تصوف بڑا مہنگا سودا ہے۔ مجھے اس کی راہوں پر چلنے کا تجربہ تو نہیں ہوا مگر بعض صوفیانہ کتب کی قیمتیں دیکھی ہیں۔ اللہ کی پناہ!
کیفیات
راحیلؔ فاروق
فہرست
شاعر اور عام آدمی میں یہ فرق ہے کہ شاعر تخیل، احساس، زبان اور آہنگ وغیرہ کے اصولوں کو کام میں لا کر ایسی بات کہتا ہے جو عام آدمی کی بات سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔ اگر وہ ان سب مہارتوں کی مدد تو لے مگر اثر پیدا نہ کر سکے تو اسے شاعر نہیں کہنا چاہیے۔ اس کی مثال اس باورچی کی سی ہے جو انواع و اقسام کی سبزیوں، گوشت، مسالوں وغیرہ کو اپنے تئیں بڑی ترکیبوں سے تلتا، بھونتا، بگھارتا اور پکاتا ہے مگر جب پیش کرتا ہے تو کوئی کھانے پر تیار نہیں ہوتا۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 6 نومبر 2021ء
- ربط
مہنگی کتابیں نہ خرید سکنے کی وجہ سے لوگ برقی کتب (eBooks) کی طرف متوجہ ہوئے۔ ناشروں کو گھاٹا پڑا۔ ان سیانوں نے سوچ بچار کر کے قیمتیں اور بڑھا دیں۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 17 اکتوبر 2021ء
- ربط
اردو لکھنے والوں نے ہمارے عہد میں سب سے بڑا کام یہ کیا ہے کہ لکھے ہوئے کا اعتبار اٹھا دیا ہے۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 5 اکتوبر 2021ء
- ربط
بہت بار ہوتا ہے کہ ہم کوئی خوبی یا صفت اپنے اندر پیدا کرنا چاہتے ہیں مگر نہیں کر پاتے۔ اس کا ایک سادہ مگر دلچسپ حل میری سمجھ میں آیا ہے۔ یعنی یہ کہ ان لوگوں کا کھلے دل سے اعتراف کیا جائے جن میں وہ خوبی پائی جاتی ہے۔ انھیں تسلیم کیا جائے۔ ان سے محبت کی جائے۔ آپ کو شاید عجیب لگے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ ان لوگوں سے حسد کرتے ہیں جن کی طرح وہ بننا چاہتے ہیں۔ حسد اصل میں محسود کی شخصیت اور کمال کا انکار ہے۔ ہم انھیں نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔ ان سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں جن سے ہمیں سیکھنا چاہیے تھا۔ انھیں دیکھنا ہی نہیں چاہتے جو در حقیقت ہمیں اچھے لگتے ہیں۔
کوئی اچھائی اپنے اندر پیدا کرنے کی خواہش ہے تو اس کا راستہ اچھے لوگوں کی محبت اور صحبت ہے۔ اگر انھیں رد کریں گے تو اس اچھائی کو رد کر دیں گے جس کی تڑپ ہمارے دل میں انھیں دیکھ کر پیدا ہوئی تھی۔ اور یہ بڑی نادانی کی بات ہے۔ سمجھنا چاہیے کہ اگر کسی شخص میں کوئی خوبی پائی جاتی ہےتو وہ گویا اس خوبی کا چراغ ہے۔ اسی سے منہ پھیر لیا تو پھر ہمیں اندھیروں پر قناعت کرنی پڑے گی۔ روشنی کی آرزو آرزو ہی رہ جائے گی۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 29 ستمبر 2021ء
- ربط
مکھی ایک حقیر شے ہے۔ مر جائے تو اور بھی حقیر ہو جاتی ہے۔ لیکن ہماری اوقات یہ ہے کہ دنیا کے کل انسان مل کر ایک مردہ مکھی کی جانب اشارہ کریں اور کہیں کہ وہ نہیں ہے تو اس سے وہ فنا نہیں ہو جائے گی۔ جوں کی توں پڑی اربوں انسانوں کا مذاق اڑاتی رہے گی۔ ہمارا کلام، ہماری منطق، ہماری فصاحت و بلاغت، ہمارا اتفاق، ہمارا اجماع محض یہ ثابت کرے گا کہ ہم اندھے ہیں۔ یہ ایک مردہ مکھی جیسی حقیر سچائی کی طاقت ہے۔
لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ دلیل سے کسی شے کو حقیقت ثابت کر دیں تو وہ حقیقت ہو جاتی ہے۔ اپنے ساتھ اتفاق کرنے والوں کا ایک گروہ پیدا کر لیں تو اور بھی ٹھوس ہو جاتی ہے۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ حقیقت کے خالق نہیں ہیں۔ اسے پیدا نہیں کر سکتے۔ صرف تسلیم کر سکتے ہیں۔ انکار کریں گے تو ایک مردہ مکھی کی طاقت آٹھ ارب انسانوں سے زیادہ ہے۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 15 ستمبر 2021ء
- ربط
پڑھے لکھوں کو دیکھا کہ خود بھی دھوکے میں ہیں اور دوسروں کو بھی دھوکا دیتے ہیں۔ ان پڑھوں سے ان کا فرق یہ نہیں کہ غلط بات نہیں کرتے بلکہ یہ ہے کہ کریں تو اس کی وہ دلیل تراش لاتے ہیں جو ان پڑھوں کے تصور میں نہیں آ سکتی۔ پس ہماری تعلیم وہ نہیں جو کسی کے عیبوں کو دور کر کے اسے اچھا انسان بنا دیتی ہے بلکہ وہ ہے جو اسے اپنے عیبوں کا دفاع کرنا اور ان پر پردہ ڈالنا سکھاتی ہے تاکہ وہ ہر حال میں اچھا نظر آ سکے۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 21 اگست 2021ء
- ربط
روایت صرف روایت کی نہیں ہوتی، بغاوت کی بھی ہوتی ہے۔ روایت پرست باغی بھی ہو جائے تو بغاوت کی روایت سے آگے نہیں سوچ سکتا۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 14 اگست 2021ء
- ربط
برے کو اچھا کہنے سے وہ اچھا نہیں ہو جاتا بلکہ کہنے والا بھی برا ہو جاتا ہے۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 6 اگست 2021ء
- ربط
ایک بچہ گلی میں گالیاں بک رہا تھا۔ ہمارے ایک دوست نے نہایت شفقت سے سمجھایا کہ بیٹا، گالیاں نہیں دیتے۔ اس نے ایک گاڑھا قصیدہ ان کی شان میں بھی پڑھ دیا۔ اب جو اس مردِ خلیق نے مرصع، مسجع اور مقفیٰ پھکڑ باندھنے شروع کیے ہیں تو بچہ میدان چھوڑ کر بھاگ گیا۔ بلکہ ہم بھی بھاگ گئے۔ فائدہ البتہ یہ ہوا کہ اب وہ اشعار بھی وجد میں لے آتے ہیں جن میں ناصح یا واعظ کا ذکر ہو۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 28 جولائی 2021ء
- ربط
اس سلام سے جو سونے کے پانی سے لکھ کر اور خوشبوؤں میں لپیٹ کر بھیجا گیا اور نہ پہنچ سکا، وہ گالی اچھی ہے جو منہ پر دی گئی اور دل میں جا کر لگی۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 24 جولائی 2021ء
- ربط
راحیلؔ فاروق
پنجاب (پاکستان) سے تعلق رکھنے والے اردو ادیب۔
کیفیات
چھوٹی چھوٹی باتیں۔ جذبات، کیفیات، احساسات اور خیالات۔ سماجی واسطوں پر دیے جانے والے سٹیٹس (status) کی طرح!
آپ کے لیے
بہت بار ہوتا ہے کہ ہم کوئی خوبی یا صفت اپنے اندر پیدا کرنا چاہتے ہیں مگر نہیں کر پاتے۔ اس کا ایک سادہ مگر دلچسپ حل میری سمجھ میں آیا ہے۔ یعنی یہ کہ ان لوگوں کا کھلے دل سے اعتراف کیا جائے جن میں وہ خوبی پائی جاتی ہے۔ انھیں تسلیم کیا جائے۔ ان سے محبت کی جائے۔ آپ کو شاید عجیب لگے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ ان لوگوں سے حسد کرتے ہیں جن کی طرح وہ بننا چاہتے ہیں۔ حسد اصل میں محسود کی شخصیت اور کمال کا انکار ہے۔ ہم انھیں نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔ ان سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں جن سے ہمیں سیکھنا چاہیے تھا۔ انھیں دیکھنا ہی نہیں چاہتے جو در حقیقت ہمیں اچھے لگتے ہیں۔
کوئی اچھائی اپنے اندر پیدا کرنے کی خواہش ہے تو اس کا راستہ اچھے لوگوں کی محبت اور صحبت ہے۔ اگر انھیں رد کریں گے تو اس اچھائی کو رد کر دیں گے جس کی تڑپ ہمارے دل میں انھیں دیکھ کر پیدا ہوئی تھی۔ اور یہ بڑی نادانی کی بات ہے۔ سمجھنا چاہیے کہ اگر کسی شخص میں کوئی خوبی پائی جاتی ہےتو وہ گویا اس خوبی کا چراغ ہے۔ اسی سے منہ پھیر لیا تو پھر ہمیں اندھیروں پر قناعت کرنی پڑے گی۔ روشنی کی آرزو آرزو ہی رہ جائے گی۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 29 ستمبر 2021ء
- ربط
غالبؔ کی نازک خیالی کی معراج ہمارے نزدیک یہ شعر ہے:
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
کوئی سمجھے تو اسے سمجھانے کی فرصت نہ ملے!
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 20 دسمبر 2022ء
- ربط
ہم سب کی زندگی میں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ کچھ دے دیں تو ہم نہال ہو جاتے ہیں اور چھین لیں تو شکوہ نہیں کر پاتے۔ پھر کیسی حیرت کی بات ہے کہ خدا دیتا ہے تو ہم شکر نہیں کرتے اور لے لیتا ہے تو صبر نہیں کرتے۔ حالانکہ وہ ان لوگوں سے کہیں زیادہ دانا، مہربان اور زور آور ہے۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 18 اپریل 2022ء
- ربط
وَما سُعادُ غَداةَ البَينِ إِذ رَحَلوا
إِلّا أَغَنُّ غَضيضُ الطَرفِ مَكحولُ
جدائی کی صبح کو جب سعاد (محبوبہ) نے کوچ کیا تو اس کی آواز سریلی، نگاہ نیچی اور آنکھیں سرمگیں تھیں۔
هَيفاءُ مُقبِلَةً عَجزاءُ مُدبِرَةً
لا يُشتَكى قِصَرٌ مِنها وَلا طولُ
وہ سامنے آتے ہوئے پتلی کمر والی اور پلٹتے وقت بھرے ہوئے سرین والی ہے۔ نہ اس کے پست قد ہونے کی شکایت کی جا سکتی ہے نہ دراز ہونے کی۔
تَجلو عَوارِضَ ذي ظَلمٍ إِذا اِبتَسَمَت
كَأَنَّهُ مُنهَلٌ بِالراحِ مَعلولُ
جب وہ مسکراتی ہے تو اس کے آبدار دنداں ایسے ظاہر ہوتے ہیں گویا وہ اولاً شراب سے اور پھر پانی سے سیراب کیے گئے ہیں۔
قصیدۂ بانت سعاد
شاعر: حضرت کعب بن زہیرؓ
ترجمہ: سید کلیم اللہ حسینی
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 24 دسمبر 2021ء
- ربط
فارسی کا ایک شعر ہے:
ہر کسے را بہرِ کارے ساختند
میلِ او اندر دلش انداختند
یعنی قدرت نے ہر کسی کو کسی کام کے لیے پیدا کیا ہے اور اس کا میلان اس کے دل میں ڈال دیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عوام کی اکثریت علم کی جانب کچھ خاص میلان نہیں رکھتی۔ اس پر ہم انھیں جاہل سمجھتے ہیں اور مطعون کرتے ہیں۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ علم ہر کسی کے بس کا روگ ہی نہیں۔ قدرت آٹے میں نمک کے برابر کچھ طبائع پیدا کرتی ہے جنھیں علم سے مناسبت ہوتی ہے۔ ہر شخص کو خواہ مخواہ تعلیم دینا ایک ایسا ہی مضحکہ خیز امر ہے جیسا ہر کسی کو کھلاڑی بنانے کی کوشش کرنا۔ اگر کھلاڑی بننا پڑھنے لکھنے کی طرح لازم کر دیا جائے تو ممکن ہے کہ لوگوں کی صحتیں کچھ نہ کچھ بہتر ہو جائیں۔ کھیل کود ہے بھی بلاشبہ ایک اچھی چیز۔ مگر اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ ہم میں سے ہر شخص دراصل ایک چھپا ہوا کھلاڑی ہے جسے باہر لانا ریاست اور معاشرے کی ذمہ داری ہے۔
ہر زمانے کے کچھ اپنے خبط ہوتے ہیں۔ ہمارے زمانے کا خبط تعلیم ہے۔ حکومتیں لوگوں کو مختلف پیشوں کے لیے تیار کرتی ہیں اور اس دھوکے کو تعلیم کا نام دیتی ہیں۔ لوگ بھی مثلاً کاروبار کی سند لے کر خیال کرتے ہیں کہ انھوں نے علم حاصل کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے محض وہ ہنر سیکھا ہے جو اگلے وقتوں میں بنیے، سوداگر اور آڑھتی اپنی اولاد کو سکھایا کرتے تھے۔
ایک اور پرانی مثل ہے:
علم چیزے دگر ہست کہ گر حاصل شود خواندہ و ناخواندہ برابر است وگر حاصل نشود ہم خواندہ و ناخواندہ برابر۔
علم اور ہی چیز ہے کہ اگر حاصل ہو جائے تو پڑھا لکھا اور ان پڑھ برابر ہے اور اگر حاصل نہ ہو تو بھی پڑھا لکھا اور ان پڑھ برابر ہے!
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 14 جنوری 2022ء
- ربط