جھونکا نسیمِ صبح کا بن کر گزر گئی
وہ نو بہارِ ناز ادھر سے ادھر گئی
اک پل میں کنجِ صحنِ چمن جگمگا گیا
اک برق تھی کہ صحنِ چمن سے گزر گئی
نرگس نے اس کی راہ میں سجدے بچھا دیے
حیراں نگاہ ساتھ گئی وہ جدھر گئی
گستاخ ڈالیاں ہوئیں جب اس کی شانہ گیر
ہر بلبل اس کا پھو ل سا منہ چوم کر گئی
اک شرمگیں ادا تھی کہ آنکھوں میں بس گئی
اک سرمگیں نگہ تھی کہ دل میں اتر گئی
اللہ رے اس کے حسن کی رعب آفرینیاں
ہر آرزوئے شوخ قریب آ کے ڈر گئی