پرستی کا نتیجہ ہے۔
نیست در دائرۂ یک نقطہ خلاف از کم و بیش | کہ من ایں مسئلہ بے چوں و چرا می بینم |
پروفیسر براؤن نے ہماری زبان کی ترقی کے لیے جو خاکہ تیار کیا ہے اس میں لغات و محاورات اردو کی جگہ سب سے پہلے ہے۔ اولاً اسی پر غور کیجیے، ابتداءً جب اہل یورپ ہندوستان آئے تو ان کو اردو سیکھنے کی ضرورت پیش آئی اس لیے اردو کے قواعد و محاورات پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں، گورنمنٹ نے ابتدائی درجوں میں اردو کو داخل کیا، اس کی بدولت ہر سال قواعد اردو کے متعدد رسالے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ چنانچہ ان کثیر التعداد رسالوں کو چھوڑ کر جو اہل یورپ نے اپنی ضرورت سے مختلف زبانوں میں لکھے، نیز ان بیسیوں کتابوں سے قطع نظر کر کے جو اسکول کے بچوں کے لیے لکھی گئیں، قواعد کی حسب ذیل کتابیں ہماری زبان میں موجود ہیں:
(١) صرف اردو شیدا ١٨٠١ء
(٢) دریائے لطافت سید انشا ١٨٠٢ء
(٣) رسالہ صرف و نحو مولوی احمد علی دہلوی ١٨٤٥ء
(٤) رسالہ صرف و نحو مولوی صہبائی دہلوی ١٨٤٩ء
(٥) رسالہ صرف و نحو مولوی احمد حسن الہ آبادی ١٨٥٩ء
(٦) رسالہ صرف و نحو سید احمد خان دہلوی ١٨ء
(٧) قواعد اردو مرزا نثار علی بیگ مدرس اول آگرہ کالج ١٨٦١ء
اس کے بعد اردو زبان کی طرف سے انگریزوں کو بے اعتنائی ہوئی اور دفعتاً اس کی ترقی رک گئی پھر اس وقت تک اس کی طرف توجہ نہ ہوئی جب تک انجمن ترقی اردو کا وجود نہ ہوا۔ انجمن کی کوشش سے قواعد اردو پر دو نہایت عمدہ کتابیں تالیف پائیں:
(١) مصباح القواعد منشی فتح محمدصاحب جالندھری ١٩٠٤ء
(٢) قواعد اردو مولوی عبد الحق صاحب ١٩١٤ء
مصباح القواعد میں جزئیات کے استقصا کا خیال زیادہ کیا گیا ہے اور قواعد اردو میں اصولِ کلیہ بنانے اور تحقیق و تلاش کا پہلو زیادہ مد نظر ہے۔
محاورات اور لغات کو لیجیے، ان کا بھی یہی حال ہے:
شمس البیان فی مصطلحات ہندوستان مرزا خان تپش ١٢٨٣ھ
دریائے لطافت سید انشا ١٢٢٢ھ
کلیدِ سخن سید محمد حسین ١٨٠٢ء
خزائن الامثال شمس الدین فیض ١٢٨٢ھ
فرہنگ آصفیہ مولوی سید احمد دہلوی ١٨٨١ء
دستور الشعراء خواجہ محمد اشرف لکھنوی ١٨٨٩ء
مخزن الاسرار نیاز علی بیگ ١٢٨٣ھ
رسالہ زباندانی چرونجی لال ١٨٨٤ء
مخزن المحاورات منشی رجو لال ١٨٩٨ء
محاوراتِ اردو مجھو بیگ عاشق لکھنوی ١٨ء
گنجینۂ زبان اردو جلال لکھنوی ١٢٩٧ھ
سرمایۂ زبان اردو جلال لکھنوی ١٣٠٤ھ
امیر اللغات امیر لکھنوی (ناقص) ١٨٩١ء
مصطلحات اردو خواجہ محمد اشرف لکھنوی ١٨٩٠ء
لغات ہندی (قلمی موجودہ ندوہ) ١٢٢٣ھ
لغات فیروزی(طلبائے مدارس کے لیے) فیروز الدین ١٩٠٤ء
فرہنگ اردو(طلبائے مکاتب کے لیے) حمایت اسلام لاہور
دوپیکر (تذکیر و تانیث) ظہیر الدین خان ١٩٠٢ء
رسالہ تذکیر و تانیث مولوی شہید الدین صاحب بنارسی ١٩ء
تذکیر و تانیث حافظ جلیل حسن صاحب مانک پوری ١٣٢٦ھ
فرہنگ آصفیہ ہماری زبان کا سب سے بڑا لغت ہے لیکن وہ ایک انگریز (فیلن صاحب) کی تحریک کا نتیجہ اور حیدرآباد کی علمی قدر دانی کا پرتو ہے۔ امیر اللغات اس سے بہتر لکھی جانے والی تھی لیکن وہ نا قدردان رئیسوں کے ہاتھوں میں پھنسی ہے۔
اگر ترتیب جدید کا سوال چھوڑ دیجیے تو عربی و فارسی کے لغات بھی اردو میں موجود ہیں، کئی زبانوں کے مشترک ضخیم لغت بھی لکھے گئے ہیں، میڈیکل اور قانونی ڈکشنری بھی اردو میں موجود ہے۔ جدید علوم و فنون پر اردو میں اس کی بیچارگی اور کسمپرسی پر نظر رکھ کر کم کتابیں نہیں لکھی گئی ہیں، تقریباً ہر فن پر دو ایک کتابیں اردو میں موجود ہیں لیکن وہ گمنامی کے پردے میں چھپ کر رہ گئی ہیں۔ ہم نے ان میں سے کچھ کتابوں کی فہرست “اسلامی ہندوستان کے عہد آخر” میں دی تھی، بقیہ کتابیں جو غدر کے بعد لکھی گئی ہیں ان کی فہرست بھی زیر نظر و تلاش ہے۔
اس تمام یاوہ گوئی اور دراز نفسی سے مقصود یہ ہے کہ اردو زبان کی حقیقی ترقی اس وقت تک ناممکن ہے جب تک حکومت اپنے نظام تعلیمی میں تغیر نہ کرے یا ہم اپنی مادری زبان کی پرستش کی وہ مثال نہ پیش کریں جو سرزمین بنگالہ کے جادوگر اور مہاراشٹر کے سورما اپنی اپنی زبانوں کے متعلق پیش کر رہے ہیں۔ اگر یہ دونوں صورتیں ممکن نہیں تو پروفیسر براؤن کے اس حکم کی ہم کیوں کر تعمیل کر سکتے ہیں کہ اردو فارسی اور عربی کی لاکھوں جلدی “لغات المبتدی” کی حیثیت سے مرتب کی جائیں اور اس کثرت سے شائع کی جائیں کہ بچہ بچہ کے ہاتھوں میں ہوں۔
(معارف ستمبر ١٩١٧ء)
انجمن اردوئے معلّی کے چند سوالوں کے جواب
“دسمبر ۱۹۲۵ء میں علی گڑھ یونیورسٹی کی جوبلی منائی گئی تھی، اس تقریب سے ہمارے دوست پروفیسر رشید احمد صاحب صدیقی نے اردو سے دلچسپی رکھنے والے چند صاحبوں کے پاس اردو کی ترقی کے متعلق کچھ سوال لکھ کر بھیجے تھے اور ان کا جواب مانگا تھا۔ میں نے ان کا جو جواب لکھا وہ موصوف نے جنوری ۱۹۲۶ء کے سہیل میں چھاپا تھا۔ اس وقت اس جواب میں جو تجویزیں پیش کی گئی تھیں وہ اس وقت انوکھی معلوم ہوتی تھیں مگر اب چودہ برس کے بعد دیکھیے کہ ان میں سے کتنی تجویزوں پر زمانہ نے عمل کرادیا اور اب کتنی باقی ہیں۔
یہ جوابی مضمون شروع کی تمہیدی سطروں اور آخر کے غیر اہم سوالوں کو چھوڑ کر درج ذیل ہے۔ سوالات یہ تھے:
١۔ اردو میں ہندوستان کی مقبول اور مشترک زبان بننے کی کہاں تک صلاحیت ہے اور یہ مقصد کس طور پر حاصل ہو سکتا ہے۔
٢۔ اردو کو دنیا کی سنجیدہ اور علمی زبانوں کی سطح پر لانے کے لیے آپ کیا تجویز پیش کرتے ہیں۔
٣۔ ہندو مسلم تعلقات کو خوشگوار یا ناخوشگوار رکھنے یا بنانے میں اردو کا کہاں کا تک دخل ہے۔ کیا آپ کوئی ایسی تجویز پیش کریں گے جو اس کشاکش کا بطریق احسن ازالہ یا انسداد کر سکے۔
٤۔ کیا ایسی مرکزی انجمن یا اکاڈیمی کی ضرورت ہے اور اس کا قیام ممکن ہے جو عام طور سے اردو کے لیے مفید ہو اور س کی رہنمائی کر سکتی ہو۔ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو اس کو قائم اور کامیاب بنانے کے لیے آپ کی تفصیلی تجاویز کیا ہوں گی۔
عبارت میں کہیں کہیں لفظی اصلاحیں کی گئی ہیں۔
ہندوستان کا عموماً یہ حال رہا ہے کہ جس صوبہ میں جو راج بنا اور جہاں تک وہ پھیلا وہیں کی بولی اس ملک کی زبان بنی اور پورے راج میں پھیل گئی۔ جب اس صوبہ کی سلطنت مٹ کر دوسرے صوبہ کی سلطنت قائم ہوتی تو پھر اس دوسرے صوبہ کی زبان کو عمومی حیثیت حاصل ہو جاتی تھی۔ اس طرح ہندوستان میں جس طرح صوبوں کی سلطنت کا نشیب و فراز بدلتا رہا اسی طرح زبانوں کا بھی اتار چڑھاؤ ہوا کیا۔ اس طرح ہندوستان کے مختلف زمانوں میں مختلف زبانوں کو ہندوستان کی عام زبان بننے کا فخر حاصل ہوا۔ مسلمان آئے تو یہ درجہ فارسی کو حاصل ہوا۔ اسی کے ساتھ پنجاب، دلی، اودھ، بہار اور ڈھاکہ و مرشدآباد وغیرہ میں جہاں تک ان کی ادبی سلطنت پھیلی ، وہاں کے نئے اور پرانے باشندے مل کر عام بول چال، خرید و فروخت، وعظ و نصیحت، سمجھانے بجھانے کے لیے ایک ملغوبہ زبان اختیار کرنے پر مجبور ہوئے جس کا ابتدائی نام ہندی تھا، بعد کو اردو پڑا۔ مسلمانوں کے بعد انگریزوں کی سلطنت آئی تو ان کو بھی پورے ملک کے لیے ایک مشترک زبان کی ضرورت محسوس ہوئی اور انھوں نے ہندوستانی کے نام سے اس کو اور فروغ دیا۔
(الف) الغرض اوپر کی سطروں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہندوستان کا ملک ہمیشہ ایک مشترک اور عام زبان کا محتاج رہا ہے اور اس کی وہ زبان سیاسی انقلابوں کے ساتھ بدلتی رہی ہے۔
(ب) ہندوستان کی حیثیت ایسی مختلف قوموں کے وطن کی ہے جن میں سے ہر ایک کی زبان دوسری سے مختلف ہے، اس لیے ایسے ملک کی کوئی دائمی ، مستقل اور مشترک زبان اگر بن سکتی ہے تو وہی جو ہندوستان کی مختلف بولیوں کا مجموعہ اور سب قوموں کے باہمی میل جول کا نتیجہ ہو۔
(ج) تصنیفات کی کثرت، مطبعوں کے رواج، اخبارات کی اشاعت، ریلوں کی وسعت اور سفر کی آسانیوں نے پہلے سے بہت زیادہ اس ملک میں ایک مشترک زبان کی ضرورت ظاہر کردی ہے۔
(د) چونکہ مختلف قوموں کا باہمی میل جول ہی اس زبان کی پیدائش کا سبب ہے، اس لیے خود بخود جہاں تک ریلوں کی لائینیں بچھتی جاتی ہیں، یہ مشترک زبان کسی نہ کسی بھیس میں موجود ہے۔
اس وقت ہندی نام کوئی بول چال کی زبان کسی صوبہ کی نہیں ہے۔ موجودہ اردو اور ہندی میں جو فرق ہے وہ افعال اور حروف کا نہیں ہے، بلکہ صرف اسما کا ہے اور یہ اسما ہر قوم اور صوبہ کے حسب حال کچھ نہ کچھ بدلتے رہیں گے، مگر بہر حال وہ اردو ہی رہے گی اور وہی ہندوستان کی مشترک زبان بن سکتی ہے۔ ثبوت کے لیے نظری اور منطقی دلیلوں کی ضرورت نہیں ، بلکہ خود عملی واقعہ اس کی دلیل ہے۔ پیشاور سے لے کر تم بمبئی تک سفر کرو، پھر کراچی سے لے کر ہمالیہ تک آؤ، ہر اسٹیشن پر ہر قلی، ہر خوانچہ فروش سے، ہر دکاندار سے، ہر ساتھی سے، ہر گاڑی والے سے اگر تم اس صوبہ کی خاص زبان نہیں جانتے تو یہی ہندوستانی زبان تمہاری رفیق ہے اور وہی ہر جگہ تمہاری زبان سے نکلتی ہے اور نکلے گی۔ اس لیے معمولی کاروبار اور بول چال کی حیثیت سے تو وہ اس وقت بھی ہندوستان کی مشترک زبان ہے، جو کچھ بحث ہے وہ یہ ہے کہ اس کو ہندوستان کی ساری قومیں اپنی علمی اور تعلیمی مشترک زبان مان لیں۔
اس وقت اردو کی حالت یہ ہے کہ جہاں تک عام اور مشترک ضرورت کا لگاؤ ہے، وہ ہندوستان کی مختلف بولیوں والی قوموں کے درمیان جان پہچان اور بول چال کا رشتہ بنی ہوئی ہے۔ ہندوستان کی تمام بڑی بڑی قومیں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی اگر وہ انگریزی نہ جانتی ہوں تو یہی سب کے کام آتی ہے۔ مختلف صوبوں کے مختلف بولیوں کے بولنے والے سفر میں جب اکٹھے ہوتے ہیں تو یہی زبان ان کے درمیان کی کڑی ہوتی ہے۔ ہندوستان کے مسلمان جس صوبہ میں رہتے ہیں گو ان کی مادری زبان ان کے صوبہ کی وہی بولی ہے پھر بھی ان کی دوسری عمومی زبان یہی اردو ہے اور وہی ان کے جلسوں اور مجمعوں کی زبان ہے۔ اس لیے مسلمانوں کی آبادی کا جہاں تک تعلق ہے، وہ ہندوستان کی عام زبان ہے، جن مقامات میں وہ نہیں بولی جاتی وہاں وہ سمجھی ضرور جاتی ہے۔ مدراس، بمبئی اور بنگال سے جہاں کی وہ مادری زبان نہیں، اردو اخبار اور رسالے برابر نکل رہے ہیں، ہندوستان سے باہر ان تمام مقامات میں وہ پائی جاتی ہے جہاں کسی ہندوستانی کا قدم پہونچا ہے، ہندوستان سے نکلا ہوا کوئی جہاز جس جس بندرگاہ سے عام طور پر گذرا کرتا ہے ہر جگہ اردو کا قدم مضبوط کرگیا ہے۔ جہاں جہاں ہندوستانی نوآبادی قائم ہے یہ زبان ان کے دم کے ساتھ ہے، افریقہ کے مختلف حصوں اور عرب کے مختلف بندرگاہوں میں وہ بولی جاتی ہے، یہاں تک کہ سویز تک اس کی نہر جاری ہے۔ سنگاپور، مالدیپ، رنگون، جاوا، چین، افغانستان تک اس کا تھوڑا تھوڑا نشان ملتا ہے۔ ان واقعات سے یہ ثابت ہوگا کہ گوزبان سے کتنا ہی انکار کیاجائے، مگر یہ ماننا پڑے گا کہ وہی ہندوستان کی مشترک اور عام زبان کی حیثیت رکھتی ہے اور یہی ایک زبان ہے جو آئندہ ہندوستان کی علمی اور تعلیمی زبان آسانی سے بنائی جا سکتی ہے۔ اس وقت کوئی ایسا عقل مند ہندوستان میں نہیں جو اس ملک کے لیے ایک عام اور مشترک زبان کی ضرورت سے انکار کرے۔ اگر ہندوستان کو ایک قوم بننا ہے تو مقامی زبانوں کے سوا ایک نہ ایک عام زبان اس کو بنانی پڑے گی، اور جب یہ زبان اس حد تک پھیل چکی ہے اور مانی جا چکی ہے تو اس کے سوا کسی اور دیہاتی زبان کو اسی حد تک پھیلانے اور بڑھانے میں کوئی دوسری قوم کیوں اپنا وقت، اپنا روپیہ اور اپنی محنت صرف کررہی ہے۔ حالانکہ تجربہ ہے کہ جس چیز کو وہ پھیلا رہی ہے وہ اسی زبان کی ایک کم ترقی پائی ہوئی شکل ہے۔
شہروں اور دیہاتوں کی زبانیں بے شبہ مختلف ہیں لیکن یہ اختلاف ادنیٰ اور اعلیٰ کا ہے۔ جہاں تک شہروں کا تعلق ہے، اردو ہی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے اور اسی کے فعل و حرف اور اسم بولے جاتے ہیں۔ دیہاتوں کا جہاں تک لگاؤ ہے وہاں ان صوبوں میں بھی جہاں کی علمی و ادبی بلکہ مادری زبان اردو ہے، مختلف فعلوں اور اسموں کی کم درجہ اردو بولی جاتی ہے اور وہ ہر جگہ کی علیٰحدہ ہے۔ اودھ کی کی دیہاتی زبان، گورکھپور کمشنری کی زبان، آرہ کی دیہاتی زبان، چمپارن کی دیہاتی زبان، سارن کی دیہاتی زبان، خاص بہار کی دیہاتی زبان، اسی طرح اطرافِ دلّی کی زیہاتی زبان، اطراف سہارنپور کی دیہاتی زبان، علی گڑھ کی دیہاتی زبان ایک دوسرے سے بالکل علیٰحدہ ہے۔ حالانکہ ان تمام مقاموں کی علمی، تعلیمی، مجلسی بلکہ مادری زبان صرف اردو ہے۔ تو اگر ان ہی دیہاتی زبانوں کو ہندی کہہ کر ملک کی عام زبان بنانے کی کوشش ہے تو سوال ہوگا کہ کس مقام کی دیہاتی زبان اس کام کے لیے چنی جائے گی۔ ہندوستان کے باہر بھی دنیا کے ہر ملک میں ایسی دیہاتی زبانیں موجود ہیں مگر وہ ملک کی عام علمی، تعلیمی، ادبی اور مجلسی زبان نہیں قرار پاتیں۔
الغرض اردو کے عام اور مشترک زبان بنائے جانے پر دلیلیں یہ ہیں:
1۔ ہندوستان جیسے مختلف ذاتوں، قوموں اور بولیوں کے ملک میں اردو ہی جیسی ملی جلی بولی، عام اور مشترک زبان بن سکتی ہے۔
2۔ یہ زبان ہندوؤں اور مسلمانوں کے میل جول سے بنی اور ان کی دوستی و محبت کی دائمی یادگار ہے، اس یادگار کو مٹانا سیاسی حیثیت سے حد درجہ خطرناک ہے۔
3۔ اس کو پشاور سے لے کر بنگال کی سرحد، سی پی کے قلب اور دکن کے گوشوں تک سب ہندو مسلمان بولتے ہیں، اس لیے آسانی سے وہ پورے ملک کی مادری نہیں تو کم سے کم علمی اور تعلیمی زبان بن سکتی ہے۔
٤۔ سات کروڑ مسلمانوں کا جہاں تک تعلق ہے، وہ اس وقت بھی ہر صوبہ میں ان کی عام اور مشترک زبان ہے، ہر صوبہ میں ان کے اخبارات، پریس، کتابیں اور رسالے اسی زبان میں ہیں اور وہی ان کی تعلیم اور تقریر کی زبان ہے۔
٥۔ جن صوبوں کی یہ مادری زبان نہیں وہاں بھی وہ عموماً بولی اور سمجھی جاتی ہے، اس لیے اس کو وہاں اور ترقی دینا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔
٦۔ ایک زبان جس نے ملک میں عام اور مشترک حیثیت یہاں تک حاصل کر لی ہو، اس کو اب مٹاکر دوسری زبان کو رواج دینے کی کوشش اگلے بزرگوں کی صدیوں کی محنت پر پانی پھیرنا ہے۔
٧۔ جہاں تک بیرون ہند کا تعلق ہے، یہی زبان ہندوستان کی عام زبان سمجھی جاتی ہے، اس لیے اس کو مٹا دینے یا بدل دینے کی کوشش دنیا کو پھر نئے سرے سے ایک نئی زبان سے آشنا کرنے کے لیے محنت کرنا ہے۔
٨۔ یہ ایک ایسی زبان ہے جو نہ صرف ہندوستان بلکہ آس پاس کے دوسرے ایشیائی اور مشرقی ملکوں کی زبانوں سے بھی متعلق ہے۔ افغانستان، ایران، ترکستان، عرب، عراق، شام، مصر وغیرہ ملکوں کے لوگ نہایت آسانی سے اس کو سیکھ سکتے ہیں اور سیکھتے ہیں۔ اس لیے اگر یہ ہندوستان کی عام اور مشترک زبان مان لی جائے تو اس کا نہایت امکان ہے کہ آئندہ وہ تمام ایشیا بلکہ سارے مشرق میں وہ سمجھوتے کی زبان بن جائے اور یہ امر ہندوستان کی دائمی اور نہ مٹنے والی عزت کا سبب ہوگا۔
اب سوال کے دوسرے ٹکڑے کا جواب دینا ہے کہ اس کو مشترک اور عام زبان بنانے کا کیا طریقہ ہے؟ اور یہ مقصد کس طور سے حاصل ہوسکتا ہے؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اردو ہماری کوششوں کے بغیر یہاں تک پہونچی ہے، یعنی کسی نے کوئی خاص کوشش اس کے لیے نہیں کی ہے، تاہم وہ پھیل رہی ہے اور پھیلتی جاتی ہے اور یہ اس لیے کہ وہ فطرت کی طلب اور تقاضے کے مطابق ہے۔ ملک کو ایک عام اور مشترک زبان کی ضرورت ہے اور وہ اس ضرورت کی پیاس کو بجھاتی ہے۔ اب اس خودرو ترقی کے علاوہ حسب ذیل دوسرے ذریعوں کو بھی اس کے لیے اختیار کیا جائے تو مناسب ہے:
١۔ اردو کے ہمدردوں اور ہندی کے حامیوں کا مشورہ کا ایک مشترک جلسہ ہو، اس میں اردو اور ہندی کی بحثوں کے متعلق ہمدردی اور نیک نیتی کے ساتھ گفتگو اور سمجھوتہ ہو اور معلوم کیا جائے کہ وہ ہندی سے کیا مراد لیتے ہیں؟ اور ہم اردو کو کیا سمجھتے ہیں؟ کیونکر دونوں قومیں ایک زبان کے پلیٹ فارم پر جمع ہو سکتی ہیں اور دونوں کے پاس اپنے اپنے دعوے کی کیا دلیلیں ہیں؟
٢۔ مختلف صوبوں کے اسکولوں، کالجوں اور مدرسوں میں اردو ریڈنگ روم اور اردو کلب قائم کیے جائیں جن میں داخلہ کی شرط یہ ہو کہ ان کو اردو بولنی پڑے گی۔
٣۔ چند جوان ہمت اصحاب ایسے کھڑے ہوں جو کسی مرکزی انجمن کی طرف سے ہندوستان کے ان صوبوں کا دورہ کریں جہاں اردو بولی نہیں جاتی، وہاں جا کر اردو کی ضرورت لوگوں کو سمجھائیں، وہاں کے مدرسوں میں اس کی تعلیم کی طرف توجہ دلائیں اور اردو قرات خانے اور کلب قائم کریں اور اردو رسالوں، اخباروں اور کتابوں کا شوق دلائیں۔
٤۔ سیاسی، مذہبی، اخلاقی اور ادبی کتابیں اور قصہ کہانی کے چھوٹے چھوٹے رسالے لکھواکر چھپوائیں اور ان کو نصاب میں داخل کرائیں اور لوگوں کو مطالعہ کے لیے پیش کریں۔ ان کتابوں اور رسالوں کی تصنیف میں ان باتوں کا خیال رکھا جائے:
(الف) زبان صاف، شستہ اور سادہ ہو، جس میں موٹے موٹے عربی اور سنسکرت لفظوں سے پرہیز کیا جائے، جہاں تک ممکن ہو فارسی اور عربی ترکیبوں اور فارسی اضافت اور صفت موصوف اور عطف سے بچا جائے، اور عربی و فارسی جمعوں کی جگہ اردو قاعدہ کے مطابق جمع بولیں، مثلاً تجاویز کے بدلے تجویزیں، تدابیر کی جگہ تدبیریں، کتب کے بجائے کتابیں وغیرہ۔ اسی طرح سنسکرت کے حرف عطف وغیرہ سے بھی پرہیز کیا جائے۔
(ب) فارسی، عربی اور سنسکرت کے بہت سے الفاظ کٹ چھٹ کر اور خراد پر چڑھ کر اردو لفظ بن گئے ہیں، لوگ کوشش کر رہے ہیں کہ ان کو غلط ٹھہرا کر صحیح طور پر عربی، فارسی، سنسکرت لفظ بولے جائیں، اس کی سختی سے مخالفت کی جائے۔
(ج) اردو گرامر اور اردو سکھانے والی بول چال کی کتابیں بنگالی، تامل، تلنگو، ملیالم، سندھی، گجراتی اور مرہٹی میں ان میں سے ہر زبان کے بولنے والوں کے لیے الگ الگ لکھی جائیں اور ہر ایک میں اردو ڈکشنری بنائی جائے۔
(د) ایک دو ایسے اخبار اور رسالے خاص اسی ضرورت سے آسان، سہل اور بالکل سادہ زبان میں نکالے جائیں جو مبتدیوں کے کام آئیں اور وہ ان کو پڑھیں۔
(ہ) کوشش کی جائے اور نمونے پیش کیے جائیں کہ آئندہ ہماری تحریروں کے عام فہم نمونے یہ ہوں۔
(و) اردو کی اس خوبی نے کہ اس میں ہر زبان کے لفظ آسانی سے چلن میں آسکتے ہیں، اس بات کا موقع دے دیا ہے کہ لوگ اس کی اس خوبی کو عیب بنا دیں یعنی گویا ہر فریق کو یہ عام اجازت دے دی گئی ہے کہ جس قدر لفظ فارسی یا عربی یا سنسکرت یا انگریزی کے وہ بڑھاتے جائیں وہ اردو ہی باقی رہے گی۔ اس طرح اردو کی مٹی پلید ہو رہی ہے، اس کی روک تھام ضروری ہے۔
(ز) اس کے لیے ہمارے خیال میں یہ کیا جائے کہ چند مسلمان اور ہندو اہل قلم مل کر اردو کا ایک ایسا لغت لکھیں جس میں اردو کے قابل تمام کھرے لفظ چن لیں اور ان ہی کو دوسرے لفظوں کے پرکھنے کا معیار بنائیں۔
(ح) اردو ہی کے چھپے ہوئے منی آرڈر، فارم اور کچہری کے کاغذات اور دوسرے سرکاری کاغذات استعمال کیے جائیں اور اردو ہی میں خطوں پر پتے لکھے جائیں، سڑکوں پر بورڈ لگائے جائیں، اسٹیشنوں پر نام لکھے جائیں۔
(ط) ایسے معنوں کے لیے جن کے لیے پہلے سے خالص اردو لفظ مل سکتا ہے، غیر زبان کا لفظ استعمال نہ کیا جائے، نیز یہ کہ اگر کسی غیر زبان کا کوئی لفظ اردو میں چل گیا ہے تو اس کو چھوڑ کر دوسرا نیا لفظ نہ بولا جائے۔ مثلاً کوئلہ کی مجلس کی جگہ مجلس زغال، ڈاک خانہ کی جگہ پوسٹ آفس یا بوسطہ، اسٹیشن کی جگہ محطّہ، پروگرام کی جگہ بروغرام وغیرہ۔
اردو کو سنجیدہ علمی زبانوں کی سطح پر لانے کی تجویزیں یہ ہیں:
(الف) اردو کی چھوٹی بڑی لغت لکھی جائیں۔
(ب) اردو میں انسائیکلوپیڈیا، بک آف نالج اور جیوگریفیکل اور ہسٹاریکل ڈکشنری کے طریقے پر عام معلومات کو بڑھانے والی کتابیں لکھی جائیں۔
(د) نئی علمی اصطلاحوں کے بنانے کے لیے اب کسی نئی کوشش کے بجائے ہندو مسلمان اہل علم کی ایک ایسی انجمن بنائی جائے جو اردو کی موزونی کے لحاظ سے ان اصطلاحوں پر نظر ثانی کرے جو دار الترجمہ حیدرآباد دکن یا ہندی سبھا بنارس و الہ آباد نے بنائی ہیں اور ان دونوں میں سے ان اصطلاحوں کو چن لے جو ہندوستان کی عام تعلیمی زبان کے مناسب ہو اور ان ہی کو رواج دیا جائے۔
(ہ) غیر زبانوں کی اہم کتابوں کے ترجمے کیے جائیں۔
(و) مختلف مضمونوں پر خود اردو میں کتابیں لکھوائی جائیں۔
(ز) ایسے سرمایہ والے اشاعت گھر ہوں جن کے پاس اچھا مشورہ دینے والا اسٹاف ہو اور وہ اردو مصنفوں سے حق تصنیف خریدنے اور اس کے صحیح چھاپنے کا کام کریں یا جو کسی سلسلہ تصنیف کو کسی خاص علم اور فن کے متعلق ترتیب دلائیں۔
(ح) ایسے اشاعت گھر ہوں جو پچھلی چھپی ہوئی نہ ملنے والی کتابوں کو برابر چھاپ چھاپ کر بازاروں میں لائیں۔ آج اردو میں بیس پچیس برس پہلے جو اچھی کتابیں لکھی گئی تھیں وہ مشکل سے ملتی ہیں۔
(ط) سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ کوشش کی جائے کہ ملک کی عام مجلسوں، مثلاً اسلامی تعلیمی کانفرنس، کانگریس، لیگ اور تمام سرکاری کونسلوں اور عدالتوں کی زبانیں اردو ہوں۔
(ی) اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ کوشش کی جائے کہ وہی تمام ملک میں تعلیم کی زبان قرار دی جائے۔ کم از کم قومی یونیورسٹیوں میں وہی تعلیم کی زبان ہو جائے، جامعہ عثمانیہ نے اس راہ کو بہت کچھ آسان کردیا ہے۔
(ک) یونیورسٹیوں کے اعلیٰ مطالعہ و امتحان میں اردو کو بھی جگہ دی جائے اور بحیثیت ایک مستقل زبان کے اس کے لیے بھی سند رکھی جائے۔
تیسرے سوال کا طریقۂ سوال صحیح نہیں ہے۔ اس سوال کے لفظوں سے یہ نکلتا ہے کہ اردو کی بنا پر ہندو اور مسلمانوں کے تعلقات میں خوشگواری یا نا خوشگواری پیدا ہوئی۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ ان کے تعلقات کی نا خوشگواری کی بنا پر زبان کا مسئلہ معرض بحث میں آیا اور ہندوؤں نے غلط فہمی سے اردو کو اکیلے مسلمانوں کی قومی زبان قررا دے دیا، اس لیے ہندی اور اردو میں کشاکش ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم اس سے مایوس نہیں ہیں کہ ہندی کے ہمدردوں سے اردو کے ساتھ کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا، اسی کی کوشش کرنی چاہیے۔ بحث لفظی ہے، کیونکہ روز مرہ کی بات چیت کے لحاظ سے اردو اور ہندی میں کوئی بڑا فرق نظر نہیں آتا۔ آج سے چند سال پہلے کے ہندی اور اردو پریس سے جو تحریریں نکلتی تھیں، ان میں بھی کوئی نمایاں فرق نہیں تھا۔ اب جیسے جیسے بعض مسلمان اہل قلم ایک نئی اردو عربی و فارسی کی بے جا آمیزش سے بنا رہے ہیں، ہندو بھی سنسکرت سے ملا کر ایک نئی زبان بنانا چاہتے ہیں۔
ان دونوں قوموں کے تعلقات کی ناخوشگواری کے بعد ہندی تحریروں میں بالقصد سنسکرت کے ثقیل الفاظ استعمال کیے جانے لگے ہیں اور ہندوؤں کی عام تقریروں میں سنسکرت کے اسی قسم کے الفاظ زیادہ سنے جاتے ہیں۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ زبان کے مسئلہ میں یہ کشاکش موجودہ ناخوشگوار فضا کا نتیجہ ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ جب یہ حالات سدھر جائیں گے تو ہندوؤں میں سنسکرت الفاظ کے استعمال میں وہ غلو باقی نہ رہے گا جو اس وقت ہے۔ اس لیے زبان کی حیثیت سے اردو اور ہندی میں کوئی نمایاں اور بہت زیادہ واضح امتیاز آئندہ قائم نہ رہے گا۔
ابھی مرکزیت کے سوال سے گریز کیجیے، اس کا فیصلہ طبائع اور رجحان پر موقوف ہے۔ جس اکاڈیمی یا بزم علمی کے خدمات زبان اردو کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوں گے وہ خود بخود اپنی مرکزیت حاصل کر لے گی۔ ہاں آپ مرکزیت کے تصور سے خالی الذہن ہو کر (ورنہ آپس میں منازعات کے چھڑ جانے کا امکان ہے) ایک ایسی علمی انجمن بنا سکتے ہیں جو جوابات مندرجہ سوالات نمبر 1 و نمبر 2 کو بہتر سے بہتر طریقہ سے عملی جامہ پہنا سکے۔ اس انجمن کے کام یہ ہوں:
(الف ) ہندوستان کے اعلیٰ پایہ مصنفوں کی خدمات حاصل کرکے ان کی تصنیفات کو شائع کرنا۔
(ب) مختلف کالجوں اور اسکولوں کے طالب علموں کے ذوق سلیم کا اندازہ لگا کر ان میں سے کچھ کو تصنیف و تالیف، ماہوار رسالوں اور اخباروں کی اڈیٹری کا کام کرنے اور دوسری ادبی خدمتوں کے لیے چننا، اس کے لیے ان سے معاہدہ لکھا کر ان کو وظیفہ دینا۔
(ج) جن صوبوں میں اردو مروج نہیں، وہاں اس کو رواج دینے کے لیے ایسے اشخاص پیدا کرنا جو تکلیفیں اٹھا کر وہاں جائیں اور تحریروں، تقریروں اور عام گفتگوؤں کے ذریعہ سے لوگوں کو ایک عام مشترک زبان کی ضرورت جتائیں۔ ان کو اردو سکھائیں، وہاں سے ایسے اشخاص ان صوبوں میں لائیں جو یہاں اردو سیکھیں اور اپنے ہاں جا کر اس کو پھیلائیں، اردو سکھانے کے رات کے مدرسے اور گشتی کتب خانے اور قرات خانے جگہ جگہ قائم کریں جن میں ہفتہ یا مہینہ میں ایک دفعہ عام فہم اردو میں تقریریں کی جائیں یا تحریریں پڑھی جائیں۔
(سہیل علی گڑھ، جنوری 1926ء)