پڑھے لکھوں کو دیکھا کہ خود بھی دھوکے میں ہیں اور دوسروں کو بھی دھوکا دیتے ہیں۔ ان پڑھوں سے ان کا فرق یہ نہیں کہ غلط بات نہیں کرتے بلکہ یہ ہے کہ کریں تو اس کی وہ دلیل تراش لاتے ہیں جو ان پڑھوں کے تصور میں نہیں آ سکتی۔ پس ہماری تعلیم وہ نہیں جو کسی کے عیبوں کو دور کر کے اسے اچھا انسان بنا دیتی ہے بلکہ وہ ہے جو اسے اپنے عیبوں کا دفاع کرنا اور ان پر پردہ ڈالنا سکھاتی ہے تاکہ وہ ہر حال میں اچھا نظر آ سکے۔
کلمۃ اللہؑ کی نبوت کو پانچ صدیاں بیت چکی تھیں جب رحمت اللعالمینﷺ مبعوث ہوئے۔ اس لحاظ سے مسیحی ہم سے تقریباً ساڑھے پانچ سو سال پرانی امت ہیں۔ ان سے پہلے یہودی گزر چکے تھے۔ اب ہم گزر رہے ہیں۔ لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ جو کچھ اسلام کے نام پر کرتے ہیں وہ کوئی نیا اور انوکھا کام ہے۔ تاریخ شاہد ہے اور اللہ کا کلام شاہد ہے کہ یہ سب پہلے بھی عین اسی طرح ہو چکا ہے۔ ہم یورپ کے اس زمانۂ تاریک سے ٹھیک ساڑھے پانچ سو برس پیچھے ہیں جس کی مثالیں آج فرنگیوں کے بچے اپنی کتابوں میں پڑھتے ہیں اور اپنے باپ دادا کی عقل پر تعجب کرتے ہیں۔
اسْتِكْبَارًا فِی الْاَرْضِ وَ مَكْرَ السَّیِّئِؕ-وَ لَا یَحِیْقُ الْمَكْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖؕ-فَهَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَۚ-فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَبْدِیْلًا ﳛ وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَحْوِیْلًا (فاطر - ۴۳)
اپنی جان کو زمین میں اونچا کھینچنا اور بُرا داؤ۔ اور بُرا داؤ اپنے چلنے والے ہی پر پڑتا ہے۔ تو کاہے کے انتظار میں ہیں؟ مگر اسی کے جو اگلوں کا دستور ہوا۔ تو تم ہرگز اللہ کے دستور کو بدلتا نہ پاؤ گے۔ اور ہرگز اللہ کے قانون کو ٹلتا نہ پاؤ گے۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 3 دسمبر 2021ء
- ربط