بھائی!
تم سچ کہتے ہو کہ بہت مسودے اصلاح کے واسطے فراہم ہوئے ہیں مگر یہ نہ سمجھنا کہ تمھارے ہی قصائد پڑے ہیں۔ نواب صاحب کی غزلیں بھی اسی طرح دھری ہوئی ہیں۔ برسات کا حال تمھیں بھی معلوم ہے اور یہ بھی تم جانتے ہو کہ میرا مکان گھرکا نہیں ہے۔ کرائے کی حویلی میں رہتا ہوں۔ جولائی سے مینہ شروع ہوا۔ شہر میں سیکڑوں مکان گرے اور مینہ کی نئی صورت۔ دن رات میں دوچار بار برسے اور ہر بار اس زور سے کہ ندی نالے بہہ نکلیں۔ بالا خانے کا جو دالان میرے اٹھنے بیٹھنے سونے جاگنے جینے مرنے کا محل ہے اگرچہ گرا نہیں لیکن چھت چھلنی ہو گئی۔ کہیں لگن کہیں چلمچی کہیں اگالدان رکھ دیا۔ قلمدان کتابیں اٹھا کر توشے خانے کی کوٹھڑی میں رکھ دیے۔ مالک مرمت کی طرف متوجہ نہیں۔ کشتئ نوح میں تین مہینے رہنے کا اتفاق ہوا۔ اب نجات ہوئی ہے۔ نواب صاحب کی غزلیں اور تمھارے قصائد دیکھے جائیں گے۔
میر بادشاہ میرے پاس آئے تھے۔ تمھاری خیر و عافیت ان سے معلوم ہوئی تھی۔ میر قاسم علی صاحب مجھ سے نہیں ملے۔ پرسوں سے نواب مصطفے ٰ خاں صاحب یہاں آئے ہوئے ہیں۔ ایک ملاقات ان سے ہوئی ہے۔ ابھی یہیں رہیں گے۔ بیمار ہیں۔ احسن اللہ خاں معالج ہیں۔ فصد ہو چکی ہے۔ جونکیں لگ چکی ہیں۔ اب مسہل کی فکر ہے۔ سوا اس کے سب طرح کی خیر و عافیت ہے۔ میں ناتواں بہت ہو گیا ہوں گویا صاحبِ فراش ہوں۔ کوئی شخص نیا تکلف کی ملاقات کا آ جائے تو اٹھ بیٹھتا ہوں ورنہ پڑا رہتا ہوں۔ لیٹے لیٹے خط لکھتا ہوں۔ لیٹے لیٹے مسودات دیکھتا ہوں۔ اللہ اللہ ۔
غالبؔ