فارسی کا ایک شعر ہے:
ہر کسے را بہرِ کارے ساختند
میلِ او اندر دلش انداختند
یعنی قدرت نے ہر کسی کو کسی کام کے لیے پیدا کیا ہے اور اس کا میلان اس کے دل میں ڈال دیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عوام کی اکثریت علم کی جانب کچھ خاص میلان نہیں رکھتی۔ اس پر ہم انھیں جاہل سمجھتے ہیں اور مطعون کرتے ہیں۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ علم ہر کسی کے بس کا روگ ہی نہیں۔ قدرت آٹے میں نمک کے برابر کچھ طبائع پیدا کرتی ہے جنھیں علم سے مناسبت ہوتی ہے۔ ہر شخص کو خواہ مخواہ تعلیم دینا ایک ایسا ہی مضحکہ خیز امر ہے جیسا ہر کسی کو کھلاڑی بنانے کی کوشش کرنا۔ اگر کھلاڑی بننا پڑھنے لکھنے کی طرح لازم کر دیا جائے تو ممکن ہے کہ لوگوں کی صحتیں کچھ نہ کچھ بہتر ہو جائیں۔ کھیل کود ہے بھی بلاشبہ ایک اچھی چیز۔ مگر اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ ہم میں سے ہر شخص دراصل ایک چھپا ہوا کھلاڑی ہے جسے باہر لانا ریاست اور معاشرے کی ذمہ داری ہے۔
ہر زمانے کے کچھ اپنے خبط ہوتے ہیں۔ ہمارے زمانے کا خبط تعلیم ہے۔ حکومتیں لوگوں کو مختلف پیشوں کے لیے تیار کرتی ہیں اور اس دھوکے کو تعلیم کا نام دیتی ہیں۔ لوگ بھی مثلاً کاروبار کی سند لے کر خیال کرتے ہیں کہ انھوں نے علم حاصل کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے محض وہ ہنر سیکھا ہے جو اگلے وقتوں میں بنیے، سوداگر اور آڑھتی اپنی اولاد کو سکھایا کرتے تھے۔
ایک اور پرانی مثل ہے:
علم چیزے دگر ہست کہ گر حاصل شود خواندہ و ناخواندہ برابر است وگر حاصل نشود ہم خواندہ و ناخواندہ برابر۔
علم اور ہی چیز ہے کہ اگر حاصل ہو جائے تو پڑھا لکھا اور ان پڑھ برابر ہے اور اگر حاصل نہ ہو تو بھی پڑھا لکھا اور ان پڑھ برابر ہے!